المؤمن آية ۵۱
اِنَّا لَنَـنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِى الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ۙ
طاہر القادری:
بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان لانے والوں کی دنیوی زندگی میں (بھی) مدد کرتے ہیں اور اس دن (بھی کریں گے) جب گواہ کھڑے ہوں گے،
English Sahih:
Indeed, We will support Our messengers and those who believe during the life of this world and on the Day when the witnesses will stand –
1 Abul A'ala Maududi
یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اِس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں، اور اُس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے،
2 Ahmed Raza Khan
بیشک ضرور ہم اپنے رسولوں کی مدد کریں گے اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے
3 Ahmed Ali
ہم اپنے رسولوں اور ایمانداروں کے دنیا کی زندگی میں بھی مددگار ہیں اور اس دن جب کہ گواہ کھڑے ہوں گے
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے (١) اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے (۲) کھڑے ہونگے۔
٥١۔١ یعنی ان کے دشمن کو ذلیل اور ان کو غالب کریں گے بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ بعض نبی قتل کر دئیے گئے جیسے حضرت یحیی و زکریا علیہما السلام وغیرہ اور بعض ہجرت پر مجبور ہوگئے جیسے ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وعدہ امداد کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟ دراصل یہ وعدہ غالب حالات اور اکثریت کے اعتبار سے ہے اس لیے بعض حالتوں میں اور بعض اشخاص پر کافروں کا غلبہ اس کے منافی نہیں یا مطلب یہ ہے کہ عارضی طور پر یعض دفعہ اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت کافروں کو غلبہ عطا فرما دیا جاتا ہے لیکن بالاخر اہل ایمان ہی غالب اور سرخرو ہوتے ہیں جیسے حضرت یحیی و زکریا علیہما السلام کے قاتلین پر بعد میں اللہ تعالٰی نے ان کے دشمنوں کو مسلط فرما دیا جنہوں نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی اور انہیں ذلیل و خوار کیا جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے کر مارنا چاہا اللہ نے ان یہودیوں پر رومیوں کو ایسا غلبہ دیا کہ انہوں نے یہودیوں کو خوب ذلت کا عذاب چکھایا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقا یقینا ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن اس کے بعد جنگ بدر، احد، احزاب، غزوہ خیبر، اور پھر فتح مکہ کے ذریعے سے اللہ تعالٰی نے جس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی اور اپنے پیغمبر اور اہل ایمان کو جس طرح غلبہ عطا فرمایا اس کے بعد اللہ کی مدد کرنے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟ ابن کثیر
