القمر آية ۴۳
اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ اُولٰۤٮِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَاۤءَةٌ فِى الزُّبُرِۚ
طاہر القادری:
(اے قریشِ مکہ!) کیا تمہارے کافر اُن (اگلے) لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے (آسمانی) کتابوں میں نجات لکھی ہوئی ہے،
English Sahih:
Are your disbelievers better than those [former ones], or have you immunity in the scriptures?
1 Abul A'ala Maududi
کیا تمہارے کفار کچھ اُن لوگوں سے بہتر ہیں؟ یا آسمانی کتابوں میں تمہارے لیے کوئی معافی لکھی ہوئی ہے؟
2 Ahmed Raza Khan
کیا تمہارے کافر ان سے بہتر ہیں یا کتابوں میں تمہاری چھٹی لکھی ہوئی ہے
3 Ahmed Ali
کیا تمہارے منکر ان لوگوں سے اچھے ہیں یا تمہارے لیے کتابوں میں نجات لکھی ہے
4 Ahsanul Bayan
اے قریشیو! کیا تمہارے کافر ان کافروں سے کچھ بہتر ہیں؟ (١) یا تمہارے لئے اگلی کتابوں میں چھٹکارا لکھا ہوا ہے۔
٤٣۔١ یہ استفہام انکار یعنی نفی کے لئے ہے، یعنی اے اہل عرب! تمہارے کافر، گذشتہ کافروں سے بہتر نہیں ہیں، جب وہ اپنے کفر کی وجہ سے ہلاک کر دیئے گئے، تو تم جب کہ تم ان سے بدتر ہو، عذاب سے سلامتی کی امید کیوں رکھتے ہو
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے اہل عرب) کیا تمہارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے (پہلی) کتابوں میں کوئی فارغ خطی لکھ دی گئی ہے
6 Muhammad Junagarhi
(اے قریشیو!) کیا تمہارے کافر ان کافروں سے کچھ بہتر ہیں؟ یا تمہارے لیے اگلی کتابوں میں چھٹکارا لکھا ہوا ہے؟
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تمہارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے (آسمانی) کتابوں میں معافی کا پروانہ لکھا ہوا ہے؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تو کیا تمہارے کفار ان سب سے بہتر ہیں یا ان کے لئے کتابوں میں کوئی معافی نامہ لکھ دیا گیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے اہل عرب ! ) کیا تمہارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے (پہلی) کتابوں میں کوئی فارغ خطی لکھ دی گئی ہے ؟
ترجمہ :۔ اور فرعونیوں یعنی فرعون کی قوم کے پاس مع فرعون کے ڈراوے (ڈرنے کی باتیں) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کی زبانی آئے مگر وہ ایمان نہ لائے بلکہ تمام نو نشانیوں کو جھٹلا دیا جو موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی گئی تھیں چناچہ ہم نے ان کو عذبا میں پکڑ لیا قوی اور قادر کے پکڑنے کے مانند کہ اس کو کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی، اے قریشیو ! کیا تمہارے کافر ان کافروں سے جو قوم نوح سے لے کر قوم فرعون تک مذکوروہ ہوئے کچھ بہتر ہیں کہ ان کو عذاب نہ دیا جائے یا تمہارے لئے اے قریش کے کافرو ! کتابوں میں عذاب سے برأت لکھی ہوئی ہے اور استفہار دونوں جگہ بمعنی نفی ہے یعنی ایسی