المائدہ آية ۷۸
لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۗ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ
طاہر القادری:
بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تھا انہیں داؤد اور عیسٰی ابن مریم (علیھما السلام) کی زبان پر (سے) لعنت کی جا چکی (ہے)۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کرتے تھے،
English Sahih:
Cursed were those who disbelieved among the Children of Israel by the tongue of David and of Jesus, the son of Mary. That was because they disobeyed and [habitually] transgressed.
1 Abul A'ala Maududi
بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اُن پر داؤدؑ اور عیسیٰ ابن مریمؑ کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے
2 Ahmed Raza Khan
لعنت کیے گئے وہ جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان پر یہ بدلہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کا،
3 Ahmed Ali
بنی اسرائیل میں سے جو کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بیٹے مریم کی زبان پر لعنت کی گئی یہ اس لیے کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے گزر گئے تھے
4 Ahsanul Bayan
بنی اسرائیل کے کافروں پر حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی (١) اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے (٢)۔
٧٨۔١ یعنی زبور میں جو حضرت داؤد علیہ السلام پر اور انجیل میں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی اور اب یہی لعنت قرآن کریم کے ذریعے سے ان پر کی جا رہی ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت اور خیر سے دوری ہے۔
٧٨۔٢ یہ لعنت کے اسباب ہیں۔ ١۔ عصیان۔ یعنی واجبات کا ترک اور محرمات کا ارتکاب کر کے۔ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی۔٢۔ اور اعتداء، یعنی دین میں غلو اور بدعات ایجاد کر کے انہوں نے حد سے تجاوز کیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ بنی اسرائیل میں کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی یہ اس لیے کہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے
6 Muhammad Junagarhi
بنی اسرائیل کے کافروں پر (حضرت) داؤد (علیہ السلام) اور (حضرت) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وه نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے
7 Muhammad Hussain Najafi
بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی یہ اس لیے کہ انہوں نے برابر نافرمانی کی اور حد سے بڑھ جاتے تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بنی اسرائیل میں سے کفر اختیار کرنے والوں پر جناب داؤد علیھ السّلام اور جناب عیسٰی علیھ السّلامکی زبان سے لعنت کی جاچکی ہے کہ ان لوگوں نے نافرمانی کی اور ہمیشہ حد سے تجاوز کیا کرتے تھے
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ بنی اسرائیل میں کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی۔ یہ اس لئے کہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے
آیت نمبر ٧٨ تا ٨٢
ترجمہ : بنی اسرائیل کے کافروں پر حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی یعنی ان کے لئے بددعا کی گئی، جس کی وجہ سے ان کو بندر کی شکل میں مسخ کردیا گیا، اور وہ ایلہ کے باشندے تھے، اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کی زبانی لعنت کی گئی اس طریقہ پر کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کیلئے بددعاء کردی جس کے نتیجے میں ان کو سور کی شکل میں مسخ کردیا گیا، اور وہ اصحاب مائدہ تھے، یہ لعنت اس وجہ سے کی گئی کہ وہ نافرمانی کرتے ہوئے حد سے تجاوز کر گئے تھے، انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، ان کا یہ طرز عمل برا تھا، جو انہوں نے اختیار کیا، اے محمد آپ ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہو کہ جو آپ کی عداوت میں مکہ کے کافروں سے دوستی کرتے ہیں، قسم ہے (ہماری عزت و جلال کی) کہ ان کے نفسوں نے جو اعمال اپنی آخرت