المجادلہ آية ۱
قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِىْ تُجَادِلُكَ فِىْ زَوْجِهَا وَ تَشْتَكِىْۤ اِلَى اللّٰهِ ۖ وَاللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۗ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ ۢ بَصِيْرٌ
طاہر القادری:
بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ سے فریاد کر رہی تھی، اور اللہ آپ دونوں کے باہمی سوال و جواب سن رہا تھا، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے،
English Sahih:
Certainly has Allah heard the speech of the one who argues [i.e., pleads] with you, [O Muhammad], concerning her husband and directs her complaint to Allah. And Allah hears your dialogue; indeed, Allah is Hearing and Seeing.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ نے سن لی اُس عورت کی بات جو ا پنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک اللہ نے سنی اس کی بات جو تم سے اپنے شوہر کے معاملہ میں بحث کرتی ہے اور اللہ سے شکایت کرتی ہے، اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، بیشک اللہ سنتا دیکھتا ہے،
3 Ahmed Ali
بے شک الله نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو آپ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑتی تھی اور الله کی جناب میں شکایت کرتی تھی اور الله تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا بے شک الله سب کچھ سننے والا دیکھنے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
یقیناً اللہ تعالٰی نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالٰی تم دونوں کے سوال جواب سن رہا تھا (١) بیشک اللہ تعالٰی سننے دیکھنے والا ہے۔
۱۔۱ یہ اشارہ ہے حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کی طرف جن کے خاوند حضرت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان سے ظہار کرلیا تھا ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا حضرت خولہ رضی اللہ عنہا سخت پریشان ہوئیں اس وقت تک اس کی بابت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کچھ توقف فرمایا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث وتکرار کرتی رہیں جس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں مسئلہ ظہار اور اس کا حکم و کفارہ بیان فرمادیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالٰی کس طرح لوگوں کی باتیں سننے والا ہے کہ یہ عورت گھر کے ایک کونے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مجادلہ کرتی اور اپنے خاوند کی شکایت کرتی رہی مگر میں اس کی باتیں نہیں سنتی تھی لیکن اللہ نے آسمانوں پر سے اس کی بات سن لی، سنن ابن ماجہ المقدمہ۔ صحیح بخاری میں بھی تعلیقا اس کا مختصر ذکر ہے۔ کتاب التوحید۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے پیغمبر) جو عورت تم سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث جدال کرتی اور خدا سے شکایت (رنج وملال) کرتی تھی۔ خدا نے اس کی التجا سن لی اور خدا تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا سنتا دیکھتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بےشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ(ص) سے بحث و تکرار کررہی ہے اور اللہ سے شکوہ و شکایت کر رہی ہے اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے بےشک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تم سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث کررہی تھی اور اللہ سے فریاد کررہی تھی اور اللہ تم دونوں کی باتیں سن رہا تھا کہ وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے پیغبر) جو عورت تم سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث وجدال کرتی اور خدا سے شکایت (رنج وملال) کرتی تھی خدا نے اس کی التجا سن لی۔ اور خدا تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا کچھ شک نہیں کہ خدا سنتا دیکھتا ہے
