اور بیشک قومِ فرعون کے پاس (بھی) ڈر سنانے والے آئے،
English Sahih:
And there certainly came to the people of Pharaoh warning.
1 Abul A'ala Maududi
اور آل فرعون کے پاس بھی تنبیہات آئی تھیں
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک فرعون والوں کے پاس رسول آئے
3 Ahmed Ali
اور البتہ فرعون کے خاندان کے پاس بھی ڈرانے والے آئے تھے
4 Ahsanul Bayan
اور فرعونیوں کے پاس بھی ڈرانے والے آئے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور قوم فرعون کے پاس بھی ڈر سنانے والے آئے
6 Muhammad Junagarhi
اور فرعونیوں کے پاس بھی ڈرانے والے آئے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور فرعون والوں کے پاس بھی ڈرانے والے آئے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور فرعون والوں تک بھی پیغمبر علیھ السّلام آئے
9 Tafsir Jalalayn
اور قوم فرعون کے پاس بھی ڈر سنانے والے آئے
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَلَقَدْ جَاءَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ﴾ اور بلاشبہ فرعون اور اس کی قوم کے پاس (بھی) ڈرانے والے آئے۔ اللہ نے ان کے پاس واضح دلائل اور بڑے بڑے معجزات کے ساتھ کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا، آپ کی تائید کی، ان کو بڑے بڑے عبرت ناک واقعات کا مشاہدہ کرایا جن کا مشاہدہ ان کے سوا کسی اور کو نہیں کرایا۔ مگر انہوں نے اللہ کی تمام نشانیوں کو جھٹلادیا، تب اللہ نے ان کو ایک غالب اور قدرت رکھنے والی ہستی کے مانند عذاب کی گرفت میں لے لیا، پس فرعون اور اس کے لشکروں کو سمندر میں غرق کردیا۔ ان واقعات کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کو ڈرایا جائے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے ہیں۔ بنابریں فرمایا: ﴿اَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰیِٕکُمْ﴾’’(اے اہل عرب!) کیا تمہارے کافر ان کافروں سے بہتر ہیں؟‘‘ یعنی کیا یہ لوگ جنہوں نے افضل المرسلین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی ہے، ان جھٹلانے والوں سے بہتر ہیں جن کی ہلاکت اور ان پر گزرنے والے حالات کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے؟ اگر یہ لوگ ان لوگوں سے بہتر ہیں تو ممکن ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائیں اور ان پر عذاب نازل نہ ہوجوان شریر لوگوں پر نازل ہوا تھا مگر معاملہ یوں نہیں کیونکہ اگر یہ لوگ ان لوگوں سے بڑھ کر شرپسند نہیں تو ان سے اچھے بھی نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur firon kay khandan kay paas bhi tanbeehaat ayen ,
12 Tafsir Ibn Kathir
سچائی کے دلائل سے اعراض کرنے والی اقوام فرعون اور اس کی قوم کا قصہ بیان ہو رہا ہے کہ ان کے پاس اللہ کے رسول حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) بشارت اور ڈراوے لے کر آتے ہیں بڑے بڑے معجزے اور زبردست نشانیاں اللہ کی طرف سے انہیں دی جاتی ہیں جو ان کی نبوت کی حقانیت پر پوری پوری دلیل ہوتی ہیں۔ لیکن یہ فرعونی ان سب کو جھٹلاتے ہیں جس کی بدبختی میں ان پر عذاب الہٰی نازل ہوتے ہیں اور انہیں بالکل ہی سوکھے تنکوں کی طرح اڑا دیا جاتا ہے۔ پھر فرماتا ہے اے مشرکین قریش اب بتلاؤ تم ان سے کچھ بہتر ہو ؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے لئے اللہ نے اپنی کتابوں میں چھوٹ دے رکھی ہے ؟ کہ ان کے کفر پر تو انہیں عذاب کیا جائے لیکن تم کفر کئے جاؤ اور تمہیں کوئی سزا نہ جائے ؟ پھر فرماتا ہے کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ایک جماعت کی جماعت ہیں آپ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں گے اور ہمیں کوئی برائی ہماری کثرت اور جماعت کی جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے گا انہیں ہزیمت دی جائے گی اور یہ پیٹھ دکھا کر بھاگتے پھریں گے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ بدر والے دن اپنی قیام گاہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دعا فرما رہے تھے اے اللہ تجھے تیرا عہد و پیمان یاد دلاتا ہوں اے اللہ اگر تیری چاہت یہی ہے کہ آج کے دن کے بعد سے تیری عبادت و وحدانیت کے ساتھ زمین پر کی ہی نہ جائے بس اتنا ہی کہا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بس کیجئے آپ نے بہت فریاد کرلی۔ اب آپ اپنے خیمے سے باہر آئے اور زبان پر دونوں آیتیں آیت ( سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ 45) 54 ۔ القمر :45) ، جاری تھیں، حضرت عمر فرماتے ہیں اس آیت کے اترنے کے وقت میں سوچ رہا تھا کہ اس سے مراد کونسی جماعت ہوگی ؟ جب بدر والے دن میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ زرہ پہنے ہوئے اپنے کیمپ سے باہر تشریف لائے اور یہ آیت پڑھ رہے تھے، اس دن میری سمجھ میں اس کی تفسیر آگئی۔ بخاری میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں میری چھوٹی سی عمر تھی۔ اپنی ہمجولیوں میں کھیلتی پھرتی تھی اس وقت یہ آیت ( بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَاَمَرُّ 46) 54 ۔ القمر :46) ، اتری ہے۔ یہ روایت بخاری میں فضائل القرآن کے موقعہ پر مطول مروی ہے مسلم میں یہ حدیث نہیں۔