الشوریٰ آية ۳۰
وَمَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍۗ
طاہر القادری:
اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالانکہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے،
English Sahih:
And whatever strikes you of disaster – it is for what your hands have earned; but He pardons much.
1 Abul A'ala Maududi
تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے، تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی در گزر کر جاتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرمادیتا ہے،
3 Ahmed Ali
اور تم پر جو مصیبت آتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں سے آتی ہے اور وہ بہت سے گناہ معاف کر دیتا ہے
4 Ahsanul Bayan
تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے (١)
٣٠۔١ بعض گناہوں کا کفارہ تو وہ مصائب بن جاتے ہیں، جو تمہیں گناہوں کی پاداش میں پہنچتے ہیں اور کچھ گناہ وہ ہیں جو اللہ تعالٰی یوں ہی معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کی ذات بڑی کریم ہے، معاف کرنے کے بعد آخرت میں اس پر مؤاخذہ نہیں فرمائے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے فعلوں سے اور وہ بہت سے گناہ تو معاف ہی کردیتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وه تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کابدلہ ہے، اور وه تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور تمہیں جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے(کاموں) کی وجہ سے پہنچتی ہے اور وہ بہت سے(کاموں سے) درگزرکرتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور تم تک جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے اور وہ بہت سی باتوں کو معاف بھی کردیتاہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے فعلوں سے اور وہ بہت سے گناہ تو معاف ہی کردیتا ہے
آیت نمبر ٣٠ تا ٤٣
ترجمہ : اور جو کچھ تمہیں مصیبت بلا اور شدت پہنچتی ہے خطاب مومنین کو ہے وہ تمہارے ہاتھوں کے کرتوتوں کی وجہ سے ہے یعنی کردہ گناہوں کی وجہ سے ہے (گناہوں) کو ہاتھوں کے کرتوت سے تعبیر کیا ہے، اس لئے کہ اکثر اعمال کے وجود میں ہاتھوں کی کوشش شامل ہوتی ہے، اور بہت سے گناہوں کو تو وہ معاف کردیتا ہے کہ اس کی سزا نہیں دیتا، اللہ تعالیٰ بڑا کرم کرنے والا ہے، اس سے کہ آخرت میں کسی جرم کی سزا دوبارہ دے، رہے بےقصور، تو ان کو دنیا میں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ آخرت میں ان کے درجات کو بلند کرنے کے لئے ہے اور اے مشرکو ! تم بھاگ کر اللہ کو زمین میں عاجز نہیں کرسکتے کہ اس سے بچ کر نکل جاؤ اور تمہاری لئے اللہ کے سوا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ کوئی مددگار کہ اس کے عذاب کو تم سے دفع کرسکے اور اس کی (قدرت) کی نشانیاں سمندروں میں پہاڑوں کے مانند عظیم کشتیاں ہیں اگر وہ چاہے تو ہوا بند کر دے کہ (یہ کشتیاں) سطح سمندر پر کھڑی (کی کھڑی) رہ جائیں یقیناً اس میں ہر صبر کرنے والے شکر گذار کے لئے نشانیاں ہیں وہ مومن ہے جو تکلیف میں صبر کرتا ہے اور خوشحالی میں شکر کرتا ہے یا ان کشتی والوں کو ان کے اعمال بد کے باعث ہلاک کر دے، اس کا عطف یسکن پر ہے، یعنی ان کشتیوں کو مع ان کی سواریوں کے تیز ہوا (آندھی) کے ذریعہ غرق کر دے اور وہ تو بہت سی خطاؤں کو درگذر فرما دیا کرتا ہے، جس کی وجہ سے کشتی سواروں کو غرق نہیں کرتا اور تاکہ سمجھ لیں وہ لوگ جو ہماری آیتوں میں جھگڑتے ہیں کہ ان کے لئے عذاب سے بچ کر بھاگ نکلنے کی کوئی جگہ نہیں ہے، اور جملہ منفیہ یَعْلَمُ کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے، یا نفی عمل سے روکنے والی ہے اور جو کچھ تم کو