Skip to main content

لِلْفُقَرَاۤءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗۗ اُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚ

For the poor
لِلْفُقَرَآءِ
ان غریبوں کے لیے
emigrants
ٱلْمُهَٰجِرِينَ
مہاجرین
those who
ٱلَّذِينَ
وہ لوگ
were expelled
أُخْرِجُوا۟
جو نکالے گئے
from
مِن
سے
their homes
دِيَٰرِهِمْ
اپنے گھروں (سے)
and their properties
وَأَمْوَٰلِهِمْ
اور اپنے مالوں سے
seeking
يَبْتَغُونَ
وہ چاہتے ہیں
bounty
فَضْلًا
فضل
from
مِّنَ
سے
Allah
ٱللَّهِ
اللہ کی طرف سے
and pleasure
وَرِضْوَٰنًا
اور رضامندی
and helping
وَيَنصُرُونَ
اور وہ مدد کرتے ہیں
Allah
ٱللَّهَ
اللہ کی
and His Messenger
وَرَسُولَهُۥٓۚ
اور اس کے رسول کی
Those
أُو۟لَٰٓئِكَ
یہی لوگ
they
هُمُ
وہ
(are) the truthful
ٱلصَّٰدِقُونَ
جو سچے ہیں

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

(نیز وہ مال) اُن غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں یہی راستباز لوگ ہیں

English Sahih:

For the poor emigrants who were expelled from their homes and their properties, seeking bounty from Allah and [His] approval and supporting [the cause of] Allah and His Messenger, [there is also a share]. Those are the truthful.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

(نیز وہ مال) اُن غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں یہی راستباز لوگ ہیں

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

ان فقیر ہجرت کرنے والوں کے لیے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے اور اللہ و رسول کی مدد کرتے وہی سچے ہیں

احمد علی Ahmed Ali

وہ مال وطن چھوڑنے والے مفلسوں کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے الله کا فضل اس کی رضا مندی چاہتے ہیں اوروہ الله اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی سچے (مسلمان) ہیں

أحسن البيان Ahsanul Bayan

(فئ کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالٰی کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں (۱)۔

٨۔١ اس میں مال فیء کا ایک صحیح ترین مصرف بیان کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی مہاجرین کی فضیلت، ان کے اخلاص اور ان کی راست بازی کی وضاحت ہے، جس کے بعد ان کے ایمان میں شک کرنا، گویا قرآن کا انکار ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

(اور) ان مفلسان تارک الوطن کے لئے بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے خارج (اور جدا) کر دیئے گئے ہیں (اور) خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار اور خدا اور اس کے پیغمبر کے مددگار ہیں۔ یہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

(فیء کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وه اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

(نیز وہ مال) ان غریب مہاجروں کیلئے ہے جن کو اپنے گھروں اور مالوں سے نکال دیا گیا یہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول(ص) کی مدد کرتے ہیں اور یہی سچے لوگ ہیں۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

یہ مال ان مہاجر فقرائ کے لئے بھی ہے جنہیں ان کے گھروں اور اموال سے نکال باہر کردیا گیا ہے اور وہ صرف خدا کے فضل اور اس کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خدا و رسول کی مدد کرنے والے ہیں کہ یہی لوگ دعوائے ایمان میں سچے ہیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

(مذکورہ بالا مالِ فَے) نادار مہاجرین کے لئے (بھی) ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال (اور جائیدادوں) سے باہر نکال دیئے گئے ہیں، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضاء و خوشنودی چاہتے ہیں اور (اپنے مال و وطن کی قربانی سے) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ ہی سچے مؤمن ہیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

