بلکہ (عجیب اور فہم و ادراک سے بعید بات تو یہ ہے کہ) انہوں نے حق (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن) کو جھٹلا دیا جب وہ اُن کے پاس آچکا سو وہ خود (ہی) الجھن اور اضطراب کی بات میں (پڑے) ہیں،
English Sahih:
But they denied the truth when it came to them, so they are in a confused condition.
1 Abul A'ala Maududi
بلکہ اِن لوگوں نے تو جس وقت حق اِن کے پاس آیا اُسی وقت اُسے صاف جھٹلا دیا اِسی وجہ سے اب یہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
بلکہ انہوں نے حق کو جھٹلایا جب وہ ان کے پاس آیا تو وہ ایک مضطرب بے ثبات بات میں ہیں
3 Ahmed Ali
بلکہ انہوں نے حق کو جھٹلایا جب کہ وہ ان کے پاس آیا پس وہ ایک الجھی ہوئی بات میں پڑے ہوئے ہیں
4 Ahsanul Bayan
بلکہ انہوں نے سچی بات کو جھوٹ کہا جبکہ وہ ان کے پاس پہنچ چکی پس وہ الجھاؤ میں پڑ گئے ہیں (١)۔
٥۔١ یعنی ایسا معاملہ جو ان پر مشتبہ ہوگیا ہے، جس سے وہ ایک الجھاؤ میں پڑ گئے ہیں، کبھی اسے جادوگر کہتے ہیں، کبھی شاعر اور کبھی غیب کی خبریں بتانے والا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بلکہ (عجیب بات یہ ہے کہ) جب ان کے پاس (دین) حق آ پہنچا تو انہوں نے اس کو جھوٹ سمجھا سو یہ ایک الجھی ہوئی بات میں (پڑ رہے) ہیں
6 Muhammad Junagarhi
بلکہ انہوں نے سچی بات کو جھوٹ کہا ہے جبکہ وه ان کے پاس پہنچ چکی پس وه ایک الجھاؤ میں پڑ گئے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
بلکہ (دراصل بات تو یہ ہے کہ) انہوں نے (دینِ) حق کو جھٹلایا جبکہ وہ ان کے پاسایا پس وہ ایک الجھی ہوئی بات میں مبتلا ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے حق کے آنے کے بعد اس کا انکار کردیا ہے تو وہ ایک بے چینی کی بات میں مبتلا ہیں
9 Tafsir Jalalayn
بلکہ (عجیب بات یہ ہے کہ) جب انکے پاس (دین) حق آپہنچا تو انہوں نے اسکو جھوٹ سمجھا تو یہ ایک الجھی ہوئی بات میں (پڑ رہے) ہیں کفار مکہ تذبذب اور بےیقینی کا شکار تھے : فی امر مریج، مریج کے معنی لغت میں مختلط کے ہیں جن میں مختلف چیزوں کا اختلاط و التباس ہو اور ایسی چیز عموماً فاسد ہوتی ہے، اسی لئے حضرت ابوہریرہ (رض) نے مریج کا ترجمہ فاسد فرمایا ہے اور ضحاک رحمتہ اللہ تعالیٰ و قتادہ رحمتہ اللہ تعالیٰ اور حسن بصری وغیرہ نے مریج کا ترجمہ مختلط اور ملتبس سے کیا ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ کفار و مشرکین و منکرین رسالت اپنے انکار میں بھی کسی ایک بات پر نہیں جمتے کبھی آپ کو جادو گر بتاتے ہیں تو کبھی شاعر اور کبھی کاہن و نجومی اور قرآن کے بارے میں بھی ان کا یہی حال ہے۔ آگے حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان ہے جو آسمان اور زمین اور ان کے اندر پیدا ہونے والی بڑی بڑی چیزوں کی تخلیق کے حوالہ سے کیا گیا ہے اس میں آسمان کے متعلق فرمایا ومالھا من فروج یہاں آسمان سے مراد پورا عالم بالا ہے، جسے انسان اپنے اوپر چھایا ہوا دیکھتا ہے جس میں دن کو سورج چمکتا ہے اور رات کو چاند اور بیشمار تارے چمکتے نظر آتے ہیں۔ جسے آدمی برہنہ آنکھ ہی سے دیکھے تو حیرت طاری ہوجاتی ہے، لیکن اگر دور بین لگالے تو ایک ایسی وسیع اور عریض کائنات اس کے سامنے آتی ہے جو ناپیدا کنا رہے، کہیں سے کہیں ختم ہوتی نظر نہیں آتی، ہماری زمین سے لاکھوں گنا بڑے سیارے اس کے اندر گنبدوں کی طرح گھوم رہے ہیں، ہمارے سورج سے ہزاروں گنا روشن تارے اس میں چمک رہے ہیں، ہمارا یہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے، تنہا اسی ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے کم از کم ٣ ارب دوسرے تارے (ثوابت) موجود ہیں اور اب تک کا انسانی مشاہدہ ایسی ایسی دس لاکھ کہکشائوں کا پتہ دے رہا ہے، ان لاکھوں کہکشائوں میں سے ہماری قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلہ پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے، یہ تو کائنات کے صرف اس حصے کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم میں اور اس کے مشاہدہ میں آچکی ہے، خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے ہم اس کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتے، اس عظیم کائنات ہست و بود کو جو خدا وجود میں لایا ہے اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق جس کا نام انسان ہے اگر یہ حکم لگائے کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے، کائنات کے خلاق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہوجائے گی۔ (فلکیات جدید ملخصاً )
10 Tafsir as-Saadi
﴿ بَلْ﴾ ” بلکہ“ ان کا وہ کلام جو ان سے صادر ہوا ہے، محض اس حق کے ساتھ ان کا عناد اور تکذیب ہے جو صدق کی بلند ترین نوع ہے۔ ﴿ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ﴾ ” جب وہ ان کے پاس آیا تو وہ ایک الجھاؤ میں پڑگئے۔“ یعنی وہ ایک مختلف اور مشتبہ معاملے میں پڑے ہوئے ہیں، کسی چیز پر انہیں ثبات حاصل ہے نہ قرار۔ کبھی تو آپ کے بارے میں الزام تراشی کرتے ہوئے کہتے ہیں :” تو جادوگر ہے“ کبھی کہتے ہیں :” تو پاگل ہے“ اور کبھی کہتے ہیں :” تو شاعر ہے“ اسی طرح انہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، ہر کسی نے اپنی فاسد رائے کے تقاضے کے مطابق اس میں کلام کیا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جس نے حق کی تکذیب کی، ہر کسی نے اپنی فاسد رائے کے تقاضے کے مطابق اس میں کلام کیا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جس نے حق کی تکذیب کی، وہ مشتبہ معاملے میں پڑا ہوا ہے، اسے کوئی راہ سجھائی دیتی ہے نہ قرار آتا ہے، اس لئے تو اس کے معاملات کو باہم متناقض اور افک و بہتان پر مبنی پائے گا۔ جو کوئی حق کی اتباع اور اس کی تصدیق کرتا ہے، اس کا معاملہ درست اور اعتدال کی راہ پر ہوتا ہے، اس کا فعل اس کے قول کی تصدیق کرتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
darasal enhon ney sach ko ussi waqt jhutla diya tha jab woh inn kay paas aaya tha , chunacheh woh mutazaad baaton mein parray huye hain .