اور اُن کو برائیوں (کی سزا) سے بچا لے، اور جسے تو نے اُس دن برائیوں (کی سزا) سے بچا لیا سو بے شک تو نے اُس پر رحم فرمایا، اور یہی تو عظیم کامیابی ہے،
English Sahih:
And protect them from the evil consequences [of their deeds]. And he whom You protect from evil consequences that Day – You will have given him mercy. And that is the great attainment."
1 Abul A'ala Maududi
اور بچا دے اُن کو برائیوں سے جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اُس پر تو نے بڑا رحم کیا، یہی بڑی کامیابی ہے"
2 Ahmed Raza Khan
اور انہیں گناہوں کی شامت سے بچالے، اور جسے تو اس دن گناہوں کی شامت سے بچائے تو بیشک تو نے اس پر رحم فرمایا، اور یہی بڑی کامیابی ہے،
3 Ahmed Ali
اور انہیں برائیوں سے بچا اور جس کو تو اس دن برائیوں سے بچائے گا سو اس پر تو نے رحم کر دیا اور یہ بڑی کامیابی ہے
4 Ahsanul Bayan
انہیں برائیوں سے بھی محفوظ رکھ (١) حق تو یہ ہے کہ اس دن تو نے جسے برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحمت کر دی اور بہت بڑی کامیابی ہے۔
٩۔١ سیأت سے مراد یہاں عقوبات ہیں یا پھر جزا محذوف ہے یعنی انہیں آخرت کی سزاؤں سے یا برائیوں کی جزا سے بچانا۔ ۹۔۲ یعنی آخرت کے عذاب سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہو جانا یہی سب سے بڑی کامیابی ہے اس لیے کہ اس جیسی کوئی کامیابی نہیں اور اس کے برابر کوئی نجات نہیں ان آیات میں اہل ایمان کے لیے دو عظیم خوش خبریاں ہیں ایک تو یہ کہ فرشتے ان کے لیے غائبانہ دعا کرتے ہیں جس کی حدیث میں بڑی فضلیت وارد ہے دوسری یہ کہ اہل ایمان کے خاندان جنت میں اکٹھے ہو جائیں گے جعلنا اللہ من الذین یلحقھم اللہ بابائھم الصالحین۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ان کو عذابوں سے بچائے رکھ۔ اور جس کو تو اس روز عذابوں سے بچا لے گا تو بےشک اس پر مہربانی فرمائی اور یہی بڑی کامیابی ہے
6 Muhammad Junagarhi
انہیں برائیوں سے بھی محفوظ رکھ، حق تو یہ ہے کہ اس دن تونے جسے برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحمت کر دی اور بہت بڑی کامیابی تو یہی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ان کو برائیوں سے بچا اور جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا لیا بس تو نے اس پر رحمت فرمائی اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور انہیں برائیوں سے محفوظ فرما کہ آج جن لوگوں کو تو نے برائیوں سے بچالیا گویا ان ہی پر رحم کیا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور انکو عذابوں سے بچائے رکھ اور جس کو تو اس روز عذابوں سے بچا لے گا تو بیشک اس پر مہربانی فرمائی اور یہی بڑی کامیابی ہے
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ﴾ ” اور انہیں برائیوں سے بچا لے“ یعنی تو ان کو برے اعمال اور ان کی جزا سے دور رکھ کیونکہ یہ انسان کو بہت تکلیف دیتے ہیں۔ ﴿وَمَن تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ﴾ ” اور جس کو تو اس دن عذابوں سے بچا لے گا“ یعنی قیامت کے روز ﴿ فَقَدْ رَحِمْتَهُ ﴾ ” تو بے شک تو نے اس پر رحمت کی“ کیونکہ تیری رحمت تیرے بندوں پر ہمیشہ سایہ کناں رہی ہے، بندوں کے گناہ اور ان کی برائیاں ہی انہیں اس رحمت سے محروم کرتے ہیں۔ جس کو تو نے برائیوں سے بچا لیا اسے تو نے نیکیوں کی توفیق اور ان کی جزائے حسن سے بہرہ مند کیا۔ ﴿وَذٰلِكَ﴾ ” اور یہ“ یعنی منہیات کا دور ہونا، برائیوں سے بچانا اور محبوب و مرغوب کا حاصل ہونا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کے سبب سے ہے۔ ﴿هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ ” یہی بڑی کامیابی ہے۔“ اس جیسی کوئی اور کامیابی نہیں اور مقابلہ کرنے والوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی چیز اچھی نہیں ہے۔ فرشتوں کی یہ دعا اس حقیقت کو متضمن ہے کہ فرشتے اپنے رب کی کامل معرفت سے سرفراز ہیں وہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنٰی کو وسیلہ بناتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کی طرف سے اپنے اسما کو وسیلہ بنانے اور جو دعا مانگی جا رہی ہو اس کی مناسبت سے اسمائے الٰہی کو وسیلہ بنانے کو پسند کرتا ہے۔ بندوں کی دعا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول اور نفوس بشری کے تقاضوں کے اثرات کے ازالے کے لئے ہوتی ہے، جن کے نقص اور ان کے تقاضوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، لہٰذا جب وہ ان معاصی اور ان کے مبادی و اسباب کا تقاضا کرتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے علم نے احاطہ کر رکھا ہے تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات ” رَحِیْمٌ“ اور ” عَلِیْمٗ“ کو وسیلہ دعا بنایا ہے۔ اس کی ربوبیت عامہ اور ربوبیت خاصہ کا اقرار ان کے اللہ تعالیٰ کے متعلق کمال ادب کو متضمن ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اختیار میں کچھ نہیں یہ تو ان کی اپنے رب کے سامنے دعا ہے جو ہر لحاظ سے ایک محتاج ہستی سے صادر ہوتی ہے، جو کسی بھی حال کو اپنا وسیلہ نہیں بنا سکتی۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا کرم و احسان ہے۔ اپنے رب کے ساتھ ان کی موافقت، ان اعمال، یعنی عبادات سے محبت کو متضمن ہے جن کو وہ پسند کرتا ہے، جسے وہ قائم کرتے ہیں اور محبت کرنے والوں کی جدوجہد کی طرح جدوجہد کرتے ہیں، وہ ہیں اہل ایمان۔ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق میں سے انہی سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مکلّف مخلوق کو ناپسند کرتا ہے مگر ان میں سے اہل ایمان کو پسند کرتا ہے۔ فرشتوں کی اہل ایمان کی ساتھ محبت ہے کہ وہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں، ان کے احوال کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ کسی شخص کے لئے دعا کرنا، اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ دعا کرنے والا اس شخص سے محبت کرتا ہے کیونکہ انسان صرف اسی کے لئے دعا مانگتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے ارشاد : ﴿وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا﴾ کے بعد فرشتوں کی دعا کی تفصیل اور شرح بیان کرنا کتاب اللہ میں تدبیر کی کیفیت کی طرف لطیف اشارے کو متضمن ہے، نیز یہ اس بات کو بھی متضمن ہے کہ تدبر کرنے والا صرف مفرد لفظ کے معنی پر اقتصار نہ کرے، بلکہ اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ لفظ کے معنی پر خوب تدبر اور غور و فکر کرے۔ جب اچھی طرح معنی کا فہم حاصل کرلے اپنی عقل سے اس معاملے میں غور کرے، ان طریقوں پر غور کرے جو اس منزل تک پہنچاتے ہیں اور جن کے بغیر یہ ناتمام ہے اور جن پر تمام دار و مدار ہے۔ اس کو یقین قطعی ہوجائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہے، جیسا کہ اسے یقین ہے کہ وہ معنی خاص اللہ تعالیٰ کی مراد ہے جس پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے۔ وہ چیز جو اس کے لئے اس یقین کی موجب ہے کہ یہی معنی اللہ تعالیٰ کی مراد ہے، دو امور ہیں : 1۔ معرفت اور اس بات کا یقین کہ یہ معنی کے توابع میں سے ہے اور مراد الٰہی اسی پر موقوف ہے۔ 2۔ اس حقیقت کا علم رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کی کتاب میں تدبر و تفکر کریں۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ان معانی سے کیا لازم آتا ہے۔ اسی نے خبر دی ہے کہ اس کی کتاب سراسر ہدایت، نور اور ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرنے والی ہے، یہ فصیح ترین اور ایضاح کے اعتبار سے جلیل ترین کلام ہے۔ اس سے بندہ مومن توفیق الٰہی کے مطابق علم عظیم اور خیر کثیر سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ ہماری اس تفسیر میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوازا ہے۔ کبھی کبھی بعض آیات میں صحیح الفکر مگر غور و تدبر سے محروم شخص پر اس کا ماخذ مخفی رہتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنی رحمت کے خزانے کھول دے جو ہمارے احوال اور تمام مسلمانوں کے احوال کی اصلاح کا سبب بنیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ہم اس کی نگاہ کرم کے منتظر ہیں، اس کے احسان کو وسیلہ بناتے ہیں، جس سے ہر آن اور ہر لحظہ بہرہ مند رہتے ہیں۔ ہم اس سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں، یقیناً ہمارے نفس کی برائی ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت کریم اور عطا کرنے والا ہے جس نے ہمیں اسباب اور ان کے مسببات عطا کئے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس بات کو متضمن ہے کہ مومن کے ساتھ رہنے والے اشخاص، مثلاً بیوی، اولاد اور دوست بھی اس کی صحبت کے باعث سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ مومن کی صحبت ان کے لئے ایسی بھلائی کے حصول کا سبب بنتی ہے جو اس کے عمل اور اسباب عمل سے خارج ہے، جیسا کہ فرشتے اہل ایمان اور ان کے نیک والدین، ان کی نیک بیویوں اور ان کی نیک اولاد کے لئے دعا کرتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اہل ایمان کے ماں باپ، بیویوں اور اولاد میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَمَن صَلَحَ ﴾ کے مطابق ” صلاحیت“ کا وجود لازم ہے تب اس صورت میں، ان کے لئے فرشتوں کی یہ دعا، ان کے عمل ہی کا نتیجہ ہے۔ واللہ اعلم
11 Mufti Taqi Usmani
aur unn ko her tarah ki buraiyon say mehfooz rakh . aur uss din jissay tu ney buraiyon say mehfooz kerliya , uss per tu ney bara reham farmaya . aur yehi zabardast kamiyabi hai .