بات نہیں ہے کیا کفار قریش یہ کہتے ہیں کہ ہم محمد پر غالب آنے والی جماعت ہیں اور جبکہ بدر کے دن ابوجہل نے کہا کہ ہم غالب آنے والی جماعت ہیں تو آیت سیھزم الجمع ویولون الذبر نازل ہوئی، عنقریب یہ جماعت شکست خوردہ ہو کر پیٹھ پھیر کر بھاگے گی چناچہ بدر میں ان کو شکست ہوئی اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر غالب ہوئے بلکہ قیامت ان سے عذاب کے وعدہ کا وقت ہے اور قیامت یعنی اس کا عذاب بڑی آفت اور دنیا کے عذاب سے سخت ناگوار ہے بلاشبہ مجرمین گمراہی یعنی دنیا میں قتل کے ذریعہ ہلاکت میں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ میں ہیں مسعرۃ تشدید کے ساتھ ہے یعنی آخرت میں دہکتی ہوئی آگ جس دن کہ ان کو آگ میں منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یعنی آخرت میں اور ان سے کہا جائے گا دوزخ کی آگ لگنے کا مزا چکھو تمہارے جہنم میں د ناخل ہونے کی وجہ سے ہم نے ہر چیز کو اندازہ سے پیدا کیا کل شی کا فعل ناصب وہ فعل مقدر ہے جس کی تفسیر خلقنہ کر رہا ہے بقدر کل شیء سے حال ہے، ای قمدراً اور کل کو مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع بھی پڑھا گیا ہے اس کی خبر خلقناہ اور ہارا حکم اس شئی کے لئے جس کے وجود کا ہم ارادہ کرتے ہیں صرف ایک مرتبہ ہوتا ہے سرعت میں پلک جھپکنے کے مانند ہوتا ہے اور وہ حکم کلمہ کن ہے، تو وہ چیز (بلاتوقف) موجودہ ہوجاتی ہے اور اس کا حکم اسی وقت ہوگا جب وہ کسی شئی کے لئے کن کہنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ شئی ہوجاتی ہے اور ہم نے امم ماضیہ میں سے کفر میں تمہارے ہم مشرب لوگوں کو ہلاک کردیا پس کوئی ہے نصیحت لینے والا ؟ استفہام بمعنی امر ہے یعنی پندو نصیحت حاصل کرو جو اعمال بھی یہ لوگ کرتے ہیں وہ اعمال ناموں یعنی حفاظت کے فرشتوں کی کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں ہر چھوٹا اور بڑا گناہ یا عمل، لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے یقیناً ہمارا ڈر رکھنے والے باغوں اور نہروں (کی فضا) میں ہوں گے نہر سے جنس کا ارادہ کیا گیا ہے اور جمع کے طور پر نون اور ہاء کے ضمہ کے ساتھ (بھی) پڑھا گیا ہے، جیسا کہ اسد اور اسد میں، معنی یہ ہیں کہ وہ پانی اور دودھ اور شہد اور شراب کے نہروں سے پئیں گے ایک عمدہ مقام یعنی مجلس حق میں ہوں گے نہ وہاں لغویات ہوں گی اور نہ گناہ کی باتیں اور صمقعد) سے جنس کا ارادہ کیا گیا ہے اور مقاعد بھی پڑھا گیا ہے معنی یہ ہیں کہ وہ جنت میں ایسی مجلسوں میں ہوں گے جو لغویات اور گناہوں کی باتوں سے محفوظ ہوں گی، بخلاف دنیا کی مجلسوں کے کہ (دنیا کی مجلسیں) ان باتوں سے بہت کم خالی ہوتی ہیں اور (مقعد صدق) کو (ان) خبر ثانی کے طور پر بھی اعراب دیا گیا ہے اور (جنت) سے بدل کر طور پر بھی اور وہ بدل البعض وغیرہ پر صادق آتا ہے قدرت والے بادشاہ کے پاس یعنی عند ملیک مثال بطور مبالغہ ہے (حقیقتاً عندیت مراد نہیں ہے) یعنی وہ غالب