Skip to main content

اِنَّ الْمُجْرِمِيْنَ فِىْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍۘ

Indeed
إِنَّ
بیشک
the criminals
ٱلْمُجْرِمِينَ
مجرم لوگ
(are) in
فِى
میں ہیں
an error
ضَلَٰلٍ
گمراہی
and madness
وَسُعُرٍ
اور جنون میں

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

یہ مجرم لوگ در حقیقت غلط فہمی میں میں مبتلا ہیں اور اِن کی عقل ماری گئی ہے

English Sahih:

Indeed, the criminals are in error and madness..

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

یہ مجرم لوگ در حقیقت غلط فہمی میں میں مبتلا ہیں اور اِن کی عقل ماری گئی ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

بیشک مجرم گمراہ اور دیوانے ہیں

احمد علی Ahmed Ali

بے شک مجرم گمراہی اور جنون میں ہیں

أحسن البيان Ahsanul Bayan

بیشک گناہ گار گمراہی میں اور عذاب میں ہیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

بےشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں (مبتلا) ہیں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

بیشک گناه گار گمراہی میں اور عذاب میں ہیں

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

بےشک مجرم لوگ گمراہی اور دیوانگی میں مبتلا ہیں۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

بیشک مجرمین گمراہی اور دیوانگی میں مبتلا ہیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

بیشک مجرم لوگ گمراہی اور دیوانگی (یا آگ کی لپیٹ) میں ہیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

