Skip to main content

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّـطْمِسَ وُجُوْهًا فَنَرُدَّهَا عَلٰۤى اَدْبَارِهَاۤ اَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّاۤ اَصْحٰبَ السَّبْتِۗ وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا

O you
يَٰٓأَيُّهَا
اے
who
ٱلَّذِينَ
لوگو
(have) been given
أُوتُوا۟
جو دیے گئے ہو
the Book
ٱلْكِتَٰبَ
کتاب
believe
ءَامِنُوا۟
ایمان لاؤ
in what
بِمَا
ساتھ اس کے جو
We (have) revealed
نَزَّلْنَا
اتاری ہم نے
confirming
مُصَدِّقًا
تصدیق کرنے والی ہے
what is
لِّمَا
واسطے اس کے جو
with you
مَعَكُم
تمہارے پاس ہے
from
مِّن
اس سے
before
قَبْلِ
پہلے
[that]
أَن
کہ
We efface
نَّطْمِسَ
ہم بگاڑ دیں
faces
وُجُوهًا
چہروں کو
and turn them
فَنَرُدَّهَا
پھر ہم پھیر دیں ان کو
on
عَلَىٰٓ
پر
their backs
أَدْبَارِهَآ
ان کی پیٹھوں
or
أَوْ
یا
We curse them
نَلْعَنَهُمْ
ہم لعنت کریں ان پر
as
كَمَا
جیسا کہ
We cursed
لَعَنَّآ
لعنت کی ہم نے
companions
أَصْحَٰبَ
والوں پر
(of) the Sabbath
ٱلسَّبْتِۚ
ہفتے
And is
وَكَانَ
اور ہے
(the) command
أَمْرُ
حکم
(of) Allah
ٱللَّهِ
اللہ کا
(always) executed
مَفْعُولًا
کیا ہوا۔ طے شدہ

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی تھی! مان لو اُس کتاب کو جو ہم نے اب نازل کی ہے اور جو اُس کتاب کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی اس پر ایمان لے آؤ قبل اس کے کہ ہم چہر ے بگاڑ کر پیچھے پھیر دیں یا ان کو اسی طرح لعنت زدہ کر دیں جس طرح سبت والوں کے ساتھ ہم نے کیا تھا، اور یاد رکھو کہ اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے

English Sahih:

O you who were given the Scripture, believe in what We have sent down [to Prophet Muhammad (^)], confirming that which is with you, before We obliterate faces and turn them toward their backs or curse them as We cursed the sabbath-breakers. And ever is the matter [i.e., decree] of Allah accomplished.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی تھی! مان لو اُس کتاب کو جو ہم نے اب نازل کی ہے اور جو اُس کتاب کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی اس پر ایمان لے آؤ قبل اس کے کہ ہم چہر ے بگاڑ کر پیچھے پھیر دیں یا ان کو اسی طرح لعنت زدہ کر دیں جس طرح سبت والوں کے ساتھ ہم نے کیا تھا، اور یاد رکھو کہ اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اے کتاب والو! ایمان لاؤ اس پر جو ہم نے اتارا تمہارے ساتھ والی کتاب کی تصدیق فرماتا قبل اس کے کہ ہم بگاڑ دیں کچھ مونہوں کو تو انہیں پھیر دیں ان کی پیٹھ کی طرف یا انہیں لعنت کریں جیسی لعنت کی ہفتہ والوں پر اور خدا کا حکم ہوکر رہے،

احمد علی Ahmed Ali

اے کتاب والو اس پر ایمان لے آؤ جو ہم نے نازل کیا ہے اس کتاب کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس ہے اس سے پہلے کہ ہم بہت سے چہرو ں کو مٹا ڈالیں پھر انہیں پیٹھ کیطرف الٹ دیں یا ان پر لعنت کریں جسطرح ہم نے ہفتے کے دن والوں پر لعنت کی تھی اور الله کا حکم تو نافذ ہو کر ہی رہتا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اے اہل کتاب جو کچھ ہم نے نازل فرمایا جو اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے اس پر ایمان لاؤ اس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور انہیں الٹا کر پیٹھ کی طرف کر دیں (١) یا ان پر لعنت بھجیں جیسے ہم نے ہفتے کے دن والوں پر لعنت کی (٢) اور ہے اللہ تعالٰی کا کام کیا گیا۔(۳)

٤٧۔١ یعنی اگر اللہ چاہے تو تمہیں تمہارے کرتوتوں کی پاداش میں یہ سزا دے سکتا ہے۔
