النساء آية ۶۶
وَلَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِيَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِيْلٌ مِّنْهُمْ ۗ وَلَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا يُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَـكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَاَشَدَّ تَثْبِيْتًا ۙ
طاہر القادری:
اور اگر ہم ان پر فرض کر دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کر ڈالو یا اپنے گھروں کو چھوڑ کر نکل جاؤ تو ان میں سے بہت تھوڑے لوگ اس پر عمل کرتے، اورانہیں جو نصیحت کی جاتی ہے اگر وہ اس پر عمل پیرا ہو جاتے تویہ ان کے حق میں بہتر ہوتا اور (ایمان پر) بہت زیادہ ثابت قدم رکھنے والا ہوتا،
English Sahih:
And if We had decreed upon them, "Kill yourselves" or "Leave your homes," they would not have done it, except for a few of them. But if they had done what they were instructed, it would have been better for them and a firmer position [for them in faith].
1 Abul A'ala Maududi
اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو ہلاک کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے کم ہی آدمی اس پر عمل کرتے حالانکہ جو نصیحت انہیں کی جاتی ہے، اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتری اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر ہم ان پر فرض کرتے کہ اپنے آپ کو قتل کردو یا اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل جاؤ تو ان میں تھوڑے ہی ایسا کرتے، اور اگر وہ کرتے جس بات کی انہیں نصیحت دی جاتی ہے تو اس میں ان کا بھلا تھا اور ایمان پر خوب جمنا
3 Ahmed Ali
اور اگر ہم ان پر حکم کرتے کہ اپنی جانوں کو ہلاک کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے بہت ہی کم آدمی اس پر عمل کرتے اور اگر یہ لوگ کریں جو ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتر ہوتا اور دین میں زیادہ ثابت رکھنے والا ہوتا
4 Ahsanul Bayan
اگر ہم ان پر یہ فرض کر دیتے ہیں کہ اپنی جانوں کو قتل کر ڈالو! یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ! تو اسے ان میں سے بہت ہی کم لوگ حکم بجا لاتے اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لئے بہتر اور زیادہ مضبوطی والا ہو (١)
٦٦۔١ آیت میں انہی نافرمان قسم کے لوگوں کی طرف اشارہ کرکے کہا جا رہا ہے کہ اگر انہیں حکم دیا جاتا کہ ایک دوسرے کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو، جب یہ آسان باتوں پر عمل نہیں کر سکے تو اس پر عمل کس طرح کر سکتے تھے؟ یا اللہ تعالٰی نے اپنے علم کے مطابق ان کے بابت فرمایا جو یقینا واقعات کے مطابق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سخت حکموں پر تو یقینا مشکل ہے لیکن اللہ تعالٰی بہت شفیق اور مہربان ہے اور اس کے احکامات بھی آسان ہیں۔ اس لیے اگر وہ ان حکموں پر چلیں جن کی ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لیے بہتر اور ثابت قدمی کا باعث ہو۔ کیونکہ ایمان اطاعت سے زیادہ اور معصیت سے کم ہوتا ہے نیکی سے نیکی کا راستہ کھلتا اور بدی سے بدی متولد ہوتی ہے یعنی اس کا راستہ کشادہ اور آسان ہوتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر ہم انہیں حکم دیتے کہ اپنے آپ کو قتل کر ڈالو یا اپنے گھر چھوڑ کر نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے ہی ایسا کرتے اور اگر یہ اس نصیحت پر کاربند ہوتے جو ان کو کی جاتی ہے تو ان کے حق میں بہتر اور (دین میں) زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا
6 Muhammad Junagarhi
