Skip to main content

وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاۤءِ اِلَّا مَا مَلَـكَتْ اَيْمَانُكُمْۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْۚ وَاُحِلَّ لَـكُمْ مَّا وَرَاۤءَ ذٰ لِكُمْ اَنْ تَبْتَـغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسَافِحِيْنَ ۗ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰ تُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِيْضَةً ۗ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا تَرٰضَيْـتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْـفَرِيْضَةِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا

And (prohibited are) the ones who are married
وَٱلْمُحْصَنَٰتُ
اور جو شادی شدہ ہیں
of
مِنَ
میں سے
the women
ٱلنِّسَآءِ
عورتوں
except
إِلَّا
مگر
whom
مَا
وہ جن کے
you possess
مَلَكَتْ
مالک ہوئے
rightfully
أَيْمَٰنُكُمْۖ
تمہارے دائیں ہاتھ
Decree
كِتَٰبَ
لکھی ہوئی بات ہے
(of) Allah
ٱللَّهِ
اللہ کی۔
upon you
عَلَيْكُمْۚ
تم پر
And are lawful
وَأُحِلَّ
اور حلال کیا گیا
to you
لَكُم
تمہارے لئیے
what
مَّا
جو
(is) beyond
وَرَآءَ
علاوہ ہیں ان کے
that
ذَٰلِكُمْ
یہ اس لئیے کہ
that
أَن
یہ کہ
you seek
تَبْتَغُوا۟
تلاش کرو تم
with your wealth
بِأَمْوَٰلِكُم
اپنے مالوں کے ساتھ
desiring to be chaste
مُّحْصِنِينَ
قید نکاح میں لانے والے
not
غَيْرَ
نہ
(to be) lustful
مُسَٰفِحِينَۚ
بدکاری کرنے والے
So what
فَمَا
تو جو
you benefit[ed]
ٱسْتَمْتَعْتُم
تم فائدہ اٹھاو
of it
بِهِۦ
ساتھ اس کے
from them
مِنْهُنَّ
ان عورتوں سے
so you give them
فَـَٔاتُوهُنَّ
تو دے دو انکو
their bridal due
أُجُورَهُنَّ
مہر ان کے
(as) an obligation
فَرِيضَةًۚ
بطور فرض
And (there is) no
وَلَا
اور نہیں
sin
جُنَاحَ
کوئی گناہ
on you
عَلَيْكُمْ
تم پر
concerning what
فِيمَا
اس معاملہ میں جو
you mutually agree
تَرَٰضَيْتُم
ہم رضا مند ہوئے
of it
بِهِۦ
ساتھ اس کے
from
مِنۢ
کے
beyond
بَعْدِ
بعد
the obligation
ٱلْفَرِيضَةِۚ
مہر
Indeed
إِنَّ
بیشک
Allah
ٱللَّهَ
اللہ
is
كَانَ
ہے
All-Knowing
عَلِيمًا
جاننے والا ہے
All-Wise
حَكِيمًا
حکمت والا ہے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں۔ (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اسطرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی۔ تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو انکا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو۔ اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
آیت نمبر ٢٤ تا ٢٥
ترجمہ : اور حرام کردی گئی ہیں تمہارے لئے شوہر والی عورتیں یہ کہ ان سے ان کے شوہروں کی مفارقت کے بغیر نکاح کرو خواہ آزاد مسلمان عورتیں ہوں یا دیگر، مگر یہ کہ وہ باندیاں کہ جو گرفتار ہو کر تمہاری قید میں آجائیں تو تمہارے لئے جائز ہے کہ ان سے وطی کرواستبراء (رحم) کے بعد، اگرچہ دارالحراب میں ان کے شوہرموجود ہوں، اللہ نے (ان احکام کو) تم پر فرض کردیا ہے نصب مصدریت کی وجہ سے ہے ای کَتَبَ ذلک، اور تمہارے لئے مذکورہ حرام کردہ عورتوں کے علاوہ حلال کردی گئی ہیں یہ کہ تم عورتوں کو اپنے مالوں کے ذریعہ مہر یا قیمت طلب کرو (اس طریقہ پر) کہ ارادہ نکاح کا ہو نہ کہ (محض) شہوت رانی کرنے والے، اس لئے جن سے تم نے فائدہ اٹھایا ہے تو ان کو ان کا طے شدہ مہر جو تم نیان کے کیلئے مقرر کیا ہے اور تم پر اس مقدار کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم اور وہ مہر مقرر ہونے کے بعد راضی ہوجائو کل کو ساقط کر کے یا کچھ کمی زیاتی کرکے بیشک اللہ اپنی مخلوق کے بارے میں بڑا جاننے والا اور اس نظم کے بارے میں جو اس نے مخلوق کے لئے قائم کیا بڑی حکمت والا ہے اور جو شخص تم میں سے آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو ایمان کی صفت غالب کی بناء پر ہے لہذا اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں ہے۔ تو وہ مسلمان باندیوں سے جن کے مالک ہو (نکاح کرلے) اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے لہذا اس کے ظاہری ایمان پر اکتفاء کرو، اور رازوں کو اللہ کے حوالہ کرو، اسلئے کہ نکاح سے مانوس کرنا ہے اور تم آپس میں ایک ہی تو ہو یعنی تم اور وہ دین میں برابر ہو لہٰذا ان سے نکاح کرنے میں عار محسوس نہ کرو اس لئے ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کرلو، اور دستور کے مطابق بغیر ٹال مٹول اور بغیر کمی ان کے مہر ان کو دیدیا کرو۔ حال یہ کہ وہ پاک دامن ہوں نہ کہ کھلم کھلا زنا کرنے والیاں اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں، کہ جس کی وجہ سے خفیہ طور پر زنا کرنے والی ہوں۔ پس جب یہ باندیاں نکاح میں آجائیں اور ایک قراءت میں معروف کے صیغہ کے ساتھ ہے یعنی جب وہ نکاح کرلیں، پھر اگر وہ بےحیائی زنا کی مرتکب ہوں تب ان کی سزا آزاد غیر شادی شدہ کی آدھی ہے جب وہ زنا کریں تو ان کو پچاس کوڑے لگائے جائیں اور نصف سال جلا وطن کردیا جائے۔ اور اسی پر غلاموں کو قیاس کیا جا ئیگا، اور احصان وجوب حد کے شرط کے طور پر نہیں ہے بلکہ اس بات کا فائدہ دینے کے لئے ہے کہ ان پر رجم قطعا نہیں ہے (آزاد پر) قدرت نہ ہونے کی صورت میں باندیوں سے نکاح کا حکم ان لوگوں کیلئے ہے جنہیں تم میں سے گناہ زنا، کا اندیشہ ہے اور عَنَتْ کے اصل معنی مشقت کے ہیں اور زنا کا نام مشقت اسلئے رکھا گیا ہے کہ زنا دْنیا میں حَدْ ، اور آخرت میں سزا کا سبب ہے۔ بخلاف ان آزاد لوگوں کے ان کو (زنا میں مبتلا ہونیکا) خوف نہیں ہے، تو ان کے لئے باندیوں سے نکاح حلال نہیں ہے، اور یہی حکم اس شخص کا ہے جو آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور یہی امام شافعی (رح) تعالیٰ کا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے قول مومنات کی قید سے کافرات خارج ہوگئیں اس شخص کے لئے بھی باندیوں سے نکاح حلال نہیں ہے اگرچہ قدرت مفقود اور زنا کا خوف ہو۔ اور اگر تم باندیوں سے نکاح کرنے کو ضبط کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ بچہ غلام نہ ہو۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا اس معاملہ میں وسعت کے ذریعہ بڑا رحم کرے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : وحُرِّمَتْ عَلَیْکم المحصَنٰتُ ، جمہور کے نزدیک فتئحہ صاد کے ساتھ، اسم مفعول ہے، وہ عورتیں جنہوں نے نکاح کے ذر یعہ اپنی شرمگاہوں کو محفوظ کرلیا ہو ( یعنی شادی شدہ عورتیں) اس آیت کے علاوہ ہر جگہ کسائی نے صاد کے کسرہ کے ساتھ بصیغئہ اسم فاعل پڑھا ہے۔
