جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہیں اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنو المطّلب) کے لئے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہیں، (یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔ اور جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے،
English Sahih:
And what Allah restored to His Messenger from the people of the towns – it is for Allah and for the Messenger and for [his] near relatives and orphans and the needy and the [stranded] traveler – so that it will not be a perpetual distribution among the rich from among you. And whatever the Messenger has given you – take; and what he has forbidden you – refrain from. And fear Allah; indeed, Allah is severe in penalty.
1 Abul A'ala Maududi
جو کچھ بھی اللہ اِن بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
جو غنیمت دلائی اللہ نے اپنے رسول کو شہر والوں سے وہ اللہ اور رسول کی ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے کہ تمہارے اغنیا کا مال نہ جائے (ف۹۲۱ اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو، اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے
3 Ahmed Ali
جو مال الله نے اپنےرسول کو دیہات والوں سے مفت دلایا سو وہ الله اور رسول اور قرابت والوں اور یتمیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ تمہارے دولتمندوں میں نہ پھرتا رہے اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو اور الله سے ڈرو بیشک الله سخت عذاب دینے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالٰی تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالٰی سخت عذاب والا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ خدا کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔ سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وه اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ ره جائے اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
تو اللہ نے ان بستیوں والوں کی طرف سے جو مال بطور فئے اپنے رسول(ص) کو دلوایا ہے وہ بس اللہ کا ہے اور پیغمبر(ص) کا اور(رسول(ص) کے) قرابتداروں (ان کے) یتیموں اور (ان کے) مسکینوں اور مسافروں کا ہے تاکہ وہ مالِ فئے تمہارے دولتمندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور جو کچھ رسول(ص) تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ بےشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تو کچھ بھی اللہ نے اہل قریہ کی طرف سے اپنے رسول کو دلوایا ہے وہ سب اللہ ,رسول اور رسول کے قرابتدار, ایتام, مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ہے تاکہ سارا مال صرف مالداروں کے درمیان گھوم پھر کر نہ رہ جائے اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ خدا کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجت مندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے ما افآء اللہ علی رسولہ منھم (الآیۃ) افآء فی سے مشتق ہے جس کے معنی لوٹنے کے ہیں، اسی لئے زوال کے وقت کے سایہ کو فئی کہتے ہیں، اس لئے کہ زوال سے پہلے جو سایہ مغرب کی طرف تھا زوال کے بعد وہ سایہ مشرق کی طرف لوٹتا ہے، جو اموال غنیمت کفار سے حاصل ہوتے ہیں ان کی حقیقت یہ ہے کہ کفار کے باغی ہوجانے کی وجہ سے ان کے اموال بحق سرکار ضبط ہوجاتے ہیں اور ان کی ملکیت سے نکل کر پھر مالک حقیقی کی طرف لوٹ آتے ہیں، اس لئے ان کے حاصل ہونے کو افآء کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، اس کا تقاضا یہ تھا کہ کفار سے حاصل ہونے والے تمام قسم کے اموال کو فئی کہا جائے، مگر جو مال جہاد و قتال کے ذریعہ حاصل ہو اس میں انسانی عمل اور جدوجہد کو بھی ایک قسم کا دخل ہوتا ہے اس لئے اس کو لفظ غنیمت سے