اور اگر ہم ان پر یہ فرض کر دیتے کہ اپنی جانوں کو قتل کر ڈالو! یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ! تو اسے ان میں سے بہت ہی کم لوگ بجا ﻻتے اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لئے بہتر اور بہت زیاده مضبوطی واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اگر ہم ان پر یہ فرض کر دیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو۔ یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ۔ تو اس پر معدودے چند لوگوں کے سوا اور کوئی عمل نہ کرتا اور اگر یہ اس نصیحت پر عمل کرتے، جو ان کو کی جاتی ہے، تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ اور ثابت قدمی کا زیادہ موجب ہوتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر ہم ان منافقین پر فرض کردیتے کہ اپنے کو قتل کر ڈالیں یا گھر چھوڑ کر نکل جائیں تو چند افراد کے علاوہ کوئی عمل نہ کرتا حالانکہ اگر یہ اس نصیحت پر عمل کرتے تو ان کے حق میں بہتر ہی ہوتا اور ان کو زیادہ ثبات حاصل ہوتا
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر ہم انہیں حکم دیتے کہ اپنے آپ کو قتل کر ڈالوا یا اپنے گھر چھوڑ کر نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے ہی ایسا کرتے اور اگر یہ اس نصیحت پر کار بند ہوتے جو ان کو کیجاتی ہے تو ان کے حق میں بہتر اور (دین میں) زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر شاق گزرنے والے احکام فرض کئے ہوتے مثلاً، اپنے آپ کو قتل کرنا اور گھروں سے نکلنا وغیرہ تو اس پر بہت کم لوگ عمل کرسکتے، پس انہیں اپنے رب کی حمد و ثنا اور اس کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسے آسان احکام نافذ کئے ہیں جن پر عمل کرنا ہر ایک کے لیے آسان ہے اور ان میں کسی کے لیے مشقت نہیں۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ مومن کو چاہئے کہ اسے جو امور گراں گزرتے ہیں، وہ ان کی ضد کو ملاحظہ کرے تاکہ اس پر عبادات آسان ہوجائیں، تاکہ اپنے رب کے لیے اس کی حمد و ثنا اور شکر میں اضافہ ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر انہوں نے اس چیز پر عمل کیا ہوتا جس کی انہیں نصیحت کی گئی ہے، یعنی تمام اوقات کے مطابق ان کے لیے جو اعمال مقرر کئے گئے ہیں، ان کے لیے اپنی ہمتیں صرف کرتے ان کے انتظام اور ان کی تکمیل کے لیے ان کے نفوس پوری کوشش کرتے اور جو چیز انہیں حاصل نہ ہوسکتی اس کے لیے کوشش نہ کرتے اور اس کے درپے نہ ہوتے اور بندے کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے حال پر غور کرے جس کو قائم کرنا لازم ہے اس کی تکمیل میں جدوجہد کرے۔ پھر بتدریج تھوڑا تھوڑا آگے بڑھتا رہے یہاں تک کہ جو دینی اور دنیاوی علم و عمل اس کے لیے مقدر کیا گیا ہے اسے حاصل کرلے۔ یہ اس شخص کے برعکس ہے جو اس معاملے پر ہی نظریں جمائے رکھتا ہے جہاں تک وہ نہ پہنچ سکا اور نہ اس کو اس کا حکم دیا گیا تھا۔ کیونکہ وہ تفریق ہمت، سستی اور عدم نشاط کی بنا پر اس منزل تک نہیں پہنچ سکا۔
پھر ان کو جو نصیحت کی گئی ہے اس پر عمل کرنے سے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں ان کے چار مراتب ہیں۔
اول : بھلائی کا حصول۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ذکر کیا گیا ہے ﴿لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ﴾” البتہ ان کے لیے بہتر ہوتا“ یعنی ان کا شمار نیک لوگوں میں ہوتا جو ان افعال خیر سے متصف ہیں جن کا ان کو حکم دیا گیا تھا اور ان سے شریر لوگوں کی صفات زائل ہوجاتیں کیونکہ کسی چیز کے ثابت ہونے سے اس کی ضد کی نفی لازم آتی ہے۔
ثانی : ثابت قدمی اور اس میں اضافے کا حصول۔ کیونکہ اہل ایمان کے ایمان کو قائم رکھنے کے سبب، جسے قائم رکھنے کی انہیں نصیحت کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ انہیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ دنیا کی زندگی میں، اوامرونواہی میں فتنوں کے وارد ہونے اور مصائب کے نازل ہونے کے وقت انہیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے، تب انہیں ثبات حاصل ہوتا ہے اوامر پر عمل کرنے اور ان نواہی سے اجتناب کی توفیق عطا ہوتی ہے نفس جن کے فعل کا تقاضا کرتا ہے اور ان مصائب کے نازل ہونے پر ثابت قدمی اور استقامت عطا ہوتی ہے جن کو بندہ ناپسند کرتا ہے۔ بندے کو صبر و رضا اور شکر کی توفیق کے ذریعے سے ثابت قدمی عطا ہوتی ہے۔ پس بندے پر اس کی ثابت قدمی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نازل ہوتی ہے اور اسے نزع کے وقت اور قبر میں ثابت قدمی سے نواز دیا جاتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے اوامر کو قائم رکھنے والا بندہ مومن شرعی احکام کا عادی بن جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان احکام سے مانوس ہوجاتا ہے اور ان احکام کا مشتاق بن جاتا ہے اور یہ الفت اور اشتیاق نیکیوں پر ثبات کے لیے اس کے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar hum unn kay liye yeh farz qarar dey detay kay tum apney aap ko qatal kero ya apney gharon say nikal jao to unn mein say thoray say logon kay siwa koi uss per amal naa kerta . aur jiss baat ki unhen naseehat ki jarahi hai agar yeh log uss per amal kerletay to inn kay haq mein kahen behtar hota , aur unn mein khoob sabit qadmi peda ker deta
12 Tafsir Ibn Kathir
عادت جب فطرت ثانیہ بن جائے اور صاحب ایمان کو بشارت رفاقت
اللہ خبر دیتا ہے کہ اکثر لوگ ایسے ہیں کہ اگر انہیں ان منع کردہ کاموں کا بھی حکم دیا جاتا جنہیں وہ اس قوت کر رہے ہیں تو وہ ان کاموں کو بھی نہ کرتے اس لئے کہ ان کی ذلیل طبیعتیں حکم الہ کی مخالفت پر ہی استوار ہوئی ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی خبردی ہے جو ظاہر نہیں ہوئی لیکن ہوتی تو کس طرح ہوتی ؟ اس آیت کو سن کر ایک بزرگ نے فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں یہ حکم دیتا تو یقینا ہم کر گزرتے لیکن اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس سے بچالیا۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا بیشک میری امت میں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دلوں میں ایمان پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط اور ثابت ہے۔ (ابن ابی حاتم) اس روایت کی دوسری سند میں ہے کہ کسی ایک صحابہ رضوان اللہ علیہم نے یہ فرمایا تھا سدی کا قول ہے کہ ایک یہودی نے حضرت ثابت بن قیس بن شماس (رض) سے فخریہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر خود ہمارا قتل بھی فرض کیا تو بھی ہم کر گزریں گے اس پر حضرت ثابت (رض) نے فرمایا واللہ اگر ہم پر یہ فرض ہوتا تو ہم بھی کر گزرتے اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر یہ حکم ہوتا تو اس کے بجا لانے والوں میں ایک ابن ام عبد (رض) بھی ہوتے ہیں ( ابن ابی حاتم) دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس آیت کو پڑھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ بھی اس پر عمل کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے احکام بجا لاتے اور ہماری منع کردہ چیزوں اور کاموں سے رک جاتے تو یہ ان کے حق میں اس سے بہتر ہوتا کہ اور دنیا اور آخرت کی بہتر راہ کی رہنمائی کرتے پھر فرماتا ہے اور جو شخص اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام پر عمل کرے اور منع کردہ کاموں سے باز رہے اسے اللہ تعالیٰ عزت کے گھر میں لے جائے گا نبیوں کا رفیق بنائے گا اور صدیقوں کو جو مرتبے میں نبیوں کے بعد ہیں ان کا مصاحب بنائے گا شہیدوں مومنوں اور صالحین جن کا ظاہر باطن آراستہ ہے ان کا ہم جنس بنائے گا حیال تو کرو یہ کیسے پاکیزہ اور بہترین رفیق ہے صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا کہ ہر نبی کو اس کے مرض کے زمانے میں دنیا میں رہنے اور آخرت میں جانے کا اختیار دیا جاتا ہے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوئے تو شدت نقاہت سے اٹھ نہیں سکتے تھے آواز بیٹھ گئی تھی لیکن میں نے سنا کہ آپ فرما رہے ہیں ان کا ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا جو نبی ہیں، صدیق ہیں، شہید ہیں، اور نیکو کار ہیں، یہ سن کر مجھے معلوم ہوگیا کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ یہی مطلب ہے جو دوسری حدیث میں آپ کے یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ اے اللہ میں بلند وبالا رفیق کی رفاقت کا طالب ہوں یہ کلمہ آپ نے تین مرتبہ اپنی زبان مبارک سے نکالا پھر فوت ہوگئے علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم۔