٥١۔۲ اشہاد شہید گواہ کی جمع ہے جیسے شریف کی جمع اشراف ہے قیامت والے دن فرشتے اور انبیاء علیہم السلام گواہی دیں گے یا فرشتے اس بات کی گواہی دیں گے کہ یا اللہ پیغمبروں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا لیکن ان کی امتوں نے ان کو جھٹلایا۔ علاوہ ازیں امت محمدیہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گواہی دیں گے جیسے کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اس لئے قیامت کو گواہوں کے کھڑا ہونے کا دن کہا گیا ہے۔ اس دن اہل ایمان کی مدد کرنے کا مطلب ہے ان کو ان کے اچھے اعمال کی جزا دی جائے گی اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ہم اپنے پیغمبروں کی اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے (یعنی قیامت کو بھی)
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانیٴ دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک ہم اپنے رسولوں(ع) کی اور ایمان والوں کی اس دنیاوی زندگی میں بھی مدد کرتے رہتے ہیں اور اس دن بھی کریں گے جب گواہ (گواہی دینے کیلئے) کھڑے ہوں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک ہم اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کی زندگانی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی مدد کریں گے جب سارے گواہ اٹھ کھڑے ہوں گے
9 Tafsir Jalalayn
ہم اپنے پیغمبروں کی اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے
آیت نمبر 51 تا 60
ترجمہ : یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی دنیوی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی کریں گے جس دن گواہی دینے والے گواہی دیں گے اَشْھاد، شاھِد کی جمع ہے، اور وہ ملائکہ ہیں جو رسولوں کے (پیغام) پہنچانے کی اور کافروں کے جھٹلانے کی گواہی دیں گے جس دن ظالموں کو ان کے (عذر) معذرت کچھ فائدہ نہ دیں گے، (یَنفَعُ ) تاء اور یاء کے ساتھ اگر وہ معذرت کریں گے اور ان کے لئے لعنت ہوگی یعنی رحمت سے دوری اور ان کے لئے آخرت برا گھر ہے یعنی دار آخرت کے عذاب کی شدت اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت نامہ یعنی تورات اور معجزات عطا فرمائے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب یعنی تورات کا وارث بنایا کہ وہ ہدایت یعنی رہنما اور عقلمندوں کے لئے نصیحت تھی سو اے محمد ! آپ صبر کیجئے بلاشبہ اپنے اولیاء کی مدد کا اللہ کا وعدہ سچا ہے اور آپ اور آپ کے متبعین ان اولیاء میں شامل ہیں آپ اپنی خطا کی معافی مانگتے رہئے تاکہ لوگ آپ کی پیروی کریں اور صبح و شام حمد کے ساتھ اپنے رب کی تسبیح کرتے رہئے عَشِیّ زوال کے بعد کا وقت ہے، مراد پنجوقتہ نمازیں ہیں، جو لوگ باوجود اپنے پاس کسی سند (دلیل) نہ ہونے کے اللہ کی آیات یعنی قرآن میں جھگڑے نکالتے ہیں ان کے دلوں میں بجز تکبر اور اس بات کی خواہش کے کہ آپ پر غالب آجائیں کچھ نہیں وہ اپنے اس مقصد کو کبھی حاصل نہیں کرسکتے سو آپ ان کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے رہئے، بلاشبہ وہ ان کی باتوں کو سننے والا اور ان کے احوال کا جاننے والا ہے (آئندہ آیت) منکرین بعث کے بارے میں نازل ہوئی ابتداءً آسمان و زمین کو پیدا کرنا انسان کو دوبارہ پیدا کرنے سے یقیناً بہت بڑا کام ہے اور دوبارہ پیدا کرنا اعادہ ہے لیکن اکثر لوگ یعنی کفار اس بات سے ناواقف ہیں تو کفار نابینا کے مثل ہیں اور جو اس بات سے واقف ہیں وہ بینا کے مانند ہیں، اور نابینا اور بینا برابر نہیں اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے حال یہ کہ وہ مخلص