النساء آية ۵۱
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَيَقُوْلُوْنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا هٰۤؤُلَۤاءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَبِيْلًا
طاہر القادری:
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں (آسمانی) کتاب کا حصہ دیا گیا ہے (پھر بھی) وہ بتوں اور شیطان پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی نسبت یہ (کافر) زیادہ سیدھی راہ پر ہیں،
English Sahih:
Have you not seen those who were given a portion of the Scripture, who believe in jibt [superstition] and Taghut [false objects of worship] and say about the disbelievers, "These are better guided than the believers as to the way"?
1 Abul A'ala Maududi
کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور اُن کا حال یہ ہے کہ جِبت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں
2 Ahmed Raza Khan
کیا تم نے، وہ نہ دیکھے جنہیں کتاب کا ایک حصہ ملا ایمان لاتے ہیں بت اور شیطان پر اور کافروں کو کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں سے زیادہ راہ پر ہیں،
3 Ahmed Ali
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا وہ بتوں اور شیطانوں کو مانتے ہیں اور کافروں سے یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ مسلمانوں سے زیادہ راہِ راست پر ہیں
4 Ahsanul Bayan
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ ملا ہے؟ جو بت کا اور باطل معبود کا اعتقاد رکھتے ہیں اور کافروں کے حق میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیادہ راہ راست پر ہیں (١)
٥١۔١ اس آیت میں یہودیوں کے ایک اور فعل پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اہل کتاب ہونے کے باوجود یہ (جبت) بت، کاہن یا ساحر (جھوٹے معبودوں) پر ایمان رکھتے اور کفار مکہ کو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں جبت کے یہ سارے مزکورہ معنی کیے گئے ہیں ایک حدیث میں آتا ہے "ان العیافۃ والطرق والطیرۃ من الجبت"' پرندے اڑا کر، خط کھینچ کر، بدفالی اور بد شگونی لینا ' یعنی یہ سب شیطانی کام ہیں اور یہود میں یہ چیزیں عام تھیں طاغوت کے ایک معنی شیطان بھی کئے گئے ہیں'، دراصل معبودان باطل کی پرستش، شیطان ہی کی پیروی ہے۔ اس لئے شیطان بھی یقینا طاغوت میں شامل ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ہے کہ بتوں اور شیطان کو مانتے ہیں اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں کی نسبت سیدھے رستے پر ہیں
6 Muhammad Junagarhi
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ ملا؟ جو بت کا اور باطل معبود کا اعتقاد رکھتے ہیں اور کافروں کے حق میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیاده راه راست پر ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب (الٰہی) سے کچھ حصہ دیا گیا ہے وہ جبت (بت) اور طاغوت (شیطان) پر ایمان رکھتے ہیں (انہیں مانتے ہیں) اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایمان لانے والوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جن لوگوں کو کتاب کا کچھ حصہّ دے دیا گیا وہ شیطان اور بتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور کفار کو بھی بتاتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں
9 Tafsir Jalalayn
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب کا حصہ دیا گیا ہے کہ بتوں اور شیطانوں کو مانتے ہیں اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں کی نسبت سیدھے راستے پر ہیں