اس آیت کے شان نزول کا بیان
ابن جریر میں ہے کہ ایک انصاری حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے آپ نے دیکھا کہ سخت مغموم ہیں سبب دریافت کیا تو جواب ملا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں تو صبح شام ہم لوگ آپ کی خدمت میں آبیٹھے ہیں دیدار بھی ہوجاتا ہے اور دو گھڑی صحبت بھی میسر ہوجاتی ہے لیکن کل قیامت کے دن تو آپ نبیوں کی اعلیٰ مجلس میں ہوں گے ہم تو آپ تک پہنچ بھی نہ سکیں گے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ جواب نہ دیا اس پر حضور جبرائیل یہ آیت لائے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آدمی بھیج کر انہیں یہ خوشخبری سنا دی۔ یہی اثر مرسل سند بھی مروی ہے جو سند بہت ہی اچھی ہے، حضرت ربیع (رح) فرماتے ہیں صحابہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ یہ ظاہر ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا درجہ آپ پر ایمان لانے والوں سے یقینا بہت ہی بڑا ہے پس جب کہ جنت میں یہ سب جمع ہوں گے تو آپس میں ایک دوسرے کو کیسے دیکھیں گے اور کیسے ملیں گے ؟ پس یہ آیت اتری اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اوپر کے درجہ والے نیچے والوں کے پاس اتر آئیں گے اور پربہار باغوں میں سب جمع ہوں گے اور اللہ کے احسانات کا ذکر اور اس کی تعریفیں کریں گے اور جو چاہیں گے پائیں گے ناز و نعم سے ہر وقت رہیں گے۔ ابن مردویہ میں ہے ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ میں آپ کو اپنی جان سے اپنے اہل عیال سے اور اپنے بچوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتا ہوں۔ میں گھر میں ہوتا ہوں لیکن شوق زیارت مجھے بیقرار کردیتا ہے صبر نہیں ہوسکتا دوڑتا بھاگتا آتا ہوں اور دیدار کر کے چلا جاتا ہوں لیکن جب مجھے آپ کی اور اپنی موت یاد آتی ہے اور اس کا یقین ہے کہ آپ جنت میں نبیوں کے سب سے بڑے اونچے درجے میں ہوں گے تو ڈر لگتا ہے کہ پھر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دیدار سے محروم ہوجاؤں گا، آپ نے تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن یہ آیت نازل ہوئی۔ اس روایت کے اور بھی طریقے ہیں، صحیح مسلم شریف میں ہے ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) فرماتے ہیں میں رات کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں رہتا اور پانی وغیرہ لا دیا کرتا تھا ایک بار آپ نے مجھ سے فرمایا کچھ مانگ لے میں نے کہا جنت میں میں آپ کی رفاقت کا طالب ہوں فرمایا اس کے سوا اور کچھ ؟ میں نے کہا وہ بھی یہی فرمایا میری رفاقت کے لئے میری مدد کر بکثرت سجدے کیا کر، مسند احمد میں ہے ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا میں اللہ کے لا شریک ہونے کی اور آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہوں اور رمضان کے روزے رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا جو مرتے دم تک اسی پر رہے گا وہ قیامت کے دن نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ اس طرح ہوگا پھر آپ نے اپنی دو انگلیاں اٹھا کر اشارہ کر کے بتایا۔ لیکن یہ شرط ہے کہ ماں باپ کا نافرمان نہ ہو مسند احمد میں ہے جس نے اللہ کی راہ میں ایک ہزار آیتیں پڑھیں وہ انشاء اللہ قیامت کے دن نبیوں کے صدیقوں شہیدوں اور صالحوں کے ساتھ لکھا جائے گا، ترمذی میں ہے سچا امانت دار، تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا، ان سب سے زیادہ زبردست بشارت اس حدیث میں ہے جو صحاج اور مسانید وغیرہ میں صاحبہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی ایک زبردست جماعت ہے بہ تواتر مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو ایک قوم سے محبت رکھتا ہے لیکن اس سے ملا نہیں تو آپ نے فرمایا (حدیث المرء مع من احب) ہر انسان اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا تھا حضرت انس (رض) فرماتے ہیں مسلمان جس قدر اس حدیث سے خوش ہوئے اتنا کسی اور چیز سے خوش نہیں ہوئی، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں واللہ میری محبت تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے حضرت ابوبکر (رض) سے ہے اور حضرت عمر (رض) سے ہے تو مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے بھی انہی کے ساتھ اٹھائے گا گو میرے اعمال ان جیسے نہیں ( یا اللہ تو ہمارے دل بھی اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے چاہنے والوں کی محبت سے بھر دے اور ہمارا حشر بھی انہی کے ساتھ کر دے آمین) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جنتی لوگ اپنے سے بلند درجہ والے جنتیوں کو ان کے بالا خانوں میں اس طرح دیکھیں گے جیسے تم چمکتے ستارے کو مشرق یا مغرب میں دیکھتے ہو ان میں بہت کچھ فاصلہ ہوگا صحابہ (رض) نے کہا یہ منزلیں تو انبیاء کرام کے لئے ہی مخصوص ہوں گی ؟ کیوں اور وہاں تک کیسے پہنچ سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان منزلوں تک وہ بھی پہنچیں گے جو اللہ پر ایمان لائے رسولوں کو سچا جانا اور مانا (بخاری مسلم) ایک حبشی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے آپ فرماتے ہیں جو پوچھنا ہو پوچھو اور سمجھو وہ کہتا ہے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو صورت میں رنگ میں نبوت میں اللہ عزوجل نے ہم پر فضیلت دے رکھی ہے اگر میں بھی اس چیز پر ایمان لاؤں جس پر آپ ایمان لائے ہیں اور ان احکام کو بجا لاؤں جنہیں آپ بجا لا رہے ہیں تو کیا جنت میں آپ کا ساتھ ملے گا ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں اس اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے ہاتھ جگمگاتا ہوا نظر آئے گا۔ لا الہ الا اللہ کہنے والے سے اللہ کا وعدہ ہے اور سبحان اللہ وبحمدہ کہنے والے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں اس پر ایک اور صاحب نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب یہ حقائق ہیں تو پھر ہم کیسے ہلاک ہوسکتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ایک انسان قیامت کے دن اس قدر اعمال لے کر آئے گا اگر کسی پہاڑ پر رکھے جائیں تو وہ بھی بوجھل ہوئے لیکن ایک ہی نعمت جو ؟ ؟ ؟ کے مقابل کھڑی ہوگی جو صرف اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کا نتیجہ ہوگی اس کے سامنے مذکورہ اعمال کم نظر آئیں گے محض اس کا شکریہ میں ہی یہ اعمال کم نظر آئیں گے ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ سے اسے ڈھانک لے اور جنت دے دے اور یہ آیتیں اتریں (هَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـــًٔا مَّذْكُوْرًا سے وَاِذَا رَاَيْتَ ثَمَّ رَاَيْتَ نَعِيْمًا وَّمُلْكًا كَبِيْرًا) 76 ۔ الدہر :1 تا 20) تک۔ تو حبشی صحابی (رض) کہنے لگایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا جنت میں جن جن چیزوں کو آپ کی آنکھیں دیکھیں گی میری آنکھیں بھی دیکھ سکیں گی ؟ آپ نے فرمایا ہاں اس پر وہ حبشی فرط شوق میں روئے اور اس قدر روئے کہ اسی حالت میں فوت ہوگئے (رض) وارضاہ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ ان کی نعش مبارک کو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبر میں اتار رہے تھے یہ روایت غریب ہے اور اس میں اصولی خامیاں بھی ہیں اس کی سند بھی صغیف ہے۔ ارشاد الٰہی ہے یہ خاص اللہ کی عنایت اور اس کا فضل ہے اس کی رحمت سے ہی یہ اس کے قابل ہوئے نہ کہ اپنے اعمال سے، اللہ خوب جاننے والا ہے اس بخوبی معلوم ہے کہ مستحق معلوم ہدایت و توفیق کون ہے ؟