المجادلہ آية ۳
وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَاۤٮِٕهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّتَمَاۤسَّا ۗ ذٰ لِكُمْ تُوْعَظُوْنَ بِهٖ ۗ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ
طاہر القادری:
اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں پھر جو کہا ہے اس سے پلٹنا چاہیں تو ایک گردن (غلام یا باندی) کا آزاد کرنا لازم ہے قبل اِس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مَس کریں، تمہیں اس بات کی نصیحت کی جاتی ہے، اور اللہ اُن کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہو،
English Sahih:
And those who pronounce thihar from their wives and then [wish to] go back on what they said – then [there must be] the freeing of a slave before they touch one another. That is what you are admonished thereby; and Allah is Aware of what you do.
1 Abul A'ala Maududi
جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی اُس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی، تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، ایک غلام آزاد کرنا ہوگا اِس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور وہ جو اپنی بیبیوں کو اپنی ماں کی جگہ کہیں پھر وہی کرنا چاہیں جس پر اتنی بری بات کہہ چکے تو ان پر لازم ہے ایک بردہ آزاد کرنا قبل اس کے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں یہ ہے جو نصیحت تمہیں کی جاتی ہے، اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے،
3 Ahmed Ali
اور جو لوگ اپنی بیویوں سے اظہار کرتے ہیں پھر اس کہی ہوئی بات سے پھرنا چاہیں تو ایک غلام ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے آزاد کر دیں یہ اس کے لیے اس سے تمہیں نصیحت ہو اور الله جو کچھ تم کرتے ہو اس کی خبر رکھتا ہے
4 Ahsanul Bayan
جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرلیں (١) تو ان کے ذمے آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے (٢) ایک غلام آزاد کرنا ہے، اس کے ذریعے تم نصیحت کئے جاتے ہو اور اللہ تعالٰی تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔
٣۔١ اب اس حکم کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ رجوع کا مطلب، بیوی سے ہم بستری کرنا چاہیں۔
٣۔٢ یعنی ہم بستری سے پہلے وہ کفارہ ادا کریں ١۔ ایک غلام آزاد کرنا ٢۔ اس کی طاقت نہ ہو تو پے درپے دو مہینے کے روزے رکھنے پڑیں گے۔ عذر شرعی سے مراد بیماری یا سفر ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہر مسکین کو دو مد نصف صاع یعنی سوا کلو اور بعض کہتے ہیں ایک مد کافی ہے لیکن قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانا اس طرح کھلایا جائے کہ وہ شکم سیر ہوجائیں یا اتنی مقدار میں ان کو کھانا دیا جائے ایک مرتبہ ہی سب کو کھلانا بھی ضروری نہیں بلکہ متعدد اقساط میں یہ تعداد پوری کی جاسکتی ہے۔ فتح القدیر۔ تاہم یہ ضروری ہے جب تک یہ تعداد پوری نہ ہوجائے اس وقت تک بیوی سے ہم بستری جائز نہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھیں پھر اپنے قول سے رجوع کرلیں تو (ان کو) ہم بستر ہونے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا (ضروری) ہے۔ (مومنو) اس (حکم) سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے
