وہ (عیسٰی علیہ السلام) محض ایک (برگزیدہ) بندہ تھے جن پر ہم نے انعام فرمایا اور ہم نے انہیں بنی اسرائیل کے لئے (اپنی قدرت کا) نمونہ بنایا تھا،
English Sahih:
He [i.e., Jesus] was not but a servant upon whom We bestowed favor, and We made him an example for the Children of Israel.
1 Abul A'ala Maududi
ابن مریمؑ اِس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنا دیا
2 Ahmed Raza Khan
وہ تو نہیں مگر ایک بندہ جس پر ہم نے احسان فرمایا اور اسے ہم نے بنی اسرائیل کے لیے عجیب نمونہ بنایا
3 Ahmed Ali
وہ تو ہمارا ایک بندہ ہے جس پر ہم نے انعام کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لیے نمونہ بنا دیا تھا
4 Ahsanul Bayan
عیسٰی (علیہ السلام) بھی صرف بندہ ہی ہے جس پر ہم نے احسان کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لئے نشان قدرت بنایا (١)۔
٥٩۔١ ایک اس اعتبار سے کہ بغیر باپ کے ان کی ولادت ہوئی، دوسرے، خود انہیں جو معجزات دیئے گئے، احیائے موتی وغیرہ، اس لحاظ سے بھی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
وہ تو ہمارے ایسے بندے تھے جن پر ہم نے فضل کیا اور بنی اسرائیل کے لئے ان کو (اپنی قدرت کا) نمونہ بنا دیا
6 Muhammad Junagarhi
عیسیٰ (علیہ السلام) بھی صرف بنده ہی ہے جس پر ہم نے احسان کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لیے نشان قدرت بنایا
7 Muhammad Hussain Najafi
وہ (عیسیٰ (ع)) تو بس ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور اسے بنی اسرائیل کیلئے ایک مثال (نمونہ) بنا دیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ورنہ عیسٰی علیھ السّلام ایک بندے تھے جن پر ہم نے نعمتیں نازل کیں اور انہیں بنی اسرائیل کے لئے اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنادیا
9 Tafsir Jalalayn
وہ تو ہمارے ایسے بندے تھے جن پر ہم نے فضل کیا اور بنی اسرائیل کے لئے ان کو (اپنی قدرت کا) نمونہ بنادیا
10 Tafsir as-Saadi
اس مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت اور آپ کا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرب ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ کی عبادت اور بتوں کی عبادت کی حرمت میں کوئی فرق ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت تو وہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ﴾ ” وہ تو ہمارا یک بندہ ہے جس پر ہم نے انعام کیا ہے۔“ یعنی ہم نے انہیں نبوت و حکمت اور علم و عمل کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ ﴿وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ ” اور ہم نے بنی اسرائیل کے لئے انہیں ایک نمونہ بنا دیا۔“ ان کے ذریعے سے بنی اسرائیل نے اس حقیقت کی معرفت حاصل کی کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو باپ کے بغیر بھی وجود میں لانے کی قدرت رکھتا ہے۔ رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ﴾(الانبیاء :21؍98)” تو اس کا جواب تین طرح سے دیا جاتا ہے: اول : ﴿ إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾ میں ﴿َمَا﴾ غیر ذی عقل کے لئے استعمال ہوا ہے، اس میں حضرت مسیح علیہ السلام داخل نہیں ہیں۔ ثانی : یہ خطاب مکہ اور اس کے اردگرد رہنے والے مشرکین سے ہے جو بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ثالث : اس آیت کریمہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ﴾ (الانبیاء :21؍101) ” بے شک وہ لوگ جن کے لئے پہلے ہی سے ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ ہوچکا ہے، وہ اس جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔“ بلا شبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انبیاء و مرسلین اور اولیاء اللہ اس آیت کریمہ میں داخل ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
woh ( yani essa aleh-assalam ) to bus humaray aik banday thay jinn per hum ney inaam kiya tha , aur bani Israel kay liye unn ko aik namoona banaya tha .