هٰذَا ۗ وَاِنَّ لِلطّٰغِيْنَ لَشَرَّ مَاٰبٍ ۙ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
یہ تو ہے متقیوں کا انجام اور سرکشوں کے لیے بدترین ٹھکانا ہے
English Sahih:
This [is so]. But indeed, for the transgressors is an evil place of return –
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
یہ تو ہے متقیوں کا انجام اور سرکشوں کے لیے بدترین ٹھکانا ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
ان کو تو یہ ہے اور بیشک سرکشوں کا برا ٹھکانا،
احمد علی Ahmed Ali
یہی بات ہے اور بے شک سرکشوں کے لیے برا ٹھکانا ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
یہ تو ہوئی جزا، (١) (یاد رکھو کہ) سرکشوں کے لئے (٢) بڑی بری جگہ ہے۔
٥٥۔١یعنی مذکورہ اہل خیر کا معاملہ ہوا۔ اس کے بعد اہل شر کا انجام بیان کیا جا رہا ہے۔
٥٥۔٢ طَاغِیْنَ جنہوں نے اللہ کے احکام سے سرکشی اور رسولوں کو جھٹلایا یَصْلُوْنَ کے معنی ہیں یَدْخُلُونَ داخل ہونگے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
یہ (نعمتیں تو فرمانبرداروں کے لئے ہیں) اور سرکشوں کے لئے برا ٹھکانا ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
یہ تو ہوئی جزا، (یاد رکھو کہ) سرکشوں کے لئے بڑی بری جگہ ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
یہ بات تو ہو چکی (کہ پرہیزگاروں کا انجام یہ ہے) اور سرکش کا انجام بہت برا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ ایک طرف ہے اور سرکشوں کے لئے بدترین بازگشت ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
یہ (تو مومنوں کے لئے ہے)، اور بے شک سرکشوں کے لئے بہت ہی برا ٹھکانا ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
اہل نار کے احوال۔
اوپر نیکوں کا حال بیان کیا تو یہاں بروں کا حال بیان فرما رہا ہے جو اللہ کی نہیں مانتے تھے، نبی کی نافرمانی کرتے تھے ان کے لوٹنے کی جگہ بہت بری ہے اور وہ جہنم ہے جس میں یہ لوگ داخل ہوں گے اور چاروں طرف سے انہیں آتش دوزخ گھیر لے گی۔ یہ نہایت ہی برا بچھونا ہے۔ حمیم اس پانی کو کہتے ہیں جس کی حرارت اور گرمی انتہا کو پہنچ چکی ہو۔ اور غساق کہتے ہیں اس ٹھنڈک کو جس کی سردی انتہا کو پہنچ چکی ہو۔ پس ایک طرف آگ کا گرم عذاب دوسری جانب ٹھنڈک سرد عذاب اور اسی طرح قسم قسم کے، جوڑ جوڑ کے عذاب، جو ایک دوسرے کی ضد ہوں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اگر ایک ڈول غساق کا دنیا میں بہایا جائے تو تمام اہل دنیا بدبو دار ہوجائیں۔ حضرت کعب احبار فرماتے ہیں غساق نامی جہنم میں ایک نہر ہے جس میں سانپ بچھو وغیرہ کا زہر جمع ہوتا ہے پھر وہ گرم ہو کر اونٹنے لگتا ہے اس میں جہنمیوں کو غوطے دیئے جائیں گے جس سے ان کا سارا گوشت پوست جھڑ جائے گا اور پنڈلیوں میں لٹک جائے گا۔ جسے وہ اس طرح گھسیٹتے پھریں گے جیسے کوئی شخص اپنا کپڑا گھسیٹ رہا ہو (ابن ابی حاتم) غرض سردی کا عذاب الگ ہوگا گرمی کا الگ ہوگا حمیم پینے کو زقوم کھانے کو کبھی آگ کے پہاڑوں پر چڑھایا جاتا ہے تو کبھی آگ کے گڑھوں میں دھکیلا جاتا ہے اللہ ہمیں بچائے۔ اب جہنمیوں کا جھگڑا ان کا تنازع اور ایک دوسرے کو برا کہنا بیان ہو رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے (دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا 38) 7 ۔ الاعراف ;38) ، ہر گروہ دوسرے پر بجائے سلام کے لعنت بھیجے گا۔ ایک دوسرے کو جھٹلائے گا اور ایک دوسرے پر الزام رکھے گا۔ ایک جماعت جو پہلے جہنم میں جا چکی ہے وہ دوسری جماعت کو داروغہ جہنم کے ساتھ آتی ہوئی دیکھ کر کہے گی کہ یہ گروہ جو تمہارے ساتھ ہے انہیں مرحبا نہ ہو اس لئے کہ یہ بھی جہنمی گروہ ہے۔ وہ آنے والے ان سے کہیں گے کہ تمہارے لئے مرحبا ہو تم ہی تو تھے کہ ہمیں ان برے کاموں کی طرف بلاتے رہے جن کا انجام یہ ہوا۔ پس بری منزل ہے۔ پھر کہیں گے کہ اے باری تعالیٰ جس نے ہمارے لئے اس کی تقدیم کی تو اسے دوگنا عذاب کر۔ جیسے فرمان ہے (قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ڛ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ 38) 7 ۔ الاعراف ;38) ، یعنی پچھلے پہلوں کے لئے کہیں گے کہ پروردگار انہوں نے ہمیں گمراہ کردیا تو انہیں آگ کا دگنا عذاب کر۔ اللہ فرمائے گا ہر ایک کے لئے دگنا ہی ہے لیکن تم نہیں جانتے۔ یعنی ہر ایک کے لئے ایسا عذاب ہے جس کی انتہا اسی کے لئے ہے۔ چونکہ کفار وہاں مومنوں کو نہ پائیں گے جنہیں اپنے خیال میں بہکا ہوا جانتے تھے تو اس میں ذکر کریں گے کہ اس کی وجہ کیا ہے ؟ ہمیں مسلمان جہنم میں نظر نہیں آتے ؟ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ابو جہل کہے گا کہ بلال عمار صھیب وغیرہ وغیرہ کہاں ہیں ؟ وہ تو نظر ہی نہیں آتے غرض ہر کافر یہی کہے گا کہ وہ لوگ جنہیں دنیا میں ہم شریر گنتے تھے وہ آج یہاں نظر نہیں آتے۔ کیا ہماری ہی غلطی تھی کہ ہم انہیں دنیا میں مذاق میں اڑاتے تھے ؟ لیکن نہیں ایسا تو نہ تھا وہ ہوں گے تو جہنم میں ہی لیکن کہیں ادھر ادھر ہوں گے ہماری نگاہ میں نہیں پڑتے۔ اسی وقت جنتیوں کی طرف سے ندا آئے گی کہ اے دوزخیو ! ادھر دیکھو ہم نے تو اپنے رب کے وعدے کو حق پایا تم اپنی کہو کیا اللہ کے وعدے کے سچے نکلے ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں بالکل سچ نکلے اسی وقت ایک منادی ندا کرے گا کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔ اسی کا بیان آیات قرآنیہ ( وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ۭقَالُوْا نَعَمْ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَيْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الظّٰلِمِيْنَ 44ۙ ) 7 ۔ الاعراف ;44) ہے۔ پھر فرماتا ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو خبر میں تمہیں دے رہا ہوں کہ جہنمی اسی طرح لڑیں جھگڑیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر لعن طعن کریں گے یہ بالکل سچی واقع اور ٹھیک خبر ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