کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں (آسمانی) کتاب کا ایک حصہ عطا کیا گیا وہ گمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم (بھی) سیدھے راستے سے بہک جاؤ،
English Sahih:
Have you not seen those who were given a portion of the Scripture, purchasing error [in exchange for it] and wishing you would lose the way?
1 Abul A'ala Maududi
تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جنہیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے؟ وہ خود ضلالت کے خریدار بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ گم کر دو
2 Ahmed Raza Khan
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن کو کتاب سے ایک حصہ ملا گمراہی مول لیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بہک جاؤ،
3 Ahmed Ali
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کچھ حصہ کتاب سے ملا ہے وہ گمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ گم کر دو
4 Ahsanul Bayan
کیا تم نے نہیں دیکھا، جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے، وہ گمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بھٹک جاؤ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی رستے سے بھٹک جاؤ
6 Muhammad Junagarhi
کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا؟ جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے، وه گمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راه سے بھٹک جاؤ
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جن کو کتاب (الٰہی) کا کچھ حصہ دیا گیا کہ وہ گمراہی خرید رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی سیدھے راستے سے بہک جاؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنہیں کتاب کا تھوڑا سا حصہّ دے دیا گیا ہے کہ وہ گمراہی کا سودا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ سے بہک جاؤ
9 Tafsir Jalalayn
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستے سے بھٹک جاؤ الم تَرَالی الذین اوتوانصیباً من الکتاب، (الآ یة) علماء اہل کتاب کے متعلق قرآن نے اکثر یہ الفاظ استعمال کئے ہیں کہ \&\& انھیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے \&\& اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو انہوں نے کتاب الہٰی کا ایک بڑا حصہ گم کردیا تھا، پھر کتاب الہٰی کا جو کچھ حصہ ان کے پاس موجود تھا اس کی روح اور اس کے مقصد و مدعا سے وہ بیگانے ہوچکے تھے۔ یُحَرِّ فون الکلمَ عن مواضعہ، اس کے تین مطلب ہیں، ایک یہ کہ کتاب اللہ کے الفاظ میں ردوبدل کردیتے، دوسرے یہ کہ تاویلات فاسدہ سے کتاب اللہ کے معنی کچھ سے کچھ بنا دیتے، تیسرے یہ کہ لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں آکر آپ کی باتیں سنتے اور واپس جا کر غلط طریقہ سے بیان کرتے۔ یقولون سمعنا، (الآیة) یعنی جب ان کو خدائی کلام سنایا جاتا ہے تو زور سے کہتے ہیں سَمِعْنا، اور آہستہ سے کہتے ہیں عَصیْنَا .
10 Tafsir as-Saadi
اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کی مذمت ہے جنہیں کتاب عطا کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے کہ وہ ان کی وجہ سے دھوکے میں نہ پڑیں اور ان کا ساتھی بننے سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت آگاہ فرمایا کہ وہ اپنے بارے ﴿ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ ﴾ گمراہی خریدتے ہیں یعنی گمراہی سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور اسے ترجیح دیتے ہیں جیسے کوئی شخص اپنی محبوب چیز کی طلب میں مال کثیر خرچ کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ پس یہ لوگ ہدایت پر گمراہی کو، ایمان پر کفر کو اور سعادت پر شقاوت کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ﴿ وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّوا السَّبِيلَ ﴾ ” اور وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ گم کرلو۔“ پس وہ تمہیں گمراہ کرنے کے بعد حد خواہش مند ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کا ولی اور مددگار ہے اس لیے ان کے سامنے ان کفار کی گمراہی اور ان کی دوسروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ اس لیے فرمایا :
11 Mufti Taqi Usmani
jinn logon ko kitab ( yani toraat kay ilm ) mein say aik hissa diya gaya tha , kiya tum ney unn ko nahi dekha kay woh ( kiss tarah ) gumrahi mol ley rahey hain , aur chahtay hain kay tum bhi raastay say bhatak jao .
12 Tafsir Ibn Kathir
یہودیوں کی ایک مذموم خصلت اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ یہودیوں کی ایک مذموم خصلت یہ بھی ہے کہ وہ گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دیتے ہیں، نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو کتاب نازل ہوئی اس سے بھی روگردانی کرتے ہیں اور اللہ کا دیا ہوا جو علم ان کے پاس ہے اسے بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں خود اپنی کتابوں میں نبی موعود کی بشارتیں پڑھتے ہیں لیکن اپنے مریدوں سے چڑھاوا لینے کے لالچ میں ظاہر نہیں کرتے بلکہ ساتھ ہی یہ چاہتے ہیں کہ خود مسلمان بھی راہ راست سے بھٹک جائیں اللہ کی کتاب کے مخالف ہوجائیں ہدایت کو اور سچے علم کو چھوڑ دیں، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں سے خوب باخبر ہے وہ تمہیں ان سے مطلع کر رہا ہے کہ کہیں تم ان کے دھوکے میں نہ آجاؤ۔ اللہ کی حمایت کافی ہے تم یقین رکھو کہ وہ اپنی طرف جھکنے والوں کی ضرور حمایت کرتا ہے وہ اس کا مددگار بن جاتا ہے۔ تیسری آیت میں لفظ من سے شروع ہوئی ہے اس میں من بیان جنس کے لئے ہے جیسے (فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ) 22 ۔ الحج :30) میں پھر یہودیوں کے اس فرقے کی جس تحریف کا ذکر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کلام اللہ کے مطلب کو بدل دیتے ہیں اور خلاف منشائے الٰہی تفسیر کرتے ہیں اور ان کا یہ فعل جان بوجھ کر ہوتا ہے قصداً افترا پردازی کے مرتکب ہوتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ اے پیغمبر جو آپ نے کہا ہم نے سنا لیکن ہم ماننے کے نہیں خیال کیجئے ان کے کفر و الحاد کو دیکھئے کہ جان کر سن کر سمجھ کر کھلے لفظوں میں اپنے ناپاک خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں آپ سنئے اللہ کرے آپ نہ سنیں۔ یا یہ مطلب کہ آپ سنئے آپ کی نہ سنی جائے لیکن پہلا مطلب زیادہ اچھا ہے یہ کہنا ان کا بطور تمسخر اور مذاق کے تھا اور اللہ انہیں لعنت کرے علاوہ ازیں راعنا کہتے جس سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں ہماری طرف کان لگائے لیکن وہ اس لفظ سے مراد یہ لیتے تھے کہ تم بڑی رعونت والے ہو۔ اس کا پورا مطلب (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ) 2 ۔ البقرۃ :104) کی تفسیر میں گزر چکا ہے، مقصد یہ ہے کہ جو ظاہر کرتے تھے اس کے خلاف اپنی زبانوں کو موڑ کر طعن آمیز لہجہ میں کہتے اور حقیقی مفہوم میں اپنے دل میں مخفی رکھتے تھے دراصل یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بےادبی اور گستاخی کرتے تھے پس انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان دو معنی والے الفاظ کا استعمال چھوڑ دیں اور صاف صاف کہیں کہ ہم نے سنا، مانا، آپ ہماری عرض سنئے ! آپ ہماری طرف دیکھئے ! یہ کہنا ہی ان کے لئے بہتر ہے اور یہی صاف سیدھی سچی اور مناسب بات ہے لیکن ان کے دل بھلائی سے دور ڈال دیئے گئے ہیں ایمان کامل طور سے ان کے دلوں میں جگہ ہی نہیں پاتا، اس جملے کی تفسیر بھی پہلے گزر چکی ہے مطلب یہ ہے کہ نفع دینے والا ایمان ان میں نہیں۔