حم السجدہ آية ۲۶
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ
طاہر القادری:
اور کافر لوگ کہتے ہیں: تم اِس قرآن کو مت سنا کرو اور اِس (کی قرات کے اوقات) میں شور و غل مچایا کرو تاکہ تم (اِن کے قرآن پڑھنے پر) غالب رہو،
English Sahih:
And those who disbelieve say, "Do not listen to this Quran and speak noisily during [the recitation of] it that perhaps you will overcome."
1 Abul A'ala Maududi
یہ منکرین حق کہتے ہیں "اِس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو، شاید کہ اس طرح تم غالب آ جاؤ"
2 Ahmed Raza Khan
اور کافر بولے یہ قرآن نہ سنو اور اس میں بیہودہ غل کرو شاید یونہی تم غالب آؤ
3 Ahmed Ali
اور کافروں نے کہا کہ تم اس قرآن کو نہ سنو اور اس میں غل مچاؤ تاکہ تم غالب ہو جاؤ
4 Ahsanul Bayan
اور کافروں نے کہا اس قرآن کی سنو ہی مت (١) (اس کے پڑھے جانے کے وقت) اور بےہودہ گوئی کرو (٢) کیا عجب کہ تم غالب آجاؤ (٣)
٢٦۔١ یہ انہوں نے باہم ایک دوسرے کو کہا۔ بعض نے لا تسمعوا کے معنی کیے ہیں اس کی اطاعت نہ کرو۔
٢٦۔٢ یعنی شور کرو، تالیاں، سیٹیاں بجاؤ، چیخ چیخ کر باتیں کرو تاکہ حاضرین کے کانوں میں قرآن کی آواز نہ جائے اور ان کے دل قرآن کی بلاغت اور خوبیوں سے متا ثر نہ ہوں۔
٢٦۔٣ یعنی ممکن ہے اس طرح شور کرنے کی وجہ سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) قرآن کی تلاوت ہی نہ کرے جسے سن کر لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کافر کہنے لگے کہ اس قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور (جب پڑھنے لگیں تو) شور مچا دیا کرو تاکہ تم غالب رہو
6 Muhammad Junagarhi
اور کافروں نے کہا اس قرآن کو سنو ہی مت (اس کے پڑھے جانے کے وقت) اور بیہوده گوئی کرو کیا عجب کہ تم غالب آجاؤ
7 Muhammad Hussain Najafi
اور کافر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو نہ سنو اور اس کی (تلاوت کے دوران) شوروغل مچا دیا کرو شاید اس طرح تم غالب آجاؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور کفاّر آپس میں کہتے ہیں کہ اس قرآن کو ہرگز مت سنو اور اس کی تلاوت کے وقت ہنگامہ کرو شاید اسی طرح ان پر غالب آجاؤ
9 Tafsir Jalalayn
اور کافر کہنے لگے کہ اس قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور (جب پڑھنے لگیں تو) شور مچا دیا کرو تاکہ تم غالب رہو
آیت نمبر 26 تا 32
ترجمہ : اور کافروں نے آپ کی قراءت کے وقت کہا اس قرآن کو سنو مت، اور شوروغل کرو، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت کے وقت شور مچاؤ کیا عجب کہ تم غالب آجاؤ ؟ اور پیغمبر (ہار کر) چپ ہوجائے، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا سو ہم ان کافروں کو یقیناً سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے، اور انہیں انکے بدترین اعمال کا بدلہ (ضرور) ضرور دیں گے، یعنی ان کے عمل کی بدترین جزاء (ضرور دیں گے) وہ یعنی عذاب شدید اور بدترین بدلہ، اللہ کے دشمنوں کی سزایہی دوزخ کی آگ ہے، دوسرے ہمزہ کی تحقیق اور اس کو واؤ سے بدل کر، النّار، الجزاء کا عطف بیان ہے، جو ذٰلک کا مخبربہ (خبر) ہے، جس میں ان کا ہمیشگی کا گھر ہے یعنی (دائمی) اقامت کا، اس سے منتقل ہونا نہیں ہے، ان کو یہ بدلہ ہماری آیتوں قرآن کے انکاری کی وجہ سے دیا جائے گا جزاءً اپنے فعل مقدر کا مصدر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور کافر لوگ جہنم میں کہیں گے اے ہمارے رب ہمیں جنوں (اور) انسانوں (کے وہ دونوں) فریق دکھا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا یعنی ابلیس اور قابیل کو (ان) دونوں نے