القمر آية ۲۵
ءَاُلْقِىَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِنْۢ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ اَشِرٌ
طاہر القادری:
کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت (یعنی وحی) اتاری گئی ہے؟ بلکہ وہ بڑا جھوٹا، خود پسند (اور متکبّر) ہے،
English Sahih:
Has the message been sent down upon him from among us? Rather, he is an insolent liar."
1 Abul A'ala Maududi
کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص تھا جس پر خدا کا ذکر نازل کیا گیا؟ نہیں، بلکہ یہ پرلے درجے کا جھوٹا اور بر خود غلط ہے"
2 Ahmed Raza Khan
کیا ہم سب میں سے اس پر بلکہ یہ سخت جھوٹا اترونا (شیخی باز) ہے
3 Ahmed Ali
کیا ہم میں سے اسی پر وحی بھیجی گئی بلکہ وہ بڑا جھوٹا (اور) شیخی خورہ ہے
4 Ahsanul Bayan
کیا ہمارے سب کے درمیان صرف اسی پر وحی اتاری گئی؟ نہیں بلکہ وہ جھوٹا شیخی خور ہے (١)
٢٥۔١ یعنی اس نے جھوٹ بھی بولا تو بہت بڑا۔ کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ بھلا ہم میں سے صرف اسی پر وحی آنی تھی؟ یا اس کے ذریعے سے ہم پر اپنی بڑائی جتانا اس کا مقصد تھا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا ہم سب میں سے اسی پر وحی نازل ہوئی ہے؟ (نہیں) بلکہ یہ جھوٹا خود پسند ہے
6 Muhammad Junagarhi
کیا ہمارے سب کے درمیان صرف اسی پر وحی اتاری گئی؟ نہیں بلکہ وه جھوٹا اور شیخی خور ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا ہم سب میں سے صرف اسی پر وحی نازل کی گئی ہے؟ بلکہ وہ بڑا جھوٹا (اور) شیخی باز ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا ہم سب کے درمیان ذکر صرف اسی پر نازل ہوا ہے درحقیقت یہ جھوٹا ہے اور بڑائی کا طلبگار ہے
9 Tafsir Jalalayn
کیا ہم سب میں سے اسی پر وحی نازل ہوئی ہے ؟ (نہیں) بلکہ یہ جھوٹا خود پسند ہے
بل ھو کذاب اشر اشر ایسے برخود غلط اور خود پسند شخص کو کہتے ہیں جس کے دماغ میں اپنی بڑائی کا سود اسمایا ہوا ہو اور اس بناء پر ڈینگیں مارتا ہو، مطل یہ ہے کہ جب نہ تو یہ مافوق البشر قوتوں کا مالک ہے اور نہ یہ جتھا بند شخص ہے کہ اس کو عوام کی تائید و حمایت حاصل ہو اور نہ ہی یہ اوپر سے نازل کیا ہوا یا باہر سے آیا ہوا شخص ہے کہ اس کی کچھ اہمیت ہو، تو ایسی صورت میں اس کے نبوت کا دعویٰ کرنے کے دو ہی مقصد ہوسکتے ہیں یا تو یہ پر لے درجہ کا جھوٹا شخص ہے یا پھر ہم پر اپنی بڑائی جتانا اور ہمارے مقابلہ میں شیخی بگھارنا مقصد ہے لہٰذا ہم ایسے کذاب اور شیخی خورے کی ہرگز پیروی نہ کریں گے۔
حضرت صالح (علیہ السلام) جس قوم میں پیدا ہوئے اس کو ثمود کہتے ہیں اور اس کو عاد اخریٰ بھی کہتے ہیں، قوم ثمود کا ذکر قرآن کریم میں نو سورتوں میں کیا گیا ہے، اعراف، ھود، حجر، نمل، النجم، القمر، الحاقہ، الشمس
حضرت صالح (علیہ السلام) کا نسب نامہ :
علماء انساب، حضرت صالح (علیہ السلام) کے نسب نامہ میں مختلف نظر آتے ہیں مگر زیادہ صحیح اور قرین قیاس وہ سلسلہ نسب ہے جو علامہ بغوی نے بیان کیا ہے جو پانچ واسطوں سے قوم صالح کے جد ابعد ثمود تک پہنچتا ہے۔ (قصص القرآن، سیوھاروی)
قوم ثمود کی بستیاں :