بھی ہیں، بدکاروں کے برابر نہیں ہوسکتے اور (وَلَا المسئُ ) میں لا زائدہ ہے، وہ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہیں یاء اور تاء کے ساتھ یعنی ان کا نصیحت حاصل کرنا بہت کم ہے قیامت بالیقین اور بلاشبہ آنے والی ہے یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ اس پر ایمان نہیں رکھتے اور تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یعنی تم میری بندگی کرو میں تم کو اس کا اجردوں (یہ ترجمہ) آئندہ آیت کے قرینہ کی وجہ سے ہے یقین مانو جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ بہت جلدی ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے یاء کے فتحہ اور خاء کے ضمہ کے ساتھ اور اس کا عکس۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : یومَ یقوم الَا شھادُ اس کا عطف فی الحیٰوۃ الدنیا ہر ہے، یعنی ہم ان کی دنیوی زندگی میں مدد کریں گے اور گواہی کے دن بھی مدد کریں گے۔ قولہ : یوم لا ینفَعُ ، یومَ یَقُوْمُ الأشھادُ سے بدل ہے۔
قولہ : معذِرَتُھُم تنفَعُ کا فاعل ہے لَھُمْ خبر مقدم ہے، اور اَللَّعْنَۃُ مبتداء مؤخر ہے۔ قولہ : لَھُمْ سوء الدار کا عطف لَھُم اللعنۃ پر ہے۔
قولہ : لَوْاعْتَذَرُوْا اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا جواب ہے۔
شبہ : یَوْمَ لاَیَنْفَعُ الظّٰلِمِیْنَ مَعْذِرَتُھُمْ لا مقتضیٰ یہ ہے کہ کفار یوم جزاء میں عذر معذرت کریں گے مگر ان کی یہ عذر و معذرت کچھ فائدہ نہیں دے گی، اور ایک آیت وَلَا یُؤْذَنُ لَھُمْ فَیَعْذِرُوْنَ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو عذرو معذرت کی اجازت ہی نہیں ہوگی، ان دونوں آیتوں میں تضاد معلوم ہوتا ہے۔
دفع : مفسر علام نے لَوْ اِعْتَذَرُوْا کا اضافہ کرکے اسی شبہ کو دفع کیا ہے، دفع کا خلاصہ یہ ہے، بالفرض اگر کفار اس روز عذر معذرت کریں گے بھی تو قبول نہ ہوگی، لہٰذا اب کوئی تعارض نہیں ہے۔
قولہ : ھَادِیًا اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ھُدًی مصدر بمعنی ھَادِیًا، الکتابَ سے حال ہے اور اسی طرح ذکرٰٰی یہ بھی تذکرۃً کے معنی میں ہو کر الکتاب سے حال ہے، مفسر علام نے اسی ترکیب کی طرف اشارہ کیا ہے، اور بعض حضرات نے ھدٰی اور ذِکرٰی کو اَوْرَثْنَا کا مفعول لِاَجَلِہٖ قرار دے کر محلاً منصوب کہا ہے، ای اَوْرَثْنَا الکتابَ لا جل الھدٰی والذِکرٰٰی۔
قولہ : لِیُسْتَنَّ بِکَ اس کلمہ کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کو دفع کرنا ہے۔
شبہ : وَاستَغْفِرْ لِذَنْبِکَ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اپنے گناہوں کی معافی طلب کیجئے، جبکہ اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی صغائر وکبائر سے قبل النبوۃ و بعد النبوۃ معصوم ہوتا ہے، تو پھر گناہوں سے معافی طلب کرنے کے حکم کا کیا مقصد ہے ؟
دفع : پہلا جواب : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معصوم ہونے کے باوجود طلب مغفرت کا حکم دراصل امت کو تعلیم کے لئے ہے تاکہ نبی کی اقتداء میں امت بھی اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرتی رہے۔
