الانعام آية ۱
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِىْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ۗ ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ
طاہر القادری:
تمام تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور تاریکیوں اور روشنی کو بنایا، پھر بھی کافر لوگ (معبودانِ باطلہ کو) اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں،
English Sahih:
[All] praise is [due] to Allah, who created the heavens and the earth and made the darkness and the light. Then those who disbelieve equate [others] with their Lord.
1 Abul A'ala Maududi
تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھیرا رہے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
سب خوبیاں اللہ کو جس نے آسمان اور زمین بنائے اور اندھیریاں اور روشنی پیدا کی اس پر کافر لوگ اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں
3 Ahmed Ali
سب تعریف الله ہی کے لیے ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور اندھیرا اوراجالا بنایا پھر بھی یہ کافر اوروں کو اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھیراتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا (١) پھر بھی کافر لوگ (غیر اللہ کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں۔
١۔١ ظلمات سے رات کی تاریکی اور نور سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔ نور کے مقابلے میں ظلمات کو جمع ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ ظلمات کے اسباب بھی بہت سے ہیں اور اس کی قسمیں بھی متعدد ہیں اور نور کا ذکر بطور جنس ہے جو اپنی قسموں میں شامل ہے (فتح القدیر) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چونکہ ہدایت اور ایمان کا راستہ ایک ہی ہے چار یا پانچ یا متعدد نہیں ہیں اس لئے نور کو واحد ذکر کیا گیا ہے۔
١۔٢ یعنی اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیرا اور روشنی بنائی پھر بھی کافر (اور چیزوں کو) خدا کے برابر ٹھیراتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
تمام تعریفیں اللہ ہی کے ﻻئق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا پھر بھی کافر لوگ (غیر اللہ کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور روشنی کو بنایا پھر بھی جو کافر ہیں وہ دوسروں کو اپنے پروردگار کے برابر ٹھہراتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور تاریکیوں اور نور کو مقرر کیا ہے اس کے بعد بھی کفر اختیار کرنے والے دوسروں کو اس کے برابر قرار دیتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیرا اور روشنی بنائی۔ پھر بھی کافر (اور چیزوں کو) خدا کے برابر ٹھہراتے ہیں۔
آیت نمبر ١ تا ١٠