ترجمہ : اور علماء (یہود) میں سے کعب بن اشرف جیسوں کے بارے میں (آئندہ آیت) نازل ہوئی، جب یہ لوگ مکہ آئے اور مقتولین بدر کا مشاہدہ کیا اور مشرکین کو اپنے مقتولوں کے خون کا بدلہ لینے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ کرنے پر آمادہ کیا، کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا کہ جن کو کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے، (اس کے باوجود) بت اور شیطان پر ایمان پر رکھتے ہیں، (جِبت اور طاغوت) قریش کے دو بتوں کے نام ہیں، اور کافروں یعنی ابوسفیان اور ان کے اصحاب کے بارے میں کہتے ہیں جب ان سے دریافت کیا گیا کہ ہم راہ راست پر ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ حال یہ کہ ہم بیت اللہ کے متولّی ہیں حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور قیدیوں کو رہائی دلاتے ہیں، اور اس کے علاوہ بھی (بہت کچھ) کرتے ہیں، حالانکہ انہوں نے آبائی دین کی مخالفت کی اور قطع رحمی کی اور حرم کو خیر باد کہ دیا، کہ یعنی تم لوگ ایمان والوں سے زیادہ راہ راست پر ہو یہی ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت کی اور جس پر اللہ لعنت کردے تو، تو اس کا کوئی مدگار نہ پائیگا، یعنی اس کے عذاب سے روکنے والا، کیا سلطنت میں ان کا کچھ حصہ ہے ؟ یعنی ان کا سلطنت میں کوئی حصہ نہیں ہے، اور اگر ایسا ہو تو یہ لوگ (دیگر) لوگوں کو اپنے بخل کی وجہ سے کوئی حقیر شیئی یعنی گٹھلی کی پشت میں شگاف بھر بھی نہ دیں، بلکہ (حقیقت یہ ہے) کہ یہ لوگ، لوگوں یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حسد کرتے ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے نبوت اور کثرت نساء عطاء کی ہے، یعنی آپ کی نعمت کے زوال کی تمنا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر نبی ہوتے تو عورتوں سے شغل نہ رکھتے، پس ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جدامجد ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کی آل کو ان میں موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام اور داؤد علیہ الصلوٰة والسلام اور سلمان علیہ الصلوٰة والسلام ہیں کتاب اور حکمت) نبوت) عطاء کی اور ہم نے ان کو عظیم سلطنت عطاء کی (حضرت) داؤدعلیہ الصلوٰة والسلام کی ننانوے بیویاں اور (حضرت) سلمان علیہ الصلوٰة والسلام کی آزاد اور باندیاں سب مل کر ایک ہزار تھیں، تو ان میں سے کچھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور کچھ نے آپ سے اعراض کیا اور ایمان نہیں لائے، اور جو لوگ ایمان نہیں لائے ان کے عذاب کے لئے جہنم کافی ہے جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہم عنقریب ان کو آگ میں ڈال دیں گے جس میں جلتے رہیں گے، اور جب ان کی کھال جل جائے گی تو ہم ان کی جگہ دوسری کھالیں بدل دیں گے بایں طور کہ بغیر جلی ہوئی سابقہ حالت پر لوٹا دیں گے، تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں (یعنی) تاکہ ان کو اس کی شدت محسوس ہو یقینا اللہ تعالیٰ غالب مخلوق کے بارے میں حکمت والا ہے اس کو کوئی شیٔیٔ عاجز نہیں کرسکتی، اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ہم عنقریب ان کو ایسی جنتوں میں پہنچا دیں گے کہ جن کے اندر نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، ان کے لئے وہاں حیض اور ہر قسم کی گندگی سے صاف ستھری بیویاں ہوں گی اور ہم ان کو گھنی چھاؤں میں رکھیں گے، یعنی دائمی سایہ میں کہ سورج ختم نہ کرسکے گا، اور وہ جنت کا سایہ ہوگا، اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانت والوں کے حقوق کی وہ امانتیں جن پر تم کو امین بنایا گیا ہے ان کو پہنچا دو (مذکورہ آیت) اس وقت نازل ہوئی کہ جب حضرت علی نے بیت اللہ کی چابی عثمان بن طلحہ حجبی خادم بیت اللہ سے جبراً اس وقت لے لی تھی جبکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے سال مکہ تشریف لائے تھے، (اور عثمان بن طلحہ نے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چابی دینے سے انکار کردیا، اور کہا اگر مجھے اس بات کا یقین ہوتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو میں منع نہ کرتا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، لو (چابیاں) یہ خدمت تا قیامت ہمیشہ ہمیش کے لئے تمہارے پاس رہے گی۔