٤٧۔٢ یہ قصہ سورہ اعراف میں آئے گا، کچھ اشارہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ یعنی تم بھی ان کی طرح ملعون قرار پا سکتے ہو۔
٤٧۔٣ یعنی جب وہ کسی بات کا حکم کر دے تو نہ کوئی اس کی مخالفت کر سکتا ہے اور نہ اسے روک ہی سکتا ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اے کتاب والو! قبل اس کے کہ ہم لوگوں کے مونہوں کو بگاڑ کر ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دیں یا ان پر اس طرح لعنت کریں جس طرح ہفتے والوں پر کی تھی ہماری نازل کی ہوئی کتاب پر جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے ایمان لے آؤ اور خدا نے جو حکم فرمایا سو (سمجھ لو کہ) ہوچکا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اے اہل کتاب! جو کچھ ہم نے نازل فرمایا ہے جو اس کی بھی تصدیق کرنے واﻻ ہے جو تمہارے پاس ہے، اس پر ایمان لاؤ اس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور انہیں لوٹا کر پیٹھ کی طرف کر دیں، یا ان پر لعنت بھیجیں جیسے ہم نے ہفتے کے دن والوں پر لعنت کی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا کام کیا گیا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اے اہل کتاب اس (قرآن) پر (ایمان لاؤ) اس سے پہلے کہ ہم کچھ چہروں کو بگاڑ دیں اور انہیں ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دیں یا ان پر اس طرح لعنت کریں جس طرح ہم نے ہفتہ کے دن والوں پر لعنت کی تھی اور اللہ کا حکم نافذ ہوکر رہتا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اے وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے ہمارے نازل کئے ہوئے قرآن پر ایمان لے آؤ جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے قبل اس کے کہ ہم تمھارے چہروں کو بگاڑ کر پشت کی طرف پھیر دیں یا ان پر اس طرح لعنت کریں جس طرح ہم نے اصحابِ سبت پر لعنت کی ہے اور اللہ کا حکم بہرحال نافذ ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اے اہلِ کتاب! اس (کتاب) پر ایمان لاؤ جو ہم نے (اب اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) اتاری ہے جو اس کتاب کی (اصلاً) تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے، اس سے قبل کہ ہم (بعض) چہروں (کے نقوش) کو مٹا دیں اور انہیں ان کی پشت کی حالت پر پھیر دیں یا ان پر اسی طرح لعنت کریں جیسے ہم نے ہفتہ کے دن (نافرمانی کرنے) والوں پر لعنت کی تھی اور اللہ کا حکم پورا ہو کر ہی رہتا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

قرآن حکیم کا اعجاز تاثیر
اللہ عزوجل یہود و نصاریٰ کو حکم دیتا ہے کہ میں نے اپنی زبردست کتاب اپنے بہترین نبی کے ساتھ نازل فرمائی ہے جس میں خود تمہاری اپنی کتاب کی تصدیق بھی ہے اس پر ایمان لاؤ اس سے پہلے کہ ہم تمہاری صورتیں مسخ کردیں یعنی منہ بگاڑ کردیں آنکھیں بجائے ادھر کے ادھر ہوجائیں، یا یہ مطلب کہ تمہارے چہرے مٹادیں آنکھیں کان ناک سب مٹ جائیں پھر یہ مسخ چہرہ بھی الٹا ہوجائے۔ یہ عذاب ان کے بد اعمال کا بدلہ ہے یہی وجہ ہے کہ یہ حق سے ہٹ کر باطل کی طرف ہدایت سے پھر کر ضلالت کی جانب بڑھے چلے جا رہے ہیں بایں ہمہ اللہ تعالیٰ انہیں احساس دلا رہے ہیں کہ اب بھی باز آجاؤ اور اپنے سے پہلے ایسی حرکت کرنے والوں کی صورتوں کے مسخ ہونے کو یاد کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی طرح تمہارا منہ الٹ دوں گا تاکہ تمہیں پچھلے پیروں چلنا پڑے تمہاری آنکھیں گدی کی طرف کردوں اور اسی جیسی تفسیر بعض نے (اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ ) 36 ۔ یس ;8) کی آیت میں بھی کی ہے غرض یہ ان کی گمراہی اور ہدایت سے دور پڑجانے کی بری مثال بیان ہوئی ہے، حضرت مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں سچ مچ حق کے راستے سے ہٹا دیں اور گمراہی کی طرف متوجہ کردیں، ہم تمہیں کافر بنادیں اور تمہارے چہرے بندروں جیسے کردیں، ابو زید (رح) فرماتے ہیں کہ لوٹا دینا یہ تھا کہ ارض حجاز سے بلاد شام میں پہنچا دیا۔ یہ بھی مذکور ہے کہ اسی آیت کو سن کر حضرت کعب احبار (رض) مشرف با اسلام ہوئے تھے۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت ابراہیم (رح) کے سامنے حضرت کعب (رض) کے اسلام کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت کعب (رض) حضرت عمر (رض) کے زمانے میں مسلمان ہوئے یہ بیت المقدس جاتے ہوئے مدینہ میں آئے حضرت عمر (رض) ان کے پاس گئے اور فرمایا اے کعب (رض) مسلمان ہوجاؤ انہوں نے جواب دیا تم تو قرآن میں پڑھ چکے ہو کہ جنہیں توراۃ کا حامل بنایا گیا انہوں نے اسے کما حقہ قبول نہ کیا۔ ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بوجھ لادے ہوئے ہو اور یہ بھی تم جانتے ہو کہ میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جو توراۃ اٹھوائے گئے اس پر حضرت عمر (رض) نے اسے چھوڑ دیا یہ یہاں سے چل کر حمص پہنچے وہاں سنا کہ ایک شخص جو ان کے گھرانے میں سے تھا اس آیت کی تلاوت کر رہا ہے جب اس نے آیت ختم کی انہیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں سچ مچ اس آیت کی وعید مجھ پر صادق نہ آجائے اور میرا منہ مسخ کر پلٹ نہ جائے یہ جھٹ سے کہنے لگے " یارب اسلمت " میرے اللہ میں ایمان لایا۔ پھر حمص سے ہی واپس اپنے وطن یمن میں آئے اور یہاں سے اپنے تمام گھر والوں کو لے کر سارے کنبے سمیت مسلمان ہوگئے، ابن ابی حاتم میں حضرت کعب (رض) کے اسلام کا واقعہ اس طرح مروی ہے کہ ان کے استاد ابو مسلم جلیلی ان کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونے میں دیر لگانے کی وجہ سے ہر وقت انہیں ملامت کرتے رہتے تھے پھر انہیں بھیجا کہ دیکھیں کہ آپ وہی پیغمبر ہیں جن کی خوشخبری اور اوصاف توراۃ میں ہیں ؟ یہ آئے تو فرماتے ہیں جب میں مدینہ شریف پہنچا تو ایک شخص قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت کر رہا تھا کہ اے اہل کتاب ہماری نازل کردہ کتاب تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرتی ہے بہتر ہے کہ اس پر اس سے پہلے ایمان لاؤ کہ ہم تمہارے منہ بگاڑ دیں اور انہیں الٹا کردیں۔ میں چونک اٹھا اور جلدی جلدی غسل کرنے بیٹھ گیا اور اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا جاتا تھا کہ کہیں مجھے ایمان لانے میں دیر نہ لگ جائے اور میرا چہرہ الٹا نہ ہوجائے۔ پھر میں بہت جلد آ کر مسلمان ہوگیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یا ہم ان پر لعنت کریں جیسے کہ ہفتہ والوں پر ہم نے لعنت نازل کی یعنی جن لوگوں نے ہفتہ والے دن حیلے کے لئے شکار کھیلا حالانکہ انہیں اس کام سے منع کیا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بندر اور سور بنا دئیے گئے ان کا مفصل واقعہ سورة اعراف میں آئے گا انشا اللہ تعالیٰ ارشاد ہوتا ہے الٰہی کام پورے ہو کر ہی رہتے ہیں وہ جب کوئی حکم کر دے تو کوئی نہیں جو اس کی مخالفت یا ممانعت کرسکے۔ پھر خبر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کئے جانے کے گناہ کو نہیں بخشتا، یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ مشرک ہو اس پر بخشش بہت سی حدیثیں ہیں ہم یہاں بقدر آسانی ذکر کرتے ہیں۔
گناہوں کی تین دیوان