ترجمہ : ہر تعریف اللہ کے لئے ثابت ہے (اور) یا تو اس جملہ خبر یہ سے مراد ثبوت حمد پر ایمان کی خبر دینا ہے یا مراد انشاء حمد (تعریف کرنا) ہے یا دونوں مراد ہیں (یہ تین) احتمالات ہیں تیسری صورت زیادہ مفید ہے، اس کو شیخ جلال الدین محلی نے سورة کہف میں بیان کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ان دونوں کو خاص طور پر اس لئے بیان کیا ہے کہ یہ دونوں ناظرین کی نظر میں اعظم مخلوقات ہیں اور جس نے ظلمتوں اور روشنی کو پیدا فرمایا یعنی ہر ظلمت اور نور کو، ظلمات کو جمع لائے ہیں نہ کہ نور کو، ظلمات کے اسباب کثیر ہونے کی وجہ سے، اور یہ اللہ کی وحدانیت کے دلائل میں سے ہے پھر بھی کافر اس دلیل کے قائم ہونے کے باوجود غیر اللہ کو اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں یعنی غیر اللہ کو عبادت میں اللہ کے برابر قرار دیتے ہیں، وہ ایسی ذات ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا تمہارے دادا آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کرکے، پھر اس نے تمہارے لئے مدت مقرر کی کہ جس کے پورے ہونے پر تم مرجاؤ گے، اور دوسرا وقت خاص اللہ کے نزدیک معین ہے جو کہ تمہارے بعث کا ہے، پھر بھی تم اے کافر و شک کرتے ہو (یعنی) بعث بعد الموت میں شک کرتے ہو، باوجودیکہ تم اس بات کو جانتے ہو کہ اس نے تم کو ابتداء پیدا کیا، اور جو ابتداء پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ پیدا کرنے پر بطریق اولی قادر ہے، وہی اللہ مستحق عبادت ہے آسمانوں اور زمین میں تمہاری پوشیدہ اور ظاہری باتوں کو جانتا ہے یعنی جس کو تم آپس میں پوشیدہ رکھتے ہو اور ظاہر کرتے ہو، اور جو تم کرتے ہو اس کو جانتا ہے (یعنی) جو خیر و شر تم کرتے ہو اس سے واقف ہے اور اہل مکہ کے پاس قرآن کی جو آیت بھی آئی ہے اس سے اعراض ہی کرتے ہیں، مِن آیۃٍ ، میں مِن زائدہ ہے انہوں نے حق یعنی قرآن کو جھٹلا دیا جب ان کے پاس آیا سو جلد ہی ان کو اس کے انجام کی خبر مل جائے گی جس کا یہ مذاق اڑایا کرتے تھے کیا یہ لوگ اپنے شام وغیرہ کے سفر کے دوران نہیں دیکھتے کہ ہم نے ان سے پہلے سابقہ امتوں میں سے کتنی ہی امتوں کو ہلاک کردیا، کم خبر یہ بمعنی کثیر ہے، جن کو ہم نے دنیا میں اسی قوت اور وسعت دی تھی کہ جو تم کو نہیں دی اس میں غیبت سے (خطاب) کی جانب التفات ہے، اور ہم نے ان پر خوب مسلسل بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے نہریں بہا دیں پھر ہم نے ان کو انبیاء کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک کردیا اور ہم نے ان کے بعد دوسری قومیں پیدا کردیں اور اگر ہم کاغذ پر لکھا ہوا کوئی نوشتہ ان کی تجویز کے مطابق نازل کرتے پھر اس کو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے، (لَمَسُوہ بایدیھم) عاینوہ سے ابلغ ہے اسلئے کہ چھو کر دیکھ لینا شک کی زیادہ نفی کرنے والا ہے، جب بھی یہ کافر لوگ تعصب اور عناد کی وجہ سے یہی کہتے کہ یہ کچھ نہیں محض کھلا ہوا جادو ہے، اور ان لوگوں کا کہنا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی فرشتہ کیوں نہ نازل کیا گیا جو ان کی تصدیق کرتا اور اگر ہم ان کی تجویز کے مطابق کوئی فرشتہ نازل کردیتے (پھر۔۔ ) یہ ایمان نہ لاتے تو ان کو ہلاک کرکے ان کا قصہ ہی ختم ہوجاتا پھر ان کو توبہ یا معذرت کیلئے مہلت نہ دی جاتی جیسا کہ اس سے پہلی امتوں میں فرمائشی معجزہ ظاہر کرنے کے بعد جبکہ وہ ایمان نہ لائے ان کو ہلاک کرنے کا اللہ کا دستور رہا ہے اگر ہم ان کی طرف فرشتہ نازل کرتے تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ فرشتہ انسانی شکل میں ہوتا تاکہ یہ اس کو دیکھ سکیں، اسلئے کہ ان میں فرشتہ کو دیکھنے کی قوت نہیں، اور اگر ہم فرشتہ نازل کردیتے اور اس کو انسانی شکل میں رکھتے تو ہم ان پر اشتباہ ڈال