الواقعہ آية ۷۹
لَّا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَۗ
طاہر القادری:
اس کو پاک (طہارت والے) لوگوں کے سوا کوئی نہیں چُھوئے گا،
English Sahih:
None touch it except the purified [i.e., the angels].
1 Abul A'ala Maududi
جسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا
2 Ahmed Raza Khan
اسے نہ چھوئیں مگر باوضو
3 Ahmed Ali
جسے بغیر پاکو ں کے اور کوئی نہیں چھوتا
4 Ahsanul Bayan
جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں (١)
٧٩۔١ یعنی اس قرآن کو فرشتے ہی چھوتے ہیں، یعنی آسمانوں پر فرشتوں کے علاوہ کسی کی بھی رسائی اس قرآن تک نہیں ہوتی۔ مطلب مشرکین کی تردید ہے جو کہتے تھے کہ قرآن شیاطین لے کر اترتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا یہ کیوں کر ممکن ہے یہ قرآن تو شیطانی اثرات سے بالکل محفوظ ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں
6 Muhammad Junagarhi
جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اسے پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اسے پاک و پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں
لایمسہ الا المطھرون یہاں دو مسئلے غور طلب ہیں اور ائمہ تفسیر میں مختلف فیہ ہیں اول یہ کہ جس کتاب کی صفت مکنون بیان کی گئی ہے یہ جملہ اسی کتاب کی دوسری صفت ہے اور لایمسہ کی ضمیر اسی کتاب کی طرف راجع ہے، اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوں گے کتاب مکنون یعنی لوح محفوظ کو سوائے پاک ہستیوں کے کوئی نہیں چھو سکتا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں مطھرون سے مراد صرف فرشتے ہی ہوسکتے ہیں جن کی رسائی لوح محفوظ تک ہو سکے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں مس سے مراد حقیقی معنی یعنی ہاتھ سے چھونا مراد نہیں لیا جاسکتا ہے، بلکہ لازمی اور مرادی معنی یعنی مطل ہونا مراد ہوسکتے ہیں اس لئے کہ لوح محفوظ کو چھونا کسی مخلوق کا کام نہیں۔
دوسرا احتمال اس جملہ کی ترکیب نحوی میں یہ ہے کہ اس کو قرآن کی صفت بنایا جائے جو اوپر انہ لقران کریم میں مذکور ہے، اس صورت میں لایمسہ کی ضمیر قرآن کی طرف راجع ہوگی اور اس سے مراد وہ صحیفہ ہوگا جس میں قرآن لکھا ہوا ہو اور لفظ مس سے ہاتھ سے چھونے کے حقیقی معنی مفہوم ہوں گے۔
قرآن بےطہارت چھونے کے مسئلہ میں فقہاء کے مسالک :
(١) مسلک حفنی :
مسلک حنفی کی تشریح امام علائو الدین کا شانی نے بدائع و الصنائع میں یوں کی ہے، جس طرح بےوضو نماز پڑھنا جائز نہیں اسی طرح قرآن کریم کو بھی ہاتھ لگانا جائز نہیں، البتہ اگر غلاف کے اندر ہو تو ہاتھ لگایا جاسکتا ہے، غلاف سے بعض فقہاء کے نزدیک جلد اور بعض کے نزدیک وہ جز دان مراد ہے جس میں قرآن لپیٹ کر رکھا جاتا ہے، رہا قرآن کو بےوضو حفظ پڑھنا تو یہ درست ہے، فتاوی عالمگیری میں اس حکم سے بچوں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، تعلیم کے لئے بچوں کو قرآن مجید بےوضو ہاتھ میں دیا جاسکتا ہے۔
(٢) مسلک شافعی :
امام نووی رحمتہ اللہ تعالیٰ نے المنہاج میں مسلم شافعی کو یوں بیان فرمایا ہے نماز اور طواف کی طرح مصحف کو ہاتھ لگانا اور اس کے کسی ورق کو بےوضو چھونا ممنوع ہے، حتی کہ قرآن کریم جزدان یا لفافے وغیرہ میں ہو تب بھی جائز نہیں البتہ قرآن کسی کے سامان میں رکھا ہوا یا سکہ پر کوئی آیت لکھی ہو تو اس کو ہاتھ لگانا جائز ہے، بچہ اگر بےوضو ہو تو وہ بھی قرآن کو ہاتھ لگا سکتا ہے۔
(٣) مالکی مسلک :
جمہور ففقہاء کے ساتھ وہ اس امر میں متفق ہیں کہ قرآن کو ہاتھ لگانے کے لئے وضو شرط ہے لیکن قرآن کی تعلیم کے لئے وہ استاذ اور شاگرد دونوں کے ہاتھ لگانا جائز قرار دیتے ہیں، ابن قدامہ نے مغنی میں امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جنابت کی حالت میں قرآن پڑھنا ممنوع ہے مگر عورت حالت حیض میں قرآن پڑھ سکتی ہے، کیونکہ ایک عرصہ تک اگر ہم اس کو قرآن کی تلاوت سے روکیں گے تو اس کے بھول جانے کا امکان ہے۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ)
(٤) مسلک حنبلی :
مذہب حنبلی کے مسائل جو ابن قدامہ نے نقل کئے ہیں وہ یہ ہیں، حالت جنابت و حیض و نفاس میں قرآن یا اس کی پوری آیت کا پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ بسم اللہ اور الحمد اللہ وغیرہ کہہ سکتی ہے، رہا بلا وضو قرآن کو ہاتھ لگانا تو یہ کسی حالت میں درست نہیں۔
