Skip to main content

قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِىْ تُجَادِلُكَ فِىْ زَوْجِهَا وَ تَشْتَكِىْۤ اِلَى اللّٰهِ ۖ وَاللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۗ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ ۢ بَصِيْرٌ

Indeed
قَدْ
تحقیق
Allah has heard
سَمِعَ
سن لی
Allah has heard
ٱللَّهُ
اللہ نے
(the) speech
قَوْلَ
بات
(of) one who
ٱلَّتِى
اس عورت کی
disputes with you
تُجَٰدِلُكَ
جو جھگڑ رہی تھی تجھ سے
concerning
فِى
بارے میں
her husband
زَوْجِهَا
اپنے شوہر کے
and she directs her complaint
وَتَشْتَكِىٓ
اور شکایت کررہی تھی
to
إِلَى
سے
Allah
ٱللَّهِ
اللہ (سے)
And Allah
وَٱللَّهُ
اور اللہ
hears
يَسْمَعُ
سن رہا تھا
(the) dialogue of both of you
تَحَاوُرَكُمَآۚ
تم دونوں کی گفتگو کو
Indeed
إِنَّ
بیشک
Allah
ٱللَّهَ
اللہ تعالیٰ
(is) All-Hearer
سَمِيعٌۢ
سننے والا ہے
All-Seer
بَصِيرٌ
دیکھنے والا ہے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اللہ نے سن لی اُس عورت کی بات جو ا پنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے

English Sahih:

Certainly has Allah heard the speech of the one who argues [i.e., pleads] with you, [O Muhammad], concerning her husband and directs her complaint to Allah. And Allah hears your dialogue; indeed, Allah is Hearing and Seeing.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اللہ نے سن لی اُس عورت کی بات جو ا پنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

بیشک اللہ نے سنی اس کی بات جو تم سے اپنے شوہر کے معاملہ میں بحث کرتی ہے اور اللہ سے شکایت کرتی ہے، اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، بیشک اللہ سنتا دیکھتا ہے،

احمد علی Ahmed Ali

بے شک الله نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو آپ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑتی تھی اور الله کی جناب میں شکایت کرتی تھی اور الله تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا بے شک الله سب کچھ سننے والا دیکھنے والا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

یقیناً اللہ تعالٰی نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالٰی تم دونوں کے سوال جواب سن رہا تھا (١) بیشک اللہ تعالٰی سننے دیکھنے والا ہے۔

۱۔۱ یہ اشارہ ہے حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کی طرف جن کے خاوند حضرت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان سے ظہار کرلیا تھا ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا حضرت خولہ رضی اللہ عنہا سخت پریشان ہوئیں اس وقت تک اس کی بابت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کچھ توقف فرمایا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث وتکرار کرتی رہیں جس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں مسئلہ ظہار اور اس کا حکم و کفارہ بیان فرمادیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالٰی کس طرح لوگوں کی باتیں سننے والا ہے کہ یہ عورت گھر کے ایک کونے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مجادلہ کرتی اور اپنے خاوند کی شکایت کرتی رہی مگر میں اس کی باتیں نہیں سنتی تھی لیکن اللہ نے آسمانوں پر سے اس کی بات سن لی، سنن ابن ماجہ المقدمہ۔ صحیح بخاری میں بھی تعلیقا اس کا مختصر ذکر ہے۔ کتاب التوحید۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

(اے پیغمبر) جو عورت تم سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث جدال کرتی اور خدا سے شکایت (رنج وملال) کرتی تھی۔ خدا نے اس کی التجا سن لی اور خدا تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا سنتا دیکھتا ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے واﻻ ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

بےشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ(ص) سے بحث و تکرار کررہی ہے اور اللہ سے شکوہ و شکایت کر رہی ہے اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے بےشک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تم سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث کررہی تھی اور اللہ سے فریاد کررہی تھی اور اللہ تم دونوں کی باتیں سن رہا تھا کہ وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ سے فریاد کر رہی تھی، اور اللہ آپ دونوں کے باہمی سوال و جواب سن رہا تھا، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات حمد وثناء کے لائق ہے جس کے سننے نے تمام آوازوں کو گھیر رکھا ہے، یہ شکایت کرنے والی خاتون آکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح چپکے چپکے باتیں کر رہی تھیں کہ باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میں مطلقاً نہ سن سکی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے اس پوشیدہ آواز کو بھی سن لیا اور یہ آیت اتری (بخاری و مسند وغیرہ) اور روایت میں آپ کا یہ فرمان اس طرح منقول ہے کہ بابرکت ہے وہ الہ جو ہر اونچی نیچی آواز کو سنتا ہے، یہ شکایت کرنے والی بی بی صاحبہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ (رض) جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو اس طرح سرگوشیاں کر رہی تھیں کہ کوئی لفظ تو کان تک پہنچ جاتا تھا ورنہ اکثر باتیں باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میرے کانوں تک نہیں پہنچتی تھیں۔ اپنے میاں کی شکایت کرتے ہوئے فرمایا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری جوانی تو ان کے ساتھ کٹی بچے ان سے ہوئے اب جبکہ میں بڑھیا ہوگئی بچے پیدا کرنے کے قابل نہ رہی تو میرے میاں نے مجھ سے ظہار کرلیا، اے اللہ میں تیرے سامنے اپنے اس دکھڑے کا رونا روتی ہوں، ابھی یہ بی بی صاحبہ گھر سے باہر نہیں نکلی تھیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) یہ آیت لے کر اترے، ان کے خاوند کا نام حضرت اوس بن صامت (رض) تھا (ابن ابی حاتم) انہیں بھی کچھ جنون سا ہوجاتا تھا اس حالت میں اپنی بیوی صاحبہ سے ظہار کرلیتے پھر جب اچھے ہوجاتے تو گویا کچھ کہا ہی نہ تھا، یہ بی بی صاحبہ حضور سے فتویٰ پوچھنے اور اللہ کے سامنے اپنی التجا بیان کرنے کو آئیں جس پر یہ آیت اتری۔ حضرت یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) اپنی خلافت کے زمانے میں اور لوگوں کے ساتھ جا رہے تھے کہ ایک عورت نے آواز دے کر ٹھہرالیا، حضرت عمر فوراً ٹھہر گئے اور ان کے پاس جاکر توجہ اور ادب سے سر جھکائے ان کی باتیں سننے لگے، جب وہ اپنی فرمائش کی تعمیل کراچکیں اور خود لوٹ گئیں تب امیرالمومنین (رض) بھی واپس ہمارے پاس آئے، ایک شخص نے کہا امیرالمومنین ایک بڑھیا کے کہنے سے آپ رک گئے اور اتنے آدمیوں کو آپ کی وجہ سے اب تک رکنا پڑا، آپ نے فرمایا افسوس جانتے بھی ہو یہ کون تھیں ؟ اس نے کہا نہیں، فرمایا یہ وہ عورت ہیں جن کی شکایت اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر سنی یہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ ہیں اگر یہ آج صبح سے شام چھوڑ رات کردیتیں اور مجھ سے کچھ فرماتی رہتیں تو بھی میں ان کی خدمت سے نہ ٹلتا ہاں نماز کے وقت نماز ادا کرلیتا اور پھر کمربستہ خدمت کیلئے حاضر ہوجاتا (ابن ابی حاتم) اس کی سند منقطع ہے اور دوسرے طریق سے بھی مروی ہے، ایک روایت میں ہے کہ یہ خولہ بن صامت تھیں اور ان کی والدہ کا نام معاذہ تھا جن کے بارے میں آیت (وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا 33؀) 24 ۔ النور ;33) ہوئی تھی، لیکن ٹھیک بات یہ ہے کہ حضرت خولہ اوس بن صامت کی بیوی تھیں، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو۔