المائدہ آية ۲۰
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢـبِيَاۤءَ وَجَعَلَـكُمْ مُّلُوْكًا ۖ وَّاٰتٰٮكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ
طاہر القادری:
اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم اپنے اوپر (کیا گیا) اﷲ کا وہ انعام یاد کرو جب اس نے تم میں انبیاء پیدا فرمائے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ (کچھ) عطا فرمایا جو (تمہارے زمانے میں) تمام جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا تھا،
English Sahih:
And [mention, O Muhammad], when Moses said to his people, "O my people, remember the favor of Allah upon you when He appointed among you prophets and made you possessors and gave you that which He had not given anyone among the worlds.
1 Abul A'ala Maududi
یاد کرو جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ "اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اُس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی اُس نے تم میں نبی پیدا کیے، تم کو فرماں روا بنایا، اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا
2 Ahmed Raza Khan
اور جب موسیٰ نے کہا اپنی قوم سے اے میری قوم اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو کہ تم میں سے پیغمبر کیے اور تمہیں بادشاہ کیا اور تمہیں وہ دیا جو آج سارے جہان میں کسی کو نہ دیا
3 Ahmed Ali
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہاکہ اے میری قوم الله کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم میں نبی پیدا کیے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ دیا جو جہان میں کسی کو نہ دیا تھا
4 Ahsanul Bayan
اور یاد کرو موسیٰ(علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا، کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ تعالٰی کے اس احسان کا ذکر کیا کہ اس نے تم سے پیغمبر بنانے اور تمہیں بادشاہ بنا دیا (١) اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا (٢)۔
٢٠۔١ بیشتر انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں جن کا سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم کر دیا گیا اور آخری پیغمبر بنو اسماعیل سے ہوئے۔ اسی طرح متعدد بادشاہ بھی بنی اسرائیل میں ہوئے اور بعض نبیوں کو بھی اللہ تعالٰی نے ملوکیت (بادشاہت) سے نوازا، جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبوت کی طرح ملوکیت (بادشاہت) بھی اللہ کا انعام ہے، جسے علی الاطلاق برا سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اگر ملوکیت بری چیز ہوتی تو اللہ تعالٰی کسی نبی کو بادشاہ بناتا نہ اس کا ذکر انعام کے طور پر فرماتا، جیسا کہ یہاں ہے آج کل مغربی جمہوریت کا کا بوس اس طرح ذہنوں پر مسلط ہے اور شاطران، مغرب نے اس کا افسوں اس طرح پھونکا ہے کہ مغربی افکار کے اسیر اہل سیاست ہی نہیں بلکہ اصحاب جبہ و دستار بھی ہیں۔ بہرحال ملوکیت یا شخصی حکومت، اگر بادشاہ اور حکمران عادل ومتقی ہو تو جمہوریت سے ہزار درجے بہتر ہے۔
٢٠۔٢ یہ اشارہ ہے ان انعامات اور معجزات کی طرف، جن سے بنی اسرائیل نوازے گئے، جیسے من و سلویٰ کا نزول، بادلوں کا سایہ، فرعون سے نجات کے لئے دریا سے راستہ بنا دیا وغیرہ۔ اس لحاظ سے یہ قوم اپنے زمانے میں فضیلت اور اونچے مقام کی حامل تھی لیکن پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد کی رسالت و بعث کے بعد اب یہ مقام فضیلت امت محمدیہ کو حاصل ہوگیا ہے (كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ) 3۔ آل عمران;110)) تم بہترین امت ہو جسے نوع انسانی کے لئے بنایا گیا ہے لیکن یہ بھی مشروط ہے اس مقصد کی تکمیل کے ساتھ جو اسی آیت میں بیان کر دیا گیا ہے کہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے، برائی سے روکتے ہو اور اللہ تعالٰی پر ایمان رکھتے ہو، اللہ تعالٰی امت مسلمہ کو اس مقصد کے لئے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ اپنے خیر امت ہونے کا اعزاز برقرار رکھ سکے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو تم پر خدا نے جو احسان کئے ہیں ان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں پیغمبر پیدا کیے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تم کو اتنا کچھ عنایت کیا کہ اہل عالم میں سے کسی کو نہیں دیا
6 Muhammad Junagarhi
اور یاد کرو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا، اے میری قوم کے لوگو! اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کرو کہ اس نے تم میں سے پیغمبر بنائے اور تمہیں بادشاه بنا دیا اور تمہیں وه دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا
7 Muhammad Hussain Najafi
وہ وقت یاد کرو۔ جب جناب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! تم اللہ کا وہ احسان یاد کرو۔ جو اس نے تم پر کیا۔ اس نے تم میں نبی بنائے اور تمہیں فرمانروا اور خودمختار بنایا۔ اور تمہیں وہ کچھ دیا جو دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس وقت کو یاد کرو جب موسٰی نے اپنی قوم سے کہا کہ اے قوم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب اس نے تم میں انبیائ قرار دئیے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ سب کچھ دے دیا جو عالمین میں کسی کو نہیں دیا تھا