قولہ : حُرِّمَتْ عَلَیْکم، حُرِّمَتْ کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ المحصَنٰتُ کا عطف اُمَّھَاتُکُم پر ہے مُحْصَنات (یعنی شوہر والی عورتیں) بھی سلسلئہ محرمات میں داخل ہیں، اَلمحصَنٰت، اسم مفعول جمع مئونث کا صیغہ ہے واحد مُحْصَنٰةُ \& ہے قرآن کریم میں اِحْصَان چار معنی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ ١۔ شادیشدہعورتیں ٢۔ آزادعورتیں ٣۔ پاکدامنعورتیں ٤۔ مسلمان عورتیں، یہاں پہلے معنی یعنی شادی شدہ عورتیں مراد ہیں، مفِسّرعَلّام نے ذَوْاتُ الْازْواج کہہ کر اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : اَنْ تَنْکِحُوْھُنَّ ، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : حرمت افعال میں ہوتی ہے نہ کہ ذوات میں حالانکہ حُرِّمَتْ عَلَیکم المحصَنٰت سے ذات کی حرمت مفہوم ہورہی ہے ؟
جواب : مفسر علام نے اَنْ تَنکِحُوھُنَّ ، کا اضافہ کرکے اسی کا جواب دیا ہے یعنی محصَنٰت سے نکاح کرنا حرام ہے نہ کہ ان کی ذات۔
قولہ : قَبْلَ المُفَارَقّةِ اس اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بعد المفارقت نکاح کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے خواہ عورت آزاد ہو یا باندی۔
قولہ : بالسَبْیِ اس میں اشارہ ہے کہ بلا مفارقت، وطی اسی باندی سے جائز ہے جو گرفتار ہو کر آئی ہو اور اگر خرید کردہ ہے اور وہ شادی شدہ ہے تو اس سے بلا مفارقتِ زوْج وطی جائز نہیں ہے۔
قولہ : نَصْبعلی المَصْد رِیّةِ ، اس میں اشارہ ہے کہ، کتابَ اللّٰہ مصدریت کی وجہ سے منصوب ہے کتاب کا عامل کَتَبَ ، حُرِّمَتْ سے مستفاد ہے، اس لئے کہ تحریم اور کتاب اور فرض ایک ہی معنی میں ہیں مفسرّعلام نے کَتَبَ ذلک، کہہ کر اسی عامل مخدوف کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : وَاُحِلَّ لکم، اس کا عطف کتاب اللّٰہ کے عامل مقدر پر ہے، اگر فعل مقدر کَتَبَ پر عطف ہو تو اَحَلَّ ، معروف ہوگا اور اگر حُرِّمَتْ ، پر ہو تو اُحِلَّ ، مجہول ہوگا۔
قولہ : ھُوَجَرْی عَلیَ الغَالِبِ ، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : المئومنات کی قید سے معلوم ہوتا ہے کتابیات سے نکاح درست نہیں ہے۔
جواب : المئومنات کی قید غالب کے اعتبار سے ہے ورنہ نکاح کے بارے میں جو حکم آزاد مومنات کا ہے وہی حکم آزاد کتابیات کا بھی ہے، لہٰذا اس کا مفہوم مخالف مراد لینا درست نہ ہوگا۔
قولہ : مُحْصَنَات، یہ فانکحوھنَّکی ضمیر سے حال ہے نہ کہ صفت اسلئے کہ ضمیر نہ موصوف واقع ہوتی ہے اور نہ صفت، مشہور قاعدہ ہے الضمیرلا یْوْصَفُ ولا یوصفُ بہ۔
قولہ : غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ یہ حال مئوکدّہ ہے، مُسَافِحِیْنَ ، کی جمع ہے بمعنی زانی۔
قولہ : اَخْدَان یہ خِِِدْن کی جمع ہے بمعنی دوست۔
تَفسِیروتَشریح
اس رکوع میں محرّمات کا ذکر ہے، محرمات کی چار قسمیں ہیں جن میں تین محرماتِ ابدیہ ہیں (١) محرمات نسبیہ (٢) محرمات رضاعیہ (٣) محرمات بالمصاہرة، انکی تفصیل سابق میں گذر چک ی ہے (٤) محرمات غیرابدیہ۔ اس چوتھی قسم کا ذکر والمحصنت من النساء سے کیا ہے محصنٰت سے مراد شوہر دار عورتیں ہیں، عورت جب تک کسی کے نکاح میں ہو تو دوسرے شخص کے لئے اس سے نکاح جائز نہیں اس سے بخوبی واضح ہوگیا کہ عورت بیک وقت ایک سے زائد شوہر دار نہیں ہوسکتی، اِلاّ ماملکت اَیْمانکم یہ جملہ المحصنٰت من النساء سے استثناء ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہردار عورت سے دوسرے شخص کا نکاح جائز نہیں ہے اِلَّایہ کہ وہ عورت مملو کہ باندی ہو کر آجائے اگرچہ اس کا شوہر دارالحرب میں موجود ہو چونکہ عورت کے دارلاسلام میں آجانے کی وجہ سے اس کا نکاح، سابق شوہر سے ختم ہوگیا ہے یہ عورت خواہ کتابیہ ہو یا مسلمہ اس سے دارالاسلام کا کوئی بھی مسلمان نکاح کرسکتا ہے مگر استمتاع ایک حیض آنے کے بعد ہی جائز ہوگا، اور حاملہ ہے تو وضع حمل ضروری ہے، اس کے بغیر استمتاعِ جنسی درست نہ ہوگا، اور اگر حکومت کی جانب سے مال غنیمت میں حاصل شدہ باندی کسی فوجی سپاہی کو مال غنیمت کے طور پر دیدی جائے تب بھی اس سے جنسی استمتاع جائز ہے مگر یہ استمتاع بھی وضع حمل یا ایک حیض آنے کے بعد ہی جائز ہوگا۔
جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں انکو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباثرت کا مجاز نہیں، بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالہ کردی جائیں گی، حکومت کو اختیار ہوگا کہ چاہے تو ان کو رہا کردے اور اگر چاہے تو ان سے فدیہ لے، چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کرے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے تو انھیں سپاہیوں میں تقسیم کر دے، سپاہی صرف اسی عورت سے استمتاع کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔
جنگ میں پکڑی گئی عورتوں کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب میں سے ہوں، ان کا مذہب خواہ کچھ بھی ہو جب تقسیم کے بعد جس کے حصے میں آئیں ان سے استمتاع کرسکتا ہے۔
جو عورت جس کے حصے میں آئے وہی شخص اس سے استمتاع کرسکتا ہے کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں، اس عورت سے جو اولاد ہوگی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائیگی جس کی ملک میں وہ عورت ہے، اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لئے مقرر ہیں صاحب اولاد ہونے کے بعد وہ عورت فروخت نہ ہو سکے گی وہ عورت ام ولد کہلائے گی اور مالک کے مرتے ہی خودبخود آزاد ہوجائے گی۔
مالک اگر اپنی مملوکہ کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کردے تو مالک کو دیگر خدمات لینے کا تو حق رہتا ہے لیکن جنسی تعلقات قائم کرنے کا حق نہیں رہتا۔
اسیرانِ جنگ میں سے اگر کوئی اسیر حکومت کسی شخص کو دیدے تو حکومت کو اس سے واپس لینے کا حق نہیں رہتا۔
کِنابَ اللّٰہِ عَلَیْکم، یہ مصدریت کی وجہ سے فعل مخدوف کے ذریعہ منصوب ہے ای کَتَبُ اللّٰہ ذلک عَلَیْکم کتاباً ، یعنی جن محرمات کا ذکر ہوا ہے ان کی حرمت اللہ کی طرف سے ہے اور یہ خدائی قانون ہے جو تمہارے اوپر لازم ہے۔
اَنْ تَبْتَغُوابِاَمْوَالِکُم، یعنی محرمات کا یہ بیان اس لئے کیا گیا ہے کہ تم اپنے مالوں کے ذریعہ حلال عورتیں تلاش کرو اور ان کو اپنے نکاح میں لائو، ابوبکر جصاص (رح) تعالیٰ احکام القرآن میں لکھتے ہیں کہ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ نکاح مہر کے بغیر نہیں ہوسکتا حتیٰ کہ اگر زوجین آپس میں یہ طے کرلیں کہ نکاح، مہر کے بغیر کریں گے تب بھی مہر لازم ہوگا دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مہر وہ چیز ہوگی جس کو مال کہا جاسکے، احناف کا مذہب یہ ہے کہ دس درہم سے کم مہر نہ ہونا چاہیے ایک درہم ساڑھے چار ماشہ یا ٣ گرام ٦٢ ملی گرام کے برابر ہوتا ہے اور ٣٦ گرام اور ٢ ملی گرام کے مساوی ہوں گے۔