و سعت والا بادشاہ ایسا قادر ہے کہ کوئی شئی اس کو عاجز نہیں کرسکتی اور وہ اللہ تعالیٰ ہے عند سے قربت رتبی کی رف اشارہ ہے اور قدرت (قربۃ) اللہ کے فضل سے ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : الاندار مفسر علام نے نذر کی تفسیر الانذر سے کر کے اشارہ کردیا کہ نذر مصدر ہے بمعنی ڈراوا، ڈرانے والی نشانیاں، یہاں نذر کی جمع بھی ہوسکتی ہے، ڈرانے والے صالآیات التسع) (١) اعلصاء (٢) الید البیضاء (٣) والسنین (٤) الطمس (٥) الطوفان (٦) الجراد (ٹڈی) (٧) ( ْ ٣ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (٨) الضفادع (مینڈک) (٩) الدم
قولہ : خیر من اولئکم یعنی اے قریش کیا تمہارے کافر سابقہ قوموں کے کافروں سے قوت و شدت میں بڑھے ہوئے ہیں، ظاہر ہے کہ نہیں۔
قولہ : ادھی یہ داھیۃ سے اسم تفضیل ہے بمعنی بڑی آفت جس سے خلاصی ممکن نہ ہو۔
قولہ : امر سخت تر، تلخ تر
قولہ : سعر ای نار مسعرۃ دہکتی ہوئی آگ۔
قولہ : یوم یسحبون یوم فعل مقدر کا ظرف ہے تقدیر عبارت یہ ہے ویقال لھم یوم الخ نیز سعر کا بھی ظرف ہوسکتا ہے۔
قولہ : انا کل شیء منصوب بفعل الخ کل کے نصب کے ساتھ ما اضمر کے قاعدہ سے جمہور کی قرأت ہے اور یہی راجح ہے اس لئے کہ کل کا رفع اعتقاد فاسد کی طرف موہم ہے، اس طریقہ پر کہ کل کو مبتداء قرار دیں، اور خلقناہ جملہ ہو کر شیء کی صفت ہو اور بقدر اس کی خبر اب اس کا ترجمہ ہوگا ہر وہ چیز جس کو اللہ نے پیدا کیا ہے اندازہ سے ہے، اس سے وہم ہوتا ہے کہ بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو اللہ کی مخلوق نہیں ہیں، حالانکہ اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر شئی اللہ کی مخلوق ہے اور اندازہ سے ہے نصب کی صورت میں ترجمہ یہ ہوگا، ہم نے ہر چیز ایک تقدیر (منصوبہ) کے ساتھ پیدا کی ہے۔
خلاصہ کلام :
انا کل شیء خلقنہ بقدر، کل میں دو احتمال ہیں رفع اور نصب، پھر رفع کی صورت میں دو احتمال ہیں ایک صحیح اور دوسرا فائد، خلقناہ کو کل کی خبر بنایا جائے تو یہ صورت صحیح ہوگی، معنی یہ ہوں گے کہ ہر شئی ہم نے اندازہ سے پیدا کی ہے، یہی اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے، لیکن رفع کی صورت میں ایک دوسرا احتمال بھی ہے جو کہ فاسد ہے اور وہ یہ ہے کہ خلقناہ شیء کی صفت ہو اور بقدر کل کی خبر ہو تو یہ معنی اہل سنت کے نزدیک فاسد ہیں اس کا مطلب ہوگا ہر وہ چیز جو ہم نے پیدا کی ہے وہ اندازہ سے ہے، اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو غیر اللہ کی پیدا کردہ ہیں، اور وہ ادنازہ سے نہیں ہیں، یہ مذہب معتزلہ کا ہ، بخلاف کل پر نصب پڑھنے کے کہ اس میں فاسد معنی کا احتمال نہیں ہے اور نصب کی صورت یہ ہوگی کہ کل فعل محذوف کا مفعول ہوگا جس کی تفسیر بعد والا فعل (خلقناہ) کر رہا ہے اس کو باب اشغال اور ماضمر عاملہ علی شریطۃ التفسیر کا قاعدہ کہتے ہیں بقدر، بتقدیر کے معنی میں ہے اور فعل سے متعلق ہے، اس صورت میں خلقناہ کو کل شیء کی صفت بنانے کا احتمال نہیں ہے کہ فساد معنی کا وہم ہو اس لئے کہ صفت، موصوف میں عامل نہیں ہوا کرتی اور جو عامل نہ ہو وہ عامل کی تفسیر بھی نہیں کرسکتی۔ (اعراب القرآن، للدرویش)
