الزمر آية ۳۲
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللّٰهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَاۤءَهٗ ۗ اَ لَيْسَ فِىْ جَهَنَّمَ مَثْـوًى لِّـلْـكٰفِرِيْنَ
طاہر القادری:
سو اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور سچ کو جھٹلائے جبکہ وہ اس کے پاس آچکا ہو، کیا کافروں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے،
English Sahih:
So who is more unjust than one who lies about Allah and denies the truth when it has come to him? Is there not in Hell a residence for the disbelievers?
1 Abul A'ala Maududi
پھر اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچائی اس کے سامنے آئی تو اُسے جھٹلا دیا کیا ایسے کافروں کے لیے جہنم میں کوئی ٹھکانا نہیں ہے؟
2 Ahmed Raza Khan
تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور حق کو جھٹلائے جب اس کے پاس آئے، کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانہ نہیں،
3 Ahmed Ali
پھر اس سے کون زیادہ ظالم ہے جس نے الله پرجھوٹ بولا اور سچی بات کو جھٹلایا جب اس کے پاس آئی کیا دوزخ میں کافروں کا ٹھکانا نہیں ہے
4 Ahsanul Bayan
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالٰی پر جھوٹ بولے؟ (١) اور سچا دین جب اس کے پاس آئے تو اسے جھوٹا بتائے؟ (٢) کیا ایسے کفار کے لئے جہنم ٹھکانا نہیں ہے؟
٣٢۔١ یعنی دعویٰ کرے کہ اللہ کے اولاد ہے یا اس کا شریک ہے یا اس کی بیوی ہے دراں حالیکہ وہ ان سب چیزوں سے پاک ہے۔
٢٣۔٢ جس میں توحید، احکام و فرائض ہیں، عقیدہ بعث و نشور ہے، محرمات سے اجتناب ہے، مومنین کے لئے خوشخبری اور کافروں کے لئے سزائیں ہیں۔ یہ دین و شریعت جو حضرت محمد رسول اللہ لے کر آئے، اسے جھوٹا بتلائے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا پر جھوٹ بولے اور سچی بات جب اس کے پاس پہنچ جائے تو اسے جھٹلائے۔ کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانا نہیں ہے؟
6 Muhammad Junagarhi
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے؟ اور سچا دین جب اس کے پاس آئے تو اسے جھوٹا بتائے؟ کیا ایسے کفار کے لیے جہنم ٹھکانا نہیں ہے؟
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی تو یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تو اس سے بڑا ظالم کون ہے جو خدا پر بہتان باندھے اور صداقت کے آجانے کے بعد اس کی تکذیب کرے تو کیاجہّنم میں کافرین کا ٹھکانا نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا پر جھوٹ بولے اور سچی بات جب اس کے پاس پہنچ جائے تو اسے جھٹلائے کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانا نہیں ؟
آیت نمبر 32 تا 41
ترجمہ : اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟ یعنی کوئی نہیں جو اللہ پر (یعنی) اس کی طرف شرک اور ولد کی نسبت کرے جھوٹ باندھے اور سچ یعنی قرآن جب اس کے پاس آئے تو اس کو جھٹلائے کیا ایسے کافروں کا جہنم ٹھکانہ نہیں ہے ہاں کیوں نہیں ؟ اور جو شخص سچی بات لایا اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور جنہوں نے اس کی تصدیق کی وہ مومن ہیں الَّذی، الَّذِیْنَ کے معنی میں ہے یہی ہیں شرک سے بچنے والے لوگ ان کیلئے ان کے رب کے پاس (ہر) وہ چیز ہے جو وہ چاہیں گے یہ صلہ ہے ایمان کے ذریعہ اپنے اوپر احسان کرنے والوں کا تاکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کے برے عملوں کو دور کر دے اور انہوں نے جو نیک اعمال کئے ہیں ان کا اچھا صلہ دے اسوأ السَّیّیُ اور احسن الحَسَنُ کے معنی میں ہیں (یعنی دونوں اسم تفصیل صفت کے معنی میں ہیں) کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کافی نہیں ہے ؟ ہاں ضرور کافی ہے اور لوگ آپ کو غیر اللہ یعنی بتوں سے ڈرا رہے ہیں، اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے، یہ کہ وہ بت آپ کو ہلاک کردیں گے یا پاگل بنادیں گے اور اللہ جس کو گمراہ کر دے اس کی کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں اور جسے وہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، کیا اللہ تعالیٰ اپنے امر پر غالب اپنے دشمنوں سے انتقام لینے والا نہیں ؟ ہاں کیوں نہیں ؟ اور قسم ہے اگر آپ ان سے معلوم کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ لئن میں لام قسم کا ہے تو وہ یقیناً یہی جواب دیں گے کہ اللہ نے (پیدا کئے ہیں) آپ ان سے کہئے اچھا یہ تو بتاؤ کہ جن کی تم اللہ کے سوا بندگی کرتے ہو یعنی بتوں کی اگر اللہ تعالیٰ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کیا اس کے نقصان کو ہٹا سکتے ہیں ؟ نہیں یا اللہ تعالیٰ مجھ پر مہربانی کا ارادہ کرے تو کیا یہ اس مہربانی کو روک سکتے ہیں ؟ اور ایک قراءت میں دونوں میں اضافت کے ساتھ ہے (یعنی کاشفات اور ممسکات) میں آپ کہہ دیں کہ اللہ میرے لئے کافر ہے توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں (یعنی) بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے، اے میری قوم تم اپنی جگہ یعنی اپنے طریقہ پر عمل کئے جاؤ میں بھی اپنے طریقہ پر عمل کر رہا ہوں، سو عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا کہ کس پر رسوا کن عذاب آنے والا ہے مَنْ موصولہ تعلمون کا مفعول ہے اور کس پر دائمی عذاب نازل ہوگا ؟ (اور) وہ دوزخ کا عذاب ہے، اور بلاشبہ اللہ نے ان کو بدر میں ذلیل کردیا، آپ پر ہم نے حق کے ساتھ لوگوں کیلئے یہ کتاب نازل فرمائی ہے بالحق، اَنزَلَ کے متعلق ہے، پس جو شخص راہ راست پر آجائے تو اس کے ہدایت پر آنے کا فائدہ اسی کے لئے ہے اور جو شخص گمراہ ہوجائے تو اس کی گمراہی کا (وبال) اسی پر ہے، آپ ان کے ذمہ دار نہیں کہ ان کو زبردستی ہدایت پر لے آئیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : فَمَنْ اظلَمُ ؟ ای لا احَدَ اس تفسیر کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ فمن اظلَمُ میں استفہام انکاری بمعنی نفی ہے۔
قولہ : کذّبَ بالصدقِ مفسر (رح) تعالیٰ نے صدق سے قرآن مراد لیا ہے اور قرآن کو جو کہ صادق ہے، مبالغۃً صدق کہا گیا ہے
قولہ : بلیٰ مفسر علام نے بلیٰ کا اضافہ، سنت کی اتباع میں کیا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مَنْ قرأ الیسَ اللہُ باحکم الحاکمین، فَلیقل بلیٰ لہٰذا ألیس کذا ؟ (مثلاً ) کی تلاوت کے وقت بلیٰ کہنا مسنون ہے۔ (حاشیہ جلالین)
قولہ : الذی جاءَ بالصِّدقِ ، الَّذِی موصول کے دو صلے ہیں ایک واحد ہے اور وہ جاء بالصدق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور دوسرا صدق بہٖ المؤمنون ہے جو کہ جمع ہے اول صلہ کی رعایت سے الَّذِیْ کو مفرد لایا گیا اور دوسرے صلہ کی رعایت سے الذی کو الَّذِینَ کے معنی میں لیا گیا، دوسرے صلہ ہی کی رعایت سے اُولٰٓئکَ ھُمُ المتقونَ میں جمع کے صیغے لائے گئے ہیں، الَّذِیْ چونکہ اسم جنس ہے، لہٰذا اس میں واحد جمع دونوں کی گنجائش ہے۔
قولہ : اسوأ واحسنَ السَّیئَ ، والحَسَنَ کے معنی میں ہیں، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تصدیق کرنے والے مومنوں کے نیک تر اعمال کا صلہ عطا فرمائیں گے اور بدتر اعمال کو معاف فرمائیں گے، اس میں نیک اعمال اور بد اعمال کا ذکر نہیں ہے، مفسر علام نے مذکورہ عبارت کا اضافہ کرکے جواب دیدیا کہ اسم تفضیل اپنے معنی میں نہیں ہے بلکہ اسم فاعل کے معنی میں ہے لہٰذا اب نیک اور نیک تر اسی طرح بد اور بدتر دونوں قسم کے اعمال اس میں داخل ہوگئے۔
قولہ : تخبُلُہٗ (ن) خَبلاً عقل کو فاسد کرنا، پاگل بنانا، تخبیل کے بھی یہی معنی ہیں۔
قولہ : وفی قراء ۃٍ بالإضافۃِ یہ دونوں قراءتیں سبعیہ ہیں، اگر اضافت کے ساتھ پڑھیں گے تو کاشفاتُ ضُرِہٖ اور مُمسِکاتُ رحمتہٖ پڑھا جائے گا۔
تفسیر و تشریح
فمن اظلم۔۔۔ اللہِ (الآیۃ) اللہ پر بہتان لگانے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے لئے اولاد ہونے کا دعویٰ کرے یا اس کا شریک ثابت کرے یا اس کی بیوی ہونے کا عقیدہ رکھے، حالانکہ وہ ان تمام نقائص سے پاک اور بری ہے، کذّبَ بالصِّدق اور جاءَ بالصدقِ میں صدق سے مراد وہ تعلیمات ہیں جن کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے خواہ قرآن ہو یا عقائد و احکام، جس میں عقیدۂ توحید بھی شامل ہے، اور عقیدہ بعث و نشر بھی، اور صَدَّق بہٖ میں سب مومنین داخل ہیں جو اس کی تصدیق کرنے والے ہیں نیز جاء بالصدق میں کافروں کیلئے وعیدیں اور مومنین کے لئے خوشخبری بھی داخل ہیں۔