9 Tafsir Jalalayn
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو تم پر خدا نے جو احسان کئے ہیں ان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں پیغمبر پیدا کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا۔ اور تم کو اتنا کچھ عنایت کیا کہ اہل عالم میں سے کسی کو نہیں دیا۔
آیت ٢٠ تا ٢٦
ترجمہ : اور یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا تھا، اے میری قوم کے لوگو تم اللہ کی ان نعمتوں کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کیں اس نے تم میں سے نبی پیدا کئے اور تمہیں جاہ و حشمت والا بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ دیا کہ جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا یعنی مَنّ وسلویٰ ، اور سمندر پھاڑ کر راستہ بنادیا وغیرہ، اے میری قوم کے لوگو اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے (نام) لکھ دی ہے، یعنی اس میں داخل ہونے کا حکم دیا ہے اور وہ (سرزمین) ملک شام ہے، اور الٹے پاؤں پیچھے نہ ہٹو، ورنہ دشمن کے خوف سے شکست خوردہ ہوجاؤ گے، اور اپنی کوشش میں نامراد ہو کر رہ جاؤ گے، انہوں نے جواب دیا اے موسیٰ وہاں تو قوم عاد کی نسل کے درازقد طاقتور بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں ہم وہاں ہرگز نہ جائیں گے تاآنکہ وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں، ہاں اگر وہ وہاں سے نکل گئے تو ہم داخل ہونے کیلئے تیار ہیں، ان سے ان دو آدمیوں نے کہا جو اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے سے ڈرتے تھے اور وہ یوشع اور کالب تھے جو ان بارہ سرداروں میں سے تھے جن کو موسیٰ (علیہ السلام) نے جبابرہ کے تفتیش حال کیلئے بھیجا تھا جن دونوں پر اللہ نے (افشاء) سے حفاظت کے ذریعہ انعام فرمایا چناچہ ان دونوں حضرات نے اپنی معلومات کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ سے صیغہ راز میں رکھا، برخلاف دیگر سرداروں کے کہ انہوں نے افشاء راز کردیا جس کے نتیجے میں (بنو اسرائیل) پست ہمت ہوگئے، تم ان کے پاس شہر کے دروازہ پر تو پہنچو اور ان سے ڈرو نہیں وہ تو بےدل مجسمے ہیں (یعنی بزدل لوگ ہیں) اور جب تم دروازے میں داخل ہوجاؤ گے تو یقیناً تم ہی غالب رہو گے، انہوں نے یہ بات اللہ کی مدد او اور اس کے وعدہ کو پورا کرنے پر یقین کرتے ہوئے کہی، اور اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو، لیکن انہوں نے (پھر یہی کیا) کہ سے موسیٰ (علیہ السلام) ہم وہاں ہرگز نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں، پس تم اور تمہارا رب جاؤ اور ان سے لڑو ہم یہاں لڑائی سے محفوظ بیٹھے ہوئے ہیں تو اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے پروردگار میں اپنی ذات اور بھائی کے علاوہ کسی کا مالک نہیں اور میں ان دونوں کے علاوہ کا مالک نہیں ہوں کہ ان کو اطاعت پر مجبور کرسکوں، تو ہمیں ان نافرمان لوگوں سے الگ کر دے تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ ان لوگوں کیلئے ارض مقدس میں چالیس سالوں تک داخلہ ممنوع ہے یہ زمین میں متحیر سرگرداں رہیں گے اور (اس کی وسعت) نوفرسخ ہے، یہ ابن عباس (رض) کا قول ہے، ان نافرمانوں کی حالت پر ہرگز ترس نہ کھائیں، روایت کیا گیا ہے کہ بنو اسرائیل بڑی کوشش کے ساتھ راتوں کو چلتے تھے مگر جب صبح ہوتی تھی تو وہ اسی جگہ ہوتے تھے جہاں سے انہوں نے سفر کی ابتداء کی تھی، اور یہی حال ان کے دن میں چلنے کا تھا، حتی کہ ان کی پوری نسل ختم ہوگئی سوائے ان نوجوانوں کے کہ جن کی عمر ابھی بیس سال کی نہیں ہوئی تھی، کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد چھ لاکھ (٦٠٠٠٠٠) تھی، اور حضرت ہارون اور موسیٰ (علیہ السلام) کا انتقال مقام تیہ ہی میں ہوا، اور یہ مقام تیہ کا قیام ان دونوں کیلئے رحمت اور ان سب کیلئے عذاب تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انتقال کے وقت اپنے رب سے دعاء کی کہ ان کو ارض مقدس سے ایک پتھر پھینکے کی مقدار قریب کر دے چناچہ ان کو قریب کردیا جیسا کہ حدیث میں وارد ہے، اور حضرت یوشع (علیہ السلام) کو چالیس سال بعد نبی بنایا گیا، اور جبابرہ سے قتال کرنے کا حکم دیا چناچہ (حضرت یوشع (علیہ السلام) بقیہ لوگوں کو اپنے ہمراہ لے کر چلے اور ان سے قتال کیا، اور اس روز جمعہ کا دن تھا، سورج ان کے واسطے ایک ساعت کیلئے ٹھہر گیا تھا یہاں تک کہ قتال سے فراغت ہوگئی، اور روایت کیا احمد نے اپنی مسند میں کہ سورج سوائے حضرت یوشع (علیہ السلام) کے کسی کیلئے نہیں ٹھہرایا گیا، ان راتوں میں کہ جن میں یوشع (علیہ السلام) نے بیت المقدس کی طرف سفر کیا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ای مِنْکُمْ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : فیکم، کی تفسیر مِنْکم سے کیوں کی ؟ جواب : اسلئے کہ، کُمْ ، میں حقیقۃً ظرف بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔
قولہ : من المَنّ والسلویٰ ، اس میں اشارہ ہے کہ بنی اسرائیل کو اہل عالم پر مطلقاً فضیلت حاصل نہیں تھی بلکہ مَنّ وسلوی کی وجہ سے جزوی فضیلت حاصل تھی۔