6 Muhammad Junagarhi
جو لوگ اپنی بیویوں سے ﻇہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرلیں تو ان کے ذمہ آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے، اس کے ذریعہ تم نصیحت کیے جاتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں اور پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہیں تو قبل اس کے کہ باہمی ازدواجی تعلق قائم کریں (شوہر کو) ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ یہ بات ہے جس کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو لوگ تم میں سے اپنی عورتوں سے ظہار کریں اور پھر اپنی بات سے پلٹنا چاہیں انہیں چاہئے کہ عورت کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کریں کہ یہ خدا کی طرف سے تمہارے لئے نصیحت ہے اور خدا تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھیں پھر اپنے قول سے رجوع کرلیں تو (ان کو) ہم بستر ہونے سے بہلے ایک غلام آزاد کرنا (ضرور) ہے (مومنو) اس (حکم) سے تم کو نصحیت کی جاتی اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے
قاعدہ : والذین یطھرون من نسائھم ثم یعودون لما قالوا، لما قالوا میں لام، عن کے معنی میں ہے۔
مامصدریہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے قول سے رجوع کرتے ہیں، اس آیت سے یہ قاعدہ مستنبط ہوتا ہے کہ کفارہ کا وجوب بیوی کے ساتھ اختلاط حلال ہونے کی غرض سے ہے، بیوی کفارہ کے بغیر حلال نہ ہوگی، خود ظہارہ کفارہ کی علت نہیں، اسی سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا اور وہ اس سے اختلاط کا خواہشمند نہیں تو کفارہ لازم نہیں، البتہ بیوی کی حق تلفی ناجائز ہے، اگر وہ مطالبہ کرے تو کفارہ ادا کر کے اختلاط کرنا یا پھر طلاق دیکر آزاد کرنا واجب ہے، اگر یہ شوہر خود نہ کرے تو بیوی حاکم کی طرف مراجعت کر کے شوہر کو اس پر مجبور کرسکتی ہے۔ (معارف ملخصاً )
فتحریر رقبۃ (الآیۃ) کفارہ ظہار یہ ہے کہ ایک غلام یا لونڈی آزاد کر، اگر اس پر قدرت نہ ہو تو دو مہینے کے مسلسل روزے رکھے اگر کسی عذر شرعی کی وجہ سے اتنے روزے رکھنے پر قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے، کھانا کھلانے کے قائم مقام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو فی کس ایک فطرہ کی مقدار گندم یا اس کی قیمت دیدے، فطرہ کے گندم کی مقدار نصف صاع ہے، جس کا صحیح صحیح وزن ایک کلو چھ سو تینتیس گرام ہوتا ہے۔
مسائل :
مسئلہ : ظہار کرنے والے کے بارے میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ ظہار اسی شخص کا معتبر ہے جو عاقبل بالغ ہو اور بحالت ہوش و حواس ظہار کے الفاظ زبان سے ادا کرے، لہٰذا بچے اور پاگل اور سونے والے کا ظہار معتبر نہیں۔
مسئلہ : حالت نشہ میں ظہار کرنے والے کے متعلق ائمہ اربعہ سمیت فقہاء کی ایک بڑی اکثریت یہ کہتی ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی نشہ آور چیز جان بوجھ کر استعمال کی ہو تو اس کا ظہار اس کی طلاق کی طرح قانوناً صحیح مانا جائے گا، کیونکہ اس نے یہ حالت اپنے اوپر خود طاری کی ہے، البتہ اگر مرض کی وجہ سے اس نے کوئی دوا پی ہو اور اس سے نشہ لاحق ہوگیا اور نشہ کی حالت میں اس کے منہ سے ظہار یا طلاق کے الفاظ نکل گئے ہوں تو ان الفاظ کو نافذ نہیں کیا جائے گا، احناف اور شوافع اور حنابلہ کی رائے یہی ہے اور صحابہ کرام کا مسلک بھی یہی تھا، حضرت عثمان (رض) کی رائے اس کے خلاف تھی ان کے نزدیک حالت نشہ کی طلاق و ظہار معتبر نہیں، احناف میں سے امام طحاوی رحمتہ اللہ تعالیٰ اور امام کرخی رحمتہ اللہ تعالیٰ اسی قول کو ترجیح دیتے ہیں، امام شافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے، مالی کہ کے نزدیک ایسے نشہ کی حالت میں ظہار معتبر ہوگا جس میں آدمی بالکل بہک نہ گیا ہو بلکہ وہ مربوط اور مرتب کلام کر رہا ہو اور اسے یہ احساس ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ؟