لایمسہ الا المطھرون اگرچہ جملہ خبر یہ ہے مگر معنی میں نہی کے ہے یہ تفسیر حضرت عطاء طائوس سالم اور حضرت محمد باقر رحمتہ اللہ تعالیٰ سے منقول ہے۔ ( روح المعانی ملخصاً ) مطلب یہ ہے کہ قرآن کو چھونے کے لئے حدث اصغر اور اکبر نیز ظاہر نجاست سے بھی ہاتھ کا پاک ہونا ضروری ہے، قرطبی نے اسی تفسیر کو اظہر کہا ہے، تفسیر مظہری میں اسی کی ترجیح پر زور دیا ہے۔
فاروق اعظم کے اسلام لانے کے واقعہ میں جو مذکور ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کو قرآن پڑھتے ہوئے پایا تو قرآن کے اوراق کو دیکھنا چاہا ان کی بہن نے یہی آیت پڑھ کر اوراق حضرت عمر (رض) کے ہاتھ میں دینے سے انکار کردیا کہ اس کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا، فاروق اعظم نے مجبور ہو کر اول غسل کیا، پھر یہ اوراق ان کے ہاتھ میں دیئے گئے اسو اقعہ سے بھی اسی تفسیر کی ترجیح ثابت ہولی ہے، روایت حدیث جن میں غیر طاہر کو قرآن کے چھونے سے منع کیا گیا ہے ان روایات کو بھی بعض حضرات نے اس آخری تفسیر کی ترجیح کے لئے پیش کیا ہے۔
مگر چونکہ اس مسئلہ میں حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت انس (رض) وغیرہ کا اختلاف ہے اس لئے بہت سے حضرات نے بےوضو قرآن کو ہاتھ لگانے کی ممانعت کے مسئلہ میں آیت مذکورہ سے استدلال چھوڑ کر صرف روایات حدیث کو پیش کیا ہے وہ احادیث یہ ہیں :
امام مالک نے مئوطا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ مکتوب گرامی نقل کیا ہے جو خط آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھا تھا جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے لایمس القرآن الا الطاھر (ابن کثیر) یعنی قرآن کو وہ شخص نہ چھوئے جو طاہر نہ ہو اور روح المعانی میں یہ روایت مسند عبدالرزاق، ابن ابی دائود اور ابن المنذر سے بھی نقل کی ہے اور طبرانی میں ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لایمس القرآن الا طاھر
مذکورہ روایت کی بناء پر جمہور امت اور ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کو ہاتھ لگان یکے لئے طہارت ضروری ہے اور ظاہری نجاست سے ہاتھ کا پاک صاف ہونا بھی ضروری ہے، حضرت علی، ابن مسعود، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید (رض) اور زہری نجخعی حکم حماد امام مالک شافعی ابوحنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ سب کا یہی مسلک ہے اوپر جو اختلاف نقل کیا گیا ہے وہ صرف اس بات میں ہے کہ یہ مسئلہ جو احادیث مذکورہ سے ثابت ہے اور جمہور امت کے نزدیک مسلم ہے کیا یہ بات قرآن کی آیت مذکورہ سے بھی ثابت ہے یا نہیں، بعض حضرات نے ان احادیث اور آیت مذکورہ کا مفہوم ایک قرار دی ہے دوسرے حضرات نے آیت کو استدلال میں پیش کرنے سے بوجہ اختلاف صحابہ احتیاط کی ہے اس لئے کہ اختلاف مسئلہ میں نہیں بلکہ اس کی دلیل ہے۔
مسئلہ :۔ قرآن کا غلاف جس کو چولی کہتے ہیں جو قرآن کے ساتھ سلی ہوتی ہے وہ بھی قرآن کے حکم میں ہے اس کے ساتھ بھی قرآن کو بےوضو ہاتھ لگانا رست نہیں، البتہ جزدان جس میں قرآن کو رکھیت ہیں اگر قرآن اس میں رکھا ہو تو اس کو بلا وضو چھونا جائز ہے، مگر امام مالک رحمتہ اللہ تعالیٰ اور امام شافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بھی جائز نہیں ہے۔ (مظہری)
مسئلہ :۔ جو کپڑا آدمی پہنا ہوا ہے اس کی آستین یا دامن سے قرآن کو بلا وضو چھونا بھی جائز نہیں ال بتہ علیحدہ رومال یا چادر یا ٹوپی وغیرہ سے چھونا جائز ہے۔ (مظہری)
10 Tafsir as-Saadi
﴿لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ﴾ ’’اسے صرف پاک (فرشتے) ہی چھوتے ہیں۔‘‘ یعنی قرآن کریم کو صرف ملائکہ کرام ہی چھوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام آفات، گناہوں اور عیوب سے پاک کیا ہے۔ جب قرآن کو پاک ہستیوں کے سوا کوئی نہیں چھوتا اور ناپاک اور شیاطین اس کو چھو نہیں سکتے تو آیت کریمہ تنبیہا اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ پاک شخص کے سوا کسی کے لیے قرآن کو چھونا جائز نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
iss ko wohi log chootay hain jo khoob pak hain ,