کفر اور قتل کا طریقہ جاری کیا (تاکہ) ہم انہیں آگ میں اپنے قدموں تلے روندیں (تاکہ) وہ جہنم میں سب سے نیچے ہمارے اعتبار سے شدید ترین عذاب میں ہوجائیں واقعی جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر توحید وغیرہ پر جو ان پر واجب تھا جمے رہے ان کے پاس موت کے وقت (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ مابعد الموت سے اندیشہ نہ کرو اور جو اہل و عیال چھوڑ چلے ہو ان پر غم نہ کرو، اس لئے کہ اس معاملہ میں ہم تمہارے خلیفہ ہیں (بلکہ) اس جنت کی بشارت سب لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، تمہاری دینوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے یعنی دنیا میں تمہاری حفاظت کی، اور آخرت میں بھی یعنی آخرت میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ اور جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ طلب کرو (سب کچھ) تمہارے لئے بطور مہمانی غفور رحیم یعنی اللہ کی طرف سے تیار ملے گا رزقاً ، جعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : عند قراء ۃِ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ قال کا ظرف ہے، ای عند قراءۃ النبی قال۔
قولہ : والْغَوْا، اِلْغَوْا، لَغْوٌ سے امر جمع مذکر حاضر (ن، س، ف) بیہودہ بکنا، بک بک کرنا۔
قولہ : اَلَّغَطُ شور کرنا، بیہودہ بکنا، یہ لغوٌ کے ہم معنی ہے۔
فائدہ : ای اَقبَحَ جزاء عَمَلِھِمْ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کو دفع کرنا ہے۔
شبہ : اللہ تعالیٰ کے قول لَنَجْزِ یَنَّھُمْ اَسْوَأَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ اس سے بظاہر شبہ ہوتا ہے کہ کافر، ان کے نفس عمل کی قسم کی بدترین جزادیئے جائیں گے، مثلاً جن مشرکوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ استہزاء کیا ہوگا آخرت میں ان کے ساتھ بدترین قسم کا استہزاء کیا جائے گا، حالانکہ مقصد یہ نہیں ہے۔
دفع : کلام حذف مضاف کے ساتھ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَقبَحَ جزاء عَمَلِھِمْ ۔
قولہ : العذاب الشدید الخ اس اضافہ کا مقصد ذٰلک کا مشارٌ الیہ متعین کرنا ہے اور مشارٌ الیہ فَلَنُذِیْقَنَّھُمْ اور وَلَنَجزِیَنَّھُمْ ہے، ذلک
مبتداء ہے اور جزاءُ اعداءِ اللہ اس کی خبر ہے اور النَّار جزاء سے بدل یا عطف بیان ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ذٰلک الْاَمرُ مبتداء محذوف کی خبر ہو، جزاء اعداء اللہ النار سابقہ کا بیان ہوگا، اول اولیٰ ہے۔
سوال : النار کو جزاء سے بدل قرار دینا صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ بدل کے صحیح ہونے کی علامت یہ ہے کہ بدل کو مبدل منہ کی جگہ رکھ دیا جائے تو معنی درست رہیں، مگر یہاں ایسا نہیں ہے، اس لئے کہ بدل کو مبدل منہ کی جگہ رکھنے کے بعد تقدیر عبارت یہ ہوگی ذٰلک النّارُ اَعداءُ اللہ اور یہ صحیح نہیں ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ مرجوع اعراب سے راجح اعراب کی طرف رجوع کیا جائے، النَّار کو ھِیَ مبتداء محذوف کی خبر قرار دیا جائے، یا اَلنَّارُ کو مبتداء قرار دیا جائے، اور اس کے مابعد یعنی وَلَھُمْ فِیْھَا دارُ الخلد کو اس کی خبر۔
نکتہ۔ سوال : لَھُمْ فیھا دار الخُلْد، فِیْھَا کی ضمیر، کا مرجع النَّار ہے، اور نار سے مراد جہنم ہے اور جہنم موصوف بصفۃ الخلد ہے، اب فیھا دارالخلد کا مطلب ہوا، دارالخلد کے اندر دار الخلد ہے، یہ ظرفیۃ الشیئ لنفسہٖ ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔
جواب : کلام میں تجرید ہے، تجرید کہتے ہیں کسی امر ذی صفت سے اسی کے موافق مبالغہ کے طور پر دوسرے امرذی صفت کا انتزاع کرنا، جس طرح یہاں النار سے دار آخر کا انتزاع کرکے اس کا نام دارلخلد رکھ دیا، لہٰذا یہ درست ہے۔