اذ جاءَہٗ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں جو سچا دین لیکر آئے، اور بعض کے نزدیک یہ عام ہے اور اس سے ہر وہ شخص مراد ہے جو توحید کی دعوت دیتا ہو اور لوگوں کی شریعت کی جانب رہنمائی کرتا ہو، اور صَدَّق بہٖ سے بعض حضرات نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) مراد لئے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی۔ (فتح القدیر) مجاہد نے کہا ہے الذی جاءَ بالصدق سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور وصدّق بہٖ سے حضرت علی (رض) بن ابی طالب مراد ہیں، اور سدّی نے کہا : الذی جاء بالصدق سے مراد جبرائیل (علیہ السلام) ہیں اور وصدق بہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں، اور قتادہ و مقاتل و ابن زید نے کہا ہے کہ الّذِی جاء بالصدق سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں اور وصدق بہ سے مومنین مراد ہیں۔
الیسَ اللہ بکافٍ عبدَہٗ جمہور نے عبدہ کو مفرد پڑھا ہے اور حمزہ و کسائی نے جمع کے صیغہ کے ساتھ عِبَادہٗ پڑھا ہے، پہلی صورت میں عبدہ سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور اگر عبد سے جنس عبد مراد لی جائے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو دخول اولی کے طور پر داخل ہوں مگر دیگر حضرات انبیاء و صلحاء و علماء بھی مراد ہوسکتے ہیں، دوسری قراءت کی صورت میں جمیع انبیاء یا جمیع مومنین یا دونوں فریق مراد ہوں گے، ابو عبید نے جمہور کی قراءت کو اختیار کیا ہے۔ (فتح القدیر شوکانی)
شان نزول : اس آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کفار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو ڈرایا تھا کہ اگر آپ نے ہمارے بتوں کی بےادبی کی تو ان بتوں کا اثر بڑا سخت ہے، اس سے آپ نچ نہ سکیں گے، اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے ؟
انا انزلنا۔۔۔۔ للناسِ (الآیۃ) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل مکہ کا کفر پر اصرار بہت زیادہ گراں گزرتا تھا، اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کا کام صرف اس کتاب کو بیان کردینا ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے، ان کی ہدایت کے آپ مکلف نہیں ہیں، اگر یہ لوگ ہدایت کا راستہ اپنا لیں گے تو اس میں ان ہی کا فائدہ ہے اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو خود ہی نقصان اٹھائیں گے
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتے اور خبردار کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ﴿مِمَّن كَذَبَ عَلَى اللّٰـهِ ﴾ ” جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا“ یا تو کسی ایسی چیز کو اس کی طرف منسوب کیا جو اس کے جلال کے لائق نہیں یا اس نے نبوت کا دعویٰ کیا یا اللہ تعالیٰ کے بارے میں خبر دی کہ وہ یوں کہتا ہے یا یوں خبر دیتا ہے یا اس طرح کا حکم دیتا ہے، جبکہ اس نے جھوٹ کہا ہے۔ اگر کسی نے جہالت کی بنا پر ایسی بات کہی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے تحت آتا ہے : ﴿ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللّٰـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾(الاعراف:7؍33) ” اور اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام ٹھہرا دیا یہ کہ تم اللہ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہو جسے تم نہیں جانتے۔“ ورنہ یہ بدترین بات ہے۔
﴿وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ﴾ یعنی اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں جس کے پاس حق آیا، واضح دلائل جس کی تائید کرتے تھے مگر اس نے حق کی تکذیب کی۔ اس کی تکذیب بہت بڑا ظلم ہے کیونکہ حق واضح ہوجانے کے بعد اس نے حق کو رد کیا۔ اگر اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور حق کی تکذیب کو جمع کیا تو یہ ظلم در ظلم ہے۔ ﴿أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكَافِرِينَ﴾ ” کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانا نہیں؟“ جہنم کے عذاب میں مبتلا کر کے ان سے بدلہ لیا جائے گا اور ہر ظالم اور کافر سے اللہ تعالیٰ کا حق وصول کیا جائے گا۔ ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ (لقمٰن :31؍13) ” بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
abb batao kay uss shaks say bara zalim kon hoga jo Allah per jhoot baandhay , aur jab sachi baat uss kay paas aaye to woh uss ko jhutla dey-? kiya jahannum mein aesay kafiron ka thikana nahi hoga-?