متعہ کی بحث : فَمَااستَمْتَعْتُمْ بِہ منھُنَّ فَاٰ تُوھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیضَةً (یعنی بعد از نکاح) جن عورتوں سے استمتاع کرلو تو ان کے مہر دیدو، یہ دینا تمہارے اوپر فرض کیا گیا ہے، اس آیت میں استمتاع سے بیویوں سے ہمبستر ہونا مراد ہے، اگر محض نکاح ہوجائے مگر شوہر کو وطی کا موقع نہ ملے بلکہ وہ اس سے پہلے ہی طلاق دیدے یا عورت کا انتقال ہوجائے تو نصف مہر واجب ہوتا ہے اور اگر استمتاع کا موقع مل جائے تو پورا مہر واجب ہوتا ہے، اس آیت میں اسی حکم کی طرف خصوصی توجہ دلائی گئی ہے۔
لفظ استمتاع کا مادہ (م ت ع) ہے جس کے معنی استفادہ کرنے اور فائدہ اٹھانے کے ہیں فائدہ خواہ مالی ہو یا جسمانی، اس لغوی تحقیق کی روشنی میں فَمَااسْتَمْتَعْتُم کا سیدھا اور صاف مطلب پوری امت کے نزدیک خلفاً عن سلف وہی ہے جو اوپر بیان کیا ہے لیکن فرقہ امامیہ کے نزدیک اس سے اصطلاحی متعہ مراد ہے اور وہ اسی آیت سے استدلال کرتے ہیں، حالانکہ اصطلاحی متعہ کی صاف تردید قرآن کریم کی آیت بالا میں لفظ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافَحِیْنَ سے ہو رہی ہے۔
متعہ کی صورت : اصطلاحی متعہ جس کے جواز کا فرقہ امامیہ مدعی ہے یہ ہے کہ ایک مرد کسی عورت سے یوں کہے کہ اتنے دن یا اتنے وقت کے لئے اتنی رقم کے عوض میں تم سے متعہ کرتا ہوں، متعہ اصطلاحی کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، محض مادہ اشتقاق کو دیکھ کر یہ فرقہ مدعی ہے کہ اس آیت سے حلت متعہ کا ثبوت ہو رہا ہے۔
جواز متعہ کی نسبت حضرت امام مالک (رح) تعالیٰ کی جانب بھی بعض حضرات نے کی ہے جن میں صاحب ہدایہ اور امام سرخسی صاحب مبسوط بھی شامل ہیں لیکن یہ نسبت تسامح ہے جیسا کہ شراح ہدایہ نے تصریح کی ہے کہ صاحب ہدایہ سے یہ تسامح ہوا ہے۔
البتہ بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) آخرتک حلّت متعہ کے قائل تھے، حالانکہ ایسا نہیں ہے امام مالک (رح) تعالیٰ کی جانب جواز متعہ کی نسبت میں بڑی قیل وقال ہوئی ہے بعض اکا بر حنفیہ جن میں پیش پیش ہدایہ کے نا مور شارح ابن ھمام ہیں نے اس انتساب کو غلط ٹھہرایا ہے النسبة الی مالک غلط (فتح القدیر) ونقل الحل عن مالک لا اصل لہ . (روح)
اور بڑی بات یہ کہ مالکیہ کی کتابوں سے بھی اس فتوے کے جواز کی تائید نہیں ہوتی بلکہ براہ راست یا بالواسطہ اس کی مخالفت ہی نکلتی ہے۔ وَامّامتعةالنساء فھی من غرائب الشریعةلانّھا ابیحت فی صدرالاسلام ثم حرمت بعد ذلک استقرالامرعلی التحریم (ابن عربی) وَالأنکحةالَّتی وردالنھی فیھا اربعةنکاح منھا المتعة (بدایہ المجتھد) تواترت الَاخْبارعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بتحریمہ . (بدایةالمجتھد)
حدیث میں متعہ کی ممانعت : سب سے بڑھ کر یہ خود حدیث بنوی میں اس کی صاف ممانعت آچکی ہے، مسلم میں ایک طویل حدیث سبزہ بن معبد جہنی سے نقل ہوئی ہے جس کے آخر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔
یٰایّھا الناس اِنّی آذنْتُ لکم فی الاِسْتِمْتاعِ مِنَ النسَائِ واِنَّ اللّٰہَ تعالیٰ قدحرَّم ذلک الی یَوْمِ الِقیامَةِ فمنْ کان عِنْدَہ \& مِنْھُنّ شِیْیٔ فَلْیُخَلِّ سَبِیْلَہ \&، ولاتَاْخُذُوْابِمَااٰتیتُمُوْھُنَّ شَیْئًا .