قوم ثمود کے بارے میں یہ بات طے شدہ ہے کہ ان کی آبادیاں مقام حجر میں حجاز اور شام کے درمیان وادی قریٰ تک پھیلی ہوئی تھیں، جو آج کل ’ دفج النافتہ “ کے نام سے مشہور ہے، قوم ثمود کی بستیوں کے آثار اور کھنڈرات آج تک موجود ہیں، بعض مصری اہل تحقیق نے ان کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے، ان کا بیان ہے کہ وہ ایک ایسے مکان میں داخل ہوئے جو شاہی حویلی کہی جاتی ہے، اس میں متعدد کمرے ہیں اور اس حویلی کے ساتھ ایک بہت بڑا حوض ہے اور یہ پورا مکان پہاڑ کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ (قصص القرآن مولانا حفظ الرحمٰن سیوھاروی)
واقعہ کی تفصیل :
قوم ثمود جب حضرت صالح (علیہ السلام) کی تبلیغ حق سے اکتا گئی تو اس کے سرخیل اور سر کردہ افراد نے قوم کی موجودگی میں حضرت صالح علیہ اصلاۃ والسلام سے مطالبہ کیا کہ اے صالح ! اگر تو واقعی خدا فر ساتدہ ہے تو کوئی نشانی دکھا، تاکہ ہم تیری صداقت پر ایمان لے آئیں، حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ نشانی آنے کے بعد انکار پر مصر اور سرکشی پر قائم رہو، قوم کے ان سرداروں نے بتا کید وعدہ کیا کہ ہم فوراً ایمان لے آئیں گے، تب حضرت صالح نے ان ہی سے دریافت کیا کہ وہ کس قسم کا نشان چاہتے ہیں ؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سامنے والے پہاڑ میں سے یا فلاں پتھر سے جو بستی کے کنارہ پر نصب ہے ایک ایسی اونٹنی ظاہر کر کہ جو گا بھن ہو اور فوراً بچہ دے، حضرت صالح (علیہ السلام) نے درگاہ الٰہی میں دعاء کی تو اسی وقت اس پتھر سے ایک حاملہ اونٹنی ظاہر ہوئی اور اس نے بچہ دیا یہ دیکھ کر ان سرداروں میں سے جندع بن عمرو اسی وقت ایمان لے آیا اور دوسرے سرداروں نے بھی جب اس کی پیروی میں اسلام لانے کا ارادہ کیا تو ان کے ہیکلوں اور مندروں مہنتوں نے ان کو باز رکھا۔
حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو تنبیہ کی کہ دیکھو یہ نشانی تمہاری طلب پر بھیجی گی ہے خدا کا یہ فصلہ ہے کہ پانی کی باری مقرر ہو، ایک دن اس ناقہ کا ہوگا اور ایک دن قوم کے تمام جانوروں کا اور خبر دار اس کو اذیت نہ پہنچے اگر اس کو آزاد پہنچا تو پھر تمہاری بھی خیر نہیں، کچھ روز تک اسی دستور پر رہے مگر کچھ روز بعد وہ اس طرز عمل سے اکتا گئے، آپس میں صالح و مشورے ہونے لگے کہ اس ناقہ کا خاتمہ کردیا جائے تو اس باری کے اس قصہ سے نجات مل سکتی ہے یہ باتیں اگرچہ ہوتی رہتی تھیں مگر ناقہ کو قتل کرنے کی کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی مگر ایک حسین و جمیل مال دار عورت صدوق نے خود کو ایک شخص مصدع کے سامنے اور ایک مالدار عورت عنیزہ نے اپنی ایک خوبصورت لڑکی قدار (قیدار) کے سامنے یہ کہہ کر پیش کی کہ اگر وہ دونوں ناقہ کو ہلاک کردیں تو یہ تمہاری ملک ہیں آخر قیدار بن سالف اور مصدع کو اسکے لئے آمادہ کرلیا گیا اور طے پایا کہ وہ رات چھپ کر بیٹھ جائیں گے اور ناقہ جب چراگاہ جانے لگے تو اس پر حملہ کردیں گے، اور دیگر چند آدمیوں نے مدد کا وعدہ کیا۔
غرض ایسا ہی ہوا اور ناقہ کو سازش کر کے ہلاک کردیا، اس کے بعد سب نے قسم کھائی کہ رات کے وقت ہم سب صالح اور اس کے اہل کو بھی قتل کردیں گے اور پھر اس کے اولیاء کو قسمیں کھا کر یقین دلائیں گے کہ یہ کام ہمارا نہیں ہے۔