قولہ : اَنْعَمَ اللہُ علیھما، اس میں احتمال ہے کہ جملہ دعائیہ ہو اس صورت میں جملہ معترضہ ہوگا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ جملہ خبریہ ہو تو اس صورت میں رجلان کی صفت ثانیہ ہوگا۔
قولہ : اَلْبَاب کی تفسیر باب القریۃ سے کرکے اشارہ کردیا کہ الباب میں الف لام مضاف الیہ کے عوض میں ہے۔
قولہ : وعَلَی اللہِ فَتَوَلَّکُوا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ ، واؤ استینافیہ ہے اور کلام مستانف ہے فاء امر محذوف کے جواب پر داخل ہے، تقدیر عبارت یہ ہے تَنَبَّھُوا فتوکَّلُوا علی اللہ، علی اللہ، توکلّوا کا متعلق مقدم ہے، اِن کنتم شرط ہے جواب شرط محذوف ہے جس پر ماقبل یعنی توکلوا دلالت کر رہا ہے، قال رب انی لا املک الا نفسی وَاَخِی، یہ جملہ استینافیہ برائے اظہار حسرت والتاسف ہے، قال، قول ہے اور مابعد اس کا مقولہ ہے، لا اَمْلِک اِنَّ کی خبر ہے، اِلاّ ، حرف استثناء برائے حصر ہے نفسی مفعول بہ ہے۔
قولہ : وَاَخِیْ ، اس میں رفع، نصب اور جر تینوں ہے، اگر امْلِک، کی ضمیر مستتر پر عطف ہو تو رفع ہوگا اور اگر اِنَّ کے اسم پر عطف ہوگا تو نصب ہوگا اور اگر یاء پر عطف ہو تو مجرور ہوگا۔ قولہ : یَتِیْھُوْنَ ، تِیْۃٌ، (ض) مضارع جمع مذکر غائب، سرگرداں پھرتے رہیں گے۔
قولہ : لاتَأُسَ ، تو غم نہ کھا، مصدر اَسیً ، تاس مضارع واحد مذکر اصل تأسَیُ تھا لاء نہی کی وجہ سے یاء ساقط ہوئی۔
تفسیر و تشریح
اِذ قال موسیٰ لِقَوْمِہٖ (الآیۃ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس خطبہ کا زمانہ وہ ہے کہ جب قوم، بنی اسرائیل مصریوں کی غلامی سے آزاد ہو کر جزیرہ نمائے سینا میں آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کر رہی تھی اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے دینی پیغمبر بھی تھے اور دنیوی رہبر و لیڈر بھی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم بنی اسرائیل کو آمادہ کر رہے تھے کہ اپنے وطن فلسطین چلو، ظالم و غاصب قوم عمالقہ کو وہاں سے نکال باہر کرو اور خود اس پر حکمرانی کرو، تازہ ترین تحقیق کے مطابق مصر سے خروج بنی اسرائیل کا زمانہ ١٤٤٠ ق م کا ہے، اور فلسطین پر بنی اسرائیل کی فوج کشی کا زمانہ ١٤٠٠ ق م ہے اس لحاظ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس تقریر کا زمانہ اسی میدانی مدت کا ہے اور عجب نہیں کہ آپ کا بالکل آخری زمانہ ہو جیسا کہ تورات کے صحیفہ استثناء باب اول سے اندازہ ہوتا ہے، اگر یہ بات صحیح ہے تو ای صحیفہ استثناء میں یہ تصریح بھی موجود ہے کہ آپ نے یہ تقریر دریائے اردن کے پار موآب کے میدان میں مصر سے واقعہ خروج کے چالیسویں سال کے گیارہویں مہینہ کی پہلی تاریخ کو فرمائی تھی۔ (ماجدی
بیشتر انبیاء نبی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں یہ سلسلہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے شروع ہو کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختم ہوگیا، اور آخری پیغمبر بنی اسماعیل سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوئے، اسی طرح متعدد بادشاہ بھی بنی اسرائیل میں ہوئے اور بعض نبیوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے عظیم بادشاہت سے نوازا، جیسا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے والد حضرت داؤد (علیہ السلام) کو ملوکیت کا اطلاق اس زمانہ میں جاہ و حشمت کے مالک بلکہ ہر آزاد اور خودمختار اور صاحب حیثیت شخص پر بھی اس کا اطلاق ہوتا تھا۔
ملوکیت بھی نبوت کی طرح اللہ کا انعام ہے : مطلب یہ ہے کہ نبوت کی طرح ملوکیت بھی خدائی انعام ہے جیسے علی الاطلاق برا سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے اگر ملوکیت علی الاطلاق بری چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی نبی کو بادشاہ نہ بناتا، اور نہ اس کا ذکر انعام کے طور پر فرماتا جیسا کہ یہاں ملوکیت کو انعام کے طور پر ذکر فرمایا۔ آج کل مغربی طرزی جمہوریت کا کا بوس ذہنوں پر مسلط ہے اور شاطر ان مغرب نے اس کا افسون اس طرح پھونکا ہے کہ مغربی افکار کے اسیر اہل سیاست ہی نہیں اصحاب جبہ و دستار بھی ان کے دام فریب میں پھنس گئے ہیں، بہرحال ملوکیت یا شخصی حکومت کا سربراہ و حکمراں عادل و متقی ہو تو جمہوریت سے ہزار درجے بہتر ہے۔
مذکورہ آیت میں ان انعامات کی طرف اشارہ ہے جن سے بنی اسرائیل نوازے گئے تھے جیسے مَنْ وسلویٰ کا نزول، مقام تیہ میں بادلوں کا سایہ فگن ہونا، فرعون سے نجات کیلئے دریا کو دو لخت کرکے راستہ بنادینا وغیرہ وغیرہ، اس لحاظ سے یہ قوم اپنے زمانہ میں فضیلت اور اعلی مقام کی حامل تھی، لیکن بنی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت و بعثت کے بعد اب یہ مقام فضیلت امت محمدیہ کو حاصل ہوگیا، (کنتم خیر امۃ اخرجت للناس) لیکن یہ مقام خیریت ” تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتؤمنون باللہ “ کی شرط کے ساتھ مشروط ہے، بنو اسرائیل کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا مسکن و مادر وطن بیت المقدس تھا، لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کی امارت کے زمانہ میں یہ لوگ مصر جاکر آباد ہوگئے تھے اسی وقت سے مصر میں سکونت پذیر رہے، اس زمانہ میں بیت المقدس پر قوم عمالقہ کی حکمرانی تھی جو کہ ایک بہادر قوم تھی، جب موسیٰ (علیہ السلام) نے بحکم خداوندی اپنے آبائی وطن شام میں جاکر آبار ہونیکا ارادہ کیا تو ملک شام اور بہت المقدس پر قابض عمالقہ کو جہاد کے ذریعہ بےدخل کرنا ضروری تھا چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اس ارض مقدس میں داخل ہونیکا حکم دیا، اور ساتھ ہی نصرت الہیٰ کی بشارت بھی سنائی، لیکن اس کے باوجود بنی اسرائیل عمالقہ سے لڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ (ابن کثیر)