تعبیر فرمایا واعلموا انما غنمتم من شیء اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مال بغیر جہاد و قتال کے حاصل ہوا ہے وہ مجاہدین اور غانمین میں مال غنیمت کے قانون کے مطابق تقسیم نہیں ہوگا بلکہ اس کا کلی اختیار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ہوگا، جس کو جتنا چاہیں عطا فرما دیں یا اپنے لئے رکھیں، ال بتہ یہ پابندی عائد کردی گئی اور چند اقسام مستحقین کی متعین کردی گئیں کہ اس مال کی تقسیم ان ہی اقسام میں دائر رہنی چاہیے، اس کا بیان آئندہ آیت میں اس طرح فرمایا ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القریٰ اس میں اہل قریٰ سے مراد بنو نضیر اور ان جیسے دوسرے قبائل بنو قریظہ وغیرہ ہیں جن کے اموال بغیر قتال کے حاصل ہوئے، آگے مصارف و مستحقین کی پانچ قسمیں بیان فرمائی گئی ہیں جن کا بیان آگے آتا ہے۔ (معارف) آیات مذکورہ میں فئی کے احکام اس کے مستحقین اور ان میں تقسیم کا طریقہ کار بیان فرمایا ہے اوپر مال غنیمت اور مال فئی میں فرق کا بیان ہوچکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ غنیمت اس مال کو کہا جاتا ہے جو کفار سے جہاد و قتال کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے اور فئی وہ مال جو بغیر جہاد و قتال کے حاصل ہوا خواہ اس طرح کہ وہ اپنا مال چھوڑ کر بھاگ گئے ہوں یا رضا مندی سے بصورت جزیہ وخراج یا تجارتی ڈیوٹی وغیرہ کے ذریعہ ان سے حاصل ہوا ہو، مذکورہ فرق کو فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب سے ظاہر کیا گیا ہے، اونٹ اور گھوڑے دوڑانے سے مراد جنگی کا رروائی ہے لہٰذا جو مال براہ راست اس کارروائی سے ہاتھ آئے وہ غنیمت ہے اور جس مال کے حصول کا اصل سبب یہ کارروائی نہ ہو وہ مال فئی ہے۔ مذکورہ مسئلہ کی مزید وضاحت : مال غنیمت اور مال فئی کے درمیان اوپر فرق بیان کیا گیا ہے اس کو اور زیادہ کھول کر فقہائے اسلام نے اس طرح بیان کیا ہے کہ مال غنیمت صرف اموال منقولہ ہیں جو جنگی کارروائیوں کے دوران دشمن کے لشکروں سے حاصل ہوں اور اس کے ماسوا دشمن کے ملک کی زمینیں مکانتا اور دیگر اموال منقولہ و غیر منقولہ غنیمت کی تعریف سے خارج ہیں، اس تشریح کا ماخذ حضرت عمر (رض) کا وہ خط ہے جو انہوں نے سعد بن ابی وقاص کو فتح عراق کے بعد لکھا تھا، اس میں وہ فماتے ہیں فانظر ما اجلبوا بہ علیک فی العسکرمن کراع اومال فاقسمہ بین من حضر من المسلمین و اترک الارضین والانھار لعمالھا لیکون ذلک فی اعطیات المسلمین ” جو مال و متاع فوج کے لوگ تمہارے لشکر میں سمیٹ لائے ہیں اس کو ان مسلمانوں میں تقسیم کردو جو جنگ میں شریک تھے اور زمینیں اور نہریں ان لوگوں کے پاس چھوڑ دو جو ان پر کام کرتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی مسلمانوں کی تنخواہوں کے کام آئے۔ “ (کتاب الخراج لابی یوسف رحمتہ اللہ تعالیٰ ص ٢٤) اسی بنیاد پر حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ جو کچھ دشمن کے کیمپ سے ہاتھ آئے وہ ان کا حق ہے جنہوں نے اس پر فتح پائی اور زمین مسلمانوں کے لئے ہے، مال غنیمت میں پانچواں حصہ نکال کر باقی چار حصے فوج میں تقسیم کئے جائیں گے، یہ رائے یحییٰ بن آدم کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ” الخراج “ میں بیان فرمائی ہے اس سے بھی زیادہ جو چیز غنیمت اور فئی کے فرق کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ نہاوند کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہوچکا تھا اور مفتوجہ علاقہ اسلامی حکومت میں داخل ہوگیا تھا ایک صاحب سائب بن اقرع کو قلعہ میں جواہر کی دو تھیلیاں ملیں، ان کے دل میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ آیا یہ مال غنیمت ہے جسے فوج میں تقسیم کیا جائے یا اس کا شمار اب فئی میں ہے، جسے بیت المال میں جمع ہونا چاہیے ؟ آخر کار انہوں نے مدینہ حاضر ہو کر معاملہ حضرت عمر (رض) کے سامنے یش کیا، اور انہوں نے فیصلہ فرمایا کہ اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بیت المال میں داخل کردی جائے، اس سے معلوم ہوا کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو دوران جنگ کے ہاتھ آئیں، جنگ ختم ہونے کے بعد اموال غیر منقولہ کی طرح اموال منقولہ بھی فئی کے حکم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ مذکورہ آیت میں مستحقین کی تعداد چھ بتائی گئی ہے، جن میں ایک اللہ ہے، ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تو پوری کائنات کا مالک ہے اسے حصے کی کیا ضرورت ؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو یہ مال ملک تصرف کے طور پردے رکھا تھا جب انہوں نے غداری کی اور مالک حقیقی کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا تو اللہ نے اپنے وفادار بندوں کے ذریعہ یہ مال واپس اپنی ملکیت میں لے لیا، اسی وجہ سے اس کو مال فئی کہتے ہیں، اب اس میں سے جس کو بھی ملے گا، وہ کسی انسان کی جانب سے خیرات یا صدقہ نہیں ہوگا بلکہ وہ اللہ رب العالمین کی جانب سے نہایت پاکیزہ عطیہ ہوگا، یہی وجہ ہے کہ مال فئی میں سے بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کو بھی دیا جاتا تھا۔ اب مستحق اور مصارف کل پانچ رہ گئے 1 روسل 2 ذوی القربی 3 یتیم 4 مسکین 5 مسافر یہی پانچ مصارف مال غنیمت کے خمس کے ہیں، جس کا بیان سورة انفال میں آیا ہے اور یہی مصارف مال فئی کے ہیں، مال فئی کے بارے میں یہ بات پہلے مذکور ہوچکی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد اغنیاء ذوی القربیٰ کا حصہ ساقط ہوگیا، فقراء ذوی القربی کا حصہ آج بھی باقی ہے، یہ مسلک امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ ت عالیٰ کا ہے، امام شافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ اغنیاء ذوی القربیٰ کے حصہ کو آپ کی وفات کے بعد ساقط نہیں کرتے بلکہ جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ میں ان کا حصہ تھا آج بھی حصہ ہے، امام شافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ کی دلیل یہ بیان کی گئی کہ ذوی الرقبیٰ کو حصہ ان کے احترام و اکرام کے طور پر دیا جاتا تھا اس میں اغنیاء اور قراء سب شامل ہیں مثلاً حضرت عباس (رض) مالدار آدمی تھے مگر ان کو بھی مال فئی میں سے دیا جاتا تھا۔ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ذوی القربیٰ کو مال فئی سے دینے کے دو وجہ ہیں ایک نصرت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی اسلامی کاموں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرنا، اس لحاظ سے اغنیاء ذوی القربیٰ کو بھی حصہ دیا جاتا تھا، دوسرے یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذوبی القربیٰ پر مال صدقہ حرام کردیا گیا ہے، تو ان کے فقراء و مساکین کو صدقہ کے بدلہ میں مال فئی سے حصہ دیا جاتا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد نصرت و امداد کا سلسلہ ختم ہوگیا، تو یہ وجہ باقی نہ رہی اس لئے اغنیاء ذوی القربیٰ کا حصہ بھی روسل کے حصہ کی طرح ختمہو گیا البتہ فقراء ذوی القربیٰ کا حصہ بحیثیت فقر و احتیاج کے اس مال میں باقی رہا، ال بتہ وہ اس مال میں دوسرے فقراء و مساکین کے مقابلہ میں مقدم رکھے جائیں گے۔ (کذا فی الھدایہ) کیلایکون دولۃ بین الاغنیاء منکم، دولۃ دال کے ضمہ کے ساتھ اور ایک لغت فتحہ کے ساتھ بھی ہے دست گرداں (چرخہ) دال یدول دولاً (ن) گردش کرنا، دولت بھی چونکہ گردش کرتی ہے، آج اسکے پاس تو کل اس کے پاس، اس لئے اس کو دولت کہتے ہیں (لغات القرآن) آیت کا مطلب یہ ہے کہ مال فئی کے مستحقین اس لئے متعین کردیئے گئے ہیں تاکہ یہ مال مالداروں ہی کے درمیان گردش کرنے والی چیز نہ بن جائے۔ یہ آیت قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے، جس میں اسلامی معاشرہ اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں ہی میں گھومتا رہے، جس کے نتیجے میں امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں، قرآن مجید میں اس پالیسی کو صرف بیان کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اسی مقصد کے لئے سود، سٹہ، جواء، جو اکتساب مال کے ایسے ذرائع ہیں کہ ان کے ذریعہ دولت چند افراد کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے، ان سب کو سخت حرام قرار دیا ہے، اور زکوۃ فرض کی گئی ہے، اموال غنیمت میں سے خمس نکالنے کا حکم دیا گیا ہے جن سے، دولت کی معاشرے کے غریب طبقات تک رسائی ہو سکے، اخلاقی حیثیت سے بھی بخل کو سخت قابل مذمت اور فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ہے، خوشحال طبقوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے جسے خیرات سمجھ کر ادا کرنا چاہیے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اسلامی حکومت کے ذرائع آمدنی کی اہم ترین مدات دو ہیں، ایک زکوۃ اور دوسرے فئی ہی کے لئے مخصوص ہے اور فئی میں جزیہ اور خراج سمیت وہ تمام آمدنیاں شامل ہیں جو غیر مسلموں سے حاصل ہوتی ہیں اور ان کا بھی بڑا حصہ غریبوں ہی کے لئے مخصوص کیا گیا ہے، یہ اس طرف کھلا ہوا اشارہ ہے کہ اسلامی حکومت کو اپنی آمد و خرچ کا نظام اور تمام ملای اور معاشی معالمتا کا اتنظام اس طرح کرنا چاہیے کہ دولت کے ذرائع پر مالدار اور با اثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو اور نہ دولت مندوں کے درمیان گردش کرتی رہ جائے، کیسے بےبصیرت ہیں وہ لوگ جو اسلام جیسے منصفانہ اور عادلانہ اور حکیمانہ نظام کو چھوڑ کر نئے نئے ازموں کو اختیار کر کے امن عالم کو برباد کرتے ہیں ؟ ما اتکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا واتقوا اللہ (آلایۃ) یہ آیت اگرچہ مال فئی کے سلسلہ میں ائٓی ہے اور اس سلسلہ کے مناسب اس کا مفہوم یہ ہے کہ مال فئی میں اگرچہ مستحقین کے طبقات بیان کردیئے ہیں مگر ان میں کس کو کتنا دیں اس کی تعیین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر رکھی ہے اس لئے مسلمانوں کو اس آیت میں ہدایت دی گئی ہے کہ جس کو جتنا آپ عطا فرمائیں اسی کو راضی ہو کرلے لیں اور جو نہ دیں اس کی فکر میں نہ پڑیں، آگے اس کو اتقوا اللہ کے حکم سے مئوکد کردیا کہ اگر اس معاملہ میں کچھ غلط حیلے بہانے بنا کر زائد وصول کر بھی لیا تو اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے وہ اس کی سزا دے گا۔
10 Tafsir as-Saadi
فقہاء کی اصطلاح میں فے سے مراد وہ مال ہے جو حق کےساتھ کفار سے کسی جنگ کے بغیر حاصل کیا جائے،مثلا:وہ مال جسے کفار مسلمانوں کے خوف کی بنا پر چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔اس کو فےاس لیے کہا گیا ہے کہ یہ کفار کی طرف سے،جو اس مال کے مستحق نہ تھے،مسلمانوں کی طرف لوٹا ہے،جو اس پر زیادہ حق رکھتے تھے۔ مال فے کا حکم۔ فے کا حکم یہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا :﴿مَآ اَفَاءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰی﴾ ”جو مال اللہ نے بستی والوں سے اپنے رسول کو دلوایا ہے۔“ عمومی طور پر ،خواہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہو یا آپ کے بعد آپ کی امت میں سے اس شخص کا زمانہ ہو جو امارت کے منصب پر فائز ہو ﴿فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَـتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ﴾ ”تو وہ اللہ کے لیے ، اللہ کے رسول کے لیے اور (رسول کے )رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔“ یہ آیت کریمہ اس آیت کریمہ کی نظیر ہے جو سورۃ انفال میں مذکور ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ﴾( لانفال: 8؍41) ”اور جان رکھو! جو چیز تم غنیمت کے طور پر کفار سے حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے اور رسول کے لیے اور (اس کے) قرابت داروں، یتیموں ، مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔ “فے کا مال پانچ اصناف میں تقسیم ہوتا ہے: ١۔ پانچ حصوں میں سے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے جو مسلمانوں کے مصالح عامہ میں صرف ہوتا ہے۔ ٢۔ دوسرا حصہ ذوی القربیٰ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے داروں) کے لئے ہے اور ذوی القربی سے مراد بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب ہیں ،جہاں کہیں بھی ہوں، ان کے مردوں عورتوں میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔ بنوعبد المطلب خمس وغیرہ کے پانچویں حصے میں بنو ہاشم کے ساتھ شریک ہوں گے بقیہ بنو عبد مناف شریک نہیں ہوں گے کیونکہ جب قریش نے بنو ہاشم سے مقاطعت اور عداوت کا معاہدہ کیا تو بنو عبدالمطلب بنو ہاشم کے ساتھ شریک تھے اور دوسروں کے برعکس انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی ۔اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبدالمطلب کے بارے میں فرمایا :”وہ جاہلیت اور اسلام میں کبھی مجھ سے الگ نہیں ہوئے۔“(مسنداحمد:4؍81واصله فی صحیح البخاری،فرض الخمس ،باب ومن الدلیل علی ان الخمس للإمام،حدیث :3140) ٣۔ تیسرا حصہ محتاج یتیموں کے لیے ہے ۔یتیم وہ ہے جس کے باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ہو اور وہ ابھی بالغ نہ ہوا ہو۔ ٤۔ چوتھا حصہ مساکین کے لیے ہے۔ ٥۔ اور پانچواں (آخری) حصہ مسافروں کے لیے ہے ۔اس سے مراد وہ غریب الوطن لوگ ہیں جو اپنے وطن سے کٹ کر رہ گئے ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ حصے اس لئے مقرر فرمائے اور فے کو صرف انہی معین لوگوں میں محصور کردیا ﴿کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَاءِ مِنْکُمْ ﴾ ”تاکہ وہ( مال) تم میں سے دولت مند لوگوں کے ہاتھوں ہی میں گردش نہ کرتا رہے ۔“اور ان کے سوا عاجز اور بے بس لوگوں کو کچھ حاصل نہ ہو۔ اس میں اس قدر فساد ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی شریعت کی اتباع میں اتنی زیادہ مصلحتیں ہیں جو شمار سے باہر ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک قاعدہ کلیہ اور ایک عام اصول مقرر فرمایا :﴿وَمَآ اٰتٰیکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۤ وَمَا نَہٰیکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ﴾ ”رسول جو تمہیں دے ،وہ لے لو اور جس سے وہ تمہیں روک دے ،اس سے رک جاؤ۔ “یہ آیت کریمہ، دین کے اصول فروع اس کے ظاہر وباطن سب کو شامل ہے، نیز یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لے کرآئے ہیں، اس سے تمسک کرنا اور اس کی اتباع کرنا بندوں پر فرض ہے اور اس کی مخالفت کرنا جائز نہیں، نیز اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی چیز کے حکم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نص، اللہ تعالیٰ کی نص کے مانند ہے اور اس کو ترک کرنے میں کسی کے لیے کوئی رخصت اور عذر نہیں اور کسی کے قول کو آپ کے قول پر مقدم رکھنا جائز نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تقوے کا حکم دیا جس سے دنیا وآخرت میں قلب وروح معمور ہوتی ہے ،تقوے ہی میں دائمی سعادت اور فوز عظیم ہے، تقوٰی کو ضائع کرنے میں ابدی بدبختی اور سرمدی عذاب ہے، چنانچہ فرمایا :﴿وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ ”اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ “جو کوئی تقوے کو ترک کرکے، خواہشات نفس کی پیروی کو ترجیح دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سخت عذاب دینے والا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah apney Rasool ko ( doosri ) bastiyon say jo maal bhi fey kay tor per dilwa dey , to woh Allah ka haq hai , aur uss kay Rasool ka , aur qraabat daaron ka , aur yateemon , miskeeno aur musfiron ka , takay woh maal sirf unhi kay darmiyan gardish kerta naa reh jaye jo tum mein dolat mand log hain . aur Rasool tumhen jo kuch den , woh ley lo , aur jiss cheez say mana keren , uss say ruk jao , aur Allah say dartay raho . beyshak Allah sakht saza denay wala hai .