اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی آتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ (بجائے شہرت دینے کے) اسے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنے میں سے صاحبانِ امر کی طرف لوٹادیتے تو ضرور ان میں سے وہ لوگ جو (کسی) بات کانتیجہ اخذ کرسکتے ہیں اس (خبر کی حقیقت) کو جان لیتے، اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے،
English Sahih:
And when there comes to them something [i.e., information] about [public] security or fear, they spread it around. But if they had referred it back to the Messenger or to those of authority among them, then the ones who [can] draw correct conclusions from it would have known about it. And if not for the favor of Allah upon you and His mercy, you would have followed Satan, except for a few.
1 Abul A'ala Maududi
یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اُسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو اِن کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے
2 Ahmed Raza Khan
اور جب ان کے پاس کوئی بات اطمینان یا ڈر کی آتی ہے اس کا چرچا کر بیٹھتے ہیں اور اگر اس میں رسول اور اپنے ذی اختیار لوگوں کی طرف رجوع لاتے تو ضرور اُن سے اُ س کی حقیقت جان لیتے یہ جو بعد میں کاوش کرتے ہیں اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ضرور تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے مگر تھوڑے
3 Ahmed Ali
اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا ڈر کی پہنچتی ہے تو اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر اسے رسول او راپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچاتے تو اس کی تحقیق کرتے جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں اوراگر تم پر الله کا فضل اوراس کی مہربانی نہ ہوتی تو البتہ تم شیطان کے پیچھے ہو لیتے سوائے چند لوگوں کے
4 Ahsanul Bayan
ہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں (١) اور اگر اللہ تعالٰی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔
٨٣۔١ یہ بعض کمزور اور جلدباز مسلمانوں کا رویہ، ان کی اصلاح کی غرض سے بیان کیا جا رہا ہے۔ امن کی خبر سے مراد مسلمانوں کی کامیابی اور دشمن کی ہلاکت و شکست کی خبر ہے۔ (جس کو سن کر امن اور اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جس کے نتیجے میں بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ پر اعتمادی پیدا ہوتی ہے جو نقصان کا باعث بن سکتی ہے) اور خوف کی خبر سے مراد مسلمانوں کی شکست اور ان کے قتل و ہلاکت کی خبر ہے (جس سے مسلمانوں میں افسردگی پھیلنے اور ان کے حوصلے پست ہونے کا امکان ہوتا ہے) اس لئے انہیں کہا جا رہا ہے کہ اس قسم کی خبریں، چاہے امن کی ہوں یا خوف کی انہیں سن کر عام لوگوں میں پھیلانے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا دو یا اہل علم و تحقیق میں انہیں پہنچا دو تاکہ وہ دیکھیں کہ یہ خبر صحیح ہے یا غلط؟ اگر صحیح ہے تو اس وقت اس سے مسلمانوں کا باخبر ہونا مفید ہے یا بےخبر رہنا یہ اصول ویسے تو عام حالات میں بھی بڑا اہم ہے لیکن حالت جنگ میں تو اس کی اہمیت و افادیت بہت ہی زیادہ ہے۔ استنباط کا مادہ نبط ہے نبط اس پانی کو کہتے ہیں جو کنواں کھودتے وقت سب سے پہلے نکلتا ہے۔ اسی لیے استنباط تحقیق اور بات کی تہہ تک پہنچنے کو کہا جاتا ہے۔ (فتح القدیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیرو ہوجاتے
6 Muhammad Junagarhi
جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حاﻻنکہ اگر یہ لوگ اسے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے، تو اس کی حقیقت وه لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوه تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی بات پہنچتی ہے تو اسے پھیلا دیتے ہیں حالانکہ اگر وہ اسے رسول اور اولی الامر کی طرف لوٹاتے تو (حقیقت کو) وہ لوگ جان لیتے جو استنباط کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو چند آدمیوں کے سوا باقی شیطان کی پیروی کرنے لگ جاتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی خبر آتی ہے تو فورا نشر کردیتے ہیں حالانکہ اگر رسول اور صاحبانِ امر کی طرف پلٹا دیتے تو ان سے استفادہ کرنے والے حقیقت حال کا علم پیدا کرلیتے اور اگر تم لوگوں پر خدا کا فضل اور ا سکی رحمت نہ ہوتی تو چند افراد کے علاوہ سب شیطان کا اتباع کرلیتے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچا دیتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کرلیتے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیرو ہوجاتے شان نزال : وَاِذاجَاء ھم امرمن الامن اوالخوف اذاعوابہ، یہ آیت اس ہنگامی دور میں نازل ہوئی جبکہ ہر طرف افواہیں اڑرہی تھیں۔ کبھی خطرہ بےبنیاد کی مبالغہ آمیز اطلاعتیں آئیں جن سے مسلمانوں میں افسردگی پھیلنے اور ان کے حوصلے پست ہونے کا امکان ہوتا اور بعض دفعہ مسلمانوں کی کامیابی اور دشمن کی ناکامی کی خبریں آتیں جس کے نتیجے میں بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی پیدا ہوجاتی جو نقصان کا باعث بن سکتی تھی، مذکورہ آیت میں کمزور اور جلد باز اور افواہ پھیلانے کی اصلاح کی خاطر سرزیش کرتے ہوئے کہا جا ہا ہے کہ افواہیں پھیلانے سے باز رہیں اور عام لوگوں میں افواہیں پھیلانے کے بجائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ذمہ داروں کے پاس پہنچادیا کریں تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ یہ خبریں صحیح ہیں یا غلط۔ علامہ ابن کثیر نے فرمایا کہ اس آیت کے شان نزول میں حضرت عمر خطاب کی حدیث کو ذکر کرنا مناسب ہے وہ یہ کہ حضرت عمر (رض) کو یہ خبر پہنچی کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازاوج مطہرات کو طلاق دیدی ہے حضرت عمر (رض) یہ سنکر اپنے گھر سے مسجد نبوی کی طرف آئے جب مسجد کے دروازے پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ اندر بھی یہی چرچہ ہورہا ہے، یہ دیکھ کر حضرت عمر نے سوچا کہ اس خبر کی تصدیق کرنی چاہیے، چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا کہ کیا آپ نے اپنی ازواج کو طلاق دیدی ہے ؟ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں یہ تحقیق کرنے کے بعد مسجد میں گیا اور دروازے پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج کو طلاق نہیں دی جو آپ لوگ کہہ رہے ہو غلط ہے، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ افواہیں پھیلانا گناہ اور فتنہ ہے : اس آیت سے معلوم ہوا کہ سنی سنائی بات کو تحقیق کے بیان نہیں کرنا چاہیے چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں فرمایا \&\& کَفیٰ بالمٰرْئِ کَذِبًا اَن یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَاسَمِعَ \&\& یعنی انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے بیان کردے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لیے ایک غیر مناسب فعل پر تادیب ہے۔ اہل ایمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی اہم معاملہ آئے جس کا تعلق مصالح عامہ، امن اور اہل ایمان کی خوشی کے ساتھ ہو یا اس کا تعلق کسی خوف سے ہو جس کے اندر کوئی مصیبت پوشیدہ ہو تو اس کو اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیں اور اس خبر کی اشاعت میں عجلت سے کام نہ لیں۔ بلکہ وہ اس خبر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب امر، اہل رائے، اہل علم، خیر خواہی کرنے والوں، عقلمندوں، سنجیدہ اور باوقار لوگوں کی طرف لوٹائیں جو ان تمام امور کی معرفت رکھتے ہیں، جو مسلمانوں کے مصالح اور ان کے اضداد کی پہچان رکھتے ہیں۔ اگر وہ اس خبر کی اشاعت میں کوئی مصلحت، اہل ایمان کے لیے سرور و نشاط کا کوئی پہلو اور انکے دشمنوں سے بچاؤ کی کوئی بات دیکھیں تو وہ ضرور ایسا کریں۔ اگر وہ یہ دیکھیں کہ اس میں مسلمانوں کی کوئی مصلحت نہیں ہے یا اس میں مصلحت تو ہے مگر اس کی مضرت اس مصلحت پر حاوی ہے تو وہ اس خبر کو نہ پھیلائیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ﴾ ” تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کرلیتے۔“ یعنی وہ اپنے غور و فکر، درست آراء اور صحیح راہنمائی کرنے والے علوم کے ذریعے سے درست نتائج کا استخراج کرلیں گے۔ اس آیت کریمہ میں ادب و احترام کے ایک قاعدے پر دلیل ہے کہ جب کسی معاملے میں بحث اور تحقیق مطلوب ہو تو مناسب یہ ہے کہ معاملہ اس شخص کے سپرد کردیا جائے جو ذمے دار ہے اور وہ اس معاملے کو تحقیق کے لیے ایسے شخص کے حوالے کر دے جو اس کی اہلیت رکھتا ہے اور ان ذمہ دار اصحاب کی تحقیق سے پہلے کسی رائے کا اظہار نہ کریں۔ یہ طریق کار زیادہ قرین صواب اور خطا سے زیادہ محفوظ ہے۔ اس میں کسی معاملے کو سنتے ہی اس کو پھیلانے میں عجلت اور جلدی کرنے کی ممانعت کی بھی دلیل ہے، نیز حکم ہے کہ بولنے سے پہلے اس معاملے میں خوب غور و فکر کرلیا جائے کہ آیا اس میں کوئی مصلحت ہے کہ انسان آگے بڑھ کر کوئی اقدام کرے یا کوئی مصلحت نہیں ہے کہ انسان پیچھے ہٹ جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ﴾ ” اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی۔“ یعنی تمہیں توفیق عطا کرنے، ادب سکھانے اور ان امور کی تعلیم دینے میں جو تم نہ جانتے تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی ﴿لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا﴾ ”تو چند لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیرو کار بن جاتے‘‘ کیونکہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ظالم اور جاہل ہے، پس اس کا نفس اسے شر کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا۔ بندہ جب اپنے رب کے پاس پناہ لیتا ہے اور اس کی پناہ میں آ کر گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنے لطف و کرم کے دروازے کھول دیتا ہے، اسے ہر بھلائی کی توفیق عطا کرتا ہے اور اسے شیطان مردود سے بچاتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab inn ko koi bhi khabar phonchti hai , chahye woh aman ki ho ya khof peda kernay wali , to yeh log ussay ( tehqeeq kay baghair ) phelana shuroo ker-detay hain . aur agar yeh uss ( khabar ) ko Rasool kay paas ya ashaab-e-ikhtiyar kay paas ley jatay to unn mein say jo log uss ki khoj nikalney walay hain woh uss ki haqeeqat maloom kerletay . aur ( musalmanon ! ) agar Allah ka fazal aur uss ki rehmat tum per naa hoti to thoray say logon ko chorr ker baqi sabb shetan kay peechay lagg jatay .