دوسرا جواب : کلام حذف مضاف کے ساتھ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے استغفر لذَنْبِ اُمَّتِکَ آپ چونکہ امت کے شفیع ہیں اس لئے ذنبٌ کی نسبت آپ کی طرف کردی گئی ہے، ورنہ مراد امت کے ذنب ہیں۔
تیسرا جواب : ذنبٌ سے مراد خلاف اولیٰ ہے، حسناتُ الا برار سیئاتُ المقربین کے قاعدہ سے لہٰذا خلاف اولیٰ کو ذنب سے تعبیر کردیا گیا ہے۔
قولہ : قلیلاً مَا یَتَذَکَّرُوْنَ . قلِیْلاً مفعول مطلق محذوف کی صفت ہے مَازائدہ ہے تاکید قلت کیلئے، تقدیر عبارت یہ ہے یَتَذَکَّرُوْنَ تَذَکُّرًا قلیلاً ۔
قولہ : تَذَکرھُمْ قلیلٌ، قلیلٌ کے رفع کے ساتھ، تَذَکُّرُھُمْ مبتداء کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع، اور بعض نسخوں میں قلیلاً نصب کے ساتھ ہے، نصب کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ قلیلاً کق حال قرار دیا جائے، اور تَذَکُّرھم کی خبر محذوف مانی جائے، تقدیر عبارت یہ ہوگی تَذَکُّرُھُمْ یَحْصُلُ حالَ کونِہٖ قَلیلاً ، قلیلٌ پر رفع اولیٰ ہے جیسا کہ مفسر (رح) تعالیٰ نے اختیار کیا ہے۔
قولہ : بالیاء والتاء، یَتَذَکَّرُوْنَ میں دونوں قراءتیں ہیں، نافع اور ابن کثیر وغیرہ نے یاء کے ساتھ پڑھا ہے، ماقبل یعنی اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ کی موافقت کیلئے، اور باقیوں نے بطور التفات کے خطاب کیساتھ تَتَذکَّرُون پڑھا ہے، مقصد انکار وتوبیخ میں اضافہ کرنا ہے۔
قولہ : اُعْبُدُوْنِی، اُدْعُونِی کی دو تفسیریں ہیں ایک حقیقت اور دوسری مجاز، حقیقت کا مطلب ہے کہ اُدْعونی کو اپنے حقیقی یعنی دعاء کے معنی میں رکھا جائے، مجاز کا مطلب یہ ہے کہ دعاء بمعنی عبادت لیا جائے، عبادت چونکہ دعاء کو شامل ہوتی ہے اور دعاء عبادت کا جزء ہے، اور جز بول کر قرینہ کی وجہ سے مجازاً کل مراد لیا جاسکتا ہے، شارح (رح) تعالیٰ نے دوسری تفسیر کو پسند کیا ہے، اور دعاء بمعنی عبادت لیا ہے، اور قرینہ بعد والی آیت اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عن عبَادَتی (الآیۃ) ہے۔
تفسیر وتشریح
انا۔۔ رسلنا (الآیۃ) یعنی ہم رسولوں کے دشمنوں کو ذلیل اور ان رسولوں کو غالب کریں گے، بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ بعض انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کیا گیا، جیسے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور زکریا (علیہ السلام) وغیرہ ہما، اور بعض ہجرت پر مجبور کیا گیا جیسے ابراہیم (علیہ السلام) اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ساتھ میں صحابہ کرام (رض) کو بھی دشمنوں نے ہجرت پت مجبور کردیا، وعدۂ امداد ونصرت کے باوجود ایسا کیوں ہوا ؟
مذکورہ شبہ کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں :
پہلا جواب : مفسرین میں سے بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ نصرت کا یہ وعدہ اکثر واغلب کے اعتبار سے ہے، اس لئے بعض حالات میں دشمنوں کا غالب آجانا اس کے منافی نہیں۔