مال فے کے حقدار
اوپر بیان ہوا تھا کہ فے کا مال یعنی کافروں کا جو مال مسلمانوں کے قبضے میں میدان جنگ میں لڑے بھڑے بغیر آگیا ہو اس کے مالک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں پھر آپ یہ مال کسے دیں گے ؟ اس کا بیان ہو رہا ہے کہ اس کے حق دار وہ غریب مہاجر ہیں جنہوں نے اللہ کو رضامند کرنے کے لئے اپنی قوم کو ناراض کرلیا یہاں تک کہ انہیں اپنا وطن عزیز اور اپنے ہاتھ کا مشکلوں سے جمع کیا ہوا مال وغیرہ سب چھوڑ چھاڑ کر چل دینا پڑا، اللہ کے دین اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد میں برابر مشغول ہیں، اللہ کے فضل و خوشنودی کے متلاشی ہیں، یہی سچے لوگ ہیں جنہوں نے اپنا فعل اپنے قول کے مطابق کر دکھایا، یہ اوصاف سادات مہاجرین میں تھے (رض) ۔ پھر انصار کی مدح بیان ہو رہی ہے اور ان کی فضیلت شرافت کرم اور بزرگی کا اظہار ہو رہا ہے، ان کی کشادہ دلی، نیک نفسی، ایثار اور سخاوت کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے مہاجرین سے پہلے ہی دارالہجرت مدینہ میں اپنی بود و باش رکھی اور ایمان پر قیام رکھا، مہاجرین کے پہنچنے سے پہلے ہی یہ ایمان لا چکے تھے بلکہ بہت سے مہاجرین سے بھی پہلے یہ ایمان دار بن گئے تھے۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر یہ روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں اپنے بعد کے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ مہاجرین اولین کے حق ادا کرتا رہے، ان کی خاطر مدارت میں کمی نہ کرے اور میری وصیت ہے کہ انصار کے ساتھ بھی نیکی اور بھلائی کرے جنہوں نے مدینہ میں جگہ بنائی اور ایمان میں جگہ حاصل کی، ان کے بھلے لوگوں کی بھلائیاں قبول کرے اور ان کی خطاؤں سے درگذر اور چشم پوشی کرلے۔ ان کی شرافت طبعی ملاحظہ ہو کر جو بھی راہ اللہ میں ہجرت کر کے آئے یہ اپنے دل میں اسے گھر دیتے ہیں اور اپنا جان و مال ان پر سے نثار کرنا اپنا فخر جانتے ہیں، مسند احمد میں ہے کہ مہاجرین نے ایک مرتبہ کہا یا رسول اللہ ہم نے تو دنیا میں ان انصار جیسے لوگ نہیں دیکھے تھوڑے میں سے تھوڑا اور بہت میں سے بہت برابر ہمیں دے رہے ہیں، مدتوں سے ہمارا کل خرچ اٹھا رہے ہیں بلکہ ناز برداریاں کر رہے ہیں اور کبھی چہرے پر شکن بھی نہیں بلکہ خدمت کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں، دیتے ہیں اور احسان نہیں رکھتے کام کاج خود کریں اور کمائی ہمیں دیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں ہمارے اعمال کا سارا کا سارا اجر انہی کو نہ مل جائے۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں جب تک تم ان کی ثناء اور تعریف کرتے رہو گے اور ان کے لئے دعائیں مانگتے رہو گے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصاریوں کو بلا کر فرمایا کہ میں بحرین کا علاقہ تمہارے نام لکھ دیتا ہوں، انہوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تک آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اتنا ہی نہ دیں ہم اسے نہ لیں گے آپ نے فرمایا اچھا اگر نہیں لیتے تو دیکھو آئندہ بھی صبر کرتے رہنا میرے بعد ایسا وقت بھی آئے گا کہ اوروں کو دیا جائے گا اور تمہیں چھوڑ دیا جائے گا، صحیح بخاری شریف کی اور حدیث میں ہے کہ انصاریوں نے کہا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے کھجوروں کے باغات ہم میں اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم کر دیجئے آپ نے فرمایا