ترجمہ : اے لوگو ! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دے رکھی تھی لیکن اب اللہ نے اس کو قیامت تک کے لیے حرام کردیا ہے، سو جس کسی کا اس پر عمل ہو وہ اب اس سے باز آجائے اور جو کچھ تم نے ان عورتوں کو دیا ہے وہ ان سے واپس نہ لو۔
دوسری حدیثیں بھی بخاری و مسلم وغیرہ میں نقل ہوئی ہیں ان کا حاصل بھی حکم متعہ کی حرمت ہے اسی لئے ابن عباس (رض) سے فتوائے جواز سے رجوع منقول ہے۔
ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ صح رجوعہ الی قولھم (ہدایہ) قیل ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہُ رجع عن ذلک (معا لم) اب فقہائے اہل سنت کا حرمت متعہ پر اتفاق ہے اور ان کے تمام مفسرین نے اسی شق کو اختیار کیا ہے، اختلاف صرف فرقہ امامیہ (شیعہ) تک محدود رہ گیا ہے۔
بعض لوگوں کا یہ دعویٰ کہ حضرت ابن عباس (رض) آخر تک حلت متعہ کے قائل رہے صحیح نہیں امام ترمذی نے باب ماجاء فی نکاح المتعةکاباب قائم کرکے دو حدیثیں نقل کی ہیں۔
(١) عن علی بن ابی طالب اَنّالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھٰی عن متعةالنساء وعن لحومالحمرالاھلیةزمن خَیْبَرَ .
ترجمہ : حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
حضرت علی (رض) کی مذکورہ حدیث بخاری ومسلم میں بھی ہے۔
(٢) یہ حدیث بھی امام ترمذی نے نقل کی ہے۔ عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہُ قال انماکانتالمتعةفی اولا لاسلام حتّی اذانَزَلَتْ الآیةُاِلّاعلی اَزْوَاجِھماَوْمَامَلَکَتْ اَیمانُھُم قال ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہُ فکُلُّ فَرْجِ سِوَاھمَافَھُوَحَرَام .
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں متعہ اسلام کے عہد اول میں مشروع تھا یہاں تک کہ آیت کریمہ الاعلی ازواجِھم او ماملکت اَیْمانھم، نازل ہوئی تو وہ منسوخ ہوگیا، اس کے بعد حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ زوجہ شرعیہ اور مملوکہ کے علاوہ ہر طرح کی شرمگاہ سے استمتاع حرام ہے۔
البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کچھ عرصہ تک متعہ کے جواز کے قائل رہے پھر حضرت علی (رض) کے سمجھانے (جیسا کہ صحیح مسلم، ج : ا، ص : ٤٥٢ پر ہے) اور آیت شریفہ اِلَّاعلی ازوجھماوماملکت ایمانھم سے متنبہ ہوکررجوع فرمالیاجیسا کہ ترمذی کی روایت سے معلوم ہوا۔ (معارف)
قولِ فیصل دربارہ متعہ : متعہ کے بارے میں قول فیصل محدِّث حازمی کا ہے جسے ابن ھمام نے فتح القدیر میں اور علامہ آلوسی نے روح المعانی میں نقل کیا ہے۔
حازمی نے کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعہ کو ان لوگوں کے لئے جائز نہیں کیا جو کہ وہ اپنے وطن یا گھروں میں بیٹھے ہوں، آپ نے اسے صرف ضرورت ہی کے موقعوں پر جائز کیا ہے، اور آپ نے اپنی آخری عمر میں حجتہ الودع کے موقعہ پر اسے ہمیشہ کے لئے حرام قرار دے دیا چناچہ اس بارے میں ائمہ اور ملک کے علماء میں سے کسی کو بھی اختلاف نہیں بجز شیعوں کے ایک فرقہ کے۔ (ماجدی)
نکاح کا اصل مقصد : نکاح کا اہم مقصد حصول اولاد اور انسانی کی بقا ہوتی ہے نہ کہ محض شہوت رانی، اسی لئے قرآن مجید نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ قید نکاح میں لانیکا مقصد عفت و عصمت کا حصار فراہم کرنا ہو نہ کہ محض مستی نکالنا، اور متعہ مذکورہ باتوں سے خالی ہوتا ہے، متعہ چونکہ ایک محدود وقت کے لئے کیا جاتا ہے اس لئے نہ اس سے حصول اولاد مقصود ہوتی ہے اور نہ گھر بسانا اور نہ عفت و عصمت اور یہی وجہ ہے کہ فریق مخالف اس کو ذوجہ وارثہ قرار نہیں دیتا اور نہ اس کو ازواج معروفہ کی گنتی میں شمار کرتا ہے، چونکہ مقصد قضاء شہوت ہوتا ہے اس لئے مرد اور عورت نئے نئے جوڑے تلاش کرتے رہتے ہیں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ متعہ عفت و عصمت کا ضامن نہیں ہے بلکہ دشمن ہے۔