کیلئے بھیجے ہیں وہ نہایت برے اعمال ہیں جو ان کے اوپر اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوئے اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے، اگر فی الواقع یہ لوگ اللہ پر اور اس کے) نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس چیز پر جو نازل ہوئی تھی ایمان رکھتے تو کفار کو کبھی دوست نہ بناتے مگر ان میں سے اکثر بیان سے خارج ہوچکے ہیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مکہ کے مشرکوں کو پاؤ گے ان کے کفر کے دوگنا ہونے اور ان کے جہل اور ان کی خواہشات میں منہمک ہونے کی وجہ سے، اور ایمان والوں کیلئے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا ہم نصاریٰ ہیں اور یہ یعنی دوستی میں مومنوں سے ان کا قریب ہونا اس وجہ سے ہے کہ ان میں علماء اور عبادت گذار (تارک الدنیا) پائے جاتے ہیں اور حق کی بندگی سے غرور نہیں کرتے جیسا کہ یہود اور اہل مکہ غرور کرتے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیر فوائد
قولہ : اَیْلَۃ، بحر طبریہ کے ساحل پر ایک بستی کا نام ہے۔
قولہ : مُعَاوَدَۃ، یہ اس سوال مقدر کا جواب ہے کہ منکر کو کرنے کے بعد اس سے نہی کا نہ کوئی فائدہ اور نہ امر معقول، اسلئے کہ جس چیز کا وقوع ہوگیا اس کا اصل عدم ممکن نہیں، مُعَاوَدَۃ، مضاف محذوف مان کر مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ منکر کے دوبارہ ارتکاب سے ممانعت مقصود ہے۔ قولہ : فِعْلِھِمْ ، یہ ما کا بیان ہے۔ قولہ : ھذا، یہ مخصوص بالذم ہے۔ قولہ : مِنْھُم اَیْ مَنْ اَھْلِ الکِتَابِ ۔
قولہ : الموجب یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : المُوْجب مقدر ماننے کی کیا ضرورت ہے۔
جواب : اس لئے کہ ان سخط اللہ مخصوص بالذم ہے اور مخصوص بالذم فاعل کا بیان ہوتا ہے اور سخط اللہ علیہم کا ماقدمت کا بیان واقع ہونا صحیح نہیں ہے جب تک کہ الموجب مضاف محذوف نہ مانا جائے اسلئے کہ ماقدمت اہل کتاب کا فعل ہے اور سخط اللہ کا فعل ہے لہٰذا حمل درست نہ ہوگا۔
قولہ : مُحَمَّد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اہل کتاب تو نبی پر ایمان رکھتے تھے، اس کا جواب دیا ہے کہ نبی سے مراد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور النبی میں الف لام عہد کا ہے۔ قولہ : قِسِّیْسِیْنَ ، رومی زبان میں عالم کو کہتے ہیں۔
تفسیر و تشریح
لُعِنَ الَّذِیْنَ کفروا مِنْ بنی اسرائیل، زبور میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبانی اور انجیل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی اور اس کے بعد قرآن کے ذریعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی بنی اسرائیل پر لعنت کرائی گئی۔
ایک امی عربی کا تاریخ کی حقیقت کو صحیح صحیح بیان کرنا : جو لوگ مسیحیت کی ابتدائی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں اور خود فرنگیوں کی موجودہ انا جیل سے واقف ہیں وہ قرآن مجید کے اس بیان پر عش عش کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ چھٹی صدی عیسوی کا ایک عرب امی لاکھ ذہین و باخبر ہو ان اہم تاریخی حقائق پر نظر رکھ ہی کیسے سکتا تھا ؟ تاوقتیکہ عالم الغٖیب والشہادۃ براہ راست اسے تعلیم نہیں دے رہا تھا۔
دونوں لعنتوں کا ذکر عہد عتیق اور عہد جدید ہیں : مذکورہ دونوں لغتوں کا ذکر عہد عتیق کے صحیفہ زبور اور عہد جدید کے صحیفہ متی میں علی الترتیب موجود ہے، زبور میں لعنت کا ذکر ان الفاظ میں ہے۔ خداوند نے سنا اور نہایت غصہ ہوا اسلئے یعقوب میں ایک آگ بھڑکائی گئی اور اسرائیل پر قہراٹھا، کیونکہ انہوں نے خدا پر اعتماد نہ کیا اور اس کی قیامت پر اعتماد نہ رکھا۔ (زبور۔ ٢٣، ٢٢، ٢١: ٧٨)
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کے الفاظ : غرض اپنے باپ دادوں کا پیمانہ بھر دو ، اے سانپو، اے افعی کے بچو تم جہنم کی سزا سے کیونکر بچو گے۔ (متی ٣٢، ٣١، ٢٣) ۔ چناچہ اسرائیلیوں نے داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ میں قانون سبت کو توڑا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں تو خود ان کی نبوت کا شدت سے انکار کیا۔ ان کی مسلسل نافرمانیوں کی داستان سے اسرائیلیوں کے مذہبی نوشتے اور صحیفے بھرے ہوئے ہیں نمونے کے طور پر صرف ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