دنیوی اثاثہ دیا گیا ہے تو وہ دنیوی برت کے لئے ہے اس سے دنیا ہی میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے پھر وہ فنا ہوجائے گا، اور جو اجر اللہ کے پاس ہے وہ بدر جہا بہتر اور پائدار ہے وہ ان کے لئے ہے جو ایمان لائے اور صرف اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اور والذین کا عطف للذین آمنوا پر ہے، اور وہ کبیرہ گناہوں سے اور بےحیائیوں سے بچتے ہیں، یعنی موجبات حدود سے پرہیز کرتے ہیں یہ عطف بعض علی الکل کے قبیل سے ہے، اور غصے کے وقت (بھی) معاف کردیتے ہیں، درگذر (کر دیتے ہیں) اور اپنے رب کے توحید اور عبادت کے فرمان کو قبول کرتے ہیں (یعنی توحید و عبادت کی دعوت کو جس کی طرف ان کو بلایا جاتا ہے قبول کرتے ہیں) اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور در پیش آنے والا ان کا ہر کام آپسی مشورہ سے ہوتا ہے اور وہ عجلت نہیں کرتے اور جو (مال) ہم نے ان کو دے رکھا ہے اس میں سے اللہ کی اطاعت میں خرچ کرتے ہیں یہ جو مذکور ہوئے (مومنین کی) ایک صنف ہے اور جب ان پر ظلم ہو تو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں یہ (دوسری) صنف ہے یعنی ان لوگوں سے جنہوں نے ان پر ظلم کیا ہے اس کے ظلم کے برابر انتقام لے لیتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جزاء سَیّئۃ سیئۃ مثلھا اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے ثانی (یعنی انتقام) کا نام سیئۃ صورۃً اولیٰ کے مشابہ ہونے کی وجہ سے رکھا گیا ہے، اور یہ (مشابہۃ صوری) ان زخموں میں ظاہر ہے جن کا قصاص (بدلہ) لیا جاتا ہے اور بعض حضرات نے (بطور مثال) کہا ہے اگر کسی نے کہا اللہ تجھے ذلیل کرے تو اس کا جواب دیتا ہے اللہ تجھے ذلیل کرے اور جو اپنے اوپر ظلم کرنے والے کو معاف کر دے اور اپنے اور ظالم کے درمیان (محبت) تعلقات کی اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ پر ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس کو یقیناً اجر عطا فرمائے گا، اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا یعنی طلم کی ابتداء کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، ان پر اس (اللہ) کا عذاب واقع ہوگا اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد یعنی ظالم کے اس پر ظلم کرنے کے بعد (برابر) کا بدلہ لے لے تو ایسے لوگوں پر مواخذہ کی کوئی صورت نہیں یہ مواخذہ کی صورت صرف ان لوگوں پر ہے جو (خود) دوسروں پر ظلم کریں اور زمین میں ناحق معاصی کے ذریعہ فساد کرتے پھریں یہی لوگ ہیں جن کے لئے درد ناک عذاب ہے اور جس شخص نے صبر کرلیا کہ بدلہ نہ لیا، اور معاف کردیا، یقیناً فساد کرتے پھریں یہی لوگ ہیں جن کے لئے درد ناک عذاب ہے اور جس شخص نے صبر کرلیا کہ بدلہ نہ لیا، اور معاف کردیا، یقیناً یہ صبر اور درگذر کرنا بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے اور “ معزومات ” مطلوب شرعی کے معنی میں ہے (یعنی افضل ہے) ۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : خطابٌ للمؤمنین اس عبارت کا مقصد مَا اصَابَکُمْ کے خطاب سے کافروں کو خارج کرنا ہے اس لئے کہ کفار کو دنیا میں جو مصائب پیش آتے ہیں وہ تعجیلِ بعضِ عذاب کے طور پر ہوتے ہیں، پورا عذاب آخرت میں ہوگا، اور مومنین کو دنیا میں جو مصائب پیش آتے ہیں یا تو گناہوں کے کفارہ کے طور پر پیش آتے ہیں یا پھر رفع درجات کے لئے۔
قولہ : وَمَا اَصَابَکُمْ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اَیْدِیْکُم اگر ما اصَا بکم میں ما کو شرطیہ مانا جائے تو فَبِمَا کَسَبَتْ جواب شرط ہوگا، اور اگر مَا کو موصولہ قرار دیا جائے تو مبتداء متضمن بمعنی شرط ہوگا اور فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیکم مبتداء کی خبر ہوگی، اور چونکہ مبتداء متضمن شرط ہے اس لئے اس کی خبر پر فاء داخل ہوگی، ایک قراءت میں بما کسبَتْ ایدیکم بغیر فاء کے ہے اس صورت میں مبتداء خبر کی ترکیب اولیٰ ہے، اس صورت میں شرط وجزاء قرار دینا اور فاء کو محذوف ماننا شاذ ہے۔