قرآن کریم نے محرمات کا ذکر کرنے کے بعد یوں فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ اپنے اموال کے ذریعہ حلال عورتیں تلاش کرو اس حال میں کہ پانی بہا نا یعنی محض مستی نکالنا اور شہوت رانی کرنا ہی مقصد نہ ہو۔
متعہ ایک ہنگامی ضرورت تھی : تاریخی روایتوں اور حدیثوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنگ یا طول سفر کے موقعہ پر عقد مؤقت یا و عارضی نکاح کی اجازت محض سپاہیوں کے لئے ہنگامی اور وقتی ضرورت کے پیش نظر ایک بار یا چند بار دی گئی تھی اور بعض صحابہ ایک عرصہ تک اسی خیال میں رہے، باقی مستقل حکم عدم جواز ہی کا ہے (ماجدی) اسی کی تائید عبداللہ بن مسعود کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کی بخاری اور مسلم میں نقل ہوئی ہے۔
کُنَّانَغْرُوْمع النَّبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیس مَعَنَا نِسَائ فقلنا الا نَخْتَصِیْ فنھا ناعن ذلک ثم رَخَّصَ لنا ان نَسْتَمْتِعَ .
ترجمہ : ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں تھے اور بیویاں ہمارے ہمراہ نہ تھیں تو ہم لوگوں نے کہا کہ ہم خود کو خصّی کرالیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس سے منع فرمایا اور ہمارے لئے متعہ کی اجازت دیدی۔
اور مندرجہ ذیل روایت بھی سلمتہ بن اکوع کے حوالہ سے صحیحین میں نقل ہوئی ہے۔
رَخَّصَ النَّبِیّ ُ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَامَ اَوْ طَاس فی المُتْعَةِ ثلاثاً ثٰم نَھَی عنھا .
ترجمہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ اوطاس کے سال متعہ کی اجازت تین رات دیدی تھی مگر اس کے بعد اس کی ممانعت کردی۔
مسئلہ : متعہ کی طرح نکاح مؤقت بھی حرام ہے صرف لفظ نکاح کا فرق ہے۔
ولاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَاتَرَا ضَیْتُمْ بہ مِنْ بَعْدِالفَرِیْضَةِ ، اس کا مطلب یہ ہے کہ باہمی رضا مندی سے مہر مقرر کرنے کے بعد اس میں دونوں فریقوں کی رضامندی سے کمی بیشی ہوسکتی ہے، بیوی اگر چاہے تو پورا یا کچھ حصہ معاف کرسکتی ہے اور شوہر کے لئے بھی جائز ہے کہ مقرر کردہ مقدار سے زیادہ دیدے۔

English Sahih:

And [also prohibited to you are all] married women except those your right hands possess. [This is] the decree of Allah upon you. And lawful to you are [all others] beyond these, [provided] that you seek them [in marriage] with [gifts from] your property, desiring chastity, not unlawful sexual intercourse. So for whatever you enjoy [of marriage] from them, give them their due compensation as an obligation. And there is no blame upon you for what you mutually agree to beyond the obligation. Indeed, Allah is ever Knowing and Wise.

1 Abul A'ala Maududi

اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں (محصنات) البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو (جنگ میں) تمہارے ہاتھ آئیں یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کر دی گئی ہے اِن کے ماسوا جتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال کے ذریعہ سے حاصل کرنا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے، بشر طیکہ حصار نکاح میں اُن کو محفوظ کرو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مہر بطور فرض ادا کرو، البتہ مہر کی قرارداد ہو جانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمہارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اللہ علیم اور دانا ہے