قولہ : جزاءً فعل محذوف کے مصدر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، ای یُجْزُوْنَ جَزَاءً ۔ قولہ : بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ ۔
سوال : بِاٰیٰتِنَا میں باء کیسی ہے ؟
جواب : یا تو باء زائد ہے یا یَجْحَدُوْنَ ، یکفرونَ کے معنی کو متضمن ہے، اس صورت میں باء تعدٰیہ کے لئے ہوگی۔
قولہ : فی النار یہ قال کے فاعل الذین سے حال ہے ای کائنین فی النار۔
قولہ : اَرِنَا، اَرِ امر واحد مذکر حاضر، نا، ضمیر جمع متکلم اَرِنَا، مراد رویۃ بصریہ ہے، ہمزہ تعدیہ الی مفعول الثانی کے لئے ہے، ضمیر نا
مفعول اول ہے، الَّذَیْنِ مفعول ثانی ہے اَرِنَا کی اصل اَرْئِیْنَا تھی ای صَیِّرْنَا رَائِینَ بِاَبْصَارِنَا، یاء حرف علت جو کہ لام کلمہ ہے، فعل کے حذف حرف علت پر مبنی ہونے کی وجہ سے حذف ہوگئی۔ دوسرا ہمزہ جو کہ عین کلمہ ہے اس کے کسرہ کو اس کے ماقبل جو کہ راء کو
دیدی، جو کہ فاء کلمہ ہے، اب اس کا وزن اَرِنَا ہوگیا، موجود ہمزہ کلمہ کا نہیں ہے، بلکہ تعدیہ کے لئے ہے۔
خوف اور حزن میں فرق : قولہ : لا تخافوا ولا تحْزَنُوا آئندہ کی تکلیف کی وجہ سے انسان کو جو کیفیت لاحق ہوتی ہے اس کو ” خوف “ کہتے ہیں، اور گذشتہ زمانہ میں کسی نافع چیز کے فوت ہونے کی وجہ سے جو کیفیت لاحق ہوتی ہے اسے ” حزن “ کہتے ہیں۔
قولہ : اَنْ ای بِاَنْ اَنْ مصدریہ ہے باء مقدر ہے تخافوا بمعنی خوف ہے، ای تَتَنَزَّلُ علیھم الملائکۃ قائلین لَھُمْ لا خوْفَ علیکم وَلَا حُزْنَ ۔
قولہ : اَبْشِرُوْا، اِبْشَارٌ سے امر جمع مذکر حاضر، تم کو خوشخبری ہو۔
قولہ : نَحْنُ اَوْلِیَائُکُمْ اس میں دو احتمال ہیں، باری تعالیٰ کا کلام بھی ہوسکتا ہے اور ملائکہ کا بھی۔
قولہ : نُزُلاً ، تَدَّعُوْنَ کی ضمیر سے حال ہے، نُزل اس کھانے کو کہتے ہیں کو مہمان کے لئے بطور ضیافت تیار کیا جاتا ہے۔
تفسیر وتشریح
وقال۔۔ کفروا (الآیۃ) یہ جملہ مستانفہ ہے، اس کا مقصد کفار کے حال کو بیان کرنا اور قراءۃ قرآن کے وقت ان کے مکابرہ اور مجادلہ کو ذکر کرنا ہے، کفار مکہ جب قرآن کے مقابلہ سے عاجز ہوگئے، اور اس کے خلاف ان کی ساری تدبیریں ناکام ہوگئیں تو انہوں نے یہ حرکت شروع کی، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ابو جہل نے لوگوں کو اس پر آمادہ کیا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھا کریں تو تم ان کے سامنے خوب چیخ پکار اور شور وغل کیا کرو تاکہ لوگوں کو پتہ ہی نہ چلے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں بعض نے کہا سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرو اور بیچ بیچ میں طرح طرح کی آوازیں نکالا کرو۔ (قرطبی، معارف)
مسئلہ : قرآن کی تلاوت کے وقت خاموش رہ کر سننا واجب، ایمان کی علامت اور عبادت ہے، اور خاموش نہ رہنا کفار کی عادت ہے، آج کل ریڈیو پر تلاوت قرآن نے ایسی صورت اختیار کرلی ہے کہ ہر ہوٹل اور مجمع کے موقع پر ریڈیو کھولا جاتا ہے، جس میں تلاوت ہورہی ہوتی ہے، اور ہوٹل والے اپنے دھندوں میں لگے ہوئے ہوتے ہیں، اور کھانے پینے والے اپنے شغل میں، اس کی بظاہر صورت وہ بن جاتی ہے جو کفار کی علامت تھی۔
وقال۔۔۔ اضلنا (الآیۃ) اس کا مفہوم واضح ہے کہ گمراہ کرنے والے شیاطین ہی نہیں ہوتے انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شیاطین کے زیر اثر لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف رہتی ہے، تاہم بعض نے جن سے ابلیس اور انس سے قابیل مراد لیا ہے، قابیل نے انسانوں میں سب سے پہلے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرکے ظلم اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا، اور حدیث کے مطابق قیامت تک ہونے والے ناجائز قتلوں کے گناہ کا ایک حصہ اس کو بھی ملتا رہے گا، ” قدموں تلے روندنے “ کا مطلب ان کو خوب