قولہ : ای کسبتمْ من الذنوب، فَبِمَا کسبَتْ اَیْدِیْکم کی تفسیر، کسَبْتُمْ سے کر کے اشارہ کردیا کہ فعل کی، کاسِب ذات ہوتی ہے، مگر چونکہ فعل کے کسب میں زیادہ حصہ اور دخل ہاتھوں کا ہوتا ہے اس لئے فعل کی نسبت مجازاً ہاتھوں (ایدی) کی طرف کردی جاتی ہے۔ (صاوی)
“ ذنوب ” کی دو قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جس کی سزا دنیا ہی میں تکلیف و مصیبت کے ذریعہ دے دی جاتی ہے اور دوسری قسم وہ ہے کہ جس کو معاف کردیا جاتا ہے، پھر اس پر کسی قسم کا مواخذہ نہ دنیا میں ہوتا ہے اور نہ آخرت میں، اور جن گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے ان کی تعداد بہ نسبت ان گناہوں کے کہ جن پر مواخذہ کیا جاتا ہے زیادہ ہے، اور اللہ تعالیٰ چونکہ اکرم الاکرمین ہیں لہٰذا جس گناہ کی سزا دنیا میں تکلیف کی صورت میں دے دی اس کی سزا دوبارہ نہ دیں گے اور نہ جن گناہوں کو معاف کردیا ہے ان پر سزا دیں گے، حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے کہ قرآن پاک کی یہ آیت بڑی امید افزا ہے۔ (صاوی)
قولہ : ھو تعالیٰ اکرم اس کا تعلق فبما کسَبَتْ اَیْدِیکم سے ہے لہٰذا مناسب یہ تھا کہ اس کو ویعفوا عن کثیر پر مقدم کر کے فبما کسبتْ ایْدِیْکُمْ کے متصل لاتے۔
قولہ : یا مشرکین پیش نظر نسخہ میں یا مشرکین ہے، مگر صحیح یا مشرکون ہے جیسا کہ جمل کے نسخہ میں یا مشرکون ہے، اس لئے کہ منادی مبنی بر رفع ہوتا ہے، لہٰذا مرفوع بالواؤ کی صورت میں یا مشرکون ہونا چاہیے۔
قولہ : معجزین ای فارمین من عذابہ۔
قولہ : الجوار حذف یاء کے ساتھ رسم الخط کے اعتبار سے، اس لئے کہ یہ زائد یاؤں میں سے ہے، جَوَار جاریَۃ کی جمع ہے بمعنی جاری ہونے والی، کشتی۔
شبہ : بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اَلجَوَار، السُّفُنُ موصوف محذوف کی صفت ہے جیسا کہ علامہ محلی نے السُّفُنُ محذوف مان کر حذف موصوف کی طرف اشارہ کیا، تقدیر عبارت یہ ہے کہ السفنُ الجوار مگر یہاں السُّفُنُ موصوف کو حذف کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ موصوف کو اس وقت تک حذف کرنا جائز نہیں ہے جب تک کہ صفت موصوف کے ساتھ خاص نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ مررت بماشٍ کہنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ ماشٍ صفت عام ہے کسی موصوف کے ساتھ خاص نہیں ہے، ہاں البتہ مررت بمھندس، ومررتُ بکاتب کہہ سکتے ہیں حالانکہ مہندس اور کاتب بھی صفت ہیں مگر ان کے موصوف محذوف ہیں اس لئے کہ یہ صفات خاصہ میں سے ہیں، اس کے برخلاف الجریُ ، السّفُنُ کے ساتھ خاص نہیں ہے، لہٰذا اَلسفنُ کا حذف جائز نہ ہونا چاہیے۔
دفع : حذف موصوف کا عدم جواز اس صورت میں ہے جب کہ صفت پر اسمیت غالب نہ ہو اور جب اسمیت غالب ہوجائے تو موصوف کا حذف جائز ہے، جیسا کہ اَبْرَقُ یہ صفت ہے بہت زیادہ چمکدار شئ کو کہتے ہیں، مگر اب ایک مخصوص شئ کا نام ہوگیا ہے جو کہ چمکدار دھات ہے، لہٰذا اب اس کے موصوف کو حذف کرنا جائز ہوگا، اسی طرح اَبْطَحْ اس کے معنی ہیں کشادہ اور سنگریزہ والا ہونا، مگر اب اس پر اسمیت غالب ہو کر مخصوص وادی کے معنی میں ہوگیا ہے، لہٰذا اس کے موصوف کو حذف کرنا جائز ہے، اسی طرح منقٰی اس کے معنی ہیں صاف کیا ہوا، یہ صفت ہے مگر اس پر اسمیت غالب آگئی ہے، اس کا موصوف مویز ہے، پورا نام مویز منقٰی ہے، جو عام طور پر دواؤں میں استعمال ہوتا ہے مگر اب موصوف کو حذف کر کے منقٰی بولتے ہیں حتی کہ اس کے موصوف کو اکثر لوگ جانتے بھی نہیں ہیں، اسی طرح اَلجَوَار جو کہ جاریۃ کی جمع ہے صفت ہے اس کے معنی ہیں جاری ہونے والی، چلنے والی، مگر اب اس پر اسمیت غالب آگئی ہے، جس کی وجہ سے جاریہ کشتی کو کہنے لگے ہیں، لہٰذا اب اس کے موصوف کو حذف کرسکتے ہیں، جیسا کہ مفسر علام نے اَلسُفنُ مقدر مان کر حذف موصوف کی طرف اشارہ کردیا ہے۔