عثمان بن طلحہ کو اس معاملہ سے تعجب ہوا تو حضرت علی (رض) نے ان کو مذکورہ آیت پڑھ کر سنائی، چناچہ عثمان ایمان لے آئے اور عثمان بن طلحہ نے وہ چابی موت کے وقت اپنے بھائی شیبہ کو دیدی اور ان کی اولاد میں ( آج تک) باقی ہے، آیت کا نزول اگرچہ خاص واقعہ میں ہوا ہے مگر جمع کے صیغوں کے قرینہ کی وجہ سے معتبر اس کا عموم ہے اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو تم کو (اللہ) حکم دیتا ہے کہ عدل و انصاف سے فیصلہ کرو یقینا یہ بہتر چیز ہے، اس میں نِعْمَ کے میم کا مانکرہ موصوفہ میں ادغام ہے، ای نعم شیئاً یعظکم جس کی تم کو اللہ تعالیٰ نصیحت کر رہا ہے (یعنی) اداء امانت اور انصاف سے فیصلہ بیشک اللہ تعالیٰ باتوں کا سننے والا اور اعمال کا دیکھنے والا ہے اے ایمان والو ! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور رسول کی اور اپنے اولوالامر حاکموں کی جب تم کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم کریں، اگر کسی معاملہ میں اختلاف رونما ہوجائے تو اس کو اللہ یعنی اس کی کتاب کی طرف اور رسول کی طرف لوٹا دو اس کی زندگی میں، اور بعد وفات اس کی طرف لوٹاؤ، یعنی اس کا حکم قرآن و سنت سے معلوم کرو اگر تمہارہ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان ہے اور یہ قرآن و سنت پر پیش کرنا تمہارے لئے بہتر ہے جھگڑنے اور رائے زنی کرنے سے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : بثَارھْمِ ، الثّار والثورة، خون کا بدلہ، (ف) ثارًا ہمزہ اور بغیر ہمزہ دونوں طریقہ سے، خون کا بدلہ لینا۔
قولہ : لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا، لِلَّذین، یقولون کا صلہ ہے، (کمانی لغات القرآن للدرویش) اور بعض حضرات کا کہنا ہے کہ لِلَّذین میں لام بمعنی اجل ہے نہ کہ یقولون کا صلہ یقولون کے قائل کعب بن اشرف اور اس کے اصحاب ہیں، لہٰذا اب یہ اعتراض واردنہ ہوگا کہ لام کا مد خول جو کہ قول کے بعد واقع ہو قول کا مخاطب ہوا کرتا ہے اور یہاں ایسا نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ کعب بن اشرف نے ابو سفیان اور ان کے اصحاب کے بارے میں کہا \&\& ھٰؤ لاء اھدیٰ من الذین آمنوا سبیلاً . (ترویح الا رواح )
قولہ : العَانِیْ قیدی، اسیر۔
قولہ : نَفْعَلُ ، بعض نسخوں میں نفعلُ کے بجائے نعقلُ ہے عقل دیت کو کہتے ہیں یعنی ہم دیت دیتے ہیں۔
قولہ : ھٰؤ لٰائِ ، ھٰؤ لاء اسم اشارہ غائب لانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ یقولون کے مخاطت نہیں ہیں۔
قولہ : لَیْسَ لَھم کی تفسیر لیس لَھُمْ شیٔ سنے کرکے اشارہ کردیا کہ ہمزہ بمعنی استفہام انکاری ہے۔
قولہ : لَوْکَانَ اس میں اشارہ ہے کہ فَاذً الا یؤتون الناس نقیرًا، جملہ جزائیہ ہے اور فاء جزائیہ ہے اور اس کی شرط مخدوف ہے جس کو مفسر علام نے، لوکان، کہہ کر ظاہر کردیا فاِذَا میں فاء عاطفہ نہیں ہے ورنہ تو عطف خبر علی الانشاء لازم آئیگا، اسلئے کہ استفہام انشاء ہے۔
قولہ : شَیْئًاتَا فِھًا، ای شیئًا حقیرًا .
قولہ : قَدْرَ النُقْرَةِ فی ظَھْرِ النَّوَاةِ ، یہ تافِھًا کی تفسیر ہے نقرہ بالضم کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں باریک ریشہ کو کہتے ہیں۔
قولہ : یَتَمَنَّوْنَ زَوَالَہ \& عَنْہ \&، اس سے غبطہ سے احتراز مقصود ہے۔
قولہ : عَذَابًا، کفیٰ کی جہنم کی جانب نسبت سے تمیز ہے۔
قولہ : اِلیٰ حَالِھَاالَاوَّلِ اس میں اشارہ ہے کہ مغائرت سے مراد مغائرت فی الصفت ہے نہ کہ مغائرت فی الذات تاکہ غیر مجرم کی تعذیب لازم نہ آئے۔
قولہ : سَادِنُھا ای خادمھا .
قولہ : جَدُّہ \& ای جدالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔
قولہ : مَنَعَہ \& ای مَنَعَ العثمانُ الحجبیُ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، یعنی عثمان حجبی نے آپ کو بیت اللہ کی کنجیاں دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ اگر آپ کو نبی سمجھتا تو کنجی دینے کو منع نہ کرتا۔
قولہ : ھَاکَ ، ای خذھا .