انہوں نے ایسی شرارتیں کیں کہ جن سے خداوند کو غصہ ور کیا، کیونکہ انہوں نے بت پوجے باوجود یکہ انہیں خداوند نے کہا تھا کہ تم یہ کام نہ کیجیو اور باوجود اس کے خداوند نے سارے نبیوں اور غیب بینوں کی معرفت سے اسرائیل اور یہود پر باتیں جتائی تھیں پر انہوں نے نہ سنا، بلکہ اپنے باپ دادوں کی گردن کشی کے مانند جو خداوند اپنے خدا پر ایمان نہ لائے تھے گردن کشی کی، اور اس کے قانون کو اور اس کے عہد کو جو اس نے اپنے باپ دادوں سے باندھا تھا، اور اس کی گواہیوں کو جو اس نے ان پر دی تھیں جنہیں دکھا کر خداوند اپنے خدا کے سب حکم ترک کر دئیے اور اپنے لئئے ڈھالی ہوئی مورتیں یعنی دو بچھڑے بنائے، اور آسمانی ستاروں کی ساری فون کی پرستش کی اور بعل کی عبادت کی اور انہوں نے اپنے بیٹے بیٹی کو آگ کے درمیان گزارا اور فال گیری اور جادوگری کی اور اپنے تئیں بیچ ڈالا کہ خداوند کے حضور بدکاریاں کریں کہ اسے غصہ دلادیں ان باعثوں سے خداوند بنی اسرائیل پر نپٹ غصہ ہوا۔ (٢، سلاطین۔ ١٨، ١٦: ١٧) (تفسیر ماجدی)
بنی اسرائیل پر لعنت کے اسباب : لعنت کے اسباب میں سے غصیان یعنی واجبات کا ترک کرنا اور محرمات کا ارتکاب اور اعتداء یعنی دین میں غلو اور بدعات ایجاد کرکے انہوں نے حد سے تجاوز کیا، مزید بریں یہ کہ وہ ایک دوسرے کو برائی سے روکتے نہیں تھے جو بجائے خود ایک بڑا جرم ہے بعض مفسرین نے اسی ترک نہی کو عصیان اور اعتداء قرار دیا ہے جو لعنت کا سبب بنا، بہرحال برائی کو دیکھتے ہوئے برائی سے نہ روکنا بہت بڑا جرم اور لعنت و غضب الہیٰ کا سبب ہے، حدیث میں بھی اس جرم پر بڑی سخت وعید وارد ہوئی ہے، ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، سب سے پہلی خرابی جو بنی اسرائیل میں داخل ہوئی یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص کو برائی کرتے دیکھتا تو کہتا اللہ سے ڈرو اور یہ برائی چھوڑ دو یہ تمہارے لئے جائز نہیں، لیکن دوسرے ہی روز پھر اسی کے ساتھ کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے میں کوئی عار یا شرم محسوس نہ ہوتی، درآنحالیکہ ایمان کا تقاضہ اس سے نفرت اور ترک تعلق تھا، جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے درمیان آپس میں عداوت ڈال دی اور وہ لعنت الہیٰ کے مستحق ہوئے، پھر فرمایا : کہ اللہ کی قسم تم ضرور لوگوں کو نیکی کا حکم دیا کرو اور برائی سے روکا کرو، ظالم کا ہاتھ پکڑ لیا کرو، ورنہ تمہارا حال بھی یہی ہوگا، (ابو داؤد کتاب الملاحم) دوسری رایت میں اس فریضے کے ترک پر یہ وعید سنائی تھی کہ تم عذاب الہیٰ کے مستحق بن جاؤ گے، پھر تم اللہ سے دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہ ہوں گی۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ ” بنی اسرائیل کے کافروں پر لعنت کی گئی“ یعنی ان کو دھتکار دیا گیا اور اللہ کی رحمت سے دور کردیا گیا ﴿ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ۚ﴾” داود اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان پر“ یعنی ان دونوں کی گواہی اور ان کے اقرار پر، بایں طور پر کہ ان پر حجت قائم ہوگئی اور انہوں نے اس حجت و دلیل سے عناد رکھا ﴿ذٰلِكَ﴾ یعنی کفر اور لعنت ﴿بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ﴾” اس لئے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔“ یعنی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ظلم کرتے تھے۔ یہ چیز ان کے کفر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا سبب بن گئی، کیونکہ گناہوں اور ظلم کی سزا ملتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
bani Israel kay jo log kafir huye unn per dawood aur essa ibn-e-maryam ki zaban say lanat bheji gaee thi . yeh sabb iss liye huwa kay unhon ney nafarmani ki thi , aur woh hadd say guzar jaya kertay thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
امر معروف سے گریز کا انجام