قولہ : یَظْلَلْنَ ، یَصرنَ ظَلَّ سے مضارع جمع مؤنث غائب فعل ناقص، وہ ہوجائیں یَظْلَلْنَ کی تفسیر یصرن سے کر کے اشارہ کردیا کہ یہاں ظل مطلقاً صَارَ کے معنی میں ہے ورنہ تو ظل کے اصلی معنی دن میں کسی کام کے ہونے کی خبر دینا ہے، جیسا کہ بات کے معنی رات میں کسی فعل کے ہونے کی خبر دینا ہے۔
قولہ : صَبَّارٍ شکور کی تفسیر وھو المؤمن سے کر کے اشارہ کردیا کہ جو مذکور دونوں صفتوں کا حامل ہو وہ مومن کامل ہے، گویا کہ ایمان کے دو حصے ہیں، ایک صبر اور دوسرا شکر، صبر کا مطلب ہے معاصی پر صبر کرنا، اور شکر کا مطلب ہے واجبات کو ادا کرنا۔
قولہ : بِاَھْلِھِنَّ باء بمعنی مع یعنی اگر وہ چاہے تو کشتیوں کو مع کشتی سواروں کے غرق کر کے ہلاک کر دے۔
قولہ : ای اَھْلُھُنّ یہ کسَبُوا کے واؤ کی تفسیر ہے جس سے اہل کشتی مراد ہیں جو کہ سباق سے مفہوم ہیں، یُوْبِقْھُنَّ اِیْبَاق (افعال) سے مضارع واحد مذکر غائب ھُنّ ضمیر مفعول وہ ان کو ہلاک کر دے تباہ کر دے۔
قولہ : یَعْفُ عن کثیرٍ منھا، عَفْوٌ سے مضارع واحد مذکر مجزوم، جمہور نے یَعْفُ کو جواب شرط پر عطف ہونے کی سے مجزوم پڑھا ہے
قولہ : منھا ای السُفُنُ او الذنوب یعنی بعض کشتیوں کو غرق نہیں کرتا، یا بعض کشتی سواروں کی خطاؤں کو معاف کردیتا ہے۔
قولہ : یَعْلَمُ ، یَعْلمُ میں رفع اور نصب دونوں قراءتیں ہیں، رفع جملہ مستانفہ ہونے کی وجہ سے ای ھو یعلم اور نصب غرق کی علت پر عطف کی وجہ سے ای یغرقھُمْ ، لیَنْتَقِمَ مِنْھُمْ ویَعْلَمَ یعنی اگر چاہے تو ان کو غرق کر دے تاکہ وہ ان سے انتقام لے تاکہ ان لوگوں کو جانے (ظاہر کرے) جو ہماری آیتوں میں مجادلہ کرتے ہیں۔
قولہ : مَالَھُمْ من محیص، مَا لَھُمْ خبر مقدم اور مِن محیص مبتداء مؤ خر، مِن زائدہ۔
قولہ : مُعَلِّقٌ عَنِ العملِ تعلیق، افعال قلوب کی خصوصیات میں سے ہے تعلیق، لفظاً عمل کے باطل کرنے کو کہتے ہیں، تعلیق عمل کے لئے یہ شرط ہے کہ فعل قلب استفہام یا نفی یا لام ابتداء سے پہلے واقع ہو، جیسا کہ یہاں فعل قلب یعلم ہے یعلمُ دو مفعول چاہتا ہے۔
قولہ : فمَا اُوْتِیْتُمْ ما شرطیہ اُوْتِیْتُمْ کا مفعول ثانی صدارت کلام کی وجہ سے مقدم ہے اُوْتیتُمْ کے اندر ضمیر مخاطب مفعول اول جو کہ نائب فاعل ہے۔
قولہ : من شئ یہ ما کا بیان ہے اس لئے کہ اس میں ابہام ہے۔
قولہ : فمتاع الحیاۃ الدنیا فاء جواب شرط پر ہے اور مَتَاعٌ مبتداء محذوف کی خبر ہے، ای فَھو متاع۔
قولہ : ومَا عِنْد اللہ خیر، ما عند اللہ موصول صلہ سے مل کر مبتداء اور خیرٌ اس کی خبر، اور لِلَّذِیْنَ الخ اَبْقٰی کے متعلق ہے۔
قولہ : وَالَّذِیْنَ یجتَنِبُوْنَ الخ کا عطف الذین آمنوا پر ہے، جملہ لام جار کے تحت ہونے کی وجہ سے محلاً مجرور ہے۔
قولہ : کبٰئِرَ الإثم وَالفواحش “ کبائر ” سے ہر قسم کے بڑے گناہ مراد ہیں اور فواحش سے مخصوص بڑے گناہ مراد ہیں، جس پر حدود وقصاص جاری ہوتے ہیں۔
قولہ : من عطف البعض علی الکل یہ ایک شبہ کا جواب ہے۔
شبہ : کبائر ہر قسم کے بڑے گناہ کو کہتے ہیں جن میں فواحش بھی شامل ہیں، تو پھر فواحش کے دوبارہ ذکر کرنے کی کیا ضرورت ؟
دفع : یہ عطف خاص علی العام کے قبیل سے ہے یہ معطوف کی اہمیت کے پیش نظر کیا جاتا ہے، اس کو عطف بعض علی الکل بھی کہہ سکتے ہیں، جیسے حافظوا علی الصلوَات والصلوٰۃ الوسطٰی میں ہے۔
قولہ : وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ھم یَغْفِرُوْنَ ، ما زائدہ ہے فارسی میں کہتے ہیں “ چوں بخشم می آیند ایشاں می آمرزند ” جب وہ غصہ ہوتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں، اِذَا، یغفرون کا ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ما زائدہ ہے، اور یغفرون، ھم کی خبر ہے، جملہ ہو کر یجتنبونَ پر معطوف ہے، جو کہ الذین کا صلہ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے والذین یَجْتَنِبُوْنَ وھم یَغْفِرُوْنَ اس صورت میں عطف جملہ اسمیہ کا جملہ فعلیہ پر لازم آئے گا، دوسری ترکیب یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ھُمْ غضِبُوا کے اندر ضمیر فاعل کی تاکید ہو، اس صورت میں فیغفرون جواب شرط ہوگا۔
ابو البقاء (رح) تعالیٰ نے کہا ہے کہ ھُمْ مبتداء اور یغفرونَ خبر ہے، اور جملہ ہو کر جواب شرط ہے، مگر یہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اگر اذا کا جواب ہو تو پھر فاء کا داخل ہونا ضروری ہے، مثلاً تو کہے اذا جاءَ زید فَعَمْرٌ و ینطلقُ مگر عمروٌ ینطلق جائز نہیں ہے۔ (جمل)
قولہ : وَالذینَ اسْتجابوا اس کا عطف سابق موصول الذین پر ہے، مفسر علام نے استجابوا کی تفسیر اَجَابُوْہ سے کر کے اشارہ کردیا کہ استجابوا میں س، ت زائدہ ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس نعمتیں ان لوگوں کے لئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہتے ہیں۔
قولہ : اَمرھم شوریٰ بَیْنَھُمْ ، امْرُھُمْ بہ ترکیب اضافی مبتداء، شوریٰ اس کی خبر بینھمْ ظرف ہے۔
قولہ : شوریٰ یہ شاورتُہٗ (باب مفاعلہ) کا مصدر ہے بروزن بشریٰ وذِکریٰ مشورہ کرنا۔ (فتح القدیر، شوکانی والغات القرآن)
قولہ : یَبْغُوْنَ ، یَعْمَلُوْنَ مفسر علام نے یبغُوْنَ کی تفسیر یَعْمَلُوْنَ سے کر کے اشارہ کردیا کہ بغیر الحق تاسیس کے لئے ہے نہ کہ تاکید کے لئے، اس لئے کہ بَغْیٌ ناحق ہی ہوتی ہے پھر اس کے بعد بغیر الحق کہنا یہ سابقہ مضمون کی تاکید ہوگی اور اگر یَبْغُوْنَ کو یَعْمَلُوْنَ کے معنی میں لیا جائے، تو بغیر الحق تاسیس ہوگی اور تا سیس تاکید سے بہتر ہوتی ہے۔
قولہ : لَمِنْ عزم الْا ُ مور یہ عزیمۃ سے ماخوذ ہے جو کہ رخصت کی ضد ہے یعنی صبر اور درگذر کرنا مندوب ومستحب ہے، گو مساوی طور پر انتقام بھی جائز ہے۔
تفسیر وتشریح
وَمَا اصَابَکم، خطاب للمؤمنین اگر خطاب اہل ایمان کو ہے جیسا کہ مفسر علام کی رائے ہے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہارے بعض گناہوں کا کفارہ تو تمہارے مصائب بن جاتے ہیں، جو تمہیں تمہارے گناہوں کی پاداش میں پہنچتے ہیں اور کچھ گناہ وہ ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ یوں ہی معاف فرما دیتا ہے، اور اللہ کی ذات بڑی کریم ہے، معاف کرنے کے بعد آخرت میں اس گناہ پر مواخذہ نہیں فرمائے گی۔ (مظہری ملخصاً )
حضرت حسن (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جس شخص کے کسی لکڑی سے خراش لگتی ہے یا کوئی رگ پھڑکتی ہے یا قدم کو لغزش ہوتی ہے، یہ سب اس کے گناہوں کے سبب سے ہوتا ہے، اور ہر گناہ کی سزا اللہ تعالیٰ نہیں دیتے، بلکہ جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں، وہ ان سے بہت زیادہ ہیں جن پر کوئی سزا دی جاتی ہے۔ (صحیح بخاری ومسلم ملخصاً )
سوال : جب مصیبت سزائے اعمال ہے تو لازم ہے کہ صلحاء واتفیاء واولیاء مصیبت میں کم مبتلا ہوں اور انبیاء واطفال و حیوانات بالکل مصائب میں مبتلا نہ ہوں حالانکہ مشاہدہ اس کے خلاف ہے بلکہ انبیاء وصلحاء کے مصائب بہ نسبت دوسروں کے زیادہ ہیں۔
جواب : صاحب بیضاوی نے کہا ہے کہ یہ آیت مجرمین کے ساتھ خاص ہے۔
فائدہ : صلحاء واولیاء کے مصائب ان کے درجات کی ترقی کے لئے ہیں۔