قولہ : وکل شی فعلوہ فی الزبریہاں سابق کے برخلاف کل پر رفع متعین ہے اس لئے کہ نصب کی صورت میں معنی کا فساد ظاہر ہے، اس لئے کہ اگر کل پر نصب پڑھا جائے تو تقدیر عبارت یہ ہوگی فعلوا کل شیء فی الزبر انہوں نے ہر شئی کہ لوح محفوظ میں داخل کیا ہے، حالانکہ لوح محفوظ میں داخل کرنے کا کام اللہ کا ہے نہ کہ مخلوق کا اس کے علاوہ عاملین کے افعال کے علاوہ لوح محفوظ میں اور بہت سی چیزیں ہیں کا جن عا ملین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور رفع کی قرأت کی صورت میں طملب یہ ہوگا کہ جو عمل بھی وہ کرتے ہیں وہ لوح محفوظ میں محفوظ ہے۔
قولہ : اریدبہ الجنس، نھر اگرچہ واحد ہے مگر جنت چونکہ جمع ہے لہٰذا اس کی مناسبت سے جنس مراد ہے تاکہ اس میں جمع کے معنی کا لحاظ ہوجائے فواصل کی رعایت کے لئے مفرد لایا گیا ہے اور بعض قراءتوں میں نھر جمع کے صیغہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔
قولہ : فی مقعد صدق ای مقام حسن میں موصوف کی اضافت صفت کی طرف ہے فی مقعد صدق میں دو ترکیبیں ہوسکتی ہیں اول یہ کہ ان کی خبر ثانی ہوا اور فی جنتا خبر اول ہ، دوسری یہ کہ جنتا سے بدل البعض ہو اس لئے کہ مقعد صدق جنات کا بعض ہے۔
قولہ : وغیرہ یہ اشارہ کہ فی مقعد صدق بدل الاشتمال بھی ہوسکتا ہے اس لئے کہ جنتا، مقعد صدق پر مشتمل ہے۔
قولہ : عند ملیک اگر مقعد صدق کو بدل قرار دیا جائے تو عند ملیک ان کی خبر ثانی ہوگی اور اگر مقعد صدق کو ان کی خبر ثانی قرار دیا جائے تو عند ملیک خبر ثالث ہوگی۔
قولہ : عند اشارۃ الی الرتبۃ عند ملیک میں عندیۃ بطور مبالغہ تقرب فی المرتبۃ کی تمثیل ہے اور عند سے قرب رتبی کو بیان کرنا مقصود ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سے قرب مکانی مقصود نہیں ہے چونکہ وہ جسم سے منزہ اور پاک ہے اور قرب و بعد مکانی جسم و جسمیات کا خاصہ ہے۔
تفسیر و تشریح
اکفار کم خیر من اولئکم (الآیۃ) یہ مشرکین قریش سے خطاب ہے، مطلب یہ ہے کہ آخر تم میں کیا خوبی ہے یا تم میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں یا تمہارے لعل لٹکے ہوئے ہیں کہ جس کفر و تکذیب اور ہٹ دھرمی کی روش پر دوسری قوموں کو سزا جا چکی ہے وہی روش تم اختیار کرو تو تمویں سزا نہ دی جائے ؟ اور یہ کہ طاقت و قوت نیز دولت و ثروت میں بھی تم ان سے بڑھے ہوئے نہیں ہو بلکہ ان سے بدرجہا کمزور و ناتواں ہو جب ہم نے ان کو ان جرائم کی پاداش میں ہلاک کردیا تو تمہاری کیا حقیقت و حیثیت اور تمہارا وجود ” چہ پدی چہ پدی کا شوربا “ تم بلاوجہ اپنے منہ میاں مٹھو بنے ہوئے ہو۔
یا آسمانی کتابوں میں تمہارے لئے کوئی معافی نامہ لکھا ہوا ہے کہ تم جو چاہو کرتے رہو تم سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا اور نہ تم پر کوئی غالب آسکتا ہے۔