ارشاد ہے کہ بنو اسرائیل کے کافر پرانے ملعون ہیں، حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی انہی کے زمانہ میں ملعون قرار پاچکے ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ کے نافرمان تھے اور مخلوق پر ظالم تھے، توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن سب کتابیں ان پر لعنت برساتی آئیں۔ یہ اپنے زمانہ میں بھی ایک دوسرے کو برے کاموں دیکھتے تھے لیکن چپ چاپ بیٹھے رہتے تھے، حرام کاریاں اور گناہ کھلے عام ہوتے تھے اور کوئی کسی کو روکتا نہ تھا۔ یہ تھا ان کا بدترین فعل۔ مسند احمد میں فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے کہ " بنو اسرائیل میں پہلے پہل جب گناہوں کا سلسلہ چلا تو ان کے علماء نے انہیں روکا۔ لیکن جب دیکھا کہ باز نہیں آتے تو انہوں نے انہیں الگ نہیں کیا بلکہ انہی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے رہے، جس کی وجہ سے دونوں گروہوں کے دلوں میں آپس میں ٹکرا دیا اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے دل بھڑا دیئے اور حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی ان پر اپنی لعنت نازل فرمائی۔ کیونکہ وہ نافرمان اور ظالم تھے۔ اس کے بیان کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب ٹھیک ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم تم پر ضروری ہے کہ لوگوں کو خلاف شرع باتوں سے روکو اور انہیں شریعت کی پابندی پر لاؤ۔ "، ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ " سب سے پہلے برائی بنی اسرائیل میں داخل ہوئی تھی کہ ایک شخص دوسرے کو خلاف شرع کوئی کام کرتے دیکھتا تو اسے روکتا، اسے کہتا کہ اللہ سے ڈر اور اس برے کام کو چھوڑ دے یہ حرام ہے۔ لیکن دوسرے روز جب وہ نہ چھوڑتا تو یہ اس سے کنارہ کشی نہ کرتا بلکہ اس کا ہم نوالہ ہم پیالہ رہتا اور میل جول باقی رکھتا، اس وجہ سے سب میں ہی سنگدلی آگئی۔ پھر آپ نے اس پوری آیت کی تلاوت کر کے فرمایا واللہ تم پر فرض ہے کہ بھلی باتوں کا ہر ایک کو حکم کرو، برائیوں سے روکو، ظالم کو اس کے ظلم سے باز رکھو اور اسے تنگ کرو کہ حق پر آجائے۔ " ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ ابو داؤد وغیرہ میں اسی حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے کہ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ تمہارے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا دے گا اور تم پر اپنی پھٹکار نازل فرمائے گا جیسی ان پر نازل فرمائی۔ اس بارے میں اور بہت سی حدیثیں ہیں کچھ سن بھی لیجئے حضرت جابر والی حدیث تو آیت (لَوْلَا يَنْھٰىهُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ :63) کی تفسیر میں گزر چکی اور یا آیت (يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ :105) کی تفسیر میں حضرت ابوبکر اور حضرت ابو ثعلبہ کی حدیثیں آئیں گی، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسند اور ترمذی میں ہے کہ " یا تو تم بھلائی کا حکم اور برائی سے منع کرتے رہو گے یا اللہ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے گا پھر تم اس سے دعائیں بھی کرو گے لیکن وہ قبول نہیں فرمائے گا۔ " ابن ماجہ میں ہے " اچھائی کا حکم اور برائی سے ممانعت کرو اس سے پہلے کہ تمہاری دعائیں قبول ہونے سے روک دی جائیں۔ " صحیح حدیث میں ہے " تم میں سے جو شخص خلاف شرع کام دیکھے، اس پر فرض ہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹائے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اور بہت ہی ضعیف ایمان والا ہے " (مسلم) مسند احمد میں ہے " اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں کرتا لیکن اس وقت کہ برائیاں ان میں پھیل جائیں اور وہ باوجود قدرت کے انکار نہ کریں، اس وقت عام خاص سب کو اللہ تعالیٰ عذاب میں گھیر لیتا ہے۔ " ابو داؤد میں ہے کہ جس جگہ اللہ کی نافرمانی ہونی شروع ہو وہاں جو بھی ہو، ان خلاف شرع امور سے ناراض ہو (ایک اور روایت میں ہے ان کا انکار کرتا ہو) وہ مثل اس کے ہے جو وہاں حاضر ہی نہ ہو اور جو ان خطاؤں سے راضی ہو گو وہاں موجود نہ ہو وہ ایسا ہے گویا ان میں حاضر ہے۔ ابو داؤد میں ہے لوگوں کے عذر جب تک ختم نہ ہوجائیں وہ ہلاک نہ ہوں گے۔ ابن ماجہ میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبے میں فرمایا خبردار کسی شخص کو لوگوں کی ہیبت حق بات کہنے سے روک نہ دے۔ اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابو سعید خدری رو پڑے اور فرمانے لگے افسوس ہم نے ایسے موقعوں پر لوگوں کی ہیبت مان لی۔ ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے افضل جہاد کلمہ حق ظالم بادشاہ کے سامنے کہہ دینا ہے ابن ماجہ میں ہے کہ جمرہ اولیٰ کے پاس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک شخص آیا اور آپ سے سوال کیا کہ سب سے افضل جہاد کون سا ہے ؟ آپ خاموش رہے۔ پھر آپ جمرہ ثانیہ پر آئے تو اس نے پھر وہی سوال کیا مگر آپ خاموش ہو رہے جب جمرہ عقبہ پر کنکر مار چکے اور سواری پر سوار ہونے کے ارادے سے رکاب میں پاؤں رکھے تو دریافت فرمایا کہ وہ پوچھنے والا کہاں ہے ؟ اس نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہوں فرمایا حق بات ظالم بادشاہ کے سامنے کہ دینا۔ ابن ماجہ میں ہے کہ تم میں سے کسی شخص کو اپنی بےعزتی نہ کرنی چاہئے لوگوں نے پوچھا ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کیسے ؟ فرمایا خلاف شرع کوئی امر دیکھے اور کچھ نہ کہے قیامت کے دن اس سے باز پرس ہوگی کہ فلاں موقعے پر تو کیوں خاموش رہا ؟ یہ جواب دے گا کہ لوگوں کے ڈر کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں سب سے زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے خوف کھائے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب اسے اللہ تلقین حجت کرے گا تو یہ کہے گا کہ تجھ سے تو میں نے امید رکھی اور لوگوں سے خوف کھا گیا۔ مسند احمد میں ہے کہ مسلمانوں کو اپنے تئیں ذلیل نہ کرنا چاہئے۔ لوگوں نے پوچھا کیسے ؟ فرمایا ان بلاؤں کو سر پر لینا جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو۔ ابن ماجہ میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کب چھوڑی جائے ؟ فرمایا اس وقت جب تم میں بھی وہی خرابی ہوجائے جو تم سے اگلوں میں ظاہر ہوئی تھی ہم نے پوچھا وہ کیا چیز ہے ؟ فرمایا کمینے آدمیوں میں سلطنت کا چلا جانا۔ بڑے آدمیوں میں بدکاری کا آجانا۔ رذیلوں میں علم کا آجانا۔ حضرت زید کہتے ہیں رذیلوں میں علم آجانے سے مراد فاسقوں میں علم کا آجانا ہے۔ اس حدیث کی شاہد حدیثیں ابو ثعلبہ کی روایت سے آیت (لایضرکم) کی تفسیر میں آئیں گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرماتا ہے کہ اکثر منافقوں کو تو دیکھے گا کہ وہ کافروں سے دوستیاں گانٹھتے ہیں ان کے اس فعل کی وجہ سے یعنی مسلمانوں سے دوستیاں چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں کرنے کی وجہ سے انہوں نے اپنے لئے برا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے۔ اس کی پاداش میں ان کے دلوں میں نفاق پیدا ہوگیا ہے۔ اور اسی بناء پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے اور قیامت کے دن کیلئے دائمی عذاب بھی ان کیلئے آگے آ رہے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے اسے مسلمانو، زنا کاری سے بچو، اس سے۔ چھ برائیاں آتی ہیں، تین دنیا میں اور تین آخرت میں۔ اس سے عزت و وقار، رونق و تازگی جاتی رہتی ہے۔ اس سے فقرو فاقہ آجاتا ہے۔ اس سے عمر گھٹتی ہے اور قیامت کے دن تین برائیاں یہ ہیں اللہ کا غضب، حساب کی سختی اور برائی، اور جہنم کا خلود۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی آخری جملے کی تلاوت فرمائی۔ یہ حدیث ضعیف ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے اگر یہ لوگ اللہ پر اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور قرآن پر پورا ایمان رکھتے تو ہرگز کافروں سے دوستیاں نہ کرتے اور چھپ چھپا کر ان سے میل ملاپ جاری نہ رکھتے۔ نہ سچے مسلمانوں سے دشمنیاں رکھتے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے خارج ہوچکے ہیں اس کی وحی اور اس کے پاک کلام کی آیتوں کے مخالف بن بیٹھے ہیں۔