دیتے جیسا کہ اب ان کو تباہ ہو رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ تو تمہارے جیسا ہی انسان ہے درحقیقت آپ سے پہلے جو انبیاء ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی استہزاء کیا گیا اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے تو ان کو اسی عذاب نے آگھیرا جس کا انہوں نے مذاق اڑایا، اور وہ عذاب تھا، اسی طرح جو آپ کے ساتھ استہزاء کرے گا اس کو بھی عذاب آگھیرے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ھَلِ المُرَادُ اَلْاِعْلامُ بذلک، اس سوالیہ جملہ سے شارح علام کا مقصد یہ بتانا ہے کہ الحمد (ثابت) للہ، جملہ یہ کے ذریعہ جو ثبوت حمد کی خبر دی گئی ہے اس سے تین چیزیں مراد ہوسکتی ہیں، (١) یا تو اس بات کی خبر دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوصاف کمالیہ ازلی اور ابدی ہیں اور ہمارا اس پر ایمان ہے، استمرار پر دلالت جملہ کے اسمیہ ہونے کی وجہ سے ہوگی اس صورت میں یہ لفظاً و معنی خبر یہ ہوگا، (٢) یا مقصد انشاء حمد ہے، اسی کو مفسر علام نے اوالثناء بہ، سے تعبیر فرمایا ہے، اس صورت میں جملہ ما خبریہ اور معنی انشائیہ ہوگا۔ (٣) دونوں مقصود ہوں اس کی طرف اپنے قول اَوْھُمَا سے اشارہ فرمایا ہے، اس صورت میں دونوں معنی میں استعمال حقیقۃً ہوگا، اور پہلی صورت میں خبر میں حقیقت اور انشاء حمد میں مجاز ہوگا اور دوسری صورت میں انشاء حمد میں حقیقت اور خبر میں مجاز ہوگا، مطلب یہ کہ پہلی دونوں صورتوں میں ایک میں جملہ کا استعمال بالاصل اور دوسری میں بالتبع ہوگا، اور دوسری صورت میں دونوں میں جملہ کا استعمال بالاصل ہوگا اسی وجہ سے تیسری صورت پہلی دو صورتوں سے مفید تر ہے اس لئے کہ دونوں میں استعمال مقصود بالذات ہے، (مزید تفصیل کیلئے سورة کہف جلد چہارم ملاحظہ فرمائیں) ۔
قولہ : خَلَقَ ، جَعَلَ کی تفسیر خَلَقَ سے کرکے اشارہ کردیا ہے کہ جَعَلَ بمعنی خلق وأنشأ ہے نہ کہ بمعنی صَیَّرَ یہی وجہ ہے کہ ایک مفعول کی جانب متعدی ہے۔
قولہ : لِکَثْرَۃِ اَسْبَابِھَا، ظلمت کے اسباب چونکہ کثیر ہیں اسلئے ظلمات کو جمع لائے ہیں، اور نور کی قسم چونکہ ایک ہی ہے اسلئے اس کو واحد لائے ہیں۔ قولہ : عَوَاقبُ ۔ سوال : عواقِبُ مضاف محذوف ماننے کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : اسلئے کہ نفس انباء تو دنیا ہی میں معلوم ہوجائیں گی، ابتہ ان اک انجام اور نتیجہ آخرت میں معلوم ہوگا، اسی فائدہ کیلئے لفظ عواقب، محذوف مانا گیا ہے۔
قولہ : لِأَنَّہٗ اَنْفٰی للشَّکِّ ، یعنی معانیہ کے بجائے لمس کا استعمال نفی شک میں زیادہ ہے اسلئے کہ دیکھنے میں تو کبھی سحر یا نظر بندی کا دھوکا بھی ہوسکتا ہے مگر لمس اور ٹٹول کر معلوم کرنے میں دھوکہ اور مغالطہ کا اندیشہ نہیں ہوتا۔
قولہ : لَلَبَسْنَاہ، یہ شرط محذوف کا جواب ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، ” ای لَوْ جَعَلْنَاہُ رَجُلاً لَلَبَسْنا “۔
تفسیر و تشریح
فضائل سورة انعام : مستدرک حاکم نے حضرت جابر سے روایت کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبحان اللہ العظیم فرمایا اور یہ فرمایا کہ آسمان سے زمین تک ستر ہزار فرشتے اس سورت کے نازل ہونے کے وقت ساتھ تھے، حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
