اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں وما ینطق عن الھوی یعنی وہ گمراہ اور بہک کیسے سکتا ہے وہ تو وحی الٰہی کے بیر لب کشائی ہی نہیں کرتا حتی کہ مزاح طبعی کے موقعوں پر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا (ترمذی شریف) اسی طرح حالت غضب میں آپ کو اپنے جذبات پر اتنا کنٹرول تھا کہ زبان سے کوئی بات خلاف واقعہ نہ نکلتی۔ (ابودائود) خلاصہ یہ ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ کی طرف منسوب کردیں اس کا قطعاً کوئی امکان نہیں بلکہ آپ جو کچھ فرماتے وہ سب اللہ کی طرف سے وحی کیا ہوا ہوتا ہے، وحی کی بہت سی اقسام بخاری کی احادیث سے ثابت ہیں ان میں ایک قسم وہ ہے جس کے معنی اور الفاظ دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں جس کا نام قرآن ہے، دوسرے وہ کہ صرف معنی اللہ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں آنحضرت ان معانی کو اپنے الفاظ میں ادا فرماتے ہیں، اس کا نام حدیث اور سنت ہے، پھر حدیث میں جو مضمون حق تعالیٰ کی طرف سے آتا یہ، کبھی وہ کسی معاملہ کا صاف اور واضح فیصلہ اور حکم ہوتا ہے کبھی کوئی قاعدہ کلیہ بتلایا جاتا یہ، اگر کسی مسئلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صاف اور واضح حکم نہ ہو تو نبی اپنے اجتہاد سے کام لیتا ہے، اجتہاد میں اس کا تو امکان ہوتا ہے کہ خطا ہوجائے مگر تمام انبیاء کی خصوصیت ہے کہ اگر احکام مستنبطہ میں غلطی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی اس کی اصلاح فرما دیتے ہیں خبالف علماء مجتہدین کے کہ اگر ان سے غلطی ہوجائے تو وہ خطا پر قائم رہ سکتے ہیں اور ان کی یہ خطاء صرف معاف ہی نہیں بلکہ دین کے سمجھنے میں جو اپنی پوری توانائی صرف کرتے ہیں اس پر بھی ان کو ایک گونا ثواب ملتا ہے۔ (جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ ) (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی﴾ یعنی آپ کا کلام خواہش نفس سے صادر نہیں ہوتا۔