ذلیل اور رسوا کرنا ہوگا، جہنمیوں کو اپنے لیڈروں پر جو غصہ ہوگا اس کی تشفی کے لئے وہ یہ کہیں گے ورنہ دونوں ہی مجرم ہیں۔
ان۔۔۔ اللہ . سابقہ آیات میں منکرین قرآن اور منکرین توحید سے خطاب اور ان کے حالات کا بیان تھا، یہاں سے مومنین
کا ملین کے حالات اور دنیا وآخرت میں ان کے اعزاز واکرام کا بیان اور ان کے لئے خاص ہدایات ہیں۔
ثُمَّ اسْتَقَامُوْا کا مطلب : ” استقامت “ کے مختلف بیان کئے گئے ہیں، اس آیت میں پہلے اللہ کی ربوبیت کا اقرار اور پھر اس پر
استقامت کا ذکر ہے، یعنی جن لوگوں نے اس کی ربوبیت کا اقرار و یقین کرلیا، یہ تو اصل ایمان ہوا، پھر اس پر مستقیم رہے، یہ عمل صالح ہوا، اس طرح ایمان و عمل کے جامع ہوگئے، یہ تفسیر حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے منقول ہے اور تقریباً یہی مضمون حضرت عثمان (رض) سے منقول ہے، انہوں نے استقامت کی تفسیر اخلاص عمل سے فرمائی ہے، اور حضرت فاروق اعظم (رض) نے فرمایا : الاِ ستقَامَۃُ اَنْ تستَقِیم علیٰ الْامر والنھی ولا تروغ روغانِ الثعالب ” استقامت یہ ہے کہ تم اللہ کے تمام احکام واوامر تواہی پر سیدھے جمے رہو اس سے ادھر ادھر لومڑی کی طرح راہ فرارنہ نکالو “۔ علماء نے کہا ہے کہ استقامت اگرچہ نہایت مختصر لفظ ہے مگر تمام شرائع اسلامیہ کو جامع ہے، جس میں تمام احکام الہٰیہ پر عمل اور تمام محرمات ومکر وہات سے اجتناب دائمی طور پر شامل ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کے بارے میں کفار کی روگردانی اور اس روگردانی کے ضمن میں ان کی ایک دوسرے کو وصیت سے آگاہ فرماتا ہے : ﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْآنِ﴾ ” اور کافر (ایک دوسرے سے) کہتے ہیں : اس قرآن کو نہ سنو“ یعنی اس قرآن کو سننے سے گریز کرو، اس کی طرف کوئی التفات کرو نہ اس کے لانے والے کی بات کی طرف کوئی توجہ دو۔ اگر تمہیں اس کے سننے کا کبھی اتفاق ہو یا اس کے احکام سننے کی دعوت دی جائے تو اس کی مخالفت کرو۔ ﴿وَالْغَوْا فِيهِ ﴾ ”(جب پڑھا جائے تو) خوب شو مچاؤ“ یعنی ایسی باتیں کرو جن کا کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ الٹا نقصان ہو۔ جہاں تک تمہارے بس میں ہو کسی کو اپنے ساتھ، قرآن کی بات کرنے اور اس کے الفاظ یا اس کے معانی کی تلاوت کی اجازت نہ دو۔ اس قرآن مجید سے اعراض کے بارے میں یہ ان کی زبان حال اور زبان مقال ہے۔
﴿ لَعَلَّكُمْ ﴾ ” تاکہ تم“ اگر تم نے یہ سب کچھ کیا ﴿تَغْلِبُونَ﴾ ” تم غالب رہو“ یہ دشمنوں کی طرف سے گواہی ہے اور واضح ترین حق وہ ہوتا ہے جس کی گواہی خود دشمن دیں کیونکہ انہوں نے اس شخص پر، جو حق لے کر آیا، اپنے غلبے کا حکم صرف اعراض اور روگردانی کے حال میں ایک دوسرے کو روگردانی کی وصیت کی صورت میں لگایا۔ ان کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ اس کی تلاوت میں خلل نہ ڈالیں اور اسے غور سے سنیں تو وہ کبھی غالب نہیں آسکتے کیونکہ حق ہمیشہ غالب رہتا ہے کبھی مغلوب نہیں ہوسکتا۔ اس حقیقت کو اصحاب حق اور اعدائے حق سب جانتے ہیں۔ چونکہ یہ سب کچھ ان کے ظلم اور عناد کے باعث تھا، اس لئے ان کی ہدایت کی توقع باقی نہیں رہی اب ان کے لئے عذاب اور سزا باقی رہ گئی تھی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur yeh kafir ( aik doosray say ) kehtay hain kay : iss Quran ko suno hi nahi , aur iss kay beech mein ghull macha diya kero takay tum hi ghalib raho .