اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں۔ (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اسطرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی۔ تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو انکا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو۔ اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے آیت نمبر ٢٤ تا ٢٥ ترجمہ : اور حرام کردی گئی ہیں تمہارے لئے شوہر والی عورتیں یہ کہ ان سے ان کے شوہروں کی مفارقت کے بغیر نکاح کرو خواہ آزاد مسلمان عورتیں ہوں یا دیگر، مگر یہ کہ وہ باندیاں کہ جو گرفتار ہو کر تمہاری قید میں آجائیں تو تمہارے لئے جائز ہے کہ ان سے وطی کرواستبراء (رحم) کے بعد، اگرچہ دارالحراب میں ان کے شوہرموجود ہوں، اللہ نے (ان احکام کو) تم پر فرض کردیا ہے نصب مصدریت کی وجہ سے ہے ای کَتَبَ ذلک، اور تمہارے لئے مذکورہ حرام کردہ عورتوں کے علاوہ حلال کردی گئی ہیں یہ کہ تم عورتوں کو اپنے مالوں کے ذریعہ مہر یا قیمت طلب کرو (اس طریقہ پر) کہ ارادہ نکاح کا ہو نہ کہ (محض) شہوت رانی کرنے والے، اس لئے جن سے تم نے فائدہ اٹھایا ہے تو ان کو ان کا طے شدہ مہر جو تم نیان کے کیلئے مقرر کیا ہے اور تم پر اس مقدار کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم اور وہ مہر مقرر ہونے کے بعد راضی ہوجائو کل کو ساقط کر کے یا کچھ کمی زیاتی کرکے بیشک اللہ اپنی مخلوق کے بارے میں بڑا جاننے والا اور اس نظم کے بارے میں جو اس نے مخلوق کے لئے قائم کیا بڑی حکمت والا ہے اور جو شخص تم میں سے آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو ایمان کی صفت غالب کی بناء پر ہے لہذا اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں ہے۔ تو وہ مسلمان باندیوں سے جن کے مالک ہو (نکاح کرلے) اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے لہذا اس کے ظاہری ایمان پر اکتفاء کرو، اور رازوں کو اللہ کے حوالہ کرو، اسلئے کہ نکاح سے مانوس کرنا ہے اور تم آپس میں ایک ہی تو ہو یعنی تم اور وہ دین میں برابر ہو لہٰذا ان سے نکاح کرنے میں عار محسوس نہ کرو اس لئے ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کرلو، اور دستور کے مطابق بغیر ٹال مٹول اور بغیر کمی ان کے مہر ان کو دیدیا کرو۔ حال یہ کہ وہ پاک دامن ہوں نہ کہ کھلم کھلا زنا کرنے والیاں اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں، کہ جس کی وجہ سے خفیہ طور پر زنا کرنے والی ہوں۔ پس جب یہ باندیاں نکاح میں آجائیں اور ایک قراءت میں معروف کے صیغہ کے ساتھ ہے یعنی جب وہ نکاح کرلیں، پھر اگر وہ بےحیائی زنا کی مرتکب ہوں تب ان کی سزا آزاد غیر شادی شدہ کی آدھی ہے جب وہ زنا کریں تو ان کو پچاس کوڑے لگائے جائیں اور نصف سال جلا وطن کردیا جائے۔ اور اسی پر غلاموں کو قیاس کیا جا ئیگا، اور احصان وجوب حد کے شرط کے طور پر نہیں ہے بلکہ اس بات کا فائدہ دینے کے لئے ہے کہ ان پر رجم قطعا نہیں ہے (آزاد پر) قدرت نہ ہونے کی صورت میں باندیوں سے نکاح کا حکم ان لوگوں کیلئے ہے جنہیں تم میں سے گناہ زنا، کا اندیشہ ہے اور عَنَتْ کے اصل معنی مشقت کے ہیں اور زنا کا نام مشقت اسلئے رکھا گیا ہے کہ زنا دْنیا میں حَدْ ، اور آخرت میں سزا کا سبب ہے۔ بخلاف ان آزاد لوگوں کے ان کو (زنا میں مبتلا ہونیکا) خوف نہیں ہے، تو ان کے لئے باندیوں سے نکاح حلال نہیں ہے، اور یہی حکم اس شخص کا ہے جو آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور یہی امام شافعی (رح) تعالیٰ کا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے قول مومنات کی قید سے کافرات خارج ہوگئیں اس شخص کے لئے بھی باندیوں سے نکاح حلال نہیں ہے اگرچہ قدرت مفقود اور زنا کا خوف ہو۔ اور اگر تم باندیوں سے نکاح کرنے کو ضبط کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ بچہ غلام نہ ہو۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا اس معاملہ میں وسعت کے ذریعہ بڑا رحم کرے والا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل وتفسیری فوائد قولہ : وحُرِّمَتْ عَلَیْکم المحصَنٰتُ ، جمہور کے نزدیک فتئحہ صاد کے ساتھ، اسم مفعول ہے، وہ عورتیں جنہوں نے نکاح کے ذر یعہ اپنی شرمگاہوں کو محفوظ کرلیا ہو ( یعنی شادی شدہ عورتیں) اس آیت کے علاوہ ہر جگہ کسائی نے صاد کے کسرہ کے ساتھ بصیغئہ اسم فاعل پڑھا ہے۔ قولہ : حُرِّمَتْ عَلَیْکم، حُرِّمَتْ کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ المحصَنٰتُ کا عطف اُمَّھَاتُکُم پر ہے مُحْصَنات (یعنی شوہر والی عورتیں) بھی سلسلئہ محرمات میں داخل ہیں، اَلمحصَنٰت، اسم مفعول جمع مئونث کا صیغہ ہے واحد مُحْصَنٰةُ \& ہے قرآن کریم میں اِحْصَان چار معنی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ ١۔ شادیشدہعورتیں ٢۔ آزادعورتیں ٣۔ پاکدامنعورتیں ٤۔ مسلمان عورتیں، یہاں پہلے معنی یعنی شادی شدہ عورتیں مراد ہیں، مفِسّرعَلّام نے ذَوْاتُ الْازْواج کہہ کر اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : اَنْ تَنْکِحُوْھُنَّ ، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : حرمت افعال میں ہوتی ہے نہ کہ ذوات میں حالانکہ حُرِّمَتْ عَلَیکم المحصَنٰت سے ذات کی حرمت مفہوم ہورہی ہے ؟ جواب : مفسر علام نے اَنْ تَنکِحُوھُنَّ ، کا اضافہ کرکے اسی کا جواب دیا ہے یعنی محصَنٰت سے نکاح کرنا حرام ہے نہ کہ ان کی ذات۔ قولہ : قَبْلَ المُفَارَقّةِ اس اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بعد المفارقت نکاح کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے خواہ عورت آزاد ہو یا باندی۔ قولہ : بالسَبْیِ اس میں اشارہ ہے کہ بلا مفارقت، وطی اسی باندی سے جائز ہے جو گرفتار ہو کر آئی ہو اور اگر خرید کردہ ہے اور وہ شادی شدہ ہے تو اس سے بلا مفارقتِ زوْج وطی جائز نہیں ہے۔ قولہ : نَصْبعلی المَصْد رِیّةِ ، اس میں اشارہ ہے کہ، کتابَ اللّٰہ مصدریت کی وجہ سے منصوب ہے کتاب کا عامل کَتَبَ ، حُرِّمَتْ سے مستفاد ہے، اس لئے کہ تحریم اور کتاب اور فرض ایک ہی معنی میں ہیں مفسرّعلام نے کَتَبَ ذلک، کہہ کر اسی عامل مخدوف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : وَاُحِلَّ لکم، اس کا عطف کتاب اللّٰہ کے عامل مقدر پر ہے، اگر فعل مقدر کَتَبَ پر عطف ہو تو اَحَلَّ ، معروف ہوگا اور اگر حُرِّمَتْ ، پر ہو تو اُحِلَّ ، مجہول ہوگا۔ قولہ : ھُوَجَرْی عَلیَ الغَالِبِ ، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : المئومنات کی قید سے معلوم ہوتا ہے کتابیات سے نکاح درست نہیں ہے۔ جواب : المئومنات کی قید غالب کے اعتبار سے ہے ورنہ نکاح کے بارے میں جو حکم آزاد مومنات کا ہے وہی حکم آزاد کتابیات کا بھی ہے، لہٰذا اس کا مفہوم مخالف مراد لینا درست نہ ہوگا۔ قولہ : مُحْصَنَات، یہ فانکحوھنَّکی ضمیر سے حال ہے نہ کہ صفت اسلئے کہ ضمیر نہ موصوف واقع ہوتی ہے اور نہ صفت، مشہور قاعدہ ہے الضمیرلا یْوْصَفُ ولا یوصفُ بہ۔ قولہ : غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ یہ حال مئوکدّہ ہے، مُسَافِحِیْنَ ، کی جمع ہے بمعنی زانی۔ قولہ : اَخْدَان یہ خِِِدْن کی جمع ہے بمعنی دوست۔ تَفسِیروتَشریح اس رکوع میں محرّمات کا ذکر ہے، محرمات کی چار قسمیں ہیں جن میں تین محرماتِ ابدیہ ہیں (١) محرمات نسبیہ (٢) محرمات رضاعیہ (٣) محرمات بالمصاہرة، انکی تفصیل سابق میں گذر چک ی ہے (٤) محرمات غیرابدیہ۔ اس چوتھی قسم کا ذکر والمحصنت من النساء سے کیا ہے محصنٰت سے مراد شوہر دار عورتیں ہیں، عورت جب تک کسی کے نکاح میں ہو تو دوسرے شخص کے لئے اس سے نکاح جائز نہیں اس سے بخوبی واضح ہوگیا کہ عورت بیک وقت ایک سے زائد شوہر دار نہیں ہوسکتی، اِلاّ ماملکت اَیْمانکم یہ جملہ المحصنٰت من النساء سے استثناء ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہردار عورت سے دوسرے شخص کا نکاح جائز نہیں ہے اِلَّایہ کہ وہ عورت مملو کہ باندی ہو کر آجائے اگرچہ اس کا شوہر دارالحرب میں موجود ہو چونکہ عورت کے دارلاسلام میں آجانے کی وجہ سے اس کا نکاح، سابق شوہر سے ختم ہوگیا ہے یہ عورت خواہ کتابیہ ہو یا مسلمہ اس سے دارالاسلام کا کوئی بھی مسلمان نکاح کرسکتا ہے مگر استمتاع ایک حیض آنے کے بعد ہی جائز ہوگا، اور حاملہ ہے تو وضع حمل ضروری ہے، اس کے بغیر استمتاعِ جنسی درست نہ ہوگا، اور اگر حکومت کی جانب سے مال غنیمت میں حاصل شدہ باندی کسی فوجی سپاہی کو مال غنیمت کے طور پر دیدی جائے تب بھی اس سے جنسی استمتاع جائز ہے مگر یہ استمتاع بھی وضع حمل یا ایک حیض آنے کے بعد ہی جائز ہوگا۔ جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں انکو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباثرت کا مجاز نہیں، بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالہ کردی جائیں گی، حکومت کو اختیار ہوگا کہ چاہے تو ان کو رہا کردے اور اگر چاہے تو ان سے فدیہ لے، چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کرے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے تو انھیں سپاہیوں میں تقسیم کر دے، سپاہی صرف اسی عورت سے استمتاع کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔ جنگ میں پکڑی گئی عورتوں کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب میں سے ہوں، ان کا مذہب خواہ کچھ بھی ہو جب تقسیم کے بعد جس کے حصے میں آئیں ان سے استمتاع کرسکتا ہے۔ جو عورت جس کے حصے میں آئے وہی شخص اس سے استمتاع کرسکتا ہے کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں، اس عورت سے جو اولاد ہوگی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائیگی جس کی ملک میں وہ عورت ہے، اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لئے مقرر ہیں صاحب اولاد ہونے کے بعد وہ عورت فروخت نہ ہو سکے گی وہ عورت ام ولد کہلائے گی اور مالک کے مرتے ہی خودبخود آزاد ہوجائے گی۔ مالک اگر اپنی مملوکہ کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کردے تو مالک کو دیگر خدمات لینے کا تو حق رہتا ہے لیکن جنسی تعلقات قائم کرنے کا حق نہیں رہتا۔ اسیرانِ جنگ میں سے اگر کوئی اسیر حکومت کسی شخص کو دیدے تو حکومت کو اس سے واپس لینے کا حق نہیں رہتا۔ کِنابَ اللّٰہِ عَلَیْکم، یہ مصدریت کی وجہ سے فعل مخدوف کے ذریعہ منصوب ہے ای کَتَبُ اللّٰہ ذلک عَلَیْکم کتاباً ، یعنی جن محرمات کا ذکر ہوا ہے ان کی حرمت اللہ کی طرف سے ہے اور یہ خدائی قانون ہے جو تمہارے اوپر لازم ہے۔ اَنْ تَبْتَغُوابِاَمْوَالِکُم، یعنی محرمات کا یہ بیان اس لئے کیا گیا ہے کہ تم اپنے مالوں کے ذریعہ حلال عورتیں تلاش کرو اور ان کو اپنے نکاح میں لائو، ابوبکر جصاص (رح) تعالیٰ احکام القرآن میں لکھتے ہیں کہ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ نکاح مہر کے بغیر نہیں ہوسکتا حتیٰ کہ اگر زوجین آپس میں یہ طے کرلیں کہ نکاح، مہر کے بغیر کریں گے تب بھی مہر لازم ہوگا دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مہر وہ چیز ہوگی جس کو مال کہا جاسکے، احناف کا مذہب یہ ہے کہ دس درہم سے کم مہر نہ ہونا چاہیے ایک درہم ساڑھے چار ماشہ یا ٣ گرام ٦٢ ملی گرام کے برابر ہوتا ہے اور ٣٦ گرام اور ٢ ملی گرام کے مساوی ہوں گے۔ متعہ کی بحث : فَمَااستَمْتَعْتُمْ بِہ منھُنَّ فَاٰ تُوھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیضَةً (یعنی بعد از نکاح) جن عورتوں سے استمتاع کرلو تو ان کے مہر دیدو، یہ دینا تمہارے اوپر فرض کیا گیا ہے، اس آیت میں استمتاع سے بیویوں سے ہمبستر ہونا مراد ہے، اگر محض نکاح ہوجائے مگر شوہر کو وطی کا موقع نہ ملے بلکہ وہ اس سے پہلے ہی طلاق دیدے یا عورت کا انتقال ہوجائے تو نصف مہر واجب ہوتا ہے اور اگر استمتاع کا موقع مل جائے تو پورا مہر واجب ہوتا ہے، اس آیت میں اسی حکم کی طرف خصوصی توجہ دلائی گئی ہے۔ لفظ استمتاع کا مادہ (م ت ع) ہے جس کے معنی استفادہ کرنے اور فائدہ اٹھانے کے ہیں فائدہ خواہ مالی ہو یا جسمانی، اس لغوی تحقیق کی روشنی میں فَمَااسْتَمْتَعْتُم کا سیدھا اور صاف مطلب پوری امت کے نزدیک خلفاً عن سلف وہی ہے جو اوپر بیان کیا ہے لیکن فرقہ امامیہ کے نزدیک اس سے اصطلاحی متعہ مراد ہے اور وہ اسی آیت سے استدلال کرتے ہیں، حالانکہ اصطلاحی متعہ کی صاف تردید قرآن کریم کی آیت بالا میں لفظ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافَحِیْنَ سے ہو رہی ہے۔ متعہ کی صورت : اصطلاحی متعہ جس کے جواز کا فرقہ امامیہ مدعی ہے یہ ہے کہ ایک مرد کسی عورت سے یوں کہے کہ اتنے دن یا اتنے وقت کے لئے اتنی رقم کے عوض میں تم سے متعہ کرتا ہوں، متعہ اصطلاحی کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، محض مادہ اشتقاق کو دیکھ کر یہ فرقہ مدعی ہے کہ اس آیت سے حلت متعہ کا ثبوت ہو رہا ہے۔ جواز متعہ کی نسبت حضرت امام مالک (رح) تعالیٰ کی جانب بھی بعض حضرات نے کی ہے جن میں صاحب ہدایہ اور امام سرخسی صاحب مبسوط بھی شامل ہیں لیکن یہ نسبت تسامح ہے جیسا کہ شراح ہدایہ نے تصریح کی ہے کہ صاحب ہدایہ سے یہ تسامح ہوا ہے۔ البتہ بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) آخرتک حلّت متعہ کے قائل تھے، حالانکہ ایسا نہیں ہے امام مالک (رح) تعالیٰ کی جانب جواز متعہ کی نسبت میں بڑی قیل وقال ہوئی ہے بعض اکا بر حنفیہ جن میں پیش پیش ہدایہ کے نا مور شارح ابن ھمام ہیں نے اس انتساب کو غلط ٹھہرایا ہے النسبة الی مالک غلط (فتح القدیر) ونقل الحل عن مالک لا اصل لہ . (روح) اور بڑی بات یہ کہ مالکیہ کی کتابوں سے بھی اس فتوے کے جواز کی تائید نہیں ہوتی بلکہ براہ راست یا بالواسطہ اس کی مخالفت ہی نکلتی ہے۔ وَامّامتعةالنساء فھی من غرائب الشریعةلانّھا ابیحت فی صدرالاسلام ثم حرمت بعد ذلک استقرالامرعلی التحریم (ابن عربی) وَالأنکحةالَّتی وردالنھی فیھا اربعةنکاح منھا المتعة (بدایہ المجتھد) تواترت الَاخْبارعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بتحریمہ . (بدایةالمجتھد) حدیث میں متعہ کی ممانعت : سب سے بڑھ کر یہ خود حدیث بنوی میں اس کی صاف ممانعت آچکی ہے، مسلم میں ایک طویل حدیث سبزہ بن معبد جہنی سے نقل ہوئی ہے جس کے آخر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ یٰایّھا الناس اِنّی آذنْتُ لکم فی الاِسْتِمْتاعِ مِنَ النسَائِ واِنَّ اللّٰہَ تعالیٰ قدحرَّم ذلک الی یَوْمِ الِقیامَةِ فمنْ کان عِنْدَہ \& مِنْھُنّ شِیْیٔ فَلْیُخَلِّ سَبِیْلَہ \&، ولاتَاْخُذُوْابِمَااٰتیتُمُوْھُنَّ شَیْئًا . ترجمہ : اے لوگو ! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دے رکھی تھی لیکن اب اللہ نے اس کو قیامت تک کے لیے حرام کردیا ہے، سو جس کسی کا اس پر عمل ہو وہ اب اس سے باز آجائے اور جو کچھ تم نے ان عورتوں کو دیا ہے وہ ان سے واپس نہ لو۔ دوسری حدیثیں بھی بخاری و مسلم وغیرہ میں نقل ہوئی ہیں ان کا حاصل بھی حکم متعہ کی حرمت ہے اسی لئے ابن عباس (رض) سے فتوائے جواز سے رجوع منقول ہے۔ ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ صح رجوعہ الی قولھم (ہدایہ) قیل ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہُ رجع عن ذلک (معا لم) اب فقہائے اہل سنت کا حرمت متعہ پر اتفاق ہے اور ان کے تمام مفسرین نے اسی شق کو اختیار کیا ہے، اختلاف صرف فرقہ امامیہ (شیعہ) تک محدود رہ گیا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ کہ حضرت ابن عباس (رض) آخر تک حلت متعہ کے قائل رہے صحیح نہیں امام ترمذی نے باب ماجاء فی نکاح المتعةکاباب قائم کرکے دو حدیثیں نقل کی ہیں۔ (١) عن علی بن ابی طالب اَنّالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھٰی عن متعةالنساء وعن لحومالحمرالاھلیةزمن خَیْبَرَ . ترجمہ : حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ حضرت علی (رض) کی مذکورہ حدیث بخاری ومسلم میں بھی ہے۔ (٢) یہ حدیث بھی امام ترمذی نے نقل کی ہے۔ عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہُ قال انماکانتالمتعةفی اولا لاسلام حتّی اذانَزَلَتْ الآیةُاِلّاعلی اَزْوَاجِھماَوْمَامَلَکَتْ اَیمانُھُم قال ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہُ فکُلُّ فَرْجِ سِوَاھمَافَھُوَحَرَام . ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں متعہ اسلام کے عہد اول میں مشروع تھا یہاں تک کہ آیت کریمہ الاعلی ازواجِھم او ماملکت اَیْمانھم، نازل ہوئی تو وہ منسوخ ہوگیا، اس کے بعد حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ زوجہ شرعیہ اور مملوکہ کے علاوہ ہر طرح کی شرمگاہ سے استمتاع حرام ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کچھ عرصہ تک متعہ کے جواز کے قائل رہے پھر حضرت علی (رض) کے سمجھانے (جیسا کہ صحیح مسلم، ج : ا، ص : ٤٥٢ پر ہے) اور آیت شریفہ اِلَّاعلی ازوجھماوماملکت ایمانھم سے متنبہ ہوکررجوع فرمالیاجیسا کہ ترمذی کی روایت سے معلوم ہوا۔ (معارف) قولِ فیصل دربارہ متعہ : متعہ کے بارے میں قول فیصل محدِّث حازمی کا ہے جسے ابن ھمام نے فتح القدیر میں اور علامہ آلوسی نے روح المعانی میں نقل کیا ہے۔ حازمی نے کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعہ کو ان لوگوں کے لئے جائز نہیں کیا جو کہ وہ اپنے وطن یا گھروں میں بیٹھے ہوں، آپ نے اسے صرف ضرورت ہی کے موقعوں پر جائز کیا ہے، اور آپ نے اپنی آخری عمر میں حجتہ الودع کے موقعہ پر اسے ہمیشہ کے لئے حرام قرار دے دیا چناچہ اس بارے میں ائمہ اور ملک کے علماء میں سے کسی کو بھی اختلاف نہیں بجز شیعوں کے ایک فرقہ کے۔ (ماجدی) نکاح کا اصل مقصد : نکاح کا اہم مقصد حصول اولاد اور انسانی کی بقا ہوتی ہے نہ کہ محض شہوت رانی، اسی لئے قرآن مجید نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ قید نکاح میں لانیکا مقصد عفت و عصمت کا حصار فراہم کرنا ہو نہ کہ محض مستی نکالنا، اور متعہ مذکورہ باتوں سے خالی ہوتا ہے، متعہ چونکہ ایک محدود وقت کے لئے کیا جاتا ہے اس لئے نہ اس سے حصول اولاد مقصود ہوتی ہے اور نہ گھر بسانا اور نہ عفت و عصمت اور یہی وجہ ہے کہ فریق مخالف اس کو ذوجہ وارثہ قرار نہیں دیتا اور نہ اس کو ازواج معروفہ کی گنتی میں شمار کرتا ہے، چونکہ مقصد قضاء شہوت ہوتا ہے اس لئے مرد اور عورت نئے نئے جوڑے تلاش کرتے رہتے ہیں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ متعہ عفت و عصمت کا ضامن نہیں ہے بلکہ دشمن ہے۔ قرآن کریم نے محرمات کا ذکر کرنے کے بعد یوں فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ اپنے اموال کے ذریعہ حلال عورتیں تلاش کرو اس حال میں کہ پانی بہا نا یعنی محض مستی نکالنا اور شہوت رانی کرنا ہی مقصد نہ ہو۔ متعہ ایک ہنگامی ضرورت تھی : تاریخی روایتوں اور حدیثوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنگ یا طول سفر کے موقعہ پر عقد مؤقت یا و عارضی نکاح کی اجازت محض سپاہیوں کے لئے ہنگامی اور وقتی ضرورت کے پیش نظر ایک بار یا چند بار دی گئی تھی اور بعض صحابہ ایک عرصہ تک اسی خیال میں رہے، باقی مستقل حکم عدم جواز ہی کا ہے (ماجدی) اسی کی تائید عبداللہ بن مسعود کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کی بخاری اور مسلم میں نقل ہوئی ہے۔ کُنَّانَغْرُوْمع النَّبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیس مَعَنَا نِسَائ فقلنا الا نَخْتَصِیْ فنھا ناعن ذلک ثم رَخَّصَ لنا ان نَسْتَمْتِعَ . ترجمہ : ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں تھے اور بیویاں ہمارے ہمراہ نہ تھیں تو ہم لوگوں نے کہا کہ ہم خود کو خصّی کرالیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس سے منع فرمایا اور ہمارے لئے متعہ کی اجازت دیدی۔ اور مندرجہ ذیل روایت بھی سلمتہ بن اکوع کے حوالہ سے صحیحین میں نقل ہوئی ہے۔ رَخَّصَ النَّبِیّ ُ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَامَ اَوْ طَاس فی المُتْعَةِ ثلاثاً ثٰم نَھَی عنھا . ترجمہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ اوطاس کے سال متعہ کی اجازت تین رات دیدی تھی مگر اس کے بعد اس کی ممانعت کردی۔ مسئلہ : متعہ کی طرح نکاح مؤقت بھی حرام ہے صرف لفظ نکاح کا فرق ہے۔ ولاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَاتَرَا ضَیْتُمْ بہ مِنْ بَعْدِالفَرِیْضَةِ ، اس کا مطلب یہ ہے کہ باہمی رضا مندی سے مہر مقرر کرنے کے بعد اس میں دونوں فریقوں کی رضامندی سے کمی بیشی ہوسکتی ہے، بیوی اگر چاہے تو پورا یا کچھ حصہ معاف کرسکتی ہے اور شوہر کے لئے بھی جائز ہے کہ مقرر کردہ مقدار سے زیادہ دیدے۔
English Sahih:
And [also prohibited to you are all] married women except those your right hands possess. [This is] the decree of Allah upon you. And lawful to you are [all others] beyond these, [provided] that you seek them [in marriage] with [gifts from] your property, desiring chastity, not unlawful sexual intercourse. So for whatever you enjoy [of marriage] from them, give them their due compensation as an obligation. And there is no blame upon you for what you mutually agree to beyond the obligation. Indeed, Allah is ever Knowing and Wise.
اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں (محصنات) البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو (جنگ میں) تمہارے ہاتھ آئیں یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کر دی گئی ہے اِن کے ماسوا جتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال کے ذریعہ سے حاصل کرنا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے، بشر طیکہ حصار نکاح میں اُن کو محفوظ کرو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مہر بطور فرض ادا کرو، البتہ مہر کی قرارداد ہو جانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمہارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اللہ علیم اور دانا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور حرام ہیں شوہر دار عورتیں مگر کافروں کی عورتیں جو تمہاری ملک میں آجائیں یہ اللہ کا نوشتہ ہے تم پر اور ان کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں کہ اپنے مالوں کے عوض تلاش کرو قید لاتے نہ پانی گراتے تو جن عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو ان کے بندھے ہوئے مہر انہیں دو، اور قرار داد کے بعد اگر تمہارے آپس میں کچھ رضامندی ہوجاوے تو اس میں گناہ نہیں بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے،
3 Ahmed Ali
اور خاوند والی عورتیں مگر تمہارے ہاتھ جن کے مالک ہو جائیں یہ الله کا قانون تم پر لازم ہے اور ان کے سوا تم پرسب عورتیں حلال ہیں بشرطیکہ انہیں اپنے مال کے بدلے میں طلب کرو ایسے حال میں کہ نکاح کرنے والے ہو نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو پھر ان عورتوں میں سے جسے تم کام میں لائے ہو تو ان کے حق جو مقرر ہوئے ہیں وہ انہیں دے دو البتہ مہر کے مقرر ہو جانے کے بعد آپس کی رضا مندی سے باہمی کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی گناہ نہیں بے شک الله خبردار حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور حرام کی گئی شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں (١) اللہ تعالٰی نے احکام تم پر فرض کر دئیے ہیں، ان عورتوں کے سواء اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت رانی کے لئے (٢) اس لئے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو (٣) اور مہر مقرر ہونے کے بعد تم آپس کی رضامندی سے جو طے کر لو تم پر کوئی گناہ نہیں (٤) بیشک اللہ تعالٰی علم والا حکمت والا ہے۔
٢٤۔١ قرآن کریم میں احصان چار معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔۱۔ شادی' ۲۔ آزادی' ۳۔ پاکدامنی۔ ٤۔ اسلام' اس اعتبار سے محصنات کے چار مطلب ہیں ۱۔ شادی شدہ عورتیں ۲۔ پاکدامن عورتیں ۳۔ آزاد عورتیں اور ٤۔ مسلمان عورتیں۔ یہاں پہلا معنی مراد ہے اس کے شان نزول میں آتا ہے جب بعض جنگوں میں کافروں کی عورتیں بھی مسلمانوں کی قید میں آگئیں تو مسلمانوں نے ان سے ہم بستری کرنے میں کراہت محسوس کی کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جس میں یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس سے یہ معلوم ہوا کہ جنگ میں حاصل ہونے والی کافر عورتیں جب مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں شادی شدہ ہونے کے باوجود ان سے مباشرت کرنا جائز ہے البتہ استبرائے رحم ضروری ہے۔ یعنی ایک حیض آنے کے بعد یا حاملہ ہیں تو وضع حمل کے بعد ان سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ لونڈی کا مسئلہ; نزول قرآن کریم کے وقت غلام اور لونڈیاں کا سلسلہ عام تھا جسے قرآن نے بند نہیں کیا البتہ ان کے بارے میں ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ جس سے غلاموں اور لونڈیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں حاصل ہوں تاکہ غلامی کی حوصلہ شکنی ہو اس کے دو ذریعے تھے ایک تو بعض خاندان صدیوں سے ایسے چلے آرہے تھے کہ ان کے مرد اور عورت فروخت کردییے جاتے تھے یہی خریدے ہوئے مرد اور عورت غلام اور لونڈی کہلاتے تھے مالک کو ان سے ہر طرح کے استمتاع (فائدہ اٹھانے) کا حق حاصل ہوتا تھا دوسرا ذریعہ جنگ میں قیدیوں والا تھا کہ کافروں کے قیدی عورتوں کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا اور وہ ان کی لونڈیاں بن کر ان کے پاس رہتی تھیں قیدیوں کے لیے یہ بہترین حل تھا کیونکہ اگر انہیں معاشرے میں یونہی آزاد چھوڑ دیا جاتا تو معاشرے میں ان کے ذریعے سے فساد پیدا ہوتا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب الرق فی الاسلام، اسلام میں غلامی کی حقیقت از مولانا سعید احمد اکبر آبادی) بہرحال مسلمان شادی شدہ عورتیں تو ویسے ہی حرام ہیں تاہم کافر عورتیں بھی حرام ہی ہیں الا یہ کہ وہ مسلمانوں کی ملکیت میں آجائیں اس صورت میں استبراء رحم کے بعد وہ ان کے لیے حلال ہیں۔ ۲٤۔۲ یعنی مذکورہ محرکات قرآنی اور حدیثی کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے بشرطیکہ چار چیزیں اس میں ہوں اول یہ کہ طلب کرو یعنی دونوں طرف سے ایجاب و قبول ہو دوسری یہ مہر ادا کرنا قبول کرو۔ تیسری ان کی شادی کی قید (دایمی قبضے) میں لانا مقصود ہو صرف شہوت رانی غرض نہ ہو (جیسے زنا میں یا اس متعہ میں ہوتا ہے جو شیعہ میں رائج ہے یعنی جنسی خواہش کی تسکیں کے لئے چند روز یا چند گھنٹوں کا نکاح چوتھی یہ کہ چھپی یاری نہ ہو بلکہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو یہ چاروں شرطیں اس آیت سے مستفاد ہیں اس سے جہاں شیعوں کے متعہ کا بطلان ہوتا ہے وہیں مروجہ حلالہ کا بھی ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد بھی عورت کو نکاح کر کے دائمی قید میں لانا نہیں ہوتا، بلکہ عرفایہ صرف ایک رات کے لئے مقرر اور معمود ذہنی ہے۔ ٢٤۔٣ یہ اس امر کی تاکید ہے کہ جن عورتوں سے تم نکاح شرعی احکام کے ذریعے سے کرو تو انہیں ان کا مقرر کردہ مہر ضرور ادا کرو۔ ٢٤۔٤ اس میں آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرنے کا اختیار ہے۔ ملحوظہ; "استمتاع" کے لفظ سے شیعہ حضرات نکاح متعہ کا اثبات کرتے ہیں حالانکہ اس سے مراد نکاح کے بعد صحبت ومباشرت کا استمتاع ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ البتہ متعہ ابتدائے اسلام میں جائز رہا ہے اور اس کا جواز اس آیت کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ اس رواج کی بنیاد پر تھا جو اسلام سے قبل چلا آرہا تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت واضح الفاظ میں اسے قیامت تک حرام کردیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وه جو تمہاری ملکیت میں آجائیں، اللہ تعالیٰ نے یہ احکام تم پر فرض کر دیئے ہیں، اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت رانی کرنے کے لئے، اس لئے جن سے تم فائده اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو، اور مہر مقرر ہو جانے کے بعد تم آپس کی رضامندی سے جو طے کرلو اس میں تم پر کوئی گناه نہیں، بے شک اللہ تعالیٰ علم واﻻ حکمت واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں، جو شوہردار ہوں۔ مگر وہ ایسی عورتیں جو (شرعی جہاد میں) تمہاری ملکیت میں آئیں۔ یہ آئین ہے، اللہ کا جو تم پر لازم ہے۔ اور ان کے علاوہ جو عورتیں ہیں وہ تمہارے لئے حلال ہیں کہ اپنے مال (حق مہر) کے عوض ان سے شادی کرلو۔ بدکاری سے بچنے اور پاکدامنی کو قائم رکھنے کے لیے اور ان عورتوں میں سے جن سے تم متعہ کرو۔ تو ان کی مقررہ اجرتیں ادا کر دو۔ اور اگر زرِ مہر مقرر کرنے کے بعد تم آپس میں (کم و بیش پر) راضی ہو جاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بے شک اللہ بہت جاننے والا اور بڑی رحمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اورتم پر حرام ہیں شادی شدہ عورتیں- علاوہ ان کے جو تمہاری کنیزیں بن جائیں- یہ خدا کا کھلا ہوا قانون ہے اور ان سب عورتوں کے علاوہ تمہارے لئے حلال ہے کہ اپنے اموال کے ذریعہ عورتوں سے رشتہ پیدا کرو عفت و پاک دامنی کے ساتھً سفاح و زنا کے ساتھ نہیں پس جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دے اور فریضہ کے بعد آپس میں رضا مندی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے بیشک اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے
9 Tahir ul Qadri
اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
10 Tafsir as-Saadi
نیز ان عورتوں سے بھی نکاح حرام ہے جو اس آیت میں مذکور ہیں۔ ﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ ﴾” اور شوہر والی عورتیں بھی“ (تم پر حرام ہیں) یعنی جو پہلے سے شادی شدہ اور خاوند والی ہیں۔ جب تک یہ عورتیں پہلے شوہر کی زوجیت میں ہیں اور جب تک پہلا خاوند طلاق نہ دے دے اور یہ اپنی عدت پوری نہ کرلیں، اس وقت تک دوسرے خاوند کے لیے حرام ہیں۔ ﴿إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ﴾ البتہ تمہارے لیے تمہاری لونڈیاں حلال ہیں۔ اگر جنگ کے دوران خاوند والی عورت کو قیدی بنا لیا جائے تو وہ استبرائے رحم (ایک حیض) کے بعد مسلمانوں کے لیے حلال ہے۔ اگر منکوحہ لونڈی کو فروخت کردیا جائے یا کسی کو ہبہ میں دے دیا جائے تو اس سے لونڈی کا نکاح فسخ نہیں ہوگا۔ دوسرا مالک پہلے مالک کے مقام پر تصور کیا جائے گا اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو اپنے خاوند کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار عطا فرمایا تھا۔ [سنن ابي داؤد، الطلاق، باب في المملوكة تعتق و هي تحت حرا أو عبد، حديث: 2231] ﴿كِتَابَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ﴾ ”(یہ حکم) اللہ نے تم پر فرض کردیا ہے۔“ اس کا التزام کرو اور اس کو راہنما بناؤ۔ کیونکہ اس کے اندر تمہارے لیے شفا اور روشنی ہے اور اس کے اندر حلال و حرام کی تفصیلات ہیں۔ ﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ ﴾ ہر وہ عورت جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں نہیں ہے، وہ حلال ہے۔ حرام محدود ہے اور حلال لامحدود اور غیر محصور ہے یہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر لطف و کرم، اس کی رحمت اور ان کے لیے اس کی عطا کردہ آسانی ہے۔ ﴿أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم ﴾ ” اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو۔“ یعنی ان عورتوں میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مباح قرار دیا ہے، جن کو تمہاری نظر نے منتخب کیا (ان کو حق مہر کے عوض) اپنے نکاح میں لاؤ۔ ﴿مُّحْصِنِينَ ﴾ ” نکاح کرنے والے ہو“ یعنی خود بھی زنا سے محفوظ رہتے ہوئے اور اپنی عورتوں کو بھی زنا سے بچاتے ہوئے۔ ﴿ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ﴾ ” نہ کہ بدکاری کرنے والے“ (اَلسَّفْحُ) سے مراد ہے حرام یا حلال جگہ پانی بہانا۔ (یعنی مباشرت کرنا) کیونکہ زنا کا ارتکاب کرنے والا اپنی بیوی کو محفوظ نہیں رکھ سکتا کیونکہ وہ اپنی شہوت حرام طریقے سے پوری کرتا رہا، پس اس میں حلال طریقے سے شہوت پوری کرنے کا داعیہ کمزور پڑگیا، بنا بریں اپنی بیوی کو پاکباز رکھنے کے لیے اس کے پاس کچھ باقی نہ بچا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ صرف پاک دامنوں سے نکاح کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ﴾ (النور :24؍3) ” بدکار مرد بدکار عورت یا مشرک عورت کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور بدکار عورت کے ساتھ بھی بدکار یا مشرک ہی نکاح کرتا ہے۔ “ ﴿فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ ﴾ ” تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو۔“ یعنی جن کے ساتھ تم نے نکاح کیا ہے ﴿ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ﴾ ” تو ان کو ان کا مہر ادا کر دو۔