بلکہ (عجیب بات یہ ہے کہ) جب انکے پاس (دین) حق آپہنچا تو انہوں نے اسکو جھوٹ سمجھا تو یہ ایک الجھی ہوئی بات میں (پڑ رہے) ہیں
کفار مکہ تذبذب اور بےیقینی کا شکار تھے :
فی امر مریج، مریج کے معنی لغت میں مختلط کے ہیں جن میں مختلف چیزوں کا اختلاط و التباس ہو اور ایسی چیز عموماً فاسد ہوتی ہے، اسی لئے حضرت ابوہریرہ (رض) نے مریج کا ترجمہ فاسد فرمایا ہے اور ضحاک رحمتہ اللہ تعالیٰ و قتادہ رحمتہ اللہ تعالیٰ اور حسن بصری وغیرہ نے مریج کا ترجمہ مختلط اور ملتبس سے کیا ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ کفار و مشرکین و منکرین رسالت اپنے انکار میں بھی کسی ایک بات پر نہیں جمتے کبھی آپ کو جادو گر بتاتے ہیں تو کبھی شاعر اور کبھی کاہن و نجومی اور قرآن کے بارے میں بھی ان کا یہی حال ہے۔
آگے حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان ہے جو آسمان اور زمین اور ان کے اندر پیدا ہونے والی بڑی بڑی چیزوں کی تخلیق کے حوالہ سے کیا گیا ہے اس میں آسمان کے متعلق فرمایا ومالھا من فروج یہاں آسمان سے مراد پورا عالم بالا ہے، جسے انسان اپنے اوپر چھایا ہوا دیکھتا ہے جس میں دن کو سورج چمکتا ہے اور رات کو چاند اور بیشمار تارے چمکتے نظر آتے ہیں۔ جسے آدمی برہنہ آنکھ ہی سے دیکھے تو حیرت طاری ہوجاتی ہے، لیکن اگر دور بین لگالے تو ایک ایسی وسیع اور عریض کائنات اس کے سامنے آتی ہے جو ناپیدا کنا رہے، کہیں سے کہیں ختم ہوتی نظر نہیں آتی، ہماری زمین سے لاکھوں گنا بڑے سیارے اس کے اندر گنبدوں کی طرح گھوم رہے ہیں، ہمارے سورج سے ہزاروں گنا روشن تارے اس میں چمک رہے ہیں، ہمارا یہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے، تنہا اسی ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے کم از کم ٣ ارب دوسرے تارے (ثوابت) موجود ہیں اور اب تک کا انسانی مشاہدہ ایسی ایسی دس لاکھ کہکشائوں کا پتہ دے رہا ہے، ان لاکھوں کہکشائوں میں سے ہماری قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلہ پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے، یہ تو کائنات کے صرف اس حصے کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم میں اور اس کے مشاہدہ میں آچکی ہے، خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے ہم اس کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتے، اس عظیم کائنات ہست و بود کو جو خدا وجود میں لایا ہے اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق جس کا نام انسان ہے اگر یہ حکم لگائے کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے، کائنات کے خلاق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہوجائے گی۔ (فلکیات جدید ملخصاً )