یا ان کا کہنا یہ ہے کہ تعداد کی کثرت اور وسائل کی قوت کی وجہ سے کسی اور کا ہم پر غالب آنے کا امکان نہیں ہے یا مطلب یہ ہے کہ ہمارا معاملہ مجتمع ہے اور ہم جتھا بند ہیں ہم دشمن سے انتقام لینے پر قادر ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ اَمْ لَکُمْ بَرَاءَۃٌ فِی الزُّبُرِ﴾ ’’یا تمہارے لیے (سابقہ )صحیفوں میں کوئی نجات لکھی ہوئی ہے؟‘‘ یعنی کیا اللہ نے ان کتابوں میں تمہارے ساتھ کوئی عہد اور میثاق کررکھا ہے جو گزشتہ انبیاء پر نازل ہوئی ہیں جن کی بنا پر تم یہ اعتقاد رکھتے ہو کہ تم اللہ کے وعدے اور اس کی خبر کی وجہ سے عذاب سے بچ جاؤ گے ؟ مگر یہ غیر واقع چیز ہے بلکہ یہ عقلاً اور شرعاً غیر ممکن امر ہے کہ ان کتب الٰہیہ میں ان کی برأت لکھ دی گئی ہو جو عدل وحکمت کو متضمن ہیں۔ یہ حکمت کے منافی ہے کہ ان جیسے معاندین حق کو نجات حاصل ہو جنہوں نے افضل الانبیا سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اللہ کے ہاں تمام انبیا سے بڑھ کر ہیں صاحب تکریم ہیں جھٹلایا پس اب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کے پاس کوئی قوت ہو جس سے وہ مدد حاصل کریں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ کہتے ہیں: ﴿ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَــصِرٌ﴾ ’’ہم غلبہ پانے والی جماعت ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوری کو بیان کرتے ہوئے اور اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے کہ وہ ہزیمت اٹھائیں گے، فرماتا ہے: ﴿سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ﴾’’عنقریب وہ جماعت شکست کھائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔‘‘ اللہ کا یہ ارشاد اسی طرح واقع ہوا ہے جس طرح اللہ نے خبر دی تھی پس اس نے ان کی بہت بڑی جماعت کو غزوہ بدر کے روز زبردست ہزیمت سے دوچار کیا ان کے بڑے بڑے بہادر اور ان کے سر کردہ سردار قتل ہو کر ذلیل خوار ہوئے۔ اللہ نے اپنے دین اپنے نبی اور اہل ایمان پر مشتمل اپنے گروہ کو فتح ونصرت سے سرفراز فرمایا۔ بایں ہمہ ان کے لیے ایک وقت مقرر ہے جب اللہ تعالیٰ ان کے اولین وآخرین جو دنیا میں مصائب میں مبتلا رہے اور جن کو دنیا کی لذتوں سے بہرور کیا گیا سب کو اکٹھا کرے گا۔ اس لیے فرمایا: ﴿بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ﴾ ’’بلکہ ان کے وعدے کا وقت قیامت ہے۔‘‘ اس وقت ان کو جزا دی جائے گی اور نہایت عدل وانصاف کے ساتھ ان سے حق لیا جائے گا۔ ﴿ وَالسَّاعَۃُ اَدْہٰی وَاَمَرُّ﴾ ’’اور قیامت کی گھڑی بہت بڑی آفت اور تلخ چیز ہے‘‘ یعنی بہت آفت زدہ، مشقت آمیز اور ہر اس چیز سے بڑھ کر ہے جس کا گمان کیا جاسکتا ہے یا وہ تصور میں آسکتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tumharay yeh kafir log unn say achay hain , ya tumharay liye ( khuda ki ) kitabon mein koi bey gunahi ka perwana likha huwa hai ?