بچہ یہ دیکھ کر بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ گیا، اور چیختا چلاتا ہوا پہاڑ میں غائب ہوگا ی، صالح (علیہ السلام) کو جب خبر ہوئی تو حسرت اور افسوس کے ساتھ قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آخر وہی ہوا جس کا مجھے خوف ھتا، اب خدا کے عذاب کا انتظار کرو، جو تین دن کے بعد تم کو تباہ کر دے گا اور پھر بجلی کی چمک اور کڑک کا عذاب آیا اور اس نے رات میں سب کو تباہ کردیا، اور آنے والے انسانوں کے لئے تاریخی عبرت کا سبق دے گیا۔ (اختصاراً قصص القرآن سیوھاروی)
10 Tafsir as-Saadi
﴿ءَاُلْقِیَ الذِّکْرُ عَلَیْہِ مِنْ بَیْنِنَا﴾ ’’کیا ہمارے سب کے درمیان سے صرف اسی پر وحی اتاری گئی ہے؟‘‘ یعنی اللہ ہم میں سے اس کو کس بنا پر خصوصیت عطا کرتا ہے اور اس پر ذکر نازل کرتا ہے؟ اس میں کون سی ایسی خوبی ہے جس کی بنا پر ہم میں سے صرف اسے ہی یہ خصوصیت عطا کی ہے؟ یہ وہ اعتراض ہے جو اہل تکذیب ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ پر کرتے چلے آئے ہیں اسی کی بنیاد پر انبیاء ومرسلین کی دعوت پر حملہ آور ہوتے رہے اور اس کورد کرتے رہے اللہ نے اس شبہ کا جواب رسولوں کے اس قول کے ذریعے سے دیا جو انہوں نے امتوں سے کہا تھا۔ ﴿قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ﴾(ابراہیم:14؍11) ’’ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ واقعی ہم محض تم جیسے بشر ہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس پر احسان کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو ایسے اوصاف، اخلاق اور کمالات سے نوازا ہوتا ہے جن کی بنا پر وہ اپنے رب کی رسالت اور اس کی وحی کے اختصاس کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ اللہ کی رحمت اور حکمت ہے کہ رسول نوع بشری میں سے ہیں۔ اگر رسول فرشتوں میں سے ہوتے تو انسان کا ان سے استفادہ کرنا ممکن نہ ہوتا۔ اگر فرشتوں کو رسول بنایا ہوتا تو جھٹلانے والوں پر فوراً عذاب نازل ہوجاتا۔
قوم ثمود سے اپنے نبی کے بارے میں صادر ہونے والے اس کلام کا مقصد صرف حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلانا تھا اس لیے انہوں نے آپ پر ظالمانہ حکم لگائے، چنانچہ انہوں نے کہا: ﴿ بَلْ ہُوَ کَذَّابٌ اَشِرٌ﴾ ’’بلکہ وہ تو سخت جھوٹا اور شر کا حامل ہے‘‘ اللہ ان کا برا کرے، ان کی آرزوئیں کس قدر بے وقوفی پر مبنی ہیں اور وہ سچے خیر خواہوں کے مقابلے میں ان کو برے خطابات سے مخاطب کرنے میں کتنے ظالم اور کتنے سخت ہیں۔ جب ان کی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو ضروری تھا کہ اللہ ان کو سزا دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اونٹنی بھیجی جو ان کے لیے اللہ کی سب سے بڑی نعمت تھی جو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی اور اس کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی وہ اس کا دودھ دوہتے تھے جو ان سب کے لیے کافی ہوتا تھا۔ ﴿فِتْنَةً لَّهُمْ﴾ یعنی اللہ کی طرف سے یہ اونٹنی ان کی آزمائش اور امتحان کے طور پر تھی۔
11 Mufti Taqi Usmani
bhala kiya hum saray logon kay darmiyan yehi aik shaks reh gaya tha jiss per naseehat nazil ki gaee-? nahi ! balkay darasal yeh perlay darjay ka jhoota shekhi baaz shaks hai .