نہیں، پھر فرمایا سنو کام کاج بھی تم ہی کرو اور ہم سب کو تو پیداوار میں شریک رکھو، انصار نے جواب دیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں یہ بھی بخوشی منظور ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ اپنے دلوں میں کوئی حسد ان مہاجرین کی قدر و منزلت اور ذکر و مرتبت پر نہیں کرتے، جو انہیں مل جائے انہیں اس پر رشک نہیں ہوتا، اسی مطلب پر اس حدیث کی دلالت بھی ہے جو مسند احمد میں حضرت انس (رض) کی روایت سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا ابھی ایک جنتی شخص آنے والا ہے، تھوڑی دیر میں ایک انصاری (رض) اپنے بائیں ہاتھ میں اپنی جوتیاں لئے ہوئے تازہ وضو کر کے آ رہے تھے داڑھی پر سے پانی ٹپک رہا تھا دوسرے دن بھی اسی طرح ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے یہی فرمایا اور وہی شخص اسی طرح آئے تیسرے دن بھی یہی ہوا حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص آج دیکھتے بھالتے رہے اور جب مجلس نبوی ختم ہوئی اور یہ بزرگ وہاں سے اٹھ کر چلے تو یہ بھی ان کے پیچھے ہو لئے اور انصاری سے کہنے لگے حضرت مجھ میں اور میرے والد میں کچھ بول چال ہوگئی ہے جس پر میں قسم کھا بیٹھا ہوں کہ تین دن تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا پس اگر آپ مہربانی فرما کر مجھے اجازت دیں تو میں یہ تین دن آپ کے ہاں گذار دوں انہوں نے کہا بہت اچھا چناچہ حضرت عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ تین راتیں ان کے گھر ان کے ساتھ گزاریں دیکھا کہ وہ رات کو تہجد کی لمبی نماز بھی نہیں پڑھتے صرف اتنا کرتے ہیں کہ جب آنکھ کھلے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی بڑائی اپنے بستر پر ہی لیٹے لیٹے کرلیتے ہیں یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لئے اٹھیں ہاں یہ ضروری بات تھی کہ میں نے ان کے منہ سے سوائے کلمہ خیر کے اور کچھ نہیں سنا، جب تین راتیں گذر گئیں تو مجھے ان کا عمل بہت ہی ہلکا سا معلوم ہونے لگا اب میں نے ان سے کہا کہ حضرت دراصل نہ تو میرے اور میرے والد صاحب کے درمیان کوئی ایسی باتیں ہوئی تھیں نہ میں نے ناراضگی کے باعث گھر چھوڑا تھا بلکہ واقعہ یہ ہوا کہ تین مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ابھی ایک جنتی شخص آ رہا ہے اور تینوں مرتبہ آپ ہی آئے تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کی خدمت میں کچھ دن رہ کر دیکھوں تو سہی کہ آپ ایسی کونسی عبادتیں کرتے ہیں جو جیتے جی بہ زبان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے جنتی ہونے کی یقینی خبر ہم تک پہنچ گئی چناچہ میں نے یہ بہانہ کیا اور تین رات تک آپ کی خدمت میں رہا تاکہ آپ کے اعمال دیکھ کر میں بھی ویسے ہی عمل شروع کر دوں لیکن میں نے تو آپ کو نہ تو کوئی نیا اور اہم عمل کرتے ہوئے دیکھا نہ عبادت میں ہی اوروں سے زیادہ بڑھا ہوا دیکھا اب جا رہا ہوں لیکن زبانی ایک سوال ہے کہ آپ ہی بتایئے آخر وہ کونسا عمل ہے جس نے آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی جنتی بنایا ؟ آپ نے فرمایا بس تم میرے اعمال تو دیکھ چکے ان کے سوا اور کوئی خاص پوشیدہ عمل تو ہے نہیں چناچہ میں ان سے رخصت ہو کر چلا تھوڑی ہی دور نکلا تھا جو انہوں نے مجھے آواز دی اور فرمایا ہاں میرا ایک عمل سنتے جاؤ وہ یہ کہ میرے دل میں کبھی کسی مسلمان سے دھوکہ بازی، حسد اور بغض کا ارادہ بھی نہیں ہوا میں کبھی کسی مسلمان کا بد خواہ نہیں بنا، حضرت عبداللہ نے یہ سن کر فرمایا کہ بس اب معلوم ہوگیا اسی عمل نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہر ایک کے بس کی نہیں۔ امام نسائی بھی اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں اس حدیث کو لائے ہیں، غرض یہ ہے کہ ان انصار میں یہ وصف تھا کہ مہاجرین کو اگر کوئی مال وغیرہ دیا جائے اور انہیں نہ ملے تو یہ برا نہیں مانتے تھے، بنو نضیر کے مال جب مہاجرین ہی میں تقسیم ہوئے تو کسی انصاری نے اس میں کلام کیا جس پر آیت ( مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ للرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۝ۘ) 59 ۔ الحشر ;7) اتری، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے مہاجر بھائی مال و اولاد چھوڑ کر تمہاری طرف آتے ہیں انصار نے کہا پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارا مال ان میں اور ہم میں برابر بانٹ دیجئے آپ نے فرمایا اس سے بھی زیادہ ایثار کرسکتے ہو ؟ انہوں نے کہا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہو آپ نے فرمایا مہاجر کھیت اور باغات کا کام نہیں جانتے تم آپ اپنے مال کو قبضہ میں رکھو خود کام کرو خود باغات میں محنت کرو اور پیداوار میں انہیں شریک کردو انصار نے اسے بھی بہ کشادہ پیشانی منظور کرلیا۔ پھر فرماتا ہے کہ خود کو حاجت ہونے کے باوجود بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی حاجت کو مقدم رکھتے ہیں اپنی ضرورت خواہ باقی رہ جائے۔ لیکن دوسرے مسلمان کی ضرورت جلد پوری ہوجائے یہ ان کی ہر وقت کی خواہش ہے، ایک صحیح حدیث میں بھی ہے کہ جس کے پاس کمی اور قلت ہو خود کو ضرورت ہو اور پھر بھی صدقہ کرے اس کا صدقہ افضل اور بہتر ہے۔ یہ درجہ ان لوگوں کے درجہ سے بھی بڑھا ہوا ہے جن کا ذکر اور جگہ ہے کہ مال کی چاہت کے باوجود اسے راہ اللہ خرچ کرتے ہیں لیکن یہ لوگ تو خود اپنی حاجت ہوتے ہوئے صرف کرتے ہیں، محبت ہوتی ہے اور حاجت نہیں ہوتی اس وقت کا خرچ اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا کہ خود کو ضرورت ہو اور پھر بھی راہ اللہ دے دینا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا صدقہ اسی قسم سے ہے کہ آپ نے اپنا کل مال لا کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ڈھیر لگا دیا آپ نے پوچھا تبھی ابوبکر کچھ باقی بھی رکھ آئے ہو ؟ جواب دیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باقی رکھ آیا ہوں، اسی طرح وہ واقعہ ہے جو جنگ یرموک میں حضرت عکرمہ اور ان کے ساتھیوں کو پیش آیا تھا کہ میدان جہاد میں زخم خوردہ پڑے ہوئے ہیں ریت اور مٹی زخموں میں بھر رہی ہے کہ کراہ رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں، سخت تیز دھوپ پڑ رہی ہے، پیاس کے مارے حلق چیخ رہا ہے، اتنے میں ایک مسلمان کندھے پر مشک لٹکائے آجاتا ہے اور ان مجروح مجاہدین کے سامنے پیش کرتا ہے۔ لیکن ایک کہتا ہے اس دوسرے کو پلاؤ دوسرا کہتا ہے اس تیسرے کو پہلے پلاؤ وہ ابھی تیسرے تک پہنچا بھی نہیں کہ ایک شہید ہوجاتا ہے، دوسرے کو دیکھتا ہے کہ وہ بھی پیاسا ہی چل بسا، تیسرے کے پاس آتا ہے لیکن دیکھتا ہے کہ وہ بھی سوکھے ہونٹوں ہی اللہ سے جا ملا۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں سے خوش ہو اور انہیں بھی اپنی ذات سے خوش رکھے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سخت حاجت مند ہوں مجھے کچھ کھلوایئے آپ نے اپنے گھروں میں آدمی بھیجا لیکن تمام گھروں سے جواب ملا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس خود کچھ نہیں یہ معلوم کر کے پھر آپ نے اور لوگوں سے کہا کہ کوئی ہے جو آج کی رات انہیں اپنا مہمان رکھے ؟ ایک انصاری اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں انہیں اپنا مہمان رکھوں گا چناچہ یہ لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا دیکھو یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مہمان ہیں آج گو ہمیں کچھ بھی کھانے کو نہ ملے لیکن یہ بھوکے نہ رہیں بیوی صاحبہ نے کہا آج گھر میں بھی برکت ہے بچوں کے لئے البتہ کچھ ٹکڑے رکھے ہوئے ہیں انصاری نے فرمایا اچھا بچوں کو تو بھلا پھسلا کر بھوکا سلا دو اور ہم تم دونوں اپنے پیٹ پر کپڑا باندھ کر فاقے سے رات گذار دیں گے، کھاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ مہمان یہ سمجھے کہ ہم کھا رہے ہیں اور دراصل ہم کھائیں گے نہیں۔ چناچہ ایسا ہی کیا صبح جب یہ شخص انصاری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کے اور اس کی بیوی کے رات کے عمل سے اللہ تعالیٰ خوش ہوا اور ہنس دیا انہی کے بارے میں (وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۝ۚ ) 59 ۔ الحشر ;9) نازل ہوئی، صحیح مسلم کی روایت ہے میں ان انصاری کا نام ہے حضرت ابو طلحہ (رض) ۔ پھر فرماتا ہے جو اپنے نفس کی بخیلی حرص اور لالچ سے بچ گیا اس نے نجات پا لی۔ مسند احمد اور مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں لوگو ظلم سے بچو ! قیامت کے دن یہ ظلم اندھیرا بن جائے گا لوگو بخیلی اور حرص سے بچو یہی وہ چیز ہے جس نے تم سے پہلے لوگوں کو برباد کردیا اسی کی وجہ سے انہوں نے خونریزیاں کیں اور حرام کو حلال بنا لیا اور سند سے یہ بھی مروی ہے کہ فحش سے بچو۔ اللہ تعالیٰ فحش باتوں اور بےحیائی کے کاموں کو ناپسند فرماتا ہے، حرص اور بخیلی کی مذمت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اسی کے باعث اگلوں نے ظلم کئے فسق و فجور کئے اور قطع رحمی کی۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے اللہ کی راہ کا غبار اور جہنم کا دھواں کسی بندے کے پیٹ میں جمع ہو ہی نہیں سکتا اسی طرح بخیلی اور ایمان بھی کسی بندہ کے دل میں جمع نہیں ہوسکتے، یعنی راہ اللہ کی گرد جس پر پڑی وہ جہنم سے آزاد ہوگیا اور جس کے دل میں بخیلی نے گھر کرلیا اس کے دل میں ایمان کی رہنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی، حضرت عبداللہ (رض) کے پاس آ کر ایک شخص نے کہا اے ابو عبدالرحمٰن میں تو ہلاک ہوگیا آپ نے فرمایا کیا بات ہے ؟ کہا قرآن میں تو ہے جو اپنے نفس کی بخیلی سے بچا دیا گیا اس نے فلاح پالی اور میں تو مال کو بڑا روکنے والا ہوں، خرچ کرتے ہوئے دل رکتا ہے آپ نے فرمایا اس کنجوسی کا ذکر اس آیت میں نہیں یہاں مراد بخیلی سے یہ ہے کہ تو اپنے کسی مسلمان بھائی کا مال ظلم سے کھاجائے، ہاں بخیلی بہ معنی کنجوسی بھی ہے بہت بری چیز ہے ( ابن ابی حاتم) حضرت ابو لہیاج اسدی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک صاحب صرف یہی دعا پڑھ رہے ہیں۔ (دعا اللھم فی سخ نفسی) الٰہی مجھے میرے نفس کی حرص و آڑ سے بچا لے آخر مجھ سے نہ رہا گیا میں نے کہا آپ صرف یہی دعا کیوں مانگ رہے ہیں ؟ اس نے کہا جب اس سے بچاؤ ہوگیا تو پھر نہ زنا کاری ہو سکے گی نہ چوری اور نہ کوئی برا کام اب جو میں نے دیکھا تو وہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف تھے (رض) (ابن جریر) ایک حدیث میں ہے جس نے زکوٰۃ ادا کی اور مہمانداری کی اور اللہ کی راہ کے ضروری کاموں میں دیا وہ اپنے نفس کی بخیلی سے دور ہوگیا، پھر مال فے کے مستحقین لوگوں کی تیسری قسم کا بیان ہو رہا ہے کہ انصار اور مہاجر کے فقراء کے بعد ان کے تابع جو ان کے بعد کے لوگ ہیں ان میں سے مساکین بھی اس مال کے مستحق ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے سے اگلے باایمان لوگوں کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جیسے کہ سورة برات میں ہے ( وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ\010\00 ) 9 ۔ التوبہ ;100) یعنی اول اول سبقت کرنے والے مہاجر و انصار اور ان کے بعد کے وہ لوگ جو احسان میں ان کے متبع ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے خوش ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ سے راضی ہیں یعنی یہ بعد کے لوگ ان اگلوں کے آثار حسنہ اور اوصاف جمیلہ کی اتباع کرنے والے اور انہیں نیک دعاؤں سے یاد رکھنے والے ہیں گویا ظاہر باطن ان کے تابع ہیں، اس دعا سے حضرت امام مالک (رح) نے کتنا پاکیزہ استدلال کیا ہے کہ رافضی کو مال فے سے امام وقت کچھ نہ دے کیونکہ وہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے دعا کرنے کی بجائے انہیں گالیاں دیتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ان لوگوں کو دیکھو کس طرح قرآن کے خلاف کرتے ہیں قرآن حکم دیتا ہے کہ مہاجر و انصار کے لئے دعائیں کرو اور یہ گالیاں دیتے ہیں پھر یہی آیت آپ نے تلاوت فرمائی (ابن ابی حاتم) اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ میں نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ یہ امت ختم نہ ہوگی یہاں تک کہ ان کے پچھلے ان کے پہلوں کو لعنت کریں گے (بغوی) ابو داؤد میں ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا ( وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ۝) 59 ۔ الحشر ;6) میں جس مال فے کا بیان ہے وہ تو خاص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے اسی طرح اس کے بعد کی ( مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ للرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۝ۘ) 59 ۔ الحشر ;7) والی نے عام کردیا ہے تمام مسلمانوں کو اس میں شامل کرلیا ہے اب ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جس کا حق اس مال میں نہ ہو سوائے تمہارے غلاموں کے، اس حدیث کی سند میں انتقطاع ہے، ابن جریر میں ہے حضرت عمر فاروق (رض) نے ( اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 60؀) 9 ۔ التوبہ ;60) تک پڑھ کر فرمایا مال زکوٰۃ کے مستحق تو یہ لوگ ہیں پھر ( وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ 41؀) 8 ۔ الانفال ;41) والی پوری آیت کو پڑھ کر فرمایا مال غنیمت کے مستحق یہ لوگ ہیں پھر یہ ( مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ للرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ ۭ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ۝ۘ) 59 ۔ الحشر ;7) پڑھ کر فرمایا مال فے کے مستحقین کو بیان فرماتے ہوئے اس آیت نے تمام مسلمانوں کو اس مال فے کا مستحق کردیا ہے، سب اس کے مستحق ہیں۔ اگر میں زندہ رہا تو تم دیکھو گے کہ گاؤں گوٹھوں کے چروا ہے کو بھی اس کا حصہ دوں گا جس کی پیشانی پر اس مال کے حاصل کرنے کے لئے پسینہ تک نہ آیا۔