اور اگر خطاب عام ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ تمہیں جو مصائب دنیا میں پہنچتے ہیں، یہ تمہارے گناہوں کا نتیجہ ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ بہت سے گناہوں سے تو در گذر فرما دیتا ہے یعنی یا تو ہمیشہ کے لئے معاف فرما دیتا ہے یا ان پر فوری گرفت نہیں فرماتا، اور یہ تاخیر بھی ایک گونہ معافی ہی ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا وَلَوْ یُؤاخِذُ اللہُ الناسَ بما کَسَبُوْا مَا تَرَکَ علیٰ ظھرھا مِنْ دَابَّۃٍ (فاطر) اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے کرتوتوں پر فوراً مواخذہ شروع کر دے تو زمین پر کوئی چلنے والا باقی ہی نہ رہے۔
وَمَا اَنْتُمْ بمعجزین (الآیۃ) یعنی تم بھاگ کر کسی ایسی جگہ نہیں جاسکتے کہ جہاں تم ہماری گرفت میں نہ آسکو، یا جو مصیبت ہم تم پر نازل کرنا چاہیں، اس سے تم بچ جاؤ۔
وَمِنْ اٰیٰتِہٖ الجَوَارِ فی البحر کَا لْا َعْلَام، الجوَار یا الجَوَارِیُ ، جَاریۃٌ کی جمع ہے (چلنے والی) بمعنی کشتیاں، جہاز، یہ اللہ کی قدرت تامہ کی دلیل ہے کہ سمندروں میں پہاڑوں جیسی کشتیاں اور جہاز اس کے حکم سے چلتے ہیں، ورنہ اگر وہ حکم دے اور ہوا کو روک دے تو اپنی جگہ کھڑے کے کھڑے رہ جائیں، یا یہ کہ ہوا اس قدر تیز وتند کر دے کہ جس کی وجہ سے سمندر میں طغیانی آجائے اور یہ سب جہاز اور کشتیاں غرق ہوجائیں۔
وَمَا عند اللہ خیر وابقیٰ للذین آمنوا وعلیٰ ربِّھِمْ یتوکلون (الآیۃ) دنیوی نعمتوں کے ناقص اور فانی ہونے کو بیان کرنے کے بعد آخرت کی نعمتوں کا کامل اور دائمی ہونا بیان فرمایا ہے، اور آخرت کی نعمتوں کے حصول کے لئے سب سے بڑی شرط ایمان ہے ایمان کے بغیر وہاں وہ نعمتیں کسی کو نہ ملیں گیں، لیکن اگر ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کا بھی پورا اہتمام کرلیا تو آخرت کی یہ نعمتیں یقیناً اور ابتداء ہی میں مل جائیں گی ورنہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد ملیں گی، اس لئے آیات مذکورہ میں سب سے پہلی شرط اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا بیان فرمائی، اس کے بعد خاص خاص اعمال کا ذکر فرمایا، جن کے بغیر ضابطہ کے مطابق آخرت کی نعمتیں شروع سے نہ ملیں گی، بلکہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد ملیں گی، وہ خاص اعمال وصفات جن کی وجہ سے ابتداءً ہی جنت کی نعمتیں حاصل ہوجائیں گی وہ سات بیان فرمائی ہیں۔
پہلی صفت : علیٰ رَبِّھِمْ یتوَکَّلُونَ جنت کی نعمتیں اور راحتیں ان لوگوں کے لئے ہیں جو ہرحال اور ہر کام میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کے سوا کسی کو حقیقی کارساز نہیں سمجھتے۔
دوسری صفت : اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰئِرَ الْإثْمِ وَالفَوَاحِشَ اور وہ ایسے لوگ ہیں کہ ہر کبیرہ گناہ سے اور بالخصوص بےحیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، “ فواحش ” اگرچہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہیں، پھر بھی ان کو الگ بیان کرنے میں حکمت یہ ہے کہ فواحش کا گناہ عام کبیرہ گناہ سے زیادہ سخت ہے اور مرض متعدی بھی، جس سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں، فواحش کا لفظ ان کاموں کے لئے بولا جاتا ہے جن میں بےحیائی ہو، جیسے زنا اور اس کے مقدمات نیز وہ گناہ جو ڈھٹائی کے ساتھ علانیہ کئے جائیں فواحش کہلاتے ہیں، کہ ان کا وبال بھی نہایت شدید اور پورے انسانی معاشرہ کو خراب کرنے والا ہے۔
تیسری صفت : یعنی غصہ کی حالت میں جبکہ اچھا بھلا آدمی بھی توازن کھو بیٹھتا ہے، اور جائز وناجائز، حق و باطل اور نتیجہ و انجام پر غور کرنے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے، مگر مومنین صالحین کی اللہ نے یہ صفت بیان کی ہے کہ ایسے وقت میں بھی یہ لوگ نہ صرف یہ کہ عفو و درگذر سے کام لیتے ہیں بلکہ انتقام کا اپنا حق ہوتے ہوئے بھی معاف کردیتے ہیں، مطلب یہ کہ لوگوں سے عفو و درگذر کرنا ان کی طبیعت اور مزاج کا حصہ بن جاتا ہے، نہ کہ انتقام اور بدلہ لینا، جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں آتا ہے مَا اِنْتَقمَ لنفسہٖ قَطُّ آپ نے اپنی ذات کے لئے کبھی بدلہ نہیں لیا۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب)
