پھر یہودیوں کے ظلم ہی کی وجہ سے ہم نے ان پر (کئی) پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں جو (پہلے) ان کے لئے حلال کی جاچکی تھیں، اور اس وجہ سے (بھی) کہ وہ (لوگوں کو) اﷲ کی راہ سے بکثرت روکتے تھے،
English Sahih:
For wrongdoing on the part of the Jews, We made unlawful for them [certain] good foods which had been lawful to them, and for their averting from the way of Allah many [people],
1 Abul A'ala Maududi
غرض اِن یہودی بن جانے والوں کے اِسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر، اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
تو یہودیوں کے بڑے ظلم کے سبب ہم نے وہ بعض ستھری چیزیں کہ ان کے لئے حلال تھیں ان پر حرام فرمادیں اور اس لئے کہ انہوں نے بہتوں کو اللہ کی راہ سے روکا،
3 Ahmed Ali
سویہود کے گناہوں کے سبب سے ہم نے ان پر بہت سی پاک چیزیں حرام کر دیں جو ان پر حلا ل تھیں اور اس سبب سے الله کی راہ سے بہت روکتے تھے
4 Ahsanul Bayan
جو نفیس چیزیں ان کے لئے حلال کی گئی تھیں وہ ہم نے ان پر حرام کر دیں ان کے ظلم کے باعث اور اللہ تعالٰی کی راہ سے اکثر لوگوں کو روکنے کے باعث (١)۔
١٦٠۔١ یعنی ان کے ان جرائم و معاصی کی وجہ سے بطور سزا بہت سی حلال چیزیں ہم نے ان پر حرام کر دی تھیں (جن کی تفصیل سورۃ الآنعام۔١٤٦ میں ہے)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو ہم نے یہودیوں کے ظلموں کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزیں جو ان کو حلال تھیں ان پر حرام کردیں اور اس سبب سے بھی کہ وہ اکثر خدا کے رستے سے (لوگوں کو) روکتے تھے
6 Muhammad Junagarhi
جو نفیس چیزیں ان کے لئے حلال کی گئی تھیں وه ہم نے ان پر حرام کردیں ان کے ﻇلم کے باعﺚ اور اللہ تعالیٰ کی راه سے اکثر لوگوں کو روکنے کے باعﺚ
7 Muhammad Hussain Najafi
یہودیوں کے ایسے ہی مظالم اور زیادتیوں کیوجہ سے ہم نے وہ بہت سی پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کر دیں، جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں۔ نیز ان کے (لوگوں کو) اللہ کے راستہ سے بکثرت روکنے کی وجہ سے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پس ان یہودیوں کے ظلم کی بنا پر ہم نے جن پاکیزہ چیزوں کو حلال کر رکھا تھا ان پر حرام کردیا اور ان کے بہت سے لوگوں کو راسِ خدا سے روکنے کی بنا پر
9 Tafsir Jalalayn
تو ہم نے یہودیوں کے ظلموں کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزیں جو ان کو حلال تھیں ان کو حرام کردیں اور اس سبب سے بھی کہ وہ اکثر خدا کے راستے سے (لوگوں کو) روکتے تھے۔ فبظلم من الذین ھادو احرمنا، جملہ معترضہ ختم ہونے کے بعد یہاں سے پھر وہی سلسلہ کلام شروع ہوتا ہے جو اوپر سے چلا آرہا تھا، یعنی صرف اسی پر اکتفاء نہیں کرتے کہ خود اللہ کے راستہ سے منحرف ہیں بلکہ اس قدر بےباک مجرم بن گئے ہیں کہ دنیا میں خدا کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لئے جو تحریک بھی اٹھتی ہے اکثر اس کے پیچھے یہودی دماغ اور یہودی سرمایہ ہی کار فرما ہوتا ہے، اور راہ حق کی دعوت کیلئے جو تحریک بھی شروع ہوتی ہے اس راہ کے سنگ گراں یہودی ہی ہوتے ہیں۔ مفید بحث : یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں شام و فلسطین کی غالب آبادی یہودیوں کی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام بھی اسی کے ایک فرد تھے، گو کہ یہود کو اندرونی خودمختاری حاصل تھی جس کی رو سے یہود کو اپنے مذہبی فیصلے خود کرنے کا اختیار تھا (جس کو پرسنل لا کی آزادی) بھی کہا جاسکتا ہے مگر سیاسی اور خارجی امور رومی مشرک حکومت کو حاصل تھے جس کی وجہ سے اعلی عہدہ دار، پولیس اور فوج رومیوں پر مشتمل تھی، جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام نے نبوت کا دعویٰ کیا تو یہودیوں نے اپنے مذہبی قانون (پرسنل لا) کی رو سے حضرت مسیح کو بدعتی اور یہودیت سے خارج قرار دیکر سزائے موت کا فتوی صادر کردیا مگر چونکہ یہود کو سزائے موت نافذ کرنے کا اختیار نہیں تھا اسلئے رومی حکومت سے سزا نافذ کرنے کی درخواست کی گئی اور سزا کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام پر ملک کی غداری اور قومی بغاوت کا الزام بھی لگا دیا، تاریخ کا بیان ہے کہ حضرت مسیح کی سزائے موت کا نفاذ اگرچہ رومی حکومت نے کیا لیکن آپ کو سزا دلوانے کے پیچھے تمام تر کوشش یہود کی کار فرما تھی اس لئے قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے قتل کی تمام تر ذمہ داری یہود پر ڈالی ہے رومی عدالت کا حاکم پیلاطیس (PILTUS) آپ کو سزا دینا ہرگز نہ چاہتا تھا بلکہ اس سے برابر بچنے کی کوشش کررہا تھا، مگر یہود کہ جنہوں نے جھوٹا استغاثہ گھڑا، جھوٹی شہادتیں فراہم کیں اور سزا نافذ نہ کرنے کی صورت میں بلوہ و فساد کی دھمکی دے دے کر عدالت کو سزائے موت سنانے پر مجبور کردیا۔ انجیل متی کا ایک مختصر سا بیان ملاحظہ ہو : جب پیلاطیس نے دیکھا کہ کچھ نہیں بن پڑتا، بلکہ الٹا بلوہ ہوا جاتا ہے تو پانی لے کر لوگوں کے روبرو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا کہ میں راست باز کے خون سے بری ہوں، تم جانو، سب لوگوں نے کہا اس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر، اس پر اس نے برابّا کو ان کی خاطر چھوڑ دیا اور یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کردیا کہ صلیب دی جائے۔ (٢٧: ٢٤: ٢٦) (ماجدی) اس کی تائید دوسری انجیلیں بھی کرتی ہیں بلکہ انجیل لوقا میں تو اتنی تصریح اور زائد ہے کہ حاکم نے ملزم کو سزائے موت سے بچانے کیلئے تین بار کوشش کی لیکن یہود نے ہر دفعہ اس کی بات کو رد کردیا۔ (٢٣: ٢٢) (ماجدی) ربط آیات : لکن الراسخون فی العلم، آیات بالا میں ان یہود کا ذکر تھا جو اپنے کفر پر قائم تھے اور مذکورہ بالا منکرات میں مبتلا تھے، آگے ان حضرات کا ذکر ہے جو اہل کتاب تھے اور جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی اور وہ صفات جو خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ان کی کتابوں میں موجود تھیں آپ میں پوری پوری دیکھیں تو ایمان لے آئے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام واسید و ثعلبہ (رض) ، ان آیات میں ان حضرات کی تعریف و توصیف ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
gharz yahudiyon ki sangeen ziyadti ki wajeh say hum ney unn per woh pakeezah cheezen haram kerden jo pehlay unn kay liye halal ki gaee then . aur iss liye kay woh ba-kasrat logon ko Allah kay raastay say roktay thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
یہودیوں کے خود ساختہ حلال و حرام اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ حرام کام ان کا مقدر تھا یعنی اللہ کی طرف سے لکھا جا چکا تھا کہ یہ لوگ اپنی کتاب کو بدل دیں، اس میں تحریف کرلیں اور حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیں، صرف اپنے تشدد اور اپنی سخت گیری کی وجہ سے، دوسرا یہ کہ یہ حرمت شرعی ہے یعنی نزول تورات سے پہلے جو بعض چیزیں ان پر حلال تھیں، توراۃ کے اترنے کے وقت ان کی بعض بدکاریوں کی وجہ سے وہ حرام قرار دے دی گئیں