شکوک و شبہات کے مریض لوگ
بدکار لوگ گمراہ ہوچکے ہیں راہ حق سے بھٹک چکے ہیں اور شکوک و اضطراب کے خیالات میں ہیں۔ یہ لوگ خواہ کفار ہوں خواہ اور فرقوں کے بدعتی ہوں۔ ان کا یہ فعل انہیں اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹوائے گا اور جس طرح یہاں غافل ہیں وہاں اس وقت بھی بیخبر ہوں گے کہ نہ معلوم کس طرف لئے جاتے ہیں۔ اس وقت انہیں ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ کہا جائے گا کہ اب آتش دوزخ کے لگنے کا مزہ چکھو ہم نے ہر چیز کو طے شدہ منصوبہ سے پیدا کیا ہے جیسے اور آیت میں ہے ہر چیز کو ہم نے پیدا کیا پھر اس کا مقدر مقرر کیا۔ اور جگہ فرمایا اپنے رب کی جو بلند وبالا ہے پاکی بیان کر جس نے پیدا کیا اور درست کیا اور محور عمل مقرر کیا اور راہ دکھائی۔ یعنی تقدیر مقرر کی پھر اس کی طرف رہنمائی کی ائمہ اہل سنت نے اس سے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر ان کی پیدائش سے پہلے ہی لکھ دی ہے یعنی ہر چیز اپنے ظہور سے پہلے اللہ کے ہاں لکھی جا چکی ہے فرقہ قدریہ اس کا منکر ہے یہ لوگ صحابہ کے آخر زمانہ میں ہی نکل چکے تھے۔ اہل سنت ان کے مسلک کے خلاف اس قسم کی آیتوں کو پیش کرتے ہیں اور اس مضمون کی احادیث بھی اور اس مسئلہ کی مفصل بحث میں ہم صحیح بخاری کتاب الایمان کی شرح میں لکھ دی ہیں یہاں صرف وہ حدیثیں لکھتے ہیں جو مضمون آیت کے متعلق ہیں، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں مشرکین قریش رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تقدیر کے بارے میں بحث کرنے لگے اس پر یہ آیتیں اتریں (مسند احمد مسلم وغیرہ) بروایت حضرت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ مروی ہے کہ یہ آیتیں منکرین تقدیر کی تردید ہی میں اتری ہیں (بزار) ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا یہ میری امت کے ان لوگوں کے حق میں اتری ہے جو آخر زمانہ میں پیدا ہوں گے اور تقدیر کو جھٹلائیں گے۔ حضرت عطاء بن ابو رباح فرماتے ہیں میں حضرت ابن عباس کے پاس آیا آپ اس وقت چاہ زمزم سے پانی نکال رہے تھے آپ کے کپڑوں کے دامن بھیگے ہوئے تھے میں نے کہا تقدیر کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے لوگ اس مسئلہ میں موافق و مخالف ہو رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کیا لوگوں نے واقعی ایسا ہی کیا ہے ؟ میں نے کہا ہاں ایسا ہو رہا ہے تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ آیتیں انہی لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں آیت (ذوقوا مس سقر انا کل شئی خلقناہ بقدر) یاد رکھو یہ لوگ اس امت کے بدترین لوگ ہیں ان کے بیماروں کی تیمارداری نہ کرو ان کے مردوں کے جنازے نہ پڑھو ان میں سے اگر کوئی مجھے مل جائے تو میں اپنی ان انگلیوں سے اس کی آنکھیں نکال دوں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس کے سامنے ذکر آیا کہ آج ایک شخص آیا ہے جو منکر تقدیر ہے فرمایا اچھا مجھے اس کے پاس لے چلو لوگوں نے کہا آپ نابینا ہے آپ اس کے پاس چل کر کیا کریں گے ؟ فرمایا اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میرا بس چلا تو میں اس کی ناک توڑ دوں گا اور اگر اس کی گردن میرے ہاتھ میں آگئی تو مروڑ دوں گا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بنو فہر کی عورتیں خزرج کے اردگرد طواف کرتی پھرتی ہیں ان کے جسم حرکت کرتے ہیں وہ مشرکہ عورتیں ہیں اس امت کا پہلا شرک یہی ہے اس رب کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی بےسمجھی یہاں تک بڑھے گی کہ اللہ تعالیٰ کو بھلائی کا مقرر کرنے والا بھی نہ مانیں گے جس طرح برائی کا مقدر کرنے والا نہ مانا (مسند احمد) حضرت عبداللہ بن عمر کا ایک دوست شامی تھا جس سے آپ کی خط و کتابت تھی حضرت عبداللہ نے کہیں سے سن پایا کہ وہ تقدیر کے بارے میں کچھ موشگافیاں کرتا ہے آپ نے جھٹ سے اسے خط لکھا کہ میں نے سنا ہے تو تقدیر کے مسئلہ میں کچھ کلام کرتا ہے اگر یہ سچ ہے تو بس مجھ سے خط و کتابت کی امید نہ رکھنا آج سے بند سمجھنا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ میری امت میں تقدیر کو جھٹلانے والے لوگ ہوں گے (ابو داؤد) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں میری امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہوں اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو اور اگر وہ مرجائیں تو ان کے جنازے نہ پڑھو (مسند احمد) اس امت میں مسخ ہوگا یعنی لوگوں کی صورتیں بدل دی جائیں گی یاد رکھو یہ ان میں ہوگا جو تقدیر کو جھٹلائیں اور زندیقیت کریں (ترمذی وغیرہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر ایک کی تقدیر مقرر کردہ اندازے سے ہے یہاں تک کہ نادانی اور عقل مندی بھی (مسلم) صحیح حدیث میں ہے اللہ سے مدد طلب کر اور عاجز و بیوقوف نہ بن پھر اگر کوئی نقصان پہنچ جائے تو کہہ دے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا تھا اور جو اللہ نے چاہا کیا پھر یوں نہ کہہ کہ اگر یوں کرتا تو یوں ہوتا اس لئے کہ اس طرح " اگر " کہنے سے شیطانی عمل کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابن عباس سے فرمایا کہ جان رکھ اگر تمام امت جمع ہو کر تجھے وہ نفع پہنچانا چاہے جو اللہ تعالیٰ نے تیری قسمت میں نہیں لکھا تو نہیں پہنچا سکتی اور اگر سب اتفاق کر کے تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں اور تیری تقدیر میں وہ نہ ہو تو نہیں پہنچا سکتے قلمیں خشک ہو چکیں اور دفتر لپیٹ کر تہہ کر دئیے گئے۔ حضرت ولید بن عبادہ نے اپنے باپ حضرت عبادہ بن صامت کی بیماری میں جبکہ ان کی حالت بالکل غیر تھی کہا کہ ابا جی ہمیں کچھ وصیت کر جائیے آپ نے فرمایا اچھا مجھے بٹھا دو جب لوگوں نے آپ کو بٹھا دیا تو آپ نے فرمایا اے میرے پیارے بچے ایمان کا لطف تجھے حاصل نہیں ہوسکتا اور اللہ تعالیٰ کے متعلق جو علم تجھے ہے اس کی تہہ تک تو نہیں پہنچ سکتا جب تک تیرا ایمان تقدیر کی بھلائی برائی پر پکا نہ ہو میں نے پوچھا ابا جی میں یہ کیسے معلوم کرسکتا ہوں کہ میرا ایمان تقدیر کے خیر و شر پر پختہ ہے ؟ فرمایا اس طرح کہ تجھے یقین ہو کہ جو تجھے نہ ملا وہ ملنے والا ہی نہیں اور جو تجھے پہنچا وہ ٹلنے والا ہی نہ تھا میرے بچو سنو ! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اسے فرمایا لکھ پس وہ اسی وقت چل پڑا اور قیامت تک جو ہونے والا تھا سب لکھ ڈالا اے بیٹے اگر تو انتقال کے وقت تک اس عقیدے پر نہ رہے تو تو جہنم میں داخل ہوگا ترمذی میں یہ حدیث ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں حسن صحیح غریب ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں تم میں سے کوئی شخص ایمان دار نہیں ہوسکتا جب تک کہ چار باتوں پر اس کا ایمان نہ ہو گواہی دے کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں جسے اس نے حق کے ساتھ بھیجا ہے اور مرنے کے بعد جینے پر ایمان رکھے اور تقدیر کی بھلائی برائی منجانب اللہ ہونے کو مانے (ترمذی وغیرہ) صحیح مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیر لکھی جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا امام ترمذی اسے حسن صحیح غریب کہتے ہیں۔ پھر پروردگار عالم اپنی چاہت اور احکام کے بےروک ٹوک جاری اور پورا ہونے کو بیان فرماتا ہے کہ جس طرح جو کچھ میں نے مقدر کیا ہے وہ اگر وہی ہوتا ہے تو ٹھیک اسی طرح جس کام کا میں ارادہ کروں صرف ایک دفعہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے دوبارہ تاکیدًا حکم دینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ایک آنکھ جھپکنے کے برابر وہ کام میری حسب چاہت ہوجاتا ہے عرب شاعر نے کیا ہی اچھا کہا ہے
اذا ما اراد اللہ امرا فانما یقول لہ کن قولۃً فیکون
یعنی اللہ تعالیٰ جب کبھی جس کسی کام کا ارادہ کرتا ہے صرف فرما دیتا ہے کہ ہوجا وہ اسی وقت ہوجاتا ہے ہم نے تم جیسوں کو تم سے پہلے ان کی سرکشی کے باعث فنا کے گھاٹ اتار دیا ہے پھر تم کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ ان کے عذاب اور ان کی رسوائی کے واقعات میں کیا تمہارے لئے نصیحت و تذکیر نہیں ؟ جیسے اور آیت میں فرمایا ( وَحِيْلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُوْنَ كَمَا فُعِلَ بِاَشْيَاعِهِمْ مِّنْ قَبْلُ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا فِيْ شَكٍّ مُّرِيْبٍ 54؀ ) 34 ۔ سبأ ;54) یعنی ان کے اور ان کی چاہ کے درمیان پردہ ڈال دیا گیا ہے جیسے کہ ہم نے ان جیسے پہلے والوں کے ساتھ کیا تھا۔ جو کچھ انہوں نے کیا وہ ان کے نامہ اعمال میں مکتوب ہے جو اللہ کے امین فرشتوں کے ہاتھ میں محفوظ ہے۔ ان کا ہر چھوٹا بڑا عمل جمع شدہ ہے اور لکھا ہوا ہے۔ ایک بھی تو ایسا نہیں رہا جو تحریر میں رہ گیا ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں صغیرہ گناہ کو بھی ہلکا نہ سمجھو اللہ عزوجل کی طرف سے اس کا بھی مطالبہ پورا ہونے والا ہے (نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ) حضرت سلیمان بن مغیرہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ مجھ سے ایک گناہ سرزد ہوگیا جسے میں نے حقیر سمجھا رات کو خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک آنے والا آیا ہے اور مجھ سے کہہ رہا ہے اے سلیمان
لا تحقرن من الذنوب صغیرا ان الصغیر غدا یعود کبیرا
ان الصغیر ولو تقادم عھدہ عند اللہ مسطر تسطیرا
فازجر ھواک عندالبطالتہ لا تکن صعب القیاد وشمرن تشمیرا
ان للحب اذا احب الھہ طار الفواد والھم التفکیر
فاسال ہدایتک الا لہ فتئد فکفی بربک ھادیا ونصیرا
یعنی صغیرہ گناہوں کو بھی حقیر اور ناچیز نہ سمجھ، یہ صغیرہ کل کبیرہ ہوجائیں گے گو گناہ چھوٹے چھوٹے ہوں اور انہیں کئے ہوئے بھی عرصہ گذر چکا ہو۔ اللہ کے پاس وہ صاف صاف لکھے ہوئے موجود ہیں بدی سے اپنے نفس کو روکے رکھ اور ایسا نہ ہوجا۔ کہ مشکل سے نیکی کی طرف آئے بلکہ اونچا دامن کر کے بھلائی کی طرف لپک، جب کوئی شخص سچے دل سے اللہ کی محبت کرتا ہے تو اس کا دل اڑنے لگتا ہے اور اسے اللہ کی جانب سے غور و فکر کی عادت الہام ہوجاتی ہے اپنے رب سے ہدایت طلب کر اور نرمی اور ملائمت کر۔ ہدایت اور نصرت کرنے والا رب تجھے کافی ہوگا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان بدکاروں کے خلاف نیک کار لوگوں کی حالت ہوگی وہ تو ضلالت و تکلیف میں تھے اور اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹے گئے اور سخت ڈانٹ ڈپٹ ہوئی، لیکن یہ نیک کار جنتوں میں ہوں گے بہتے ہوئے خوشگوار صاف شفاف چشموں کے مالک ہوں گے اور عزت و کرام، رضوان و فضیلت، جود و احسان، فضل و امتنان نعمت و رحمت آسائش و راحت کے مکان میں خوش خوش رہیں گے باری تعالیٰ مالک و قادر کا قرب انہیں نصیب ہوگا جو تمام چیزوں کا خالق ہے سب کے انداز مقرر کرنے والا ہے ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ ان پرہیزگار رحم دل لوگوں کی ایک ایک خواہش پوری کرے گا ایک ایک چاہت عطا فرمائے گا مسند احمد میں رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں عدل و انصاف سے ہی کام لیتے ہیں یہ حدیث صحیح مسلم اور نسائی میں بھی ہے الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سورة اقتربت کی تفسیر بھی ختم ہوئی اللہ ہمیں نیک توفیق دے اور برائیوں سے بچائے۔