دوسرا جواب : عارضی طور پر بعض دفعہ اللہ کی حکمت ومشئیت کے تحت کافروں کو غلبہ عطا کیا جاتا ہے، لیکن بالآخر اہل ایمان ہی غالب و سرخ رو ہوتے ہیں، جیسے حضرت یحییٰ و زکریا (علیہما السلام) کے قاتلین پر بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو مسلط فرمادیا، جنہوں نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی، اور انہیں ذلیل و خوار کیا، جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دنیا چاہا، اللہ نے ان یہودیوں پر رومیوں کو ایسا غلبہ دیا کہ انہوں نے یہودیوں کو خوب ذلت و خواری کا عذاب چکھایا، پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقیناً ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن اس کے بعد غزوۂ بدر میں اور غزؤہ احزاب و خیبر و فتح مکہ کے ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسلام کے دشمنوں پر عظیم الشان فتح نصیب فرمائی، دشمن ذلیل و خوار ہو کر گرفتار ہوئے۔
اَشْھَاد، شھید کی جمع ہے، جیسے اشراف، شریف کی جمع ہے، بمعنی گواہ، قیامت کے روز فرشتے اور انبیاء (علیہم السلام) گواہی دیں گے، یا فرشتے اس بات کی گواہی دیں گے اے الہٰ العالمین تیرے پیغمبروں نے تیرا پیغام اپنی اپنی امتوں کو پہنچا دیا تھا لیکن ان کی امتوں نے ان کی تکذیب کی، علاوہ ازیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت بھی گواہی دے گی، جیسا کہ ساسق میں گذر چکا ہے، اسی لئے قیامت کو ” یوم الاشہاد “ گواہیوں کا دن کہا گیا ہے۔
ھُدًی وذکرٰی دونوں مصدر ہیں محل میں حال کے واقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں اور معنی میں ھادٍ اور مذکِّر کے ہیں۔
اِنْ صدورھم یعنی یہ لوگ جو اللہ کی آیات میں بغیر کسی حجت و دلیل کے تکرار کرتے ہیں اس کی وجہ تکبر اور بڑائی کے سوا کچھ نہیں ہے، یہ اپنی بڑائی چاہتے ہیں اور بےوقوفی سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لڑائی ہم کو اپنے مذہت پر قائم رہنے کی وجہ سے حاصل ہے، اس کو چھوڑ کر اگر ہم مسلمان ہوجائیں گے تو ہماری یہ ریاست اور یہ اقتدار ختم ہوجائے گا، قرآن کریم کہتا ہے مَا ھُمْ ببَالِغِیْہِ یعنی یہ لوگ اپنی مطلوبہ بڑائی بغیر اسلام لائے حاصل نہیں کرسکتے۔ (قرطبی)
وقال۔۔ لکم (الآیۃ) دعاء کے لفظی معنی پکارنے کے ہیں اور اس اکثر استعمال حاجت اور ضرورت کے لئے پکارنے میں ہوتا ہے، بعض اوقات مطلق ذکر اللہ کو بھی دعاء کہہ دیا جاتا ہے، یہ آیت امت محمدیہ کا خاص اعزاز ہے کہ ان کو دعاء مانگنے کا حکم دیا گیا، اور اس کی قبولیت کا وعدہ کیا گیا، اور دعاء نہ مانگنے والے کے لئے وعید وارد ہوئی ہے۔ حضرت قتادہ (رض) نے کعب احبار سے نقل کیا ہے پہلے زمانہ میں یہ خصوصیت انبیاء (علیہم السلام) کی تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا تھا کہ آپ دعاء کریں میں قبول کروں گا، امت محمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ حکم پوری امت کیلئے عام کردیا گیا اور قبولیت کا وعدہ بھی کیا گیا۔ (ابن کثیر)
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کے لئے دنیا، برزخ اور قیامت کے روز کے عذاب کا ذکر فرمایا اور اہل جہنم کے، جو اس کے رسولوں سے عناد رکھتے اور ان کے خلاف جنگ کرتے تھے، برے حال کا ذکر کیا، تو فرمایا : ﴿إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” ہم یقیناً اپنے رسولوں کی اور ان کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں۔“ یعنی ہم دنیا میں دلیل، برہان اور نصرت کے ذریعے سے اپنے رسولوں کی مدد کرتے ہیں ﴿ وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ﴾ ” اور اس دن بھی )مدد کریں گے( جب گواہ کھڑے ہوں گے۔“ آخرت میں ان کے حق میں فیصلے کے ذریعے سے ان کی مدد کریں گے، ان کے متبعین کو ثواب سے نوازیں گے اور ان لوگوں کو سخت عذاب دیں گے جنہوں نے اپنے رسولوں کے خلاف جنگ کی۔