مسئلہ : امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک ظہار اس شوہر کا معتبر ہے جو مسلمان ہو، ذمیوں پر ان احکام کا اطلاق نہیں ہوتا اس لئے کہ قرآن کریم میں الذین یظاھرون منکم کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں، جن میں خطاب مسلمانوں سے ہے اور تین قسم کے کفاروں میں سے ایک کفارہ قرآن میں روزہ بھی تجویز کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ یہ ذمیوں کے لئے نہیں ہوسکتا، امام شافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ اور امام احمد کے نزدیک یہ احکام ذمی اور مسلمان دونوں کے ظہار پر نافذ ہوں گے البتہ ذمی کے لئے روزہ نہیں ہے وہ یا غلام آزاد کرے یا مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
کیا مرد کی طرح عورت بھی ظہار کرسکتی ہے ؟
مثلاً اگر بیوی شوہر سے کہے تو میرے لئے میرے باپ کی طرح ہے یا میں تیرے لئے تیری ماں کی طرح ہوں تو کیا یہ بھی ظہار ہوگا ائمہ اربعہ فرماتے ہیں کہ یہ ظہار نہیں ہے، اس لئے کہ قرآن مجید نے صریح الفاظ میں یہ احکام صرف اس صورت کے لئے بیان کئے ہیں، جبکہ شوہر بیوی سے ظہار کرے الذین یظاھرون منکم نسائھم اور ظہار کرنے کے اختیارات اسی کو حاصل ہوسکتے ہیں جسے طلاق دینے کا اختیار ہے، یہی رائے سفیان ثوری اور اسحقٰ بن راہویہ وغیرہ کی ہے۔
امام ابویوسف رحمتہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ظہار تو نہیں ہے مگر اس سے عورت پر قسم کا کفارہ لازم آئے گا، کیونکہ عورت کا ایسے الفاظ کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے اپنے شوہر سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی ہے، امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مسلک ابن قدامہ نے نقل کیا ہے، امام اوزاعی کہتے ہیں کہ اگر شادی سے پہلے عورت نے یہ بات کہی ہو کہ میں اگر اس شخص سے شادی کروں تو وہ میرے لئے ایسا ہے جیسے میرا باپ، تو ظہار ہوگا اور اگر شادی کے بعد کہے تو قسم کے معنی میں ہوگا جس سے کفارہ یمیمن لازم آئے گا، بخلاف اس کے حسن بصری، زہری، ابراہیم نخی اور حسن بن زیاد لولوی کہتے ہیں کہ یہ ظہار ہے اور ایسا کہنے سے عورت پر کافرہ ظہار لازم آئے گا، البتہ عورت کو یہ حق نہ ہوگا کہ کفارہ دینے سے پہلے شوہر کو اپنے پاس آنے سے روک دے، ابراہیم نخعی اس کی تائید میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ (رض) کی صاحبزادی عائشہ کو حضرت زبیر کے صاحبزادے مصعب نے نکاح کا پیغام دیا، اس نے رد کرتے ہوئے یہ الفاظ کہہ دیئے کہ اگر میں ان سے نکاح کروں تو ھو علی کظھر ابی وہ میرے لئے ایسے ہیں جیسے میرے باپ کی پیٹھ، کچھ مدت کے بعد وہ ان سے شادی کرنے پر راضی ہوگئیں، مدینہ کے علماء سے اس کے متعلق فتویٰ لیا گیا تو بہت سے فقہاء نے جن میں متعدد صحابہ بھی شامل تھے یہ فتویٰ دیا کہ عائشہ پر کفارہ ظہار لازم ہے، اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد ابراہیم نخعی اپنی یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ اگر عائشہ یہ بات شادی کے بعد کہتیں تو کفارہ لازم نہ آتا، مگر انہوں نے شادی سے پہلے یہ کہا تھا جب انہیں نکاح کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل تھا، اس لئے کفارہ اس پر واجب ہوگیا۔