قولہ : تَالِدًا یہ خالدًا کے اتباع میں سے ہے۔
قولہ : نِعْمَ شَیْئًا، اس میں اشارہ ہے کہ نِعمَّا، میں نعم کے اندر ضمیر فاعل مستتر تمیز ہے۔
قولہ : تَأْدِیَةُ الْاَ مَانَةِ ، اس میں اشارہ ہے کہ نِعْمَ کا مخصوص بالمدح مخدوف ہے جس کو مفسر علام نے اپنے قول تادیة الامانة سے ظاہر کردیا ہے۔
تفسیر وتشریح
ربط آیات : الم تَرَ اِلیَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا نَصِیْبًامِنَ الکِتَابِ یُؤمِنونَ بالجِبْتِ والطاغوتِ سابقہ آیت الم تَرَ الی الذین اوتوا نصیبًا مِنَ الکتاب یَشْتَرُوْنَ (الاَ یةَ ) میں یہود کی قبائح کا ذکر تھا، اس آیت میں یہود کے ایک اور فعل پر تعجب کیا جارہا ہے۔
الجبت والطاغوت سے کیا مراد ہے ؟ جِبت وطاغوت کے معنی میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں، حضرت ابن عباس (رض) ، ابن جبیر اور ابوالعالیہ (رض) فرماتے ہیں کہ جبت حبشی لغت میں ساحر کو کہتے ہیں اور طاغوت کا ہن کو۔
حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جبت سے مراد سحر اور طاغوت سے مراد شیطان ہے، مالک بن انس سے منقول ہے کہ اللہ کے سوا جن چیزوں کی عبادت کی جاتی ہے ان کو طاغوت کہا جاتا ہے، یہ قول قرطبی کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، مذکورہ تمام معافی میں کوئی تضاد نہیں ہے یہ سب ہی مراد ہوسکتے ہیں ایک حدیث میں آیا ہے \&\& اِنّ العیافَة والطرقَ والطِّیْرَةَ مِنَ الجِبَتِ (سنن ابی داؤد کتاب الطب) پر ندہ اڑا کر، خط کھینچ کر، بد فالی یا نیک فالی لینا یہ چیزیں جبت سے ہیں، یعنی یہ سب شیطانی کام ہیں، جبت ایک بہت عام لفظ ہے کہانت (جوتش) فال گیری، ٹونے ٹوٹکے، شگون، مہورت اور دیگر تمام وہمی و خیالی باتوں کا جبت کہا جاسکتا ہے۔
مذکورہ آیت کا شان نزول : غزوۂ احد کے بعد کعب بن اشرف، یہود کے ستر (٧٠) آدمیوں کا ایک وفد لے کر اس غرض سے مکہ پہنچا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف قریش مکہ سے جنگی معاہدہ کیا جائے اور وہ معاہدہ توڑ دیا جائے جو ہجرت کے فوراً بعد یہود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تھا، چناچہ خود کعب بن اشرف سردار مکہ ابوسفیان کے یہاں اترا اور دیگر یہودی نمائندے قریش کے مہمان ہوئے قریش نے جی کھول کر ان کی تواضع کی ایک مجمع عام میں قریش نے یہود سے یہ پوچھا کہ تم بھی اہل کتاب ہو اور محمد بھی اہل کتاب ہیں پھر اس کا کیا ثبوت ہے کہ تمہارا اسطرح آنا تم دونوں کی خفیہ سازش نہیں ؟ اگر واقعی تم دشمن اسلام ہو تو آؤ پہلے جبت اور طاغوت نامی ان دونوں بتوں کو سجدہ کرو اور ان پر ایمان لاؤ۔
فَاِذًا لاَّ یُؤتُؤنَ الناَّسَ نَقِیْرًا .