12 Tafsir Ibn Kathir
مشرکین کی سزا اور موحدین کی جزا۔
مشرکین نے اللہ پر بہت جھوٹ بولا تھا اور طرح طرح کے الزام لگائے تھے، کبھی اس کے ساتھ دوسرے معبود بتاتے تھے، کبھی فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں شمار کرنے لگتے تھے، کبھی مخلوق میں سے کسی کو اس کا بیٹا کہہ دیا کرتے تھے، جن تمام باتوں سے اس کی بلند وبالا ذات پاک اور برتر تھی، ساتھ ہی ان میں دوسری بدخصلت یہ بھی تھی کہ جو حق انبیاء (علیہم السلام) کی زبانی اللہ تعالیٰ نازل فرماتا یہ اسے بھی جھٹلاتے، پس فرمایا کہ یہ سب سے بڑھ کر ظالم ہیں۔ پھر جو سزا انہیں ہونی ہے اس سے انہیں آگاہ کردیا کہ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔ جو مرتے دم تک انکار و تکذیب پر ہی رہیں۔ ان کی بدخصلت اور سزا کا ذکر کر کے پھر مومنوں کی نیک خو اور ان کی جزا کا ذکر فرماتا ہے کہ جو سچائی کو لایا اور اسے سچا مانا یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور ہر وہ شخص جو کلمہ توحید کا اقراری ہو۔ اور تمام انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی ماننے والی ان کی مسلمان امت۔ یہ قیامت کے دن یہی کہیں گے کہ جو تم نے ہمیں دیا اور جو فرمایا ہم اسی پر عمل کرتے رہے۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس آیت میں داخل ہیں۔ آپ بھی سچائی کے لانے والے، اگلے رسولوں کی تصدیق کرنے والے اور آپ پر جو کچھ نازل ہوا تھا اسے ماننے والے تھے اور ساتھ ہی یہی وصف تمام ایمان داروں کا تھا کہ وہ اللہ پر فرشتوں پر کتابوں پر اور رسولوں پر ایمان رکھنے والے تھے۔ ربیع بن انس کی قرأت میں ( وَالَّذِيْ جَاۗءَ بالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖٓ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُتَّـقُوْنَ 33) 39 ۔ الزمر :33) ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں سچائی کو لانے والے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور اسے سچ ماننے والے مسلمان ہیں یہی متقی پرہیزگار اور پارسا ہیں۔ جو اللہ سے ڈرتے رہے اور شرک کفر سے بچتے رہے۔ ان کے لئے جنت میں جو وہ چاہیں سب کچھ ہے۔ جب طلب کریں گے پائیں گے۔ یہی بدلہ ہے ان پاک باز لوگوں کا، رب ان کی برائیاں تو معاف فرما دیتا ہے اور نیکیاں قبول کرلیتا ہے۔ جیسے دوسری آیت میں ( اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَـيِّاٰتِهِمْ فِيْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّةِ ۭ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ 16) 46 ۔ الأحقاف :16) یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کی نیکیاں ہم قبول کرلیتے ہیں اور برائیوں سے درگزر فرما لیتے ہیں۔ یہ جنتوں میں رہیں گے۔ انہیں بالکل سچا اور صحیح صحیح وعدہ دیا جاتا ہے۔