کفارہ ظہار ادا کرنے سے پہلے تعلق قائم کرنے کا حکم :
کفارہ ادا کرنے سے پہلے اگر شوہر نے زن و شہر کے تعلقات قائم کر لئے تو ائمہ اربعہ کے نزدیک اگرچہ یہ گناہ ہے اور آدمی کو اس پر استغفار کرنا چاہیے اور پھر اس کا عادہ نہ کرنا چاہیے مگر کفارہ اسے ایک ہی ادا کرنا ہوگا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جن لوگوں نے ایسا کیا تھا ان سے آپ نے یہ تو فرمایا تھا کہ استغفار کرو اور اس وقت تک بیوی سے الگ رہو جب تک کفارہ ادا نہ کرو مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں یہ حکم نہیں دیا تھا کہ کفارہ ظہار کے علاوہ کوئی اور کفارہ دینا ہوگا۔
بیوی کو کس کے ساتھ تشبیہ دینا ظہار ہے ؟
اس مسئلہ میں فقہاء کرام کے درمیان اختلاف ہے، عامر شعبی کہتے ہیں کہ صرف ماں سے تشبیہ دینا ظہار ہے اور ظاہر یہ کہتے ہیں کہ ماں کی بھی صرف پیٹھ کے ساتھ شبیہ دینا ظہار ہے، مگر فقہاء امت میں سے کسی نے بھی ان کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا، کیونکہ قرآن نے ماں سے تشبیہ کو گناہ قرار دینے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ نہایت بیہودہ اور جھوٹی بات ہے، اب یہ ظاہر ہے کہ جن عورتوں کی حرمت ماں جیسی ہے ان کے ساتھ تشبیہ دینا بیہودگی اور جھوٹ میں اس سے کچھ مختلف نہیں ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اس کا حکم وہی نہ ہو جو ماں سے تشبیہ دینے کا ہے۔
ظہار کے صریح اور غیر صریح الفاظ کیا ہیں ؟
حنفیہ کے نزدیک ظہار کے صریح الفاظ وہ ہیں جن میں صاف طور پر بیوی کو محرمات ابدیہ میں سے کسی کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہو یا تشبیہ ایسے عضو کے ساتھ دی گئی ہو کہ اس پر نظر ڈالنا حلال نہیں ہے، مثلاً یہ کہا ہو کہ تو میرے لئے میری ماں کے پیٹ یار ان کے جیسی ہے۔
مذکورہ مسائل کے مراجع اور مصادر :
(فقی حنفی) مدایہ، فتح القدیر، بدائع النائع، احکام القرآن للجصاص (فقہ مالکی) حاشیہ وسوقی علی الشرح الکبیر، بدایۃ المجتہد، احکام القرآن ابن عربی (فقہ شافعی) المنہاج للنووی، تفسیر کبیر، (فقہ حنبلی) المغنی لابن قدامہ (فقہ ظاہری) المحلی لابن حزم، الفقہ علی المذاہب الاربعہ
خولہ بنت ثعلبہ (رض) صحابہ کرام کی نظر میں :
ان صحابیہ کی فریاد کا بارگاہ الٰہی میں مسموع ہونا اور فرواً ہی ان کی فریاد درسی کے لئے فرمان مبارک نازل ہونا ایسا واقعہ تھا کہ جس کی وجہ سے صحابہ کرام میں ان کی ایک خاص قدر و منزلت تھی، ابن عبدالبر نے استیعاب میں قتادہ کی روایت نقل کی ہے کہ یہ خاتون راستہ میں ایک روز حضرت عمر (رض) کو ملیں، تو آپ نے ان کو سلام کیا یہ سلام کا جواب دینے کے بعد کہنے لگیں اوہو، اے عمر ! ایک وقت تھا جب میں نے تم کو بازار عکاظ میں دیکھا تھا، اس وقت تم عمیر کہلاتے تھے، لاٹھی ہاتھ میں لئے بکریاں چراتے پھرتے تھے، پھر کچھ زیادہ مدت نہ گذری تھی کہ تم عمر کہلانے لگے پھر ایک وقت آیا کہ تم امیر المومنین کہے جانے لگے، ذرا رعیت کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو، یاد رکھو جو اللہ کی وعید سے ڈرتا ہے اس کے لئے دور کا آدمی بھی رشتہ دار کی طرح ہوتا ہے اور جو موت سے ڈرتا ہے اس کے حق میں اندیشہ ہے کہ وہ اسی چیز کو کھو دے گا جسے وہ بچانا چاہتا ہے، اس پر جارودعبدی جو حضرت عمر کے ساتھ تھے، بولے، اے عورت تو نے امیر المومنین کے ساتھ بہت باتیں کرلیں، حضرت عمر نے فرمایا : انہیں کہنے دو ، جانتے بھی ہو یہ کون ہیں ؟ ان کی بات تو سات آسمانوں کے اوپر سنی گئی تھی، عمر کو تو بدرجہ اولیٰ سننی چاہیے، امام بخاری نے بھی اپنی تاریخ میں اختصار کے ساتھ اس سے ملتا جلتا قصہ نقل کیا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَالَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْ نِّسَایِٕہِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا﴾ ”اور جو اپنی بیویوں سے ظہار کربیٹھیں، پھر انہوں نے جو کہا اس سے رجوع کرلیں۔“ رجوع کرنے کے معنی میں اہل علم اختلاف کرتے ہیں، چنانچہ بعض کہتے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس عورت کے ساتھ ظہار کیا ہے اس کے ساتھ جماع کا عزم کیا جائے، مجرد عزم ہی سے ظہار کرنے والے پر مذکورہ کفارہ واجب ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفارے کے بارے میں ذکر فرمایا کہ یہ کفارہ (اس بیوی کو) چھونے سے قبل ہے اور یہ مجرد عزم ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کے معنی حقیقی جماع کے ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا﴾ ”پھر وہ اپنی بات سے رجوع کرلیں۔“ اور جو بات انہوں نے کہی وہ جماع (کوحرام کرنا)ہے ۔اور دونوں قولوں میں سے ہر ایک کے مطابق جب بھی رجوع کیا جائے گا توبیوی کو اپنے اوپر حرام کرلینے کا کفارہ ہوگا ۔﴿فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ﴾ ”تو ایک غلام آزاد کرنا ہے۔“ لیکن وہ مومن ہوجیسا کہ دوسری آیت میں کہا گیا ہ۔، مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ غلام یا لونڈی ان عیوب سے سلامت ہو جو کام کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ﴿ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّـتَـمَاسَّا ﴾ ”پہلے اس کے کہ وہ دونوں ہم بستری کریں۔“ یعنی شوہر پر لازم ہے کہ جب تک کہ وہ غلام آزاد کرکے کفارہ ادا نہ کرے اپنی اس بیوی سے جماع نہ کرے جس سے اس نے ظہار کیا ہے ﴿ ذَٰلِكُمْ ﴾ یعنی یہ حکم جو ہم نے تمہارے لیے بیان کیا ہے ﴿ تُوعَظُونَ بِهِ ﴾ ”اس کے ذریعے سے تم نصیحت کیے جاتے ہو۔“ یعنی وہ تمہارے سامنے ترہیب سے مقرون اپنا حکم بیان کرتا ہے کیونکہ وعظ کا معنی ترغیب وترہیب کے ساتھ حکم کا ذکر کرنا ہے، پس جو شخص ظہار کا ارادہ کرتا ہے پھر جب اسے یاد آتا ہے کہ غلام آزاد کرنا پڑے گا تو اس سے رک جاتا ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ ”اور اللہ ٰ تمہارےعملوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ “لہذا وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کی جزا وسزا دے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jo log apni biwiyon say zihar kertay hain , phir unhon ney jo kuch kaha hai , uss say rujoo kertay hain , to unn kay zimmay aik ghulam azad kerna hai , qabal iss kay kay woh ( miyan biwi ) aik doosray ko haath lagayen . yeh hai woh baat jiss ki tumhen naseehat ki jarahi hai , aur jo kuch tum kertay ho , Allah uss say poori tarah ba-khabar hai .