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے، اے نبی یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی، جو آپ سے اپنے ظہار کرنے والے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اس کے شوہر نے اس سے کہا تھا انت علی کظھر امی تو میرے لئے میری ماں کی پیٹ کے مانند (حرام) ہے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس عورت نے اس بارے میں دریافت کیا تھا، تو آپ نے اس کو عرف کے مطابق جواب دیا کہ وہ (تو) اس پر حرام ہوگئی جیسا کہ ان کے یہاں یہ دستور تھا کہ ظہار دائمی فرقت کا موجب مانا جاتا تھا، اور وہ خولہ بنت ثعلبہ تھی اور اس کے شوہر اوس بن صامت تھے اور اللہ سے اپنی تنہائی کی اور اپنے فاقہ کی اور چھوٹے بچوں کی شکایت کر رہی تھی اگر ان بچوں کو اپنے شوہر کو دیتی ہے تو ضائع ہونے کا خطرہ ہے اور اگر اپنے ساتھ رکھتی ہے تو بھوکے مرنے کا اندیشہ ہے اور اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال و جواب سن رہا تھا، بیشک اللہ سننے دیکھنے والا ہے، تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (یظھرون) کی اصل یتظھرون تھی، تاکو ظاء میں ادغام کردیا گیا اور ایک قرأت میں ظا اور ہاء خفیفہ کے درمیان الف کے ساتھ ہے اور دوسری قرأت میں (یظاھرون) یقاتلون کے وزن پر ہے اور دیگر جگہ بھی ایسا ہی ہے، وہ دراصل ان کی مائیں نہیں بن جاتیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے ہیں (الائی) ہمزہ اور ریاء اور بغیر یاء کے ہے اور وہ لوگ ظہار کر کے ایک نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ مظاہر کو کفارہ کے ذریعہ بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے اور وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں پھر ظہار میں اپنے قول سے رجوع کرنا چاہتے ہیں یعنیظہار کے بارے میں کہی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہتے ہیں، بایں طور کہ اپنی کہی ہوئی بات کا خلاف کرنا چاہت یہیں مظاہر منہابیویوں کو روک کر جو ظہار کے مقصد کے خلاف ہے اور وہ (مقصد) بیوی کو وصف حرمت سے متصف کرنا ہے تو اس پر بیوی کو ہاتھ لگانے (جماع) سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے اس (حکم کفارہ) سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے ہاں جو شخص غلام نہ پائے تو اختلاط کرنے سے پہلے لگاتار دو مہینے کے روزے رکھتا رہے اور جو شخص روزہ بھی نہ رکھ سکے تو اس پر اختلاط سے پہلے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے مطلق کو مقید پر محمول کرتے ہوئے ہر مسکین کو ایک مدشہر کی غالب خوراک کے اعتبار سے اور کفارہ میں یہ سہولت اس لئے ہے کہ تم اللہ اور رسول پر ایمان لے آئو اور یہ یعنی مذکورہ احکام اللہ کی بیان کردہ حدود ہیں اور ان احکام کے منکر کے لئے درد ناک عذاب ہے بلاشبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ذلیل کئے جائیں گے جیسے ان سے پہلے کے لوگ اپنے رسولوں کی مخالفت کی وجہ سے ذلیل کئے گئے تھے اور بیشک ہم واضح آیتیں نازل کرچکے ہیں جو رسول کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں اور ان آیتوں کے انکار کرنے والوں کے لئے اہانت والا عذاب ہے جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو اٹھائے گا پھر ان کو ان کے کئے ہوئے اعمال سے آگاہ کر دے گا جنہیں اللہ نے شمار رکھا ہے اور جنہیں یہ بھول گئے تھے اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
سورة مجادلہ تعداد سورت کے اعتبار سے نصف ثانی کی پہلی سورت ہے، قرآن میں کل 114 سورتیں ہیں، یہ اٹھاونویں سورت ہے، اس سورت کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کی کوئی سطر اس بات سے خالی نہیں کہ اس میں اللہ کا لفظ، ایک یا دو یا تین مرتبہ مذکورہ نہ ہوا بلکہ 35 مرتبہ لفظ اللہ اس سورت میں مذکور ہوا ہے۔
قولہ :۔ قد سمع اللہ ای اجاب اللہ، قد تحقیق کے لئے ہے۔
قولہ :۔ فی زوجھا ای فی شان زوجھا
قولہ :۔ لما قالوا ای لقولھم مامصدریہ ہے۔