سورت کا نام : اس سورت کے رکوع ١٦، ١٧ میں بعض انعام (مویشیوں) کی حرمت اور بعض کی حلت کا ذکر ہے اسی مناسبت سے اس سورت کا نام ” انعام “ رکھا گیا ہے، بجز چھ آیات کے یہ پوری مکی ہے۔
سورة انعام کے مضامین کا خلاصہ : خدا کی توحید، پیغمبروں کی رسالت، توحید کے سلسلہ میں چند انبیاء کرام کے واقعات، قرآن کی صداقت، آخرت کی زندگی ثبوت، منکرین حق و صداقت کے کردار کی وضاحت اور ان کا انجام، یہ ہے اس سورت کے مضامین کا خلاصہ۔ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالارْضِ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ والنورِ ۔
یہاں خلق، ایجاد و ابداع یعنی نیست سے ہست کرنے کے معنی ہئ (قرطبی) پوری کائنات دو قسموں میں منحصر ہے، جو ہر اور عرض، السَمٰوٰتِ والْاَرض، سے جوہر کی طرف اور الظلمٰت والنور سے عرض کی طرف اشارہ ہے مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں جوہر ہو یا عرض ہر چیز کا خالق بلا اسثناء وہی ایک خدا ہے الظلمٰت، کو جمع کے صیغہ کے ساتھ اور النور کو صیغہ واحد کے ساتھ ذکر کرنے میں اسطرف اشارہ ہے کہ گمراہیاں ایک نہیں بہت سی ہوسکتی ہیں اور راہ حق صرف ایک ہی ہوتی ہے، دو نقطوں کے درمیان خطوط منحنی بیشمار ہوسکتے ہیں مگر خط مستقیم ایک ہی ممکن ہے، اور یہ نقطہ قابل غور ہے کہ قرآن مجید میں نور، جہاں بھی آیا ہے مفرد ہی آیا ہے، یہاں ثُمَّ ، باوجود یا اس پر بھی کے معنی میں ہے (ماجدی) مذکورہ آیات کا مقصود توحید کی حقیقت اور اسکے واضح دلائل کو بیان فرما کر دنیا کی ان تمام قوموں کو تنبیہ کرنا ہے جو یا تو سے سے توحید کی قائل ہونے کے باوجود توحید کی حقیقت سے نا آشنا ہیں۔ مجوس دنیا کے دو خالق مانتے ہیں یزدان اور اہر من، یزدان کو خیر کا خالق اور اہرمن کو شر کا خالق قرار دیتے ہیں اور انہی دونوں کو نور و ظلمت سے تعبیر کرتے ہیں، قرآن مجید نے اس آیت میں اللہ تعالیٰ کو آسمان و زمین ظلمت و نور کا خالق بتا کر ان سے خیالات کی تردید کردی کہ نور و ظلمت اور آسمان و زمین اور ان میں موجودتمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں پھر کسی کو کیسے خدا تعالیٰ کا شریک وسہیم ٹھہریا جا
سکتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ صفات کمال اور نعوت عظمت و جلال کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عمومی حمد و ثنا اور ان صفات کے ذریعے سے اس کی خصوصی حمد و ثناء ہے، چنانچہ اس نے اس امر پر اپنی حمد و ثناء بیان کی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو تخلیق فرمایا۔ جو اس کی قدرت کاملہ، وسیع علم و رحمت، حکمت عامہ اور خلق و تدبیر میں اس کی انفرادیت پر دلالت کرتی ہے نیز اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ اس نے تاریکیوں اور روشنی کو پیدا کیا اور اس میں حسی اندھیرے اور اجالے بھی شامل ہیں جیسے رات، دن، سورج اور چاند وغیرہ اور معنوی اندھیرے اجالے بھی، مثلاً جہالت، شک، شرک، معصیت اور غفلت کے اندھیرے اور علم، ایمان، یقین اور اطاعت کے اجالے۔ یہ تمام امور قطعی طور پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی عبادت اور اخلاص کا مستحق ہے مگر اس روشن دلیل اور واضح برہان کے باوجود﴿ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ﴾ ” پھر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، اپنے رب کے ساتھ اوروں کو برابر کئے دیتے ہیں“ غیروں کو اللہ کے برابر قرار دیتے ہیں۔ وہ انہیں عبادت اور تعظیم میں اللہ تعالیٰ کے مساوی قرار دیتے ہیں اگرچہ وہ کمالات میں ان کو اللہ تعالیٰ کا ہمسر نہیں سمجھتے اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ہستیاں ہر لحاظ سے محتاج، فقیر اور ناقص ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