11 Mufti Taqi Usmani
yaqeen rakho kay hum apney payghumberon aur emaan laney walon ki dunyawi zindagi mein bhi madad kertay hain , aur uss din bhi keren gay jab gawahi denay walay kharray hon gay ,
12 Tafsir Ibn Kathir
رسولوں اور اہل ایمان کو دنیا و آخرت میں مدد کی بشارت۔
آیت میں رسولوں کی مدد کرنے کا اللہ کا وعدہ ہے، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض رسولوں کو ان کی قوموں نے قتل کردیا، جیسے حضرت یحییٰ ، حضرت زکریا، حضرت شعیب صلوات اللہ علیہم وسلامہ، اور بعض انبیاء کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا، جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام۔ اور حضرت عیسیٰ کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف ہجرت کرائی۔ پھر کیا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ وعدہ پورا کیوں نہیں ہوا ؟ اس کے دو جواب ہیں ایک تو یہ کہ یہاں گو عام خبر ہے لیکن مراد بعض سے ہے، اور یہ لعنت میں عموماً پایا جاتا ہے کہ مطلق ذکر ہو اور مراد خاص افراد ہوں۔ دوسرے یہ کہ مدد کرنے سے مراد بدلہ لینا ہو۔ پس کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جسے ایذاء پہنچانے والوں سے قدرت نے زبردست انتقام نہ لیا ہو۔ چناچہ حضرت یحییٰ ، حضرت زکریا، حضرت شعیب کے قاتلوں پر اللہ نے ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا اور انہوں نے انہیں زیر و زبر کر ڈالا، ان کے خون کی ندیاں بہا دیں اور انہیں نہایت ذلت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا۔ نمرود مردود کا مشہور واقعہ دنیا جانتی ہے کہ قدرت نے اسے کیسی پکڑ میں پکڑا ؟ حضرت عیسیٰ کو جن یہودیوں نے سولی دینے کی کوشش کی تھی۔ ان پر جناب باری عزیز و حکیم نے رومیوں کو غالب کردیا۔ اور ان کے ہاتھوں ان کی سخت ذلت و اہانت ہوئی۔ اور ابھی قیامت کے قریب جب آپ اتریں گے تب دجال کے ساتھ ان یہودیوں کی جو اس کے لشکری ہوں گے قتل کریں گے۔ اور امام عادل اور حاکم باانصاف بن کر تشریف لائیں گے صلیب کو توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ باطل کردیں گے بجز اسلام کے اور کچھ قبول نہ فرمائیں گے۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان مدد اور یہی دستور قدرت ہے جو پہلے سے ہے اور اب تک جاری ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کی دنیوی امداد بھی فرماتا ہے اور ان کے دشمنوں سے خود انتقام لے کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا ہے جو شخص میرے نبیوں سے دشمنی کرے اس نے مجھے لڑائی کیلئے طلب کیا۔ دوسری حدیث میں ہے میں اپنے دوستوں کی طرف سے بدلہ ضرور لے لیا کرتا ہوں جیسے کہ شیر بدلہ لیتا ہے اسی بناء پر اس مالک الملک نے قوم نوح سے، عاد سے، ثمودیوں سے، اصحاب الرس سے، قوم لوط سے، اہل مدین سے اور ان جیسے ان تمام لوگوں سے جنہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور حق کا خلاف کیا تھا بدلہ لیا۔ ایک ایک کو چن چن کر تباہ برباد کیا اور جتنے مومن ان میں تھے ان سب کو بچا لیا۔ امام سدی فرماتے ہیں جس قوم میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے یا ایمان دار بندے انہیں پیغام الٰہی پہنچانے کیلئے کھڑے ہوئے اور اس قوم نے ان نبیوں کی یا ان مومنوں کی بےحرمتی کی اور انہیں مارا پیٹا قتل کیا ضرور بالضرور اسی زمانے میں عذاب الٰہی ان پر برس پڑے۔ نبیوں کے قتل کے بدلے لینے والے اٹھ کھڑے ہوئے اور پانی کی طرح ان کے خون سے پیاسی زمین کو سیراب کیا۔ پس گو انبیاء اور مومنین یہاں قتل کئے گئے لیکن ان کا خون رنگ لایا اور ان کے دشمنوں کا بھس کی طرح بھرکس نکال دیا۔ ناممکن ہے کہ ایسے بندگان خاص کی امداد و اعانت نہ ہو اور ان کے دشمنوں سے پورا انتقام نہ لیا گیا ہو۔ اشرف الانبیاء حبیب اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات زندگی دنیا اور دنیا والوں کے سامنے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو غلبہ دیا اور دشمنوں کی تمام تر کوششوں کو بےنتیجہ رکھا۔ ان تمام پر آپ کو کھلا غلبہ عطا فرمایا۔ آپ کے کلمے کو بلند وبالا کیا آپ کا دین دنیا کے تمام ادیان پر چھا گیا۔ قوم کی زبردست مخالفتوں کے وقت اپنے نبی کو مدینے پہنچا دیا اور مدینے والوں کو سچا جاں نثار بنا کر پھر مشرکین کا سارا زور بدر کی لڑائی میں ڈھا دیا۔ ان کے کفر کے تمام وزنی ستون اس لڑائی میں اکھیڑ دیئے۔ سرداران مشرک یا تو ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گئے یا مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدی بن کر نامرادی کے ساتھ گردن جھکائے نظر آنے لگے قید و بند میں جکڑے ہوئے ذلت و اہانت کے ساتھ مدینے کی گلیوں میں کسی کے ہاتھوں پر اور کسی کے پاؤں پر دوسرے کی گرفت تھی۔ اللہ کی حکمت نے ان پر پھر احسان کیا اور ایک مرتبہ پھر موقعہ دیا فدیہ لے کر آزاد کردیئے گئے لیکن پھر بھی جب مخالفت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باز نہ آئے اور اپنے کرتوتوں پر اڑے رہے۔ تو وہ وقت بھی آیا کہ جہاں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھپ چھپا کر رات کے اندھیرے میں پاپیادہ ہجرت کرنی پڑی تھی وہاں فاتحانہ حیثیت سے داخل ہوئے اور گردن پر ہاتھ باندھے دشمنان رسول سامنے لائے گئے۔ اور بلاد حرم کی عظمت و عزت رسول محترم کی وجہ سے پوری ہوئی۔ اور تمام شرک و کفر اور ہر طرح کی بےادبیوں سے اللہ کا گھر پاک صاف کردیا گیا۔ بالآخر یمن بھی فتح ہوا اور پورا جزیرہ عرب قبضہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آگیا۔ اور جوق کے جوق لوگ اللہ کے دین میں داخل ہوگئے۔ پھر رب العالمین نے اپنے رسول رحمتہ العالمین کو اپنی طرف بلا لیا اور وہاں کی کرامت و عظمت سے اپنی مہمانداری میں رکھ کر نوازا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ پھر آپ کے بعد آپ کے نیک نہاد صحابہ کو آپ کا جانشین بنایا۔ جو محمدی جھنڈا لئے کھڑے ہوگئے اور اللہ کی توحید کی طرف اللہ کی مخلوق کو بلانے لگے۔ جو روڑا راہ میں آیا اسے الگ کیا۔ جو خار چمن میں نظر پڑا اسے کاٹ ڈالا گاؤں گاؤں شہر شہر ملک ملک دعوت اسلام پہنچا دی جو مانع ہوا اسے منع کا مزہ چکھایا اسی ضمن میں مشرق و مغرب میں سلطنت اسلامی پھیل گئی۔ زمین پر اور زمین والوں کے جسموں پر ہی صحابہ کرام نے فتح حاصل نہیں کی بلکہ ان کے دلوں پر بھی فتح پالی اسلامی نقوش دلوں میں جما دیئے اور سب کو کلمہ توحید کے نیچے جمع کردیا۔ دین محمد نے زمین کا چپہ چپہ اور کونا کو نا اپنے قبضے میں کرلیا۔ دعوت محمدیہ بہرے کانوں تک بھی پہنچ چکی۔ صراط محمدی اندھوں نے بھی دیکھ لیا۔ اللہ اس پاکباز جماعت کو ان کی اولو العزمیوں کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے۔ آمین ! الحمد للہ کا اور اس کے رسول کا کلام موجود ہے۔ اور آج تک ان کے سروں پر رب کا ہاتھ ہے۔ اور قیامت تک یہ وطن مظفر و منصور ہی رہے گا اور جو اس کے مقابلے پر آئے گا منہ کی کھائے گا اور پھر کبھی منہ نہ دکھائے گا یہی مطلب ہے اس مبارک آیت کا۔ قیامت کے دن بھی دینداروں کی مدد و نصرت ہوگی اور بہت بڑی اور بہت اعلیٰ پیمانے تک۔ گواہوں سے مراد فرشتے ہیں، دوسری آیت میں یوم بدل ہے پہلی آیت کے اسی لفظ سے۔ بعض قرأتوں میں یوم ہے تو یہ گویا پہلے یوم کی تفسیر ہے۔ ظالموں سے مراد مشرک ہیں ان کا عذر و فدیہ قیامت کے دن مقبول نہ ہوگا وہ رحمت رب سے اس دن دور دھکیل دیئے جائیں گے۔ ان کیلئے برا گھر یعنی جہنم ہوگا۔ ان کی عاقبت خراب ہوگی، حضرت موسیٰ کو ہم نے ہدایت ونور بخشا۔ بنی اسرائیل کا انجام بہتر کیا۔ فرعون کے مال و زمین کا انہیں وارث بنایا کیونکہ یہ اللہ کی اطاعت اور اتباع رسول میں ثابت قدمی کے ساتھ سختیاں برداشت کرتے رہے تھے۔ جس کتاب کے یہ وارث ہوئے وہ عقلمندوں کیلئے سرتاپا باعث ہدایت و عبرت تھی، اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ صبر کیجئے اللہ کا وعدہ سچا ہے آپ کا ہی بول بالا ہوگا انجام کے لحاظ سے آپ والے ہی غالب رہیں گے۔ رب اپنے وعدے کے خلاف کبھی نہیں کرتا بلاشک و شبہ دین اللہ کا اونچا ہو کر ہی رہے گا۔ تو اپنے رب سے استغفار کرتا رہ۔ آپ کو حکم دے کر دراصل آپ کی امت کو استغفار پر آمادہ کرنا ہے۔ دن کے آخری اور رات کے انتہائی وقت خصوصیت کے ساتھ رب کی پاکیزگی اور تعریف بیان کیا کر، جو لوگ باطل پر جم کر حق کو ہٹا دیتے ہیں دلائل کو غلط بحث سے ٹال دیتے ہیں ان کے دلوں میں بجز تکبر کے اور کچھ نہیں ان میں اتباع حق سے سرکشی ہے۔ یہ رب کی باتوں کی عزت جانتے ہی نہیں۔ لیکن جو تکبر اور جو خودی اور جو اپنی اونچائی وہ چاہتے ہیں وہ انہیں ہرگز حاصل نہیں ہونے کی۔ ان کے مقصود باطل ہیں۔ ان کے مطلوب لاحاصل ہیں۔ اللہ کی پناہ طلب کر کہ ان جیسا حال کسی بھلے آدمی کا نہ ہو۔ اور ان نخوت پسند لوگوں کی شرارت سے بھی اللہ کی پناہ چاہ کر۔ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ کہتے تھے دجال انہی میں سے ہوگا اور اس کے زمانے میں یہ زمانے کے بادشاہ ہوجائیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ طلب کیا کرو۔ وہ سمیع وبصیر ہے۔ لیکن آیت کو یہودیوں کے بارے میں نازل شدہ بتانا اور دجال کی بادشاہی اور اس کے فتنے سے پناہ کا حکم۔ سب چیزیں تکلف سے پر ہیں۔ مانا کہ یہ تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے مگر یہ قول ندرت سے خالی نہیں۔ ٹھیک یہی ہے کہ عام ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