پہلی حدیث بحوالہ مسند احمد۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہوں کے تین دیوان ہیں، ایک تو وہ جس کی اللہ تعالیٰ کچھ پرواہ نہیں کرتا دوسرا وہ جس میں اللہ تعالیٰ کچھ نہیں چھوڑتا۔ تیسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ ہرگز نہیں بخشتا۔ پس جسے وہ بخشتا نہیں وہ شرک ہے اللہ عزوجل خود فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو معاف نہیں فرماتا اور جگہ ارشاد ہے جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرلے، اللہ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے۔ اور جس دیوان میں اللہ کے ہاں کوئی وقعت نہیں وہ بندے کا اپنی جان پر ظلم کرنا ہے اور جس کا تعلق اس سے اور اللہ کی ذات سے ہے مثلاً کسی دن کا روزہ جسے اس نے چھوڑ دیا یا نماز چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور جس دیوان (اعمالنامہ) میں سے موجود کسی فرد کو اللہ نہیں چھوڑتا وہ بندوں کے آپس میں مظالم ہیں جن کا بدلہ اور قصاص ضروری ہے۔ دوسری حدیث بحوالہ مسند بزار۔ الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مطلب وہی ہے۔ تیسری حدیث بحوالہ مسند احمد ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو بخش دے مگر وہ شخص جو کفر کی حالت میں مرا دوسرا وہ جس نے ایمان دار کو جان بوجھ کر قتل کیا۔ چوتھی حدیث بحوالہ مسند احمد۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندے تو جب تک میری عبادت کرتا رہے گا اور مجھ سے نیک امید رکھے گا میں بھی تیری جتنی خطائیں ہیں انہیں معاف فرماتا رہوں گا میرے بندے اگر تو ساری زمین بھر کی خطائیں بھی لے کر میرے پاس آئے گا تو میں بھی زمین کی وسعتوں جتنی مغفرت کے ساتھ تجھ سے ملوں گا بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو۔ پانچویں حدیث بحوالہ مسند احمد۔ جو بندہ لا الہ الا اللہ کہے پھر اسی پر اس کا انتقال ہو وہ ضرور جنت میں جائے گا یہ سن کر حضرت ابوذر (رض) نے دریافت کیا کہ اگر اس نے زنا اور چوری بھی کیا ہو آپ نے فرمایا گو اس نے زناکاری اور چوری بھی کی ہو تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوا۔ چوتھے سوال پر آپ نے فرمایا چاہے ابوذر کی ناک خاک آلود ہو پس حضرت ابوذر (رض) وہاں سے اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے یہ فرماتے ہوئے نکلے کہ چاہے ابوذر کی ناک خاک آلود ہو اور اس کے بعد جب کبھی آپ یہ حدیث بیان فرماتے یہ جملہ ضروری کہتے۔ یہ حدیث دوسری سند سے قدرے زیادتی کے ساتھ بھی مروی ہے، اس میں ہے حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ کے میدان میں چلا جا رہا تھا احد کی طرف ہماری نگاہیں تھیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابوذر میں کہا لبیک یارسول اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میں نہ چاہوں گا کہ تیسری شام کو اس میں سے کچھ بھی باقی رہ جائے بجز اس دینار کے جسے میں قرضہ چکا نے کے لئے رکھ لوں باقی تمام مال میں اس طرح راہ للہ اس کے بندوں کو دے ڈالوں اور آپ نے دائیں بائیں اور سامنے لپیں پھینکیں۔ پھر کچھ دیر ہم چلتے رہے پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے پکارا اور فرمایا جن کے پاس یہاں زیادتی ہے وہی وہاں کمی والے ہوں گے مگر جو اس طرح اور اس طرح کرے یعنی آپ نے اپنے دائیں سامنے اور بائیں لپیں (ہتھیلیاں) بھر کردیتے ہوئے اس عمل کی وضاحت کی، پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا ابوذر میں ابھی آتا ہوں تم یہیں ٹھہرو آپ تشریف لے گئے اور میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے اور مجھے آوازیں سنائی دینے لگیں دل بےچین ہوگیا کہ کہیں تنہائی میں کوئی دشمن آگیا ہو میں نے قصد کیا کہ وہاں پہنچوں لیکن ساتھ ہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان یاد آگیا کہ میں جب تک نہ آؤں تم یہیں ٹھہرے رہنا چناچہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ آپ تشریف لے آئے تو میں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آوازیں کیسی آرہی تھیں آپ نے فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل آئے تھے اور فرما رہے تھے کہ آپ کی امت میں سے وفات پانے والا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے تو وہ جنت میں جائے گا میں نے کہا گو زنا اور چوری بھی اس سے سرزد ہوئی ہو تو فرمایا ہاں گو زنا اور چوری بھی ہوئی ہو، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے کہ حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں رات کے وقت نکلا دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تنہا تشریف لے جا رہے ہیں تو مجھے خیال ہوا کہ شاید اس وقت آپ کسی کو ساتھ لے جانا نہیں چاہتے تو میں چاند کی چاندنی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے ہو لیا آپ نے جب مڑ کر مجھے دیکھا تو پوچھا کون ہے میں نے کہا ابوذر اللہ مجھے آپ پر سے قربان کر دے تو آپ نے فرمایا آؤ میرے ساتھ چلو تھوڑی دیر ہم چلتے رہے پھر آپ نے فرمایا زیادتی والے ہی قیامت کے دن کمی والے ہوں گے مگر وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا پھر وہ دائیں بائیں آئے پیچھے نیک کاموں میں خرچ کرتے رہے پھر کچھ دیر چلنے کے بعد آپ نے مجھے ایک جگہ بٹھا کر جس کے ارد گرد پتھر تھے فرمایا میری واپس تک یہیں بیٹھے رہو پھر آپ آگے نکل گئے یہاں تک کہ میری نظر سے پوشیدہ ہوگئے آپ کو زیادہ دیر لگ گئی پھر میں نے دیکھا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں اور زبان مبارک سے فرماتے آ رہے ہیں گو زنا کیا ہو یا چوری کی ہو جب میرے پاس پہنچے تو میں رک نہ سکا پوچھا کہ اے نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ مجھے آپ پر قربان کرے اس میدان کے کنارے آپ کس سے باتیں کر رہے تھے میں نے سنا کوئی آپ کو جواب بھی دے رہا تھا آپ نے فرمایا وہ جبرائیل تھے یہاں میرے پاس آئے اور فرمایا اپنی امت کو خوش خبری سنا دو کہ جو میرے اور اللہ کے ساتھ اس نے کسی کو شریک نہ کیا وہ جنتی ہوگا میں نے کہا اے جبرائیل گو اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو فرمایا ہاں میں نے پھر یہی سوال کیا سوال کیا جواب دیا ہاں میں نے پھر یہی فرمایا ہاں اور اگرچہ اس نے شراب پی ہو۔ چھٹی حدیث بحوالہ مسند عبد بن حمید ایک شخص حضور کے پاس آیا، اور کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت واجب کردینے والی چیزیں کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو شخص بغیر شرک کئے مرا اس کے لئے جنت واجب ہے اور جو شرک کرتے ہوئے مرا اس کے لئے جہنم واجب ہے، یہی حدیث اور طریق سے مروی ہے جس میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہوا مرا اس کے لئے بخشش حلال ہے اگر اللہ چاہے اسے عذاب کرے اگر چاہے بخش دے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے کو نہیں بخشتا اس کے سوا جسے چاہے بخش دے (ابن ابی حاتم) اور سند سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا بندے پر مغفرت ہمیشہ رہتی ہے جب تک کہ پردے نہ پڑجائیں دریافت کیا گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پردے پڑجانا کیا ہے ؟ فرمایا شرک، جو شخص شرک نہ کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے اس کے لئے بخشش الٰہی حلال ہوگئی اگر چاہیے عذاب کرے اگر چاہے بخش دے پھر آپ نے (آیت ان اللہ لا یغفر الخ، ) تلاوت فرمائی (مسند ابو یعلیٰ ) ساتویں حدیث بحوالہ مسند احمد، جو شخص مرے اللہ کے ساتھ شریک نہ کرتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا آتھویں حدیث بحوالہ مسند احمد۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ صحابہ (رض) کے پاس آئے اور فرمایا تمہارے رب عزوجل نے مجھے اختیار دیا کہ میری امت میں سے ستر ہزار کا بےحساب جنت میں جانا پسند کروں یا اللہ تعالیٰ کے پاس جو چیز میرے لئے میری امت کی بابت پوشیدہ محفوظ ہے اسے قبول کرلوں، تو بعض صحابہ نے کہا کیا اللہ تعالیٰ آپ کے لئے یہ محفوظ چیز بچا کر بھی رکھے گا ؟ آپ یہ سن کر اندر تشریف لے گئے پھر تکبیر پڑھتے ہوئے باہر آئے اور فرمانے لگے میرے رب نے مجھے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار کو جنت عطا کرنا مزید عطا فرمایا اور وہ پوشیدہ حصہ بھی، حضرت ابو ایوب انصاری (رض) جب یہ حدیث بیان فرما چکے تو حضرت ابو رہم نے سوال کیا کہ وہ پوشیدہ محفوظ کیا ہے ؟ اس پر لوگوں نے انہیں کچھ کچھ کہنا شروع کردیا کہ کہاں تم اور کہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اختیار کردہ چیز ؟ حضرت ایوب (رض) نے فرمایا سنو جہاں تک ہمارا گمان ہے جو گمان یقین کے قریب ہے یہ ہے کہ وہ چیز جنت میں جانا ہے ہر اس شخص کا جو سچے دل سے گواہی دے کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ نویں حدیث بحوالہ ابن ابی حاتم۔ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا بھتیجا حرام سے باز نہیں آتا آپ نے فرمایا اس کی دینداری کیسی ہے، کہا نمازی ہے اور توحید والا ہے آپ نے فرمایا جاؤ اور اس سے اس کا دین بطور سبہ کے طلب کرو اگر انکار کرے تو اس سے خرید لو، اس نے جا کر اس سے طلب کیا تو اس نے انکار کردیا اس نے آ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی تو آپ نے فرمایا میں نے اسے اپنے دین پر چمٹا ہوا پایا اس پر ( آیت " ان اللہ لا یغفرالخ " ) نازل ہوئی۔ دسویں حدیث بحوالہ حافظ یعلیٰ ایک شخص رسول کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کوئی حاجت یا حاجت والا نہیں چھوڑا یعنی زندگی میں سب کچھ کرچکا آپ نے فرمایا کیا تو یہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، تین مرتبہ اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا یہ ان سب پر غالب آجائے گا۔ گیارہویں حدیث بحوالہ مسند احمد۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے ضخم بن جوش یمامی (رح) سے کہا کہ اے یمامی کسی شخص سے ہرگز یہ نہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ تجھے نہیں بخشے گا یا تجھے جنت میں داخل نہ کرے گا، یمامی (رح) نے کہا حضرت یہ بات تو ہم لوگ اپنے بھائیوں اور دوستوں سے بھی غصے غصے میں کہہ جاتے ہیں آپ نے فرمایا خبردار ہرگز نہ کہنا سنو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ نے فرمایا بنی اسرائیل میں دو شخص تھے ایک تو عبادت میں بہت چست چالاک اور دوسرا اپنی جان پر زیادتی کرنے والا اور دونوں میں دوستانہ اور بھائی چارہ تھا عابد بسا اوقات اس دوسرے کو کسی نہ کسی گناہ میں دیکھتا رہتا تھا اے شخص باز رہ جواب دیتا تو مجھے میرے رب پر چھوڑ دے کیا تو مجھ پر نگہبان بنا کر بھیجا گیا ہے ؟ ایک مرتبہ عابد نے دیکھا کہ وہ پھر کسی گناہ کے کام کو کر رہا ہے جو گناہ اسے بہت بڑا معلوم ہوا تو کہا افسوس تجھ پر باز آ اس نے وہی جواب دیا تو عابد نے کہا اللہ کی قسم اللہ تجھے ہرگز نہ بخشے گا یا جنت نے دے گا اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس فرشتہ بھیجا جس نے ان کی روحیں قبض کرلیں جب دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاں جمع ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اس گنہگار سے فرمایا جا اور میری رحمت کی بنا پر جنت میں داخل ہوجا اور اس عابد سے فرمایا کیا تجھے حقیقی علم تھا ؟ کیا تو میری چیز پر قادر تھا ؟ اسے جہنم کی طرف لے جاؤ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بیان فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو القاسم کی جان ہے اس نے ایک کلمہ زبان سے ایسا نکال دیا جس نے اس کی دنیا اور آخرت برباد کردی۔ بارہویں حدیث بحوالہ طبرانی جس نے اس بات کا یقین کرلیا کہ میں گناہوں کی بخشش پر قادر ہوں تو میں اسے بخش ہی دیتا ہوں اور کوئی پرواہ نہیں کرتا جب تک کہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے۔ تیر ہویں حدیث بحوالہ بزار، ابو یعلیٰ جس عمل پر اللہ تعالیٰ نے ثواب کا وعدہ کیا ہے اسے تو مالک ضرور پورا فرمائے گا اور جس پر سزا کا فرمایا ہے وہ اس کے اختیار میں ہے چاہے بخش دے یا سزا دے حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں ہم صحابہ (رض) قاتل کے بارے میں اور یتیم کا مال کھا جانے والے کے باررے میں اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والے کے بارے میں اور جھوٹی گواہی دینے والے کے بارے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ (آیت ان اللّٰہ یغفر الخ، ) اتری اور اصحاب رسول گمراہی سے رک گئے (ابن ابی حاتم) ابن جریر کی یہ روایت اس طرح پر ہے کہ جن گناہوں پر جہنم کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اسے کرنے والے کے جہنمی ہونے میں ہمیں کوئی شک ہی نہیں تھا یہاں تک کہ ہم پر یہ آیت اتری جب ہم نے اسے سنا تو ہم شہادت کے لئے رک گئے اور تمام امور اللہ تعالیٰ کی طرف سونپ دئیے۔ بزار میں آپ ہی کی ایک روایت ہے کہ کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے استغفار کرنے سے ہم رکے ہوئے تھے یہاں تک کہ ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ آیت سنی اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے اپنی شفاعت کو اپنی امت میں سے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے موخر کر رکھا ہے ابو جعفر رازی کی روایت میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ جب ( يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ) 39 ۔ الزمر ;53) نازل ہوئی یعنی اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تم میری رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا حضور شرک کرنے والا بھی ؟ آپ کو اس کا یہ سوال ناپسند آیا پھر آپ نے ان (آیت اللہ لا یغفر الخ، ) پڑھ کر سنائی۔ سورة تنزیل کی یہ آیت مشروط ہے توبہ کے ساتھ پس جو شخص جس گناہ سے توبہ کرے اللہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے گو بار بار کرے پس مایوس نہ ہونے کی آیت میں توبہ کی شرط ضرور ہے۔ ورنہ اس میں شرک بھی آجائے گا اور پھر مطلب صحیح نہ ہوگا کیونکہ اس آیت میں وضاحت کے ساتھ یہاں موجود ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کی بخشش نہیں ہے، ہاں اس کے سوا جسے چاہے یعنی اگر اس نے توبہ بھی نہ کی ہو اس مطلب کے ساتھ اس آیت میں جو امید دلانے والی ہے اور زیادہ امید کی آس پیدا ہوجاتی ہے واللّٰہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے اللہ کے ساتھ جو شرک کرے اس نے بڑے گناہ کا افترا باندھا، جیسے اور آیت میں ہے شرک بہت بڑا ظلم ہے بخاری مسلم میں حضرت ابن مسعود (رض) سب سے بڑا گناہ کیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں تمہیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ بتاتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا ہے پھر آپ نے اسی آیت کا یہ آخری حصہ تلاوت فرمایا پھر ماں باپ کی نافرمانی کرنا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ (اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ ) 31 ۔ لقمان ;14) میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا شکریہ کر میری طرف لوٹنا ہے۔