قولہ :۔ فتحریر رقبۃ ای اعتافھا علیہ ای اعتافھا تحریر رقبۃ کی تفسیر، بیان معنی کے لئے ہے تحریر رقبۃ یہ ترکیب اضافی مبتداء ہے اور علیہ اس کی خبر ہے، بہتر ہوتا کہ مفسر علامہ علیہ کے بجائے علیھم فرماتے، اس لئے کہ یہ جملہ ہو کہ والذین یظھرون کی خبر ہے، مبتداء جمع ہے لہٰذا خبر کا بھی جمع ہونا ضروری ہے، فتحریر رقبۃ پر فاء، اس لئے داخل ہے کہ مبتداء متضمن بمعنی شرط ہے۔
قولہ :۔ بالوطی ان یتماسا کی تفسیر، وطی سے امام شافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ کے مسلک کے مطابق ہے، امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ ک نزدیک دواعی وطی بھی وطی کے حکم میں ہیں۔
قولہ :۔ حملاً للمطلق علی المقید یہ تفسیر امام شافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ کے مسلم کے مطابق ہے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح غلام آزاد کرنا اور روزے رکھنا جماع سے پہلے ضروری ہیں، اسی طرح اطعام بھی جماع سے پہلے ہی ہونا چاہیے، اطعام میں اگرچہ قبل ان یتماسا کی قید نہیں ہے مگر اس کو بھی تحریر رقبۃ اور صیام شھرین پر قیاس کرتے ہوئے قبل ان یتماسا کی قید کے ساتھ مقید کریں گے۔
قولہ :۔ لکل مسکین مدمن غالب قوت البلد یہ تفسیر بھی امام شافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ کے مسلک کے مطابق ہے اس لئے کہ ان کے یہاں ہر مسکین کو ایک مدد دینا ضروری ہے، خواہ گندم ہو یا جو یا تمر وغیرہ، امام صاحب کے نزدیک گندم اگر ہو تو نصف صاع ہے اور جو وغیرہ ایک صاع ہے۔
قولہ :۔ ای التخفیف فی الکفارۃ کفارہ ظہار میں جو تین چیزوں کے درمیان اختیار دیا گیا ہے یہ بھی ایک قسم کی تخفیف اور سہولت ہے اس لئے کہ اگر ایک ہی چیز متعین کردی جاتی تو زحمت کا باعث ہوسکتی تھی۔
قولہ :۔ کبوا یقینی الوقوع ہونے کی وجہ سے ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول :
اس سورت کی ابتدائی آیات کے نزول کا سبب ایک واقعہ ہے، احادیث کی روشنی میں واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے، یہ خاتون جن کے معاملہ میں اس سورت کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں ہیں قبیلہ خزرج کی خولہ بنت ثعلبہ تھیں اور ان کے شوہر اوس بن صامت انصاری قبیلہ اوس کے سردار عبادہ بن صامت کے بھائی تھے، اس واقعہ کی تفصیل میں اگرچہ فروعی اختلاف بہت ہیں مگر قانونی اور اصولی باتوں میں اتفاق ہے، خلاصہ ان روایات کا یہ ہے کہ حضرت اوس بن صامت بڑھاپے میں کچھ چڑچڑے سے ہوگئے تھے اور بعض روایات کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر کچھ جنون کی سی لٹک پیدا ہوگئی تھی، جس کے لئے راویوں نے کان بہ لمم کے الفاظ استعمال کئے ہیں، لمم کے معنی دیوانگی کے نہیں بلکہ اسی طرح کی کیفیت کو کہتے ہیں جس کو اردو زبان میں غصہ میں پاگل ہوجانا کہتے ہیں، حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کے مطابق اسلام میں ظہار کا یہ پہلا واقعہ ہے، اس واقعہ کی وجہ صاحب جمل اور صاوی نے کچھ اس طرح بیان کی ہے، ایک روز اوس بن صامت گھر میں داخل ہوئے ان کی بیوی نماز پڑھ رہی تھیں اور تھیں شکیل و جمیل اور متناسب الاعضاء حضرت اوس نے جب ان کو سجدہ میں دیکھا اور ان کے پچھونڈے پر نظر پڑی تو ان کو اس صورت حال نے تعجب میں ڈال دیا، جب حضرت خولہ نماز سے فارغ ہوگئیں تو ان سے حضرت اوس نے جماع کی خاہش ظاہر کی حضرت خولہ نے انکار کردیا جس پر حضرت اوس کو غصہ آگیا، اور غصہ کی حالت میں ان کے منہ سے انت علی کظھر امی کے الفاظ نکل گئے، اس مسئلہ کا حکم معلوم کرنے کے لئے حضرت خولہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور سارا قصہ آپ سے بیان کیا اس وقت تک اس خاص مسئلہ کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی اس لئے آپ نے قول مشہور اور سابق دستور کے موافق ان سے فرمایا ما اراک الا قد حرمت علیہ یعنی میری رائے میں تم اپنے شوہر پر حرام ہوگئیں، وہ یہ سن کروا ویلا کرنے لگیں کہ میری پوری جوانی اس شوہر کی خدمت میں ختم ہوگئی، اب بڑھاپے میں انہوں نے مجھ سے یہ معاملہ کیا، اب میں کہاں جائوں میرا اور میرے بچوں کا گذرا کیسے ہوگا ؟ بار بار انہوں نے حضور سے عرض کیا کہ انہوں نے طلاق کے الفاظ کے الفاظ تو نہیں کہے ہیں تو پھر طلاق کیسے پڑگئی، آپ کوئی صورت ایسی بتائیں جس سے میں اور میرے بچے اور بوڑھے شوہر کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے، مگر ہر مرتبہ حضور اس کو وہی جواب دیتے تھے، ایک روایت میں ہے کہ خولہ (رض) نے اللہ سے فریاد کی اللھم اشکو الیک ” اے میرے اللہ میں تجھ ہی سے فریاد کرتی ہوں “ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے خولہ (رض) سے فرمایا ما امرت فی شانک بشیء حتی الآن ان تمام روایتوں میں کوئی تعارض نہیں، سب ہی اقوام صحیح ہوسکتے ہیں، حضرت خولہ نے بار بار اپنی بات دہرائی اور کوئی صورت نکالنے پر اصرار کیا، اسی کو قرآن کریم میں تجادل کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے حضرت خولہ اصرار کرتی رہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی جواب دیتے رہے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سرمبارک دھو رہی تھی اور خولہ (رض) اپنی بات دہرا رہی تھیں، آخر مجھے کہنا پڑا کہ کلام کو مختصر کرو، اتنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کے نزول کی کیفیت طاری ہوگئی اور سورت کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا اور ایک روایت میں ہے کہ ان کے شوہر کو بلا کر فرمایا کہ ایک غلام آزاد کرنا ہوگا، انہوں نے اس سے معذوری ظاہر کی تو فرمایا دو مہینے کے لگاتار روزے رکھو، انہوں نے عرض کیا اوس کا حال تو یہ ہے کہ دن میں اگر دو تین مرتبہ کھائے پیے نہیں تو اس کی بینائی جواب دینے لگتی ہے، آپ نے فرمایا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا، انہوں نے کہا وہ اتنی قدرت نہیں رکھتے الایہ کہ آپ مدد فرمائیں آپ نے ان کو کچھ غلہ عطا فرمایا اور دوسرے لوگوں نے بھی کچھ جمع کردیا، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے بیت المال سے ان کی مدد فرمائی، اسطرح فطرہ کی مقدار دے کر کفارہ ادا کیا گیا۔ (مظھری، معارف، فتح القدیر، شوکانی)
مسئلہ ظہار سے تین اصولی بنیادیں مستنبط ہوتی ہیں :
(١) ایک یہ کہ ظہار سے نکاح نہیں ٹوٹتا، بلکہ عورت بدستور شوہر کی بیوی رہتی ہے۔ (٢) دوسرے یہ کہ بیوی شوہر کے لئے وقتی طور پر حرام ہوتی ہے۔ (٣) تیسرے یہ کہ یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک کہ شوہر کفارہ ادا نہ کر دے اور یہ کہ صرف کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کرسکتا ہے۔
ظہار کی تعریف اور اس کا شرعی حکم :
اصطلاح شرع میں ظہار کی تعریف یہ ہے کہ اپنی بیوی کو اپنی محرمات ابدیہ مثلاً ماں، بہن، بیٹی وغیرہ کے کسی ایسے عضو سے تشبیہ دینا کہ جس کو دیکھنا اس کے لئے جائز نہیں، ماں کی پشت بھی اسی کی مثال ہے، زمانہ جاہلیت میں یہ لفظ دائمی حرمت کے لئے بولا جاتا تھا، اور طلاق کے لفظ سے بھی زیادہ ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا کیونکہ طلاق کے بعد تو رجعت یا نکاح جدید ہو کر پھر بیوی بن سکتی ہے مگر ظہار کی صورت میں رسم جاہلیت کے مطابق ان کے آپس میں میاں بیوی ہو کر رہنے کی قطعی کوئی صورت نہیں تھی۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ آیات کریمہ انصار میں سے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئیں، جب اس نے اپنی بیوی کو طویل مصاحبت اور اولاد ہونے کے بعد اپنے آپ پر حرام قرار دے لی،ا تو اس کی بیوی نے اللہ تعالیٰ کے پاس شکایت کی اور اس کے خلاف مقدمہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔وہ ایک بوڑھا شخص تھا ۔اس خاتون نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے حال اور اس شخص کے حال کے بارے میں شکوہ کیا اور بار بار کیا اور جرأت کے ساتھ اس کا اعادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْـتَکِیْٓ اِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا ﴾(”اے پیغمبر!) جو عورت آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث وجدال کرتی اور اللہ سے شکایت کرتی تھی ،اللہ نے اس کی التجا سن لی اور اللہ تم دونوں کی بات چیت کو سن رہا تھا۔