اب اُن کا نصیحت ماننا کہاں (مفید) ہو سکتا ہے حالانکہ ان کے پاس واضح بیان فرمانے والے رسول آچکے،
English Sahih:
How will there be for them a reminder [at that time]? And there had come to them a clear Messenger.
1 Abul A'ala Maududi
اِن کی غفلت کہاں دور ہوتی ہے؟ اِن کا حال تو یہ ہے کہ اِن کے پاس رسول مبین آ گیا
2 Ahmed Raza Khan
کہاں سے ہو انہیں نصیحت ماننا حالانکہ ان کے پاس صاف بیان فرمانے والا رسول تشریف لاچکا
3 Ahmed Ali
وہ کہاں سمجھتے ہیں حالانکہ ان کے پاس کھول کر سنانے والا رسول بھی آ چکا ہے
4 Ahsanul Bayan
ان کے لئے نصیحت کہاں ہے؟ کھول کھول کر بیان کرنے والے پیغمبر ان کے پاس آچکے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اس وقت) ان کو نصیحت کہاں مفید ہوگی جب کہ ان کے پاس پیغمبر آچکے جو کھول کھول کر بیان کر دیتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
ان کے لیے نصیحت کہاں ہے؟ کھول کھول کر بیان کرنے والے پیغمبران کے پاس آچکے
7 Muhammad Hussain Najafi
اب ان کو کہاں سے نصیحت حاصل ہوگی؟ جبکہ ان کے پاس کھول کر بیان کرنے والا رسول(ع) آچکا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بھلا ان کی قسمت میں نصیحت کہاں جب کہ ان کے پاس واضح پیغام والا رسول بھی آچکا ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اس وقت) ان کو نصیحت کہاں مفید ہوگی جبکہ ان کے پاس پیغمبر آ چکے جو کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں
10 Tafsir as-Saadi
اہل تفسیر میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ اس دھوئیں سے کیا مراد ہے، ایک قول یہ ہے کہ یہ وہ دھواں ہے کہ جب مجرم جہنم کی آگ کے قریب پہنچیں گے تو یہ انہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ان کو اندھا کر دے گا، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت کے روز جہنم کے عذاب کی وعید سنائی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ اس دن کا انتظار کریں۔ اس تقسیم کی اس بات سے تائید ہوتی ہے کہ قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ قیامت کے روز کے بارے میں کفار کو وعید سناتا ہے اور اس روز کے عذاب سے انہیں ڈراتا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو تسلی دیتے ہوئے ان کو تکلیفیں پہنچانے والے کفار کے بارے میں انتظار کا حکم دیتا ہے، نیز اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں فرمایا : ﴿أَنَّىٰ لَهُمُ الذِّكْرَىٰ وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ﴾ ” اس وقت ان کو نصیحت کہاں مفید ہوگی جب کہ ان کے پاس واضح رسول پہنچ چکے۔“ یہ ارشاد کفار کو قیامت کے روز اس وقت سنایا جائے گا، جب وہ دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی درخواست کریں گے لہٰذا ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں لوٹ جانے کا وقت گزر چکا ہے۔ اس کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جو کفار قریش پر اس وقت نازل ہوا جب انہوں نے ایمان لانے سے انکار کردیا اور حق کے مقابلے میں تکبر کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے بد دعا فرمائی ))اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ(( ” اے اللہ ! ان پر قحط سالی فرما جیسا کہ حضرت یوسف کے زمانے میں قحط کے سال تھے۔“ [صحیح البخاری، الادب، باب تسمیۃ الولید، حدیث :620 و صحیح مسلم، صفات المنافقین، باب الدخان، حدیث 2898 )پس اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت بڑا قحط بھیجا یہاں تک کہ وہ مردار اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہوگئے اور ان کی یہ حالت ہوگئی کہ انہیں آسمان اور زمین کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا، حالانکہ دھواں نہیں تھا۔ یہ کیفیت بھوک کی شدت کی وجہ سے تھی۔ تب اس تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ ﴾ سے مراد یہ ہے کہ جو وہ مشاہدہ کریں گے وہ ان کی بصارت کی نسبت سے ہوگا وہ حقیقت میں دھواں نہیں ہوگا۔ ان پر یہی حالت طاری رہی یہاں تک کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رحم کی بھیک مانگتے ہوئے درخواست کی کہ وہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان کی بصارت کی نسبت سے ہوگا وہ حقیقت میں دھواں نہیں ہوگا۔ ان پر یہی حالت طاری رہی یہاں تک کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رحم کی بھیک مانگتے ہوئے درخواست کی کہ وہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان سے اس قحط کو دور کر دے پس اللہ تعالیٰ نے اس قحط کو ہٹا دیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
inn ko naseehat kahan hoti hai ? halankay inn kay paas aisa payghumber aaya hai jiss ney haqeeqat ko khol ker rakh diya hai .