“ یعنی تم ان کے جسم سے فائدہ اٹھانے کے بدلے میں ان کو ان کا اجر یعنی حق مہر ادا کرو۔ بنا بریں جب شوہر اپنی بیوی کے ساتھ خلوت کرے سب سے پہلے مہر مقرر کرے ﴿ فَرِيضَةً ﴾” جو مقرر کیا ہو۔“ یعنی تمہاری اپنی بیویوں کو مہر عطا کرنا تم پر فرض ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے۔ یہ کوئی عطیہ اور بخشش نہیں ہے کہ دل چاہا تو دے دیا اور دل چاہا تو واپس لے لیا۔ یا ” فَرِیْضَۃً“ کے ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ مہر ایک مقرر کردہ حق ہے، جسے تم نے خود مقرر کیا ہے، جس کی ادائیگی تم پر واجب ہے، پس تم اس میں سے کچھ کم نہ کرو۔ ﴿ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ﴾ ” اور تم پر گناہ نہیں اس میں جس پر تم مہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہوجاؤ“ یعنی اگر شوہر مقرر کردہ مہر سے زیادہ ادا کردیتا ہے یا بیوی برضا و رغبت مہر میں سے کچھ حصہ ساقط کردیتی ہے۔ (تو ایسا کرناجائز ہے) اکثر مفسرین کا قول یہی ہے۔ بعض دیگر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ آیت کریمہ متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں حلال اور جائز تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دے دیا۔ متعہ کی صورت یہ تھی کہ وقت اور معاوضہ مقرر کردیا جاتا تھا، پھر جب ان دونوں کے درمیان معینہ مدت پوری ہوجاتی اور مہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہوجاتے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوتا۔ واللہ اعلم ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾ ” بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ وسیع، کامل علم اور کامل حکمت والا ہے۔ یہ اس کا علم اور حکمت ہی ہے کہ اس نے تمہارے لیے یہ قوانین بنائے اور تمہارے لیے یہ حدود مقرر کیں جو حلال و حرام کے درمیان فاصلہ رکھتی ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
neez woh aurten ( tum per haram hain ) jo doosray shohron kay nikah mein hon , albatta jo kaneezen tumhari milkiyat mein aajayen ( woh mustasna hain ) . Allah ney yeh ehkaam tum per farz kerdiye hain . inn aurton ko chorr ker tamam aurton kay baaray mein yeh halal kerdiya gaya hai kay tum apna maal ( bator mehar ) kharch ker kay unhen ( apney nikah mein lana ) chahao , ba-shartey-kay tum unn say ba-qaeeda nikah ka rishta qaeem ker kay iffat hasil kero , sirf shehwat nikalna maqsood naa ho . chunacheh jinn aurton say ( nikah ker kay ) tum ney lutf uthaya ho , unn ko unn ka woh mehar ada kero jo muqarrar kiya gaya ho . albatta mehar muqarrar kernay kay baad bhi jiss ( kami beshi ) per tum aapas mein razi hojao , uss mein tum per koi gunah nahi . yaqeen rakho kay Allah her baat ka ilm bhi rakhta hai , hikmat ka bhi malik hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
میدان جنگ سے قبضہ میں آنے والی عورتیں اور۔۔ متعہ یعنی خاوندوں والی عورتیں بھی حرام ہیں، ہاں کفار عورتیں جو میدان جنگ میں قید ہو کر تمہارے قبضے میں آئیں تو ایک حیض گزارنے کے بعد وہ تم پر حلال ہیں، مسند احمد میں حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ جنگ اوطاس میں قید ہو کر ایسی عورتیں آئیں جو خاوندوں والیاں تھیں تو ہم نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی بابت سوال کیا تب یہ آیت اتری ہم پر ان سے ملنا حلال کیا گیا ترمذی ابن ماجہ اور صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے، طبرانی کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ جنگ خیبر کا ہے، سلف کی ایک جماعت اس آیت کے عموم سے استدلال کرکے فرماتی ہے کہ لونڈی کو بیچ ڈالنا ہی اس کے خاوند کی طرف سے اسے طلاق کامل کے مترادف ہے، ابراہیم سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا جب کوئی خاوند والی لونڈی بیچی جائے تو اس کے جسم کا زیادہ حقدار اس کا مالک ہے، حضرت ابی بن کعب حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت ابن عباس کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ اس کا بکنا ہی اس کی طلاق ہے، ابن جریر میں ہے کہ لونڈی کی طلاقیں چھ ہیں، بیچنا بھی طلاق ہے آزاد کرنا بھی ہبہ کرنا بھی برات کرنا بھی اور اس کے خاوند کا طلاق دینا بھی (یہ پانچ صورتیں تو بیان ہوئیں چھٹی صورت نہ تفسیر ابن کثیر میں ہے نہ ابن جریر میں۔ مترجم) حضرت ابن المسیب فرماتے ہیں کہ خاوند والی عورتوں سے نکاح حرام ہے لیکن لونڈیاں ان کی طلاق ان کا بک جانا ہے، حضرت معمر اور حضرت حسن بھی یہی فرماتے ہیں ان بزرگوں کا تو یہ قول ہے لیکن جمہور ان کے مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ بیچنا طلاق نہیں اس لئے کہ خریدار بیچنے والے کا نائب ہے اور بیچنے والا اس نفع کو اپنی ملکیت سے نکال کر بیچ رہا ہے، ان کی دلیل حضرت بریرہ والی حدیث ہے جو بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے جب انہیں خرید کر آزاد کردیا تو ان کا نکاح مغیث سے فسخ نہیں ہوا بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں فسخ کرنے اور باقی رکھنے کا اختیار دیا اور حضرت بریرہ نے فسخ کرنے کو پسند کیا یہ واقعہ مشہور ہے، پس اگر بک جانا ہی طلاق ہوتا جیسے ان بزرگوں کا قول ہے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت بریرہ کو ان کے بک جانے کے بعد اپنے نکاح کے باقی رکھنے نہ رکھنے کا اختیار نہ دینے، اختیار دینا نکاح کے باقی رہنے کی دلیل ہے، تو آیت میں مراد صرف وہ عورتیں ہیں جو جہاد میں قبضہ میں آئیں واللہ اعلم۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ محصنات سے مراد پاک دامن عورتیں ہیں یعنی عفیفہ عورتیں جو تم پر حرام ہیں جب تک کہ تم نکاح اور گواہ اور مہر اور ولی سے ان کی عصمت کے مالک نہ بن جاؤ خواہ ایک ہو خواہ دو خواہ تین خواہ چار ابو العالیہ اور طاؤس یہی مطلب بیان فرماتے ہیں۔ عمر اور عبید فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ چار سے زائد عورتیں تم پر حرام ہیں ہاں کنیزوں میں یہ گنتی نہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ حرمت اللہ تعالیٰ نے تم پر لکھ دی ہے یعنی چار کی پس تم اس کی کتاب کو لازم پکڑو اور اس کی حد سے آگے نہ بڑھو، اس کی شریعت اور اس کے فرائض کے پابند رہو، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حرام عورتیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ظاہر کردیں۔ پھر فرماتا ہے کہ جن عورتوں کا حرام ہونا بیان کردیا گیا ان کے علاوہ اور سب حلال ہیں، ایک مطلب یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان چار سے کم تم پر حلال ہیں، لیکن یہ قول دور کا قول ہے اور صحیح مطلب پہلا ہی ہے اور یہی حضرت عطا کا قول ہے، حضرت قتادہ اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد لونڈیاں ہیں، یہی آیت ان لوگوں کی دلیل ہے جو دو بہنوں کے جمع کرنے کی حلت کے قائل ہیں اور ان کی بھی جو کہتے ہیں کہ ایک آیت اسے حلال کرتی ہے اور دوسری حرام۔ پھر فرمایا تم ان حلال عورتوں کو اپنے مال سے حاصل کرو چار تک تو آزاد عورتیں اور لونڈیاں بغیر تعین کے لیکن ہو بہ طریق شرع۔ اسی لئے فرمایا زنا کاری سے بچنے کے لئے اور صرف شہوت رانی مقصود نہیں ہونا چاہئے۔ پھر فرمایا کہ جن عورتوں سے تم فائدہ اٹھاؤ ان کے اس فائدہ کے مقابلہ میں مہر دے دیا کرو، جیسے اور آیت میں ہے و کیف تاخذونہ وقد افضی بعضکم الی بعض یعنی تم مہر کو عورتوں سے کیسے لو گے حالانکہ ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور فرمایا و اتوا النساء صدقاتہن نحلتہ عورتوں کے مہر بخوشی دے دیا کرو اور جگہ فرمایا ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتمو ہن شیأا الخ، تم نے جو کچھ عورتوں کو دے دیا ہو اس میں سے واپس لینا تم پر حرام ہے، اس آیت سے نکاح متعہ پر استدلال کیا ہے بیشک متعہ ابتداء اسلام میں مشروع تھا لیکن پھر منسوخ ہوگیا، امام شافعی اور علمائے کرام کی ایک جماعت نے فرمایا ہے کہ دو مرتبہ متعہ مباح ہوا پھر منسوخ ہوا۔ بعض کہتے ہیں اس سے بھی زیادہ بار مباح اور منسوخ ہوا، اور بعض کا قول ہے کہ صرف ایک بار مباح ہوا پھر منسوخ ہوگیا پھر مباح نہیں ہوا۔ حضرت ابن عباس اور چند دیگر صحابہ سے ضرورت کے وقت اس کی اباحت مروی ہے، حضرت امام احمد بن حنبل سے بھی ایک روایت ایسی ہی مروی ہے ابن عباس ابی بن کعب سعید بن جیبر اور سدی سے منہن کے بعد الی اجل مسمی کی قرأت مروی ہے، مجاہد فرماتے ہیں یہ آیت نکاح متعہ کی بابت نازل ہوئی ہے، لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں اور اس کا بہترین فیصلہ بخاری و مسلم کی حضرت علی والی روایت کردیتی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر والے دن نکاح متعہ سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمادیا، اس حدیث کے الفاظ کتب احکام میں مقرر ہیں، صحیح مسلم شریف میں حضرت سیرہ بن معبد جہنی (رض) سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے غزوہ میں وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے آپ نے ارشاد فرمایا اے لوگو میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی رخصت دی تھی یاد رکھو بیشک اب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کردیا ہے جس کے پاس اس قسم کی کوئی عورت ہو تو اسے چاہئے کہ اسے چھوڑ دے اور تم نے جو کچھ انہیں دے رکھا ہو اس میں سے ان سے کچھ نہ لو، صحیح مسلم شریف کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے حجتہ الوداع میں یہ فرمایا تھا، یہ حدیث کئی الفاظ سے مروی ہے، جن کی تفصیل کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں، پھر فرمایا کہ تقرر کے بعد بھی اگر تم بہ رضامندی کچھ طے کرلو تو کوئی حرج نہیں، اگلے جملے کو متعہ پر محمول کرنے والے تو اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ جب مدت مقررہ گزرجائے پھر مدت کو بڑھا لینے اور جو دیا ہو اس کے علاوہ اور کچھ دینے میں کوئی گناہ نہیں، سدی کہتے ہیں اگر چاہے تو پہلے کے مقرر مہر کے بعد جو دے چکا ہے وقت کے ختم ہونے سے پیشتر پھر کہہ دے کہ میں اتنی اتنی مدت کے لئے پھر متعہ کرتا ہوں پس اگر اس نے رحم کی پاکیزگی سے پہلے دن بڑھا لئے تو جب مدت پوری ہوجائے تو پھر اس کا کوئی دباؤ نہیں وہ عورت الگ ہوجائے گی اور حیض تک ٹھہر کر اپنے رحم کی صفائی کرلے گی ان دونوں میں میراث نہیں نہ یہ عورت اس مرد کی وارث نہ یہ مرد اس عورت کا، اور جن حضرات نے اس جملہ کو نکاح مسنون کے مہر کی کے مصداق کہا ہے ان کے نزدیک تو مطلب صاف ہے کہ اس مہر کی ادائیگی تاکیداً بیان ہو رہی ہے جیسے فرمایا مہر بہ آسانی اور بہ خوشی دے دیا کرو، اگر مہر کے مقرر ہوجانے کے بعد عورت اپنے پورے حق کو یا تھوڑے سے حق کو چھوڑ دے صاف کر دے اس سے دست بردار ہوجائے تو میاں بیوی میں سے کسی پر کوئی گناہ نہیں، حضرت حضرمی فرماتے ہیں کہ لوگ اقرار دیتے ہیں پھر ممکن ہے کہ تنگی ہوجائے تو اگر عورت اپنا حق چھوڑ دے تو جائز ہے، امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند کرتے ہیں، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ مہر کی رقم پوری پوری اس کے حوالے کردے پھر اسے بسنے اور الگ ہونے کا پورا پورا اختیار دے، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ علیم و حکیم ہے ان کا احکام میں جو حلت و حرمت کے متعلق ہیں جو رحمتیں ہیں اور جو مصلحتیں ہیں انہیں وہی بخوبی جانتا ہے۔