“ ﴿ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ تمام اوقات میں مخلوق کی مختلف حاجتوں کے باوجود تمام آوازوں کو سننے والا ہے ﴿بَصِیْرٌ﴾ جو اندھیری رات میں سیاہ پتھر پر رینگتی ہوئی سیاہ چیونٹی کو بھی دیکھتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کامل سمع وبصرکی خبر ہے ،نیز تمام چھوٹے بڑے امور پر اس کے سمع وبصر کے احاطہ کی خبر ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عورت کی شکایت اور مصیبت کا ازالہ کرے گا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر اس عورت اور دیگر عورتوں کے بارے میں حکم بیان فرمایا۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) Allah ney uss aurat ki baat sunn li hai jo tum say apney shohar kay baaray mein behas ker rahi hai , aur Allah say fariyad kerti jati hai . aur Allah tum dono ki guftoogo sunn raha hai . yaqeenan Allah sabb kuch sunney dekhney wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات حمد وثناء کے لائق ہے جس کے سننے نے تمام آوازوں کو گھیر رکھا ہے، یہ شکایت کرنے والی خاتون آکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح چپکے چپکے باتیں کر رہی تھیں کہ باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میں مطلقاً نہ سن سکی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے اس پوشیدہ آواز کو بھی سن لیا اور یہ آیت اتری (بخاری و مسند وغیرہ) اور روایت میں آپ کا یہ فرمان اس طرح منقول ہے کہ بابرکت ہے وہ الہ جو ہر اونچی نیچی آواز کو سنتا ہے، یہ شکایت کرنے والی بی بی صاحبہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ (رض) جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو اس طرح سرگوشیاں کر رہی تھیں کہ کوئی لفظ تو کان تک پہنچ جاتا تھا ورنہ اکثر باتیں باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میرے کانوں تک نہیں پہنچتی تھیں۔ اپنے میاں کی شکایت کرتے ہوئے فرمایا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری جوانی تو ان کے ساتھ کٹی بچے ان سے ہوئے اب جبکہ میں بڑھیا ہوگئی بچے پیدا کرنے کے قابل نہ رہی تو میرے میاں نے مجھ سے ظہار کرلیا، اے اللہ میں تیرے سامنے اپنے اس دکھڑے کا رونا روتی ہوں، ابھی یہ بی بی صاحبہ گھر سے باہر نہیں نکلی تھیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) یہ آیت لے کر اترے، ان کے خاوند کا نام حضرت اوس بن صامت (رض) تھا (ابن ابی حاتم) انہیں بھی کچھ جنون سا ہوجاتا تھا اس حالت میں اپنی بیوی صاحبہ سے ظہار کرلیتے پھر جب اچھے ہوجاتے تو گویا کچھ کہا ہی نہ تھا، یہ بی بی صاحبہ حضور سے فتویٰ پوچھنے اور اللہ کے سامنے اپنی التجا بیان کرنے کو آئیں جس پر یہ آیت اتری۔ حضرت یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) اپنی خلافت کے زمانے میں اور لوگوں کے ساتھ جا رہے تھے کہ ایک عورت نے آواز دے کر ٹھہرالیا، حضرت عمر فوراً ٹھہر گئے اور ان کے پاس جاکر توجہ اور ادب سے سر جھکائے ان کی باتیں سننے لگے، جب وہ اپنی فرمائش کی تعمیل کراچکیں اور خود لوٹ گئیں تب امیرالمومنین (رض) بھی واپس ہمارے پاس آئے، ایک شخص نے کہا امیرالمومنین ایک بڑھیا کے کہنے سے آپ رک گئے اور اتنے آدمیوں کو آپ کی وجہ سے اب تک رکنا پڑا، آپ نے فرمایا افسوس جانتے بھی ہو یہ کون تھیں ؟ اس نے کہا نہیں، فرمایا یہ وہ عورت ہیں جن کی شکایت اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر سنی یہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ ہیں اگر یہ آج صبح سے شام چھوڑ رات کردیتیں اور مجھ سے کچھ فرماتی رہتیں تو بھی میں ان کی خدمت سے نہ ٹلتا ہاں نماز کے وقت نماز ادا کرلیتا اور پھر کمربستہ خدمت کیلئے حاضر ہوجاتا (ابن ابی حاتم) اس کی سند منقطع ہے اور دوسرے طریق سے بھی مروی ہے، ایک روایت میں ہے کہ یہ خولہ بن صامت تھیں اور ان کی والدہ کا نام معاذہ تھا جن کے بارے میں آیت (وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا 33) 24 ۔ النور :33) ہوئی تھی، لیکن ٹھیک بات یہ ہے کہ حضرت خولہ اوس بن صامت کی بیوی تھیں، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو۔