چوتھی صفت : اَلذین استجابوا لربّھم واَقاموا الصلوٰۃ “ استجابت ” کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم ملے اس کو بےچون و چرا فوراً قبول کرلے خواہ وہ اپنی طبیعت کے موافق ہو یا مخالف، اس حکم بجا آوری میں اگرچہ تمام اسلامی احکام و فرائض شامل ہیں مگر چونکہ ان سب میں نماز سب سے اہم فریضہ ہے، اس لئے اس کو ممتاز اور الگ کر کے بیان فرمایا۔
پانچویں صفت : وَاَمْرُھم شوریٰ بَیْنَھُمْ یعنی ان کے کام آپس میں مشورہ سے طے ہوتے ہیں، بمعنی ذو شوریٰ ، مطلب یہ ہے کہ وہ اہم امور کہ شریعت نے ان میں کوئی متعین حکم نہیں دیا ان کو طے کرنے میں یہ لوگ آپسی مشورہ سے کام لیتے ہیں، اہم امور کی قید خود لفظ اَمْرٌ سے مستفاد ہے، اس لئے کہ عرف میں امرٌ ایسے ہی کاموں کے لئے بولا جاتا ہے جن کی اہمیت ہو، جیسا کہ سورۂآل عمران میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرمایا وشاورھم فی الامر چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگی معاملات اور دیگر معاملات میں مشورہ کا اہتمام فرماتے تھے، جس سے مسلمانوں کی ہمت افزائی بھی ہوتی تھی، اور دل جوئی بھی، اور معاملہ کے مختلف گوشے بھی واضح ہوجاتے تھے، حضرت (رض) جب زخمی ہوگئے، اور بقاء زندگی کی کوئی امید نہ رہی تو امر خلافت میں مشورہ کے لئے چھ آدمیوں کی ایک کمیٹی نام زد کردی، جس میں حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف (رض) شامل تھے، ان حضرات نے آپس میں اور دیگر حضرات سے مشورہ کر کے حضرت عثمان غنی (رض) کو خلیفہ مقرر کردیا، بعض لوگ مشاورت کے اس حکم سے ملوکیت کی تردید اور جمہوریت کا اثبات کرتے ہیں، حالانکہ مشاورت کا اہتمام ملوکیت میں بھی ہوتا ہے، بادشاہ کی بھی مجلس مشاورت ہوتی ہے، جس میں ہر معاملہ میں غورو خوض ہوتا ہے، لہٰذا اس آیت سے ملوکیت کی نفی قطعاً نہیں ہوتی، علاوہ ازیں جمہوریت کو مشاورت کے ہم معنی سمجھنا یکسر غلط ہے، مشاورت ہر کہ دمہ سے نہیں ہوسکتی، اور نہ اس کی ضرورت ہی ہے، مشاورت کا مطلب ان لوگوں سے مشورہ کرنا ہے، جو اس معاملہ کی نزاکتوں اور ضرورتوں نیز باریکیوں کو سمجھتے ہیں جس معاملہ میں مشورہ درکار ہوتا ہے، مثلاً بلڈنگ، پل وغیرہ بنانا ہو تو کسی تانگہ بان، یا رکشہ پولر یا کسی غیر متعلق عام آدمی سے مشورہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ کسی انجینئر سے مشورہ کیا جائے گا، اگر کسی مرض کے بارے میں مشورہ کی ضرورت ہو تو طب و حکمت کے ماہرین کی طرف رجوع کیا جائے گا، جبکہ جمہوریت میں اس کے برعکس بالغ شخص کو مشورہ کا اہل سمجھتا جاتا ہے، خواہ کورا جاہل، بےشعور، امور سلطنت کی نزاکتوں سے یکسر بےبہرہ اور نابلد ہی کیوں نہ ہو، بنا بریں مشاورت کے لفظ سے جمہوریت کا اثبات تحکم اور دھاندلی کے سوا کچھ نہیں اور جس طرح سوشلزم کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگا دینے سے سوشلزم “ مشرف بہ اسلام ” نہیں ہوسکتا اسی طرح جمہوریت میں اسلام کی پیوند کاری سے مغربی جمہوریت پر خلافت کی قبا راست نہیں آسکتی، اسلام نے امیر کا انتخاب بھی مشورہ پر موقوف کر کے زمانہ جاہلیت کی شخصی بادشاہتوں کو ختم کیا ہے، جنہیں ریاست بطور وراثت ملتی تھی، اسلام نے سب سے پہلے اس کو ختم کر کے حقیقی جمہوریت کی بنیاد ڈالی، مگر مغربی جمہوریت کی طرح عوام کو ہر طرح کے اختیارات نہیں دئیے، اور اہل شوریٰ پر کچھ پابندیاں عائد فرمائی ہیں، اس طرح اسلام کا نظام حکومت شخصی بادشاہت اور مغربی جمہوریت دونوں سے الگ ایک نہایت معتدل دستور ہے۔
