کیا حکومت میں اُن کا کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ دوسروں کو ایک پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے
2 Ahmed Raza Khan
کیا ملک میں ان کا کچھ حصہ ہے ایسا ہو تو لوگوں کو تِل بھر نہ دیں،
3 Ahmed Ali
کیا سلطنت میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے پھر تو یہ لوگوں کو ایک تِل بھر بھی نہیں دیں گے
4 Ahsanul Bayan
کیا ان کا کوئی حصہ سلطنت میں ہے؟ اگر ایسا ہو تو پھر یہ کسی کو ایک کھجور کی گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کچھ نہ دیں۔(۱)
٥٣۔١ یہ انکاری ہے یعنی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے اگر اس میں ان کا کچھ حصہ ہوتا تو یہ یہود اتنے بخیل ہیں کہ لوگوں کو بالخصوص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا بھی نہ دیتے جس سے کھجور کی گٹھلی کا شگاف ہی پر ہو جاتا نَقَیْرًا اس نقطے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے تو لوگوں کو تل برابر بھی نہ دیں گے
6 Muhammad Junagarhi
کیا ان کا کوئی حصہ سلطنت میں ہے؟ اگر ایسا ہو تو پھر یہ کسی کو ایک کھجور کی گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کچھ نہ دیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا ان کا سلطنت میں کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگوں کو تل بھر بھی نہ دیتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا ملک دنیا میں ان کا بھی کوئی حصہ ّہے کہ لوگوں کو بھوسی برابر بھی نہیں دینا چاہتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے کہ تم لوگوں کو تل برابر بھی نہ دیں گے
10 Tafsir as-Saadi
﴿أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ ﴾ ” کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے؟“ کہ وہ محض اپنی خواہشات نفس کی بنا پر جس کو چاہیں اور جس پر چاہیں فضیلت دیں اور تدبیر مملکت میں اللہ تعالیٰ کے شریک بن جائیں ؟ اگر وہ ایسے ہوتے تو وہ بہت زیادہ بخل سے کام لیتے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَإِذًا ﴾ یعنی اگر اقتدار میں ان کا کوئی حصہ ہوتا ہے، تب ﴿ لَّا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا ﴾” وہ لوگوں کو تل برابر بھی نہ دیتے۔“ یعنی وہ لوگوں کو تھوڑی سی چیز بھی نہ دیتے۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ (کائنات کی) بادشاہی اور اقتدار میں ان کا حصہ ہے۔ انتہائی شدید بخل ان کا وصف بیان کیا ہے۔ یہ ہر ایک کے نزدیک تسلیم شدہ اور متحقق استفہام انکاری ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
to kiya inn ko ( kainat ki ) badshahi ka kuch hissa mila huwa hai ? agar aisa hota to yeh logon ko guthli kay shigaaf kay barabar bhi kuch naa detay .
12 Tafsir Ibn Kathir
یہودیوں کی دشمنی کی انتہا اور اس کی سزا یہاں بطور انکار کے سوال ہوتا ہے کہ کیا وہ ملک کے کسی حصہ کے مالک ہیں ؟ یعنی نہیں ہیں، پھر ان کی بخیلی بیان کی جاتی ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کسی کو ذرا سا بھی نفع پہنچانے کے دوا دار نہ ہوتے خصوصاً اللہ کے اس آخری پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا بھی نہ دیتے جتنا کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا پردہ ہوتا ہے جیسے اور آیت میں ہے (قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا) 17 ۔ الاسراء :100) یعنی اگر تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تم تو خرچ ہوجانے کے خوف سے بالکل ہی روک لیتے گو ظاہر ہے کہ وہ کم نہیں ہوسکتے تھے لیکن تمہاری کنجوسی تمہیں ڈرا دیتی اسی لئے فرما دیا کہ انسان بڑا ہی بخیل ہے، ان کے ان بخیلانہ مزاج کے بعد ان کا حسد واضح کیا جا رہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل سے نہیں اس لئے ان سے حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اور لوگوں کو آپ کی تصدیق سے روک رہے ہیں۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہاں الناس سے مراد ہم ہیں کوئی اور نہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل کے قبائل میں اولاد ابراہیم سے ہیں نبوۃ دی کتاب نازل فرمائی جینے مرنے کے آداب سکھائے بادشاہت بھی دی اس کے باوجود ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اس انعام و اکرام کو مانا لیکن بعض نے خود بھی کفر کیا اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے روکا حالانکہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی تھے تو جبکہ یہ اپنے والوں سے بھی منکر ہوچکے ہیں تو پھر اے نبی آخر الزمان آپ کا انکار ان سے کیا دور ہے ؟ جب کہ آپ ان میں سے بھی نہیں، یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ بعض اس پر یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور بعض نہ لائے پس یہ کافر اپنے کفر میں بہت سخت اور نہایت پکے ہیں اور ہدایت و حق سے بہت ہی دور ہیں پھر انہیں ان کی سزا سنائی جا رہی ہے کہ جہنم کا جلنا انہیں بس ہے، ان کے کفر وعناد کی ان کی تکذیب اور سرکشی کی یہ سزا کافی ہے۔