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دشت فاران سے بارہ سرداروں کا ایک وفد فلسطین کی صورت حال معلوم کرنے کیلئے بھیجا، اور ان کو تاکید کردی کہ ایسی کوئی رپورٹ برسر عام پیش نہ کریں جو بنی اسرائیل کیلئے ہمت شکنی کی باعث ہو، مذکورہ سرداروں کا وفد چالیس دن دورہ کرکے وہاں سے واپس آیا اور سوائے حضرت یوشع بن نون کے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھانجے تھے اور کالب بن یوحنا کے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے داماد تھے، باقی لوگوں میں مجمع عام میں ہمت شکن رپورٹ پیش کردی، اور کہہ دیا کہ وہاں اگرچہ دودھ اور شہد کی خبریں بہتی ہیں، لیکن وہاں کے باشندے بڑے شہ روز وقد آور ہیں ہماری طاقت نہیں کہ ان کا مقابلہ کرسکیں، یہ رپورٹ سنکر پورا مجمع چیخ اٹھا کہ کاش ہم مصر ہی میں مرجاتے یا بیابان ہی میں ہمارا خاتمہ ہوجاتا، اس سے بہتر ہے کہ ہم مصر واپس چلے جائیں، قوم کی یہ صورت حال دیکھ کر حضرت یوشع اور کالب کھڑے ہوئے اور قوم کی اس بزدلی پر ملامت کی مگر وہ کسی صورت میں عمالقہ سے جہاد کیلئے تیار نہ ہوئے بلکہ اس کا جواب قوم نہ یہ دیا کہ ان کو سنگسار کردو، غرضیکہ بنی اسرائیل نے بدترین بزدلی، تمردو سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، کہ تم اور تمہارا رب جا کر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔
اس کے برعکس جب غزوہ بدر کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو انہوں نے قلت تعداد اور قلت وسائل کے باوجود جہاد میں حصہ لینے کیلئے بھرپور عزم کا اظہار فرمایا اور یہ بھی کہا کہ یا رسول اللہ ہم آپ سے اس طرح نہیں کہیں گے کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ الصلوۃ السلام اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کی قوم کی غلامی سے نجات دلا کر ان پر احسان فرمایا چنانچہ موسیٰ اور ان کی قوم نے اپنے وطن بیت المقدس واپس جانے کا قصد کیا اور وہ بیت المقدس کے قریب پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر دشمن کے خلاف جہاد فرض کردیا تاکہ وہ ان سے اپنے علاقے خالی کروائیں۔ موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام نے ان کو وعظ و تذکیر کی تاکہ وہ جہاد کے عزم پر قائم رہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ﴾” تم پو اللہ نے جو احسان کئے ہیں انہیں یاد کرو۔“ یعنی اپنے دل اور زبان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر اس کی محبت کا باعث بنتا ہے اور عبادت کے لئے نشاط پیدا کرتا ہے ﴿إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ ﴾ ” جب پیدا کئے اس نے تمہارے اندر نبی“ جو تمہیں ہدایت کی طرف بلاتے ہیں اور تمہیں ہلاکت سے ڈراتے ہیں اور تمہیں ابدی سعادت کے حصول پر آمادہ کرتے ہیں اور تمہیں وہ کچھ سکھاتے ہیں جو تم نہیں جانتے﴿وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا ﴾” اور تم کو بادشاہ بنایا“ تم اپنے معاملات کے خود مالک تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دشمن کی غلامی سے نجات دلائی اور تم اپنے معاملات کے خود مالک بن گئے اور تمہارے لئے اپنے دین کو قائم کرنا ممکن ہوگیا۔
﴿وَآتَاكُم ﴾” اور تم کو عنایت کیا“ یعنی تمہیں دینی اور دنیاوی نعمتیں عطا کیں ﴿مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴾ ” جو اس نے جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیں“ کیونکہ وہ اس زمانے میں منتخب قوم تھی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ باعزت تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو وہ نعمتیں عطا کیں جو کسی اور کو عطا نہیں کیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ نعمتیں یاد دلائیں جو ایمان، اس کے ثبات، جہاد پر ان کی ثابت قدمی اور جہاد کے لئے آگے بڑھنے کی موجب ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur uss waqt ka dhiyan kero jab musa ney apni qoam say kaha tha kay aey meri qoam ! Allah ki uss naimat ko yaad kero jo uss ney tum per nazil farmaee hai kay uss ney tum mein nabi peda kiye , tumhen hukmran banaya , aur tumhen woh kuch ata kiya jo tum say pehlay duniya jahan kay kissi fard ko ata nahi kiya tha .
12 Tafsir Ibn Kathir
تسلسل انبیاء نسل انسانی پہ اللہ کی رحمت
حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو اللہ کی جو نعمتیں یاد دلا کر اس کی اطاعت کی طرف مائل کیا تھا، اس کا بیان ہو رہا ہے کہ فرمایا " لوگو اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے ایک کے بعد ایک نبی تم میں تمہیں میں سے بھیجا۔ " حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے بعد سے انہی کی نسل میں نبوت رہی۔ یہ سب انبیاء تمہیں دعوت توحید و اتباع دیتے رہے۔ یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ روح اللہ پر ختم ہوا، پھر خاتم الانبیاء والرسل حضرت محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت کاملہ عطا ہوئی، آپ اسماعیل کے واسطہ سے حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے تھے، جو اپنے سے پہلے کے تمام رسولوں اور نبیوں سے افضل تھے۔ اللہ آپ پر درود وسلام نازل فرمائے اور تمہیں اس نے بادشاہ بنادیا یعنی خادم دیئے، بیویاں دیں، گھر بار دیا اور اس وقت جتنے لوگ تھے، ان سب سے زیادہ نعمتیں تمہیں عطا فرمائیں۔ یہ لوگ اتنا پانے کے بعد بادشاہ کہلانے لگتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا میں فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہوں ؟ آپ نے فرمایا تیری بیوی ہے ؟ اس نے کہا ہاں گھر بھی ہے ؟ کہا ہاں، کہا پھر تو تو غنی ہے، اس نے کہا یوں تو میرا خادم بھی ہے، آپ نے فرمایا پھر تو تو بادشاہوں میں سے ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں " سواری اور خادم ملک ہے "۔ بنو اسرائیل ایسے لوگوں کو ملوک کہا کرتے تھے۔ بقول قتادہ خادموں کا اول رواج ان بنی اسرائیلیوں نے ہی دیا ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ان لوگوں میں جس کے پاس خادم، سواری اور بیوی ہو وہ بادشاہ کہا جاتا تھا۔ ایک اور مرفوع حدیث میں ہے " جس کا گھر ہو اور خادم ہو وہ بادشاہ ہے "۔ یہ حدیث مرسل اور غریب ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے " جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ اس کا جسم صحیح سالم ہو، اس کا نفس امن وامان میں ہو، دن بھر کفایت کرے، اس کیلئے اتنا مال بھی ہو تو اس کیلئے گویا کل دنیا سمٹ کر آگئی "۔ اس وقت جو یونانی قبطی وغیرہ تھے ان سے یہ اشرف و افضل مانے گئے تھے اور آیت میں ہے ہم نے بنو اسرائیل کو کتاب، حکم، نبوت، پاکیزہ روزیاں اور سب پر فضیلت دی تھی۔ حضرت موسیٰ سے جب انہوں نے مشرکوں کی دیکھا دیکھی اللہ بنانے کو کہا اس کے جواب میں حضرت موسیٰ نے اللہ کے فضل بیان کرتے ہوئے یہی فرمایا تھا کہ اس نے تمہیں تمام جہان پر فضیلت دے رکھی ہے۔ مطلب سب جگہ یہی ہے کہ اس وقت کے تمام لوگوں پر کیونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یہ امت ان سے افضل ہے، کیا شرعی حیثیت سے، کیا احامی حیثیت سے، کیا نبوت کی حیثیت سے، کیا بادشاہت، عزت، مملکت، دولت، حشمت مال، اولاد وغیرہ کی حیثیت سے، خود قرآن فرماتا ہے آیت (كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ ) 3 ۔ آل عمران :110) اور فرمایا آیت (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا) 2 ۔ البقرۃ :143) یہ بھی کہا گیا ہے کہ " بنو اسرائیل کے ساتھ اس فضیلت میں امت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی شامل کر کے خطاب کیا گیا ہے " اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ " بعض امور میں انہیں فی الواقع علی الاطلاق فضیلت دی گئی تھی جیسے من وسلویٰ کا اترنا، بادلوں سے سایہ مہیا کرنا وغیرہ جو خلاف عادت چیزیں تھیں "۔ یہ قول اکثر مفسرین کا ہے جیسا پہلے بیان ہوچکا ہے کہ مراد اس سے ان کے اپنے زمانے والوں پر انہیں فضیلت دیا جانا ہے واللہ اعلم۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ " بیت المقدس دراصل ان کے دادا حضرت یعقوب کے زمانہ میں انہی کے قبضے میں تھا اور جب وہ مع اپنے اہل و عیال کے حضرت یوسف کے پاس مصر چلے گئے تو یہاں عمالقہ قوم اس پر قبضہ جما بیٹھی، وہ بڑے مضبوط ہاتھ پیروں کی تھی۔ اب حضرت موسیٰ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ تم ان سے جہاد کرو اللہ تمہیں ان پر غالب کرے گا اور یہاں کا قبضہ پھر تمہیں مل جائے گا لیکن یہ نامردی دکھاتے ہیں اور بزدلی سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ ان کی سزا میں انہیں چالیس سال تک وادی تیہ میں حیران و سرگرداں خانہ بدوشی میں رہنا پڑتا ہے، مقدسہ سے مراد پاک ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ وادی طور اور اس کے پاس کی زمین کا ذکر ہے ایک روایت میں اریحاء کا ذکر ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں، اس لئے کہ نہ تو اریحاء کا فتح کرنا مقصود تھا، نہ وہ ان کے راستے میں تھا، کیونکہ وہ فرعون کی ہلاکت کے بعد مصر کے شہروں سے آ رہے تھے اور بیت المقدس جا رہے تھے، یہ ہوسکتا ہے کہ وہ مشہور شہر جو طور کی طرف بیت المقدس کے مشرقی رخ پر تھا " " اللہ نے اسے تمہارے لئے لکھ دیا ہے " مطلب یہ ہے کہ تمہارے باپ اسرائیل سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تیری اولاد کے باایمان لوگوں کے ورثے میں آئے گا، تم اپنی پیٹھوں پر مرتد نہ ہوجاؤ۔ یعنی جہاد سے منہ پھیر کر تھک کر نہ بیٹھ جاؤ، ورنہ زبردست نقصان میں پڑجاؤ گے۔ جس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ جس شہر میں جانے اور جن شہریوں سے جہاد کرنے کیلئے آپ فرما رہے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ وہ بڑے قوی طاقتور اور جنگجو ہیں، ہم ان سے مقابلہ نہیں کرسکتے، جب تک وہ وہاں موجود ہیں، ہم اس شہر میں نہیں جاسکتے، ہاں اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم چلے جائیں گے، ورنہ آپ کے حکم کی تعمیل ہماری طاقت سے باہر ہے، ابن عباس کا بیان ہے کہ " حضرت موسیٰ جب اریحاء کے قریب پہنچ گئے تو آپ نے بارہ جاسوس مقرر کئے، بنو اسرائیل کے ہر قبیلے میں سے ایک جاسوس لیا اور انہیں اریحاء میں بھیج کر صحیح خبریں لے آئیں۔ یہ لوگ جب گئے تو ان کی جسامت اور قوت سے خوف زدہ ہوگئے۔ ایک باغ میں یہ سب کے سب تھے، اتفاقاً باغ والا پھل توڑنے کیلئے آگیا، وہ پھل توڑتا ہوا ان کے قدموں کے نشان ڈھونڈتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا اور انہیں بھی پھلوں کے ساتھ ہی ساتھ اپنی گٹھڑی میں باندھ لیا اور جاکر بادشاہ کے سامنے باغ کے پھل کی گٹھڑی کھول کر ڈال دی، جس میں یہ سب کے سب تھے، بادشاہ نے انہیں کہا اب تو تمہیں ہماری قوت کا اندازہ ہوگیا ہے، تمہیں قتل نہیں کرتا جاؤ واپس جاؤ اور اپنے لوگوں سے ہماری قوت بیان کردو۔ چناچہ انہوں نے جاکر سب حال بیان کیا جس سے بنو اسرائیل رعب میں آگئے "۔ لیکن اس کی اسناد ٹھیک نہیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ ان بارہ لوگوں کو ایک شخص نے پکڑ لیا اور اپنی چادر میں گٹھڑی باندھ کر نہر میں لے گیا اور لوگوں کے سامنے انہیں ڈال دیا، انہوں نے پوچھا تم کون لوگ ہو ؟ جواب دیا کہ ہم موسیٰ کی قوم کے لوگ ہیں، ہم تمہاری خبریں لینے کیلئے بھیجے گئے تھے۔ انہوں نے ایک انگور ان کو دیا جو ایک شخص کو کافی تھا اور کہا جاؤ ان سے کہہ دو کہ یہ ہمارے میوے ہیں۔ انہوں نے واپس جا کر قوم سے سب حال کہہ دیا، اب حضرت موسیٰ نے انہیں جہاد کا اور اس شہر میں جانے کا حکم دیا تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ آپ اور آپ کا اللہ جائیں اور لڑیں ہم تو یہاں سے ہلنے کے بھی نہیں۔ حضرت انس نے ایک بانس لے کر ناپا جو پچاس یا پچپن ہاتھ کا تھا، پھر اسے گاڑ کر فرمایا " ان عمالیق کے قد اس قدر لانبے تھے "۔ مفسرین نے یہاں پر اسرائیلی روایتیں بہت سی بیان کی ہیں کہ یہ لوگ اس قدر قوی تھے، اتنے موٹے اور اتنے لمبے قد تھے، انہی میں عوج بن عنق بن حضرت آدم تھا، جس کا قد لمبائی میں (3333) تین ہزار تین سو تیتس گز کا تھا، اور چوڑائی اس کے جسم کی تین گرز کی تھی لیکن یہ سب باتیں واہی ہیں، ان کے تو ذکر سے بھی حیا مانع ہے، پھر یہ صحیح حدیث کے خلاف بھی ہیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو ساٹھ ہاتھ پیدا کیا تھا، پھر سے آج تک مخلوق کے قد گھٹتے ہی رہے، ان اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ عوج بن عنق کافر تھا اور ولد الزنا تھا یہ طوفان نوح میں تھے اور حضرت نوح کے ساتھ ان کی کشتی میں نہ بیٹھا تھا، تاہم پانی اس کے گھٹنوں تک بھی نہ پہنچا تھا۔ یہ محض لغو اور بالکل جھوٹ ہے بلکہ قرآن کے خلاف ہے، قرآن کریم میں نوح کی دعا یہ مذکور ہے کہ زمین پر ایک کافر بھی نہ بچنا چاہئے، یہ دعا قبول ہوئی اور یہی ہوا بھی، قرآن فرماتا ہے " ہم نے نوح کو اور ان کی کشتی والوں کو نجات دی، پھر باقی کے سب کافروں کو غرق کردیا "۔ خود قرآن میں ہے کہ " آج کے دن بجز ان لوگوں کے جن پر رحمت حق ہے، کوئی بھی بچنے کا نہیں " تعجب سا تعجب ہے کہ نوح کا لڑکا بھی جو ایماندار نہ تھا بچ نہ سکے لیکن عوج بن عنق کافر ولد الزنا بچ رہے۔ یہ بالکل عقل و نقل کے خلاف ہے بلکہ ہم تو سرے سے اس کے بھی قائل نہیں کہ عوج بن عنق نامی کوئی شخص تھا واللہ اعلم۔ بنی اسرائیل جب اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں مانتے بلکہ ان کے سامنے سخت کلامی اور بےادبی کرتے تو وہ شخص جن پر اللہ کا انعام و اکرام تھا، وہ انہیں سمجھاتے ہیں۔ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف تھا، وہ ڈرتے تھے، کہ بنی اسرائیل کی اس سرکشی سے کہیں عذاب الٰہی نہ آجائے، ایک قرأت میں (یخافون) کے بدلے (یھابون) ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ " ان دونوں بزرگوں کی قوم میں عزت و عظمت تھی "۔ ایک کا نام حضرت یوشع بن نون تھا دوسرے کا نام کالب بن یوفا تھا "۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم اللہ پر بھروسہ رکھو گے، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان دشمنوں پر غالب کر دے گا اور وہ تمہاری مدد کو تائید کرے گا اور تم اس شہر میں غلبے کے ساتھ پہنچ جاؤ گے، تم دروازے تک تو چلے چلو، یقین مانو کہ غلبہ تمہارا ہی ہے۔ لیکن ان نامرادوں نے اپنا پہلا جواب اور مضبوط کردیا اور کہا کہ اس جبار قوم کی موجودگی میں ہمارا ایک قدم بڑھانا بھی ناممکن ہے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے دیکھ کر بہت سمجھایا یہاں تک کہ ان کے سامنے بڑی عاجزی کی لیکن وہ نہ جانے۔ یہ حال دیکھ کر حضرت یوشع اور حضرت کالب نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور انہیں بہت کچھ ملامت کی۔ لیکن یہ بدنصیب اور اکڑ گئے، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں بزرگوں کو انہوں نے پتھروں سے شہید کردیا، ایک طوفان بدتمیزی شروع ہوگیا اور بےطرح مخالفت رسول پر تل گئے۔ ان کے اس حال کو سامنے رکھ کر پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کے حال کو دیکھئے کہ جب نو سو یا ایک ہزار کافر اپنے قافلے کو بچانے کیلئے چلے، قافلہ تو دوسرے راستے سے نکل گیا لیکن انہوں نے اپنی طاقت و قوت کے گھمنڈ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نقصان پہنچائے بغیر واپس جانا اپنی امیدوں پر پانی پھیرنا، سمجھ کر اسلام اور مسلمانوں کو کچل ڈالنے کے ارادے سے مدینہ کا رخ کیا، ادھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب یہ حالات معلوم ہوئے تو آپ نے اپنے صحابہ سے کہا کہ بتاؤ اب کیا کرنا چاہئے ؟ اللہ ان سب سے خوش رہے، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں اپنے مال اپنی جانیں اور اپنے اہل عیال سب کو ہیچ سمجھا نہ کفار کے غلبے کو دیکھا، نہ اسباب پر نظر ڈالی بلکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان پہ قربان ہیں۔ سب سے پہلے حضرت صدیق نے اس قسم کی گفتگو کی، پھر مہاجرین صحابہ میں سے کئی ایک نے اسی قسم کی تقریر کی۔ لیکن پھر بھی آپ نے فرمایا ؟ اور بھی کوئی شخص اپنا ارادہ ظاہر کرنا چاہے تو کرے، آپ کا مقصد اس سے یہ تھا کہ انصار کا دلی ارادہ معلوم کریں، اس لئے کہ یہ جگہ انہی کی تھی اور تعداد میں بھی یہ مہاجرین سے زیادہ تھے۔ اس پر حضرت سعد بن معاذ انصاری و انصار کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے شاید آپ کا ارادہ ہماری منشاء معلوم کرنے کا ہے " سنئے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ سچا نبی بنا کر بھیجا ہے کہ اگر آپ ہمیں سمندر کے کنارے کھڑا کر کے فرمائیں کہ اس میں کود جاؤ تو بغیر کسی پس و پیش کے اس میں کود جائیں گے۔ آپ دیکھ لیں گے کہ ہم میں سے ایک بھی نہ ہوگا جو کنارے پر کھڑا رہ جائے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ہمیں شوق سے لے چلئے۔ آپ دیکھ لیں گے کہ ہم لڑائی میں صبر اور ثابت قدمی دکھانے والے لوگ ہیں، آپ جان لیں گے کہ ہم اللہ کی ملاقات کو سچ جاننے والے لوگ ہیں، آپ اللہ کا نام لیجئے، کھڑے ہوجایئے ہمیں دیکھ کر ہماری بہادری اور استقلال کو دیکھ کر انشاء اللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی " یہ سن کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہوگئے اور آپ کو انصار کی یہ باتیں بہت ہی بھلی معلوم ہوئیں (رض) ۔ " ایک روایت میں ہے کہ بدر کی لڑائی کے موقعہ پر آپ نے مسلمانوں سے مشورہ لیا، حضرت عمر نے کچھ کہا پھر انصاریوں نے کہا کہ اگر آپ ہماری سننا چاہتے ہیں، تو سنئے ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں، جو کہہ دیں کہ آپ اور آپ کا اللہ جا کر لڑیں، ہم یہاں بیٹھے ہیں، بلکہ ہمارا جواب یہ ہے کہ آپ اللہ کی مدد لے کر جہاد کیلئے چلئے، ہم جان و مال سے آپ کے ساتھ ہیں۔ حضرت مقداد انصاری نے بھی کھڑے ہو کر یہی فرمایا تھا۔ حضرت ابن مسعود فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مقداد کے اس قول سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہوگئے، انہوں نے کہا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لڑائی کے وقت دیکھ لیں گے کہ آپ کے آگے پیچھے دائیں بائیں ہم ہی ہم ہوں گے۔ کاش کہ کوئی ایسا موقع مجھے میسر آتا کہ میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قدر خوش کرسکتا۔ ایک روایت میں حضرت مقداد کا یہ قول حدیبیہ کے دن مروی ہے جبکہ مشرکین نے آپ کو عمرہ کیلئے بیت اللہ شریف جاتے ہوئے راستے میں روکا اور قربانی کے جانور بھی ذبح کی جگہ نہ پہنچ سکے تو آپ نے فرمایا میں تو اپنی قربانی کے جانور کو لے کر بین اللہ پہنچ کر قربان کرنا چاہتا ہوں تو حضرت مقداد بن اسود نے فرمایا ہم اصحاب موسیٰ کی طرح نہیں کہ انہوں نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہہ دیا کہ آپ اور آپ کا اللہ جا کر لڑ لو ہم تو یہاں بیھٹے ہیں۔ ہم کہتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ چلئے اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو اور ہم سب کے سب آپ کے ساتھی ہیں، یہ سن کر اصحاب نے بھی اسی طرح جاں نثاروں کے وعدے کرنے شروع کردیئے۔ پس اگر اس روایت میں حدیبیہ کا ذکر محفوظ ہو تو ہوسکتا ہے کہ بدر والے دن بھی آپ نے یہ فرمایا ہو اور حدیبیہ والے دن بھی یہی فرمایا ہو واللہ اعلم۔ حضرت موسیٰ کو اپنی امت کا یہ جواب سن کر ان پر بہت غصہ آیا اور اللہ کے سامنے ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا کہ " رب العالمین مجھے تو اپنی جان پر اور اپنے بھائی پر اختیار ہے، تو میرے اور میری قوم کے ان فاسقوں کے درمیان فیصلہ فرما "۔ جناب باری نے یہ دعا قبول فرمائی اور فرمایا کہ اب چالیس سال تک یہاں سے جا نہیں سکتے۔ وادی تیہ میں حیران و سرگرداں گھومتے پھرتے رہیں گے، کسی طرح اس کی حدود سے باہر نہیں جاسکتے تھے۔ یہاں انہوں نے عجیب و غریب خلاف عادت امور دیکھے مثلاً ابر کا سایہ ان پر ہونا، من وسلویٰ کا اترنا۔ ایک ٹھوس پتھر سے، جو ان کے ساتھ تھا، پانی کا نکلنا، حضرت موسیٰ نے اس پتھر پر ایک لکڑی ماری تو فوراً ہی اس سے بارہ چشمے پانی کے جاری ہوگئے اور ہر قبیلے کی طرف ایک چشمہ بہ نکلا، اس کے سوا اور بھی بہت سے معجزے بنو اسرائیل نے وہاں پر دیکھے، یہیں تورات اتری، یہیں احکام الٰہی نازل ہوئے وغیرہ وغیرہ، اسی میدان میں چالیس سال تک یہ گھومتے پھرتے رہے لیکن کوئی راہ وہاں سے گزر جانے کی انہیں نہ ملی۔ ہاں ابر کا سایہ ان پر کردیا گیا اور من وسلویٰ اتار دیا گیا۔ فتون کی مطول حدیث میں ابن عباس سے یہ سب مروی ہے۔ پھر حضرت ہارون کی وفات ہوگئی اور اس کے تین سال بعد کلیم اللہ حضرت موسیٰ بھی انتقال فرما گئے، پھر آپ کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون نبی بنائے گئے۔ اسی اثناء میں بہت سے بنی اسرائیل مر مرا چکے تھے، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف حضرت یوشع اور کالب ہی باقی رہے تھے۔ بعض مفسرین سنتہ پر وقف تام کرتے ہیں اور اربعین سنتہ کو نصب کی حالت میں مانتے ہیں اور اس کا عامل (یتبھون فی الارض) کو بتلاتے ہیں۔ اس سے بھی باقی بنو اسرائیل ان کے ساتھ ہو لئے اور آپ نے بیت المقدس کا محاصرہ کرلیا۔ جمعہ کے دن عصر کے بعد جب کہ فتح کا وقت آپہنچا دشمنوں کے قدم اکھڑ گئے، اتنے میں سورج ڈوبنے لگا اور سورج ڈوبنے کے بعد ہفتے کی تعظیم کی وجہ سے لڑائی ہو نہیں سکتی تھی اس لئے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے سورج تو بھی اللہ کا غلام ہے اور میں بھی اللہ کا محکوم ہوں، اے اللہ اسے ذرا سی دیر روک دے۔ چناچہ اللہ کے حکم سے سورج رک گیا اور آپ نے دلجمعی کے ساتھ بیت المقدس کو فتح کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو کہہ دو اس شہر کے دروازے میں سجدے کرتے ہوئے جائیں اور حطتہ کہیں یعنی یا اللہ ہماری گناہ معاف فرما۔ لیکن انہوں نے اللہ کے حکم کو بدل دیا۔ رانوں پر گھسٹتے ہوئے ہوئے اور زبان سی (حبتہ فی شعرۃ) کہتے ہوئے شہر میں گئے، مزید تفصیل سورة بقرہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے، دوسری روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ اس قدر مال غنیمت انہیں حاصل ہوا کہ اتنا مال کبھی انہوں نے نہیں دیکھا تھا۔ فرمان رب کے مطابق اسے آگ میں جلانے کیلئے آگ کے پاس لے گئے لیکن آگ نے اسے جلایا نہیں اس پر ان کے نبی حضرت یوشع نے فرمایا " تم میں سے کسی نے اس میں سے کچھ چرا لیا ہے پس میرے پاس ہر قبیلے کا سردار آئے اور میرے ہاتھ پر بیعت کرے " چناچہ یونہی کیا گیا، ایک قبیلے کے سردار کا ہاتھ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ سے چپک گیا، آپ نے فرمایا " تیرے پاس جو بھی خیانت کی چیز ہے، اسے لے آ "۔ اس نے ایک گائے کا سر سونے کا بنا ہوا پیش کیا، جس کی آنکھیں یاقوت کی تھیں اور دانت موتیوں کے تھے، جب وہ بھی دوسرے مال کے ساتھ ڈال دیا گیا، اب آگ نے اس سب مال کو جلا دیا۔ امام ابن جریر نے بھی اسی قول کو پسند کیا ہے (اربعین سنتہ) میں (فانھا محرمتہ) عامل ہے، اور بنی اسرائیل کی یہ جماعت چالیس برس تک اسی میدان تیہ میں سرگرداں رہی پھر حضرت موسیٰ کے ساتھ یہ لوگ نکلے اور بیت المقدس کو فتح کیا اس کی دلیل اگلے علماء یہود کا اجماع ہے کہ عوج بن عنق کو حضرت کلیم اللہ نے ہی قتل کیا ہے۔ اگر اس کا قتل عمالیق کی اس جنگ سے پہلے کا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بنی اسرائیل جنگ عمالیق کا انکار کر بیٹھتے ؟ تو معلوم ہوا کہ یہ واقعہ تیہ سے چھوٹنے کے بعد کا ہے، علماء یہود کا اس پر بھی اجماع ہے کہ بلعام بن باعورا نے قوم عمالیق کے جباروں کی اعانت کی اور اس نے حضرت موسیٰ پر بددعا کی۔ یہ واقعہ بھی اس میدان کی قید سے چھوٹنے کے بعد کا ہے۔ اس لئے کہ اس سے پہلے تو جباروں کو موسیٰ اور ان کی قوم سے کوئی ڈر نہ تھا۔ ابن جریر کی یہی دلیل ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کا عصا دس ہاتھ کا تھا اور آپ کا قد بھی دس ہاتھ کا تھا اور دس ہاتھ زمین سے اچھل کر آپ نے عوج بن عنق کو وہ عصا مارا تھا جو اس کے ٹخنے پر لگا اور وہ مرگیا، اس کے جثے سے نیل کا پل بنایا گیا تھا، جس پر سے سال بھر تک اہل نیل آتے جاتے رہے۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ اس کا تخت تین گز کا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ تو اپنی قوم بنی اسرائیل پر غم و رنج نہ کر، وہ اسی جیل خانے کے مستحق ہیں، اس واقعہ میں درحقیقت یہودیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کا ذکر ہے اور ان کی مخالفتوں کا اور برائیوں کا بیان ہے یہ دشمنان رب سختی کے وقت اللہ کے دین پر قائم نہیں رہتے تھے، رسولوں کی پیروی سے انکار کر جاتے تھے، جہاد سے جی چراتے تھے، اللہ کے اس کلیم و بزرگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی کا، ان کے وعدے کا، ان کے حکم کا کوئی پاس انہوں نے نہیں کیا، دن رات معجزے دیکھتے تھے، فرعون کی بربادی اپنی آنکھوں دیکھ لی تھی اور اسے کچھ زمانہ بھی نہ گزرا تھا، اللہ کے بزرگ کلیم پیغمبر ساتھ ہیں، وہ نصرت و فتح کے وعدے کر رہے ہیں، مگر یہ ہیں کہ اپنی بزدلی میں مرے جا رہے ہیں اور نہ صرف انکار بلکہ ہولناکی کے ساتھ انکار کرتے ہیں، نبی اللہ کی بےادبی کرتے ہیں اور صاف جواب دیتے ہیں۔ اپنی آنکھوں دیکھ چکے ہیں کہ فرعون جیسے با سامان بادشاہ کو اس کے سازو سامان اور لشکر و رعیت سمیت اس رب نے ڈبو دیا۔ لیکن پھر بھی اسی بستی والوں کی طرف اللہ کے بھروسے پر اس کے حکم کی ماتحتی میں نہیں بڑھتے حالانکہ یہ فرعون کے دسویں حصہ میں بھی نہ تھے۔ پس اللہ کا غضب ان پر نازل ہوتا ہے، ان کی بزدلی دنیا پر ظاہر ہوجاتی ہے اور آئے دن ان کی رسوائی اور ذلت بڑھتی جاتی ہے۔ گویہ لوگ اپنے تئیں اللہ کے محبوب جانتے تھے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ رب کی نظروں سے یہ گرگئے تھے، دنیا میں ان پر طرح طرح کے عذاب آئے، سور بندر بھی بنائے گئے، لعنت ابدی میں یہاں گرفتار ہو کر عذاب اخروی کے دائمی شکار بنائے گئے۔ پس تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے، جس کی فرمانبرداری تمام بھلائیوں کی کنجی ہے۔