یہود کی کنجوسی ضرب المثل ہے : یہود کی کنجوسی اور حرص علی المال اور حسد مذاہب کی تاریخ میں ضرب المثل ہے انتہائی غربت اور محتاجی کے وقت ان کا یہ حال ہے، اگر خدا نخواستہ خدا کی مملکت مل جائے تو لوگوں کو بھوکا ماردیں اور کسی کو تل بھر بھی نہ دیں۔
کیا یہود کو یاد نہیں رہا : کہ ہم آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور بڑی سلطنت عطا کرچکے ہیں، کیا اس پورے گھرانے سے حسد کرنے والے اور جلنے والے کم تھے، کیا ان کے گھرانے کو حاسدین نے نیست ونابود کرنے میں کچھ کسر اٹھا رکھی تھی، مگر اس کا انعام کیا ہوا، پھر آج یہود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حسد کر کے کیا فائدہ پائیں گے، کیا انجیل اور زبور محض عنایت خدا وندی سے ابراہیم (علیہ السلام) کے گھرانے کو نہیں ملیں ؟ کیا حضرت یوسف (علیہ السلام) ، حضرت داؤد (علیہ السلام) ، حضرت سلمان (علیہ السلام) اسی گھرانے کے فردنہ تھے، پھر آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حسد کیوں ؟
10 Tafsir as-Saadi
یہ یہودیوں کی برائیوں اور رسول اللہ اور اہل ایمان کے ساتھ ان کے حسد کا ذکر ہے۔ ان کے رذیل اخلاق اور خبیث طبیعتوں نے انہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان ترک کرنے پر آمادہ کیا اور اس کے عوض ان کو بتوں اور طاغوت پر ایمان لانے کی ترغیب دی۔ طاغوت پر ایمان لانے سے مراد ہر غیر اللہ کی عبادت یا شریعت کے بغیر کسی اور قانون کی بنیاد پر فصلہ کرنا ہے۔ اس میں جادو، ٹونہ، کہانت، غیر اللہ کی عبادت اور شیطان کی اطاعت وغیرہ سب شامل ہیں اور یہ سب بت اور طاغوت ہیں۔ اسی طرح ان کے کفر اور حسد نے ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ کفار اور بت پرستوں کے طریقہ کو اہل ایمان کے طریقہ پر ترجیح دیں۔﴿وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا﴾” اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں۔“ یعنی کفار کی خوشامد اور مداہنت کی خاطر اور ایمان سے بغض کی وجہ سے کہتے تھے :﴿هَـٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا﴾ ”طریقے کے اعتبار سے یہ کفار اہل ایمان سے زیادہ راہ ہدیات پر ہیں۔“ وہ کتنے قبیح ہیں، ان کا عناد کتنا شدید اور ان کی عقل کتنی کم ہے؟ وہ مذمت کی وادی میں، ہلاکت کے راستے پر کیسے گامزن ہیں؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات کسی عقلمند کو قائل کرلے گی یا کسی جاہل کی عقل میں آجائے گی؟
کیا اس دین کو جو بتوں اور پتھروں کی عبادت کی بنیاد پر قائم ہے، جو طیبات کو حرام ٹھہرائے، خبائث کو حلال ٹھہرانے، بہت سی محرمات کو جائز قرار دینے، اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر ظلم کے ضابطوں کو قائم کرنے، خالق کو مخلوق کے برابر قرار دینے، اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتابوں کے ساتھ کفر کرنے کو درست گردانتا ہے۔۔۔ اس دنیا پر فضیلت دی جاسکتی ہے جو اللہ رحمٰن کی عبادت، کھلے چھپے اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص، بتوں اور جھوٹے خداؤں کے انکار، صلہ رحمی، تمام مخلوق حتیٰ کہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک، لوگوں کے درمیان عدل کے قیام، ہر خبیث چیز اور ظلم کی تحریم اور تمام اقوال و اعمال میں صدق پر مبنی ہے؟۔۔۔۔۔۔ کیا یہ تفصیل محض ہذیان نہیں؟
11 Mufti Taqi Usmani
jinn logon ko kitab ( yani toraat kay ilm ) mein say aik hissa diya gaya tha kiya tum ney unn-ko nahi dekha kay woh ( kiss tarah ) button aur shetan ki tasdeeq ker rahey hain aur kafiron ( yani butt paraston ) kay baaray mein kehtay hain kay yeh mominon say ziyada seedhay raastay per hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
منہ پر تعریف و توصیف کی ممانعت