جیسے فرمان ہے آیت (كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِھٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بالتَّوْرٰىةِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران :93) یعنی اونٹ کا گوشت اور دودھ جو حضرت اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا، اس کے سوا تمام طعام بنی اسرائیل کے لئے حلال تھے پھر توراۃ میں ان پر بعض چیزیں حرام کی گئیں، جیسے سورة انعام میں فرمایا آیت (وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۚ وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ) 16 ۔ النحل :118) یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن دار جانور حرام کردیا اور گائے بکری کی چربی بھی جو الگ تھلگ ہو، ہم نے ان پر حرام قرار دے دی، یہ اس لئے کہ یہ باغی، طاغی، مخالف رسول اور اختلاف کرنے والے لوگ تھے پہلے یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ ان کے ظلم و زیادتی کے سبب وہ خود اللہ کے راستہ سے الگ ہو کر اور دوسروں کو بھی بہکانے کے باعث (جو ان کی پرانی عادت تھی) رسولوں کے دشمن بن جاتے تھے۔ انہیں قتل کر ڈالتے تھے، انہیں جھٹلاتے تھے، ان کا مقابلہ کرتے تھے اور طرح طرح کے حیلے کر کے سود خوری کرتے تھے جو محض حرام تھی اور بھی جس طرح بن پڑتا لوگوں کے مال غصب کرنے کی تاک میں لگے رہتے اور اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ نے یہ کام حرام کئے ہیں جرات سے انہیں کر گذرے تھے، اس وجہ سے ان پر بعض حلال چیزیں بھی ہم نے حرام کردیں، ان کفار کے لئے درد ناک عذاب تیار ہیں۔ ان میں جو سچے دین والے اور پختہ علم والے ہیں، اس جملے کی تفسیر سورة آل عمران میں گذر چکی ہے اور جو باایمان ہیں وہ تو قرآن کو اور تمام پہلی کتابوں کو مانتے ہیں، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام، حضرت ثعلبہ بن سعید، زید بن سعید، حضرت اسید بن عبید (رض) ہیں، جو اسلام قبول کرچکے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو مان چکے تھے آگے کا جملہ آیت (والمقیمین الصلوۃ) تمام ائمہ کے قرآن میں اور ابی بن کعب کے مصحف میں اسی طرح ہے لیکن بقول علامہ ابن جریر ابن مسعود کے صحیفہ میں آیت (والمقیمون الصلوۃ) ہے۔ صحیح قرأت اگلی ہے جن بعض لوگوں نے اسے کتابت کی غلطی بتایا ہے ان کا قول غلط ہے۔ بعض تو کہتے ہیں اس کی نصبی حالت مدح کی وجہ سے ہے، جیسے آیت (وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا) 2 ۔ البقرۃ :177) میں ہے اور کلام عرب میں اور شعروں میں برابر یہ قاعدہ موجود پایا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ عطف ہے اگلے جملے پر یعنی آیت ( بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ) 2 ۔ البقرۃ :4) پر یعنی وہ اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرنے پر بھی ان کا ایمان ہے یعنی اسے واجب و برحق مانتے ہیں، یا یہ مطلب ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں یعنی ان کا قرآن پر اور الہامی کتابوں پر اور فرشتوں پر ایمان ہے۔ امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں لیکن اس میں تامل کی ضرورت ہے واللہ اعلم، اور زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں یعنی مال کی یا جان کی اور دونوں بھی مراد ہوسکتے ہیں واللہ اعلم اور صرف اللہ ہی کو لائق عبادت جانتے ہیں اور موت کے بعد کی زندگانی پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں کہ ہر بھلے برے عمل کی جزا سزا اس دن ملے گی، یہی لوگ ہیں جنہیں ہم اجر عظیم یعنی جنت دیں گے۔