چھٹی صفت : مما رزقناھم ینفقون یعنی وہ لوگ اللہ کے دئیے ہوئے رزق میں سے نیک کاموں میں خرچ کرتے ہیں جس میں زکوٰۃ، نفلی صدقات وغیرہ سب شامل ہیں۔
ساتویں صفت : وَالذین اذا اَصَابَھُمُ البَغْیُ ھم یَنْتَصِرُوْنَ مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ بدلہ لینے سے عاجز نہیں ہیں اگر بدلہ لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں، تاہم قدرت کے باوجود معافی کو ترجیح دیتے ہیں، جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن اپنے خون کے پیاسوں کے لئے عام معافی کا اعلان فرما دیا، حدیبیہ میں آپ نے ان اسّی آدمیوں کو معاف کردیا جنہوں نے آپ کے خلاف سازش تیار کی تھی، لبید بن عاصم یہودی سے آپ نے بدلہ نہیں لیا، جس نے آپ پر جادو کیا تھا، اس یہودیہ سے آپ نے کچھ نہیں جس نے آپ کے کھانے میں زہر ملایا تھا۔
جزاؤ اسیئۃ سیئۃ یہ بدلہ لینے کی اجازت ہے، برائی کا بدلہ اگرچہ برائی نہیں ہے لیکن مشاکلت کے طور پر اسے بھی برائی ہی کہا جاتا ہے۔
مسئلہ : انتقام میں تعدی حرام ہے، اور ظلم اور عفو محبوب اور موجب اجر عظیم۔
مسئلہ : حنفیہ کے یہاں جن زخموں میں مساوات متعذ رہے ان میں قصاص تجویز نہیں کیا گیا، صرف مالی خون بہا رکھا گیا ہے۔ (خلاصۃ التفاسیر)
ترغیب : حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ ایک روز ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے، کہ آپ ہنسے اور آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا، آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، خندۂ جاں پرور کس لئے ہوا، فرمایا میری امت کے دو آدمی حق تعالیٰ کے حضور میں دو زانو بیٹھیں گے، تو ایک کہے گا اے میرے رب میرے اس بھائی سے میرا بدلہ دلا دے، ارشاد ہوگا اب تو اس کے پاس کوئی نیکی باقی نہیں ہے، تیرا بدلہ کیونکر دلایا جائے، مدعی کہے گا اے میرے رب میرے گناہ اس پر ڈال دے، یہ کہہ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اور فرمایا یہ بڑا سخت دن ہے، آدمی اپنا بوجھ دوسرے پر ڈالنے کے خواہاں ہوں گے، پھر حق تعالیٰ مدعی سے فرمائے گا، اوپر دیکھ، یہ دیکھ کر کہے گا، اے رب میں سونے سے بنے ہوئے شہر دیکھتا ہوں، جن میں جواہرات جڑے ہوئے ہیں، یہ کس پیغمبر یا کس ولی یا کس شہید کے ہیں، ارشاد ہوگا جو اس کی قیمت ادا کرے، عرض کرے گا اتنی قیمت کس کے پاس ہے ؟ ارشاد ہوگا تیرے پاس ہے، یہ عرض کرے گا وہ کیا ہے ؟ ارشاد ہوگا اپنے بھائی کو معاف کرنا، یہ عرض کرے گا اے میرے رب میں نے معاف کردیا، ارشاد ہوگا اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں داخل ہوجا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور آپس میں اصلاح کرو، بیشک اللہ مسلمانوں میں صلح کرا دے گا۔ (خلاصۃ التفاسیر، تائب لکھنوی)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ بندوں کو ان کے ابدان، اموال، اولاد اور ان کی محبوب اور عزیز چیزوں میں جو بھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے اس کا سبب ان کے ہاتھوں سے کمائی ہوئی برائیاں ہیں اور وہ برائیاں، جو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے، اس سے بھی زیادہ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ہے، بندے خود اپنے آپ پر ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ﴿وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰـهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ﴾ (فاطر:35؍45)” اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے کرتوتوں پر پکڑتا تو روئے زمین پر کسی جان دار کو نہ چھوڑتا۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aur tumhen jo koi museebat phonchti hai , woh tumharay apney haathon kiye huye kamon ki wajeh say phonchti hai , aur boht say kamon say to woh darguzar hi kerta hai .