یہود و نصاری کا قول تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اس کہ چہیتے ہیں اور کہتے تھے کہ جنت میں صرف یہود جائیں گے یا نصرانی ان کے اس قول کی تردید میں یہ ( آیت الم تر الخ، ) نازل ہوئی اور یہ قول حضرت مجاہد (رح) کے خیال کے مطابق اس آیت کا شان نزول ہی ہے کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو امام بناتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بےگناہ ہے، یہ بھی مروی ہے کہ ان کا خیال تھا کہ ہمارے جو بچے فوت ہوگئے ہیں وہ ہمارے لئے قربت الہ کا ذریعہ ہیں ہمارے سفارشی ہیں اور ہمیں وہ بچالیں گے پس یہ آیت اتری۔ حضرت ابن عباس (رض) یہودیوں کا اپنے بچوں کا آگے کرنے کا واقعہ بیان کر کے فرماتے ہیں وہ جھوٹے ہیں اللہ تعالیٰ کسی گنہگار کو بےگناہ کی وجہ سے چھوڑ نہیں دیتا، یہ کہتے تھے کہ جیسے ہمارے بچے بےخطا ہیں ایسے ہیں ہم بھی بےگناہ ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت دوسروں کو بڑھی چڑھی مدح و ثنا بیان کرنے کے رد میں اتری ہے، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ہم مدح کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں، بخاری و مسلم میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ ایک شخص کو دوسرے کی مدح و ستائش کرتے ہوئے سن کر فرمایا افسوس تو نے اپنے ساتھی کی گردن توڑ دی پھر فرمایا اگر تم میں سے کسی کو ایسی ہی ضرورت کی وجہ سے کسی کی تعریف کرنی بھی ہو تو یوں کہے کہ فلاں شخص کے بارے میں میری رائے یہ ہے اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل یہی ہے کہ کسی کی منہ پر تعریف نہ کی جائے۔ مسند احمد میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کا قول ہے کہ جو کہے میں مومن ہوں وہ کافر ہے اور جو کہے کہ میں عالم ہوں وہ جاہل ہے اور جو کہے میں جنتی ہوں جہنمی ہے، ابن مردویہ میں آپ کے فرمان میں یہ بھی مروی ہے کہ مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ کوئی شخص خود پسندی کرنے لگے اور اپنی سمجھ پر آپ فخر کرنے بیٹھ جائے، مسند احمد میں ہے کہ حضرت معاویہ (رض) بہت ہی کم حدیث بیان فرماتے اور بہت کم جمعے ایسے ہوں گے جن میں آپ نے یہ چند حدیثیں نہ سنائی ہوں کہ جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہوتا ہے اسے اپنے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور یہ مال میٹھا اور سبز رنگ ہے جو اسے اس کے حق کے ساتھ لے گا اسے اس میں برکت دی جائے گی تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کی مدح و ستائش سے پرہیز کرو اس لئے کہ یہ دوسرے پر چھری پھیرنا ہے یہ پچھلا جملہ ان سے ابن ماجہ میں بھی مروی ہے حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ انسان کے پاس ایک صبح کو اپنے دین میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا ( اس کی وجہ یہ ہوتی ہے) کہ وہ صبح کسی سے اپنا کام نکالنے کے لئے ملا، اس کی تعریف شروع کردی اور اس کی مدح سرائی شروع کی اور قسمیں کھا کر کہنے لگا آپ ایسے ہیں اور ایسے ہیں حالانکہ نہ وہ اس کے نقصان کا مالک ہے نہ نفع اور بسا ممکن ہے کہ ان تعریفی کلمات اور اس کا تفصیلی بیان (فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ) 53 ۔ النجم :32) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ پس یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جسے چاہے پاک کر دے کیونکہ تمام چیزوں کی حقیقت اور اصلیت کا عالم وہی ہے، پھر فرمایا کہ اللہ ایک دھاگے کے وزن کے برابر بھی کسی کی نیکی نہ چھوڑے گا، فتیل کے معنی ہیں کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا دھاگہ اور مروی ہے کہ وہ دھاگہ جسے کوئی اپنی انگلیوں سے بٹ لے، پھر فرماتا ہے ان کی افترا پردازی تو دیکھو کہ کس طرح اللہ عزوجل کی اولاد اور اس کے محبوب بننے کے دعویدار ہیں ؟ اور کیسی باتیں کر رہے ہیں کہ ہمیں تو صرف چند دن آگ میں رہنا ہوگا کس طرح اپنے بروں کے نیک اعمال پر اعتماد کیے بیٹھے ہیں ؟ حالانکہ ایک کا عمل دوسرے کو کچھ نفع نہیں دے سکتا جیسے ارشاد ہے (تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْـــَٔــلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :134) یہ ایک گروہ ہے جو گزر چکا ان کے اعمال ان کے ساتھ اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ پھر فرماتا ہے ان کا یہ کھلا کذب و افترا ہی ان کے لئے کافی ہے " جبت " کے معنی حضرت فاروق اعظم (رض) وغیرہ سے جادو اور طاغوت کے معین شیطان کے مروی ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جبت جبش کا لفظ ہے اس کے معنی شیطان کے ہیں، شرک بت اور کاہن کے معنی بھی بتائے گئے ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد حی بن اخطب ہے، بعض کہتے ہیں کعب بن اشرف ہے، ایک حدیث میں ہے فال اور پرندوں کو ڈانٹنا یعنی ان کے نام یا ان کے اڑنے یا بولنے یا ان کے نام سے شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچ کر معاملہ طے کرنا اور جبت ہے، حسن کہتے ہیں جبت شیطان کی غنغناہٹ ہے، طلاغوت کی نسبت سوال کیا گیا تو فرمایا کہ یہ کاہن لوگ ہیں جن کے پاس شیطان آتے تھے مجاہد فرماتے ہیں انسانی صورت کے یہ شیاطین ہیں جن کے پاس لوگ اپنے جھگڑے لے کر آتے ہیں اور انہیں حاکم مانتے ہیں حضرت امام مالک فرماتے ہیں اس سے مراد ہر چیز ہے جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جائے پھر فرمایا کہ ان کی جہالت بےدینی اور خود اپنی کتاب کے ساتھ کفر کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کافروں کو مسلمانوں پر ترجیح اور افضلیت دیتے ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے کہ حی بن اخطب اور کعب بن اشرف مکہ والوں کے پاس آئے تو اہل مکہ نے ان سے کہا تم اہل کتاب اور صاحب علم ہو بھلا بتاؤ تو تم بہتر ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہوں نے کہا تم کیا ہو ؟ اور وہ کیا ہیں ؟ تو اہل مکہ نے کہا ہم صلہ رحمی کرتے ہیں تیار اونٹنیاں ذبح کر کے دوسروں کو کھلاتے ہیں لسی پلاتے ہیں غلاموں کو آزاد کرتے ہیں حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صنبور ہیں ہمارے رشتے ناتے تڑوا دئیے۔ ان کا ساتھ حاجیوں کے چوروں نے دیا جو قبیلہ غفار میں سے ہیں اب بتاؤ ہم اچھے یا وہ ؟ تو ان دونوں نے کہا تم بہتر ہو اور تم زیادہ سیدھے راستے پر ہو اس پر یہ آیت اتری دوسری روایت میں ہے کہ انہی کے بارے میں (آیت ان شانئک ھو الابتر) اتری ہے، بنو وائیل اور بنو نضیر کے چند سردار جب عرب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف آگ لگا رہے تھے اور جنگ عظیم کی تیاری میں تھے اس قوت جب یہ قریش کے پاس آئے تو قریشیوں نے انہیں عالم و درویش جان کر ان سے پوچھا کہ بتاؤ ہمارا دین اچھا ہے یا محمد کا ؟ تو ان لوگوں نے کہا تم اچھے دین والے اور ان سے زیادہ صحیح راستے پر ہو اس پر ہی آیت اتری اور خبر دی گئی کہ یہ لعنتی گروہ ہے اور ان کا ممد و معاون دنیا اور آخرت میں کوئی نہیں اس لئے کہ صرف کفار کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے بطور چاپلوسی اور خوشامد کے یہ کلمات اپنی معلومات کے خلاف کہہ رہے ہیں لیکن یاد رکھ لیں کہ یہ کامیاب نہیں ہوسکتے چناچہ یہی ہوا زبردست لشکر لے کر سارے عرب کو اپنے ساتھ ملا کر تمام تر قوت و طاقت اکٹھی کر کے ان لوگوں کو مدینہ شریف پر چڑھائی کی یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ کے اردگرد خندق کھودنی پڑی لیکن بالآخر دنیا نے دیکھ لیا ان کی ساری سازشیں ناکام ہوئیں یہ خائب و خاسر رہے، نامراد و ناکام پلٹے، دامن مراد خالی رہا بلکہ نامرادی مایوسی اور نقصان عظیم کے ساتھ لوٹنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی مدد آپ کی اور اپنی قوت و عزت سے (کافروں کو) اوندھے منہ گرا دیا، فالحمد اللہ الکبیر المتعال