tamam tareefen Allah ki hain jiss ney aasmano aur zameen ko peda kiya , aur andheriyan aur roshni banai . phir bhi jinn logon ney kufr apna liya hai woh doosron ko ( khudai mein ) apney perwerdigar kay barabar qarar dey rahey hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ کی بعض صفات
اللہ تعالیٰ اپنی تعریف کر رہا ہے گویا ہمیں اپنی تعریفوں کا حکم دے رہا ہے، اس کی تعریف جن امور پر ہے ان میں سے ایک زمین و آسمان کی پیدائش بھی ہے دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا بھی ہے اندھیرے کو جمع کے لفظ سے اور نور کو واحد کے لفظ سے لانا نور کی شرافت کی وجہ سے ہے، جیسے فرمان ربانی آیت (عن الیمین و الشمائل) میں اور اس سورت کے آخری حصے کی آیت (وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ) 6 ۔ الانعام :153) میں یہاں بھی راہ راست کو واحد رکھا اور غلط راہوں کو جمع کے لفظ سے بتایا، اللہ ہی قابل حمد ہے، کیونکہ وہی خالق کل ہے مگر پھر بھی کافر لوگ اپنی نادانی سے اس کے شریک ٹھہرا رہے ہیں کبھی بیوی اور اولاد قائم کرتے ہیں کبھی شریک اور ساجھی ثابت کرنے بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک ہے، اس رب نے تمہارے باپ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر تمہیں اس کی نسل سے مشرق مغرب میں پھیلا دیا، موت کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے، آخرت کے آنے کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے، پہلی اجل سے مراد دنیاوی زندگی دوسری اجل سے مراد قبر کی رہائش، گویا پہلی اجل خاص ہے یعنی ہر شخص کی عمر اور دوسری اجل عام ہے یعنی دنیا کی انتہا اور اس کا خاتمہ، ابن عباس اور مجاہد وغیرہ سے مروی ہے کہ قضی اجلا سے مراد مدت دنیا ہے اور اجل مسمی سے مراد عمر انسان ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس کا استدلال آنے والی آیت آیت (وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى) 6 ۔ الانعام :60) سے ہو، ابن عباس سے مروی ہے کہ آیت (ثم قضی اجلا) سے مراد نیند ہے جس میں روح قبض کی جاتی ہے، پھر جاگنے کے وقت لوٹا دی جاتی ہے اور اجل مسمی سے مراد موت ہے یہ قول غریب ہے عندہ سے مراد اس کے علم کا اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہونا ہے جیسے فرمایا آیت (قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ۚ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ ) 7 ۔ الاعراف :187) یعنی قیامت کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہی ہے، سورة نازعات میں بھی فرمان ہے کہ لوگ تجھ سے قیامت کے صحیح وقت کا حال دریافت کرتے ہیں حالانکہ تجھے اس کا علم کچھ بھی نہیں وہ تو صرف اللہ ہی کو معلوم ہے، باوجود اتنی پختگی کے اور باوجود کسی قسم کا شک شبہ نہ ہونے کے پھر بھی لوگ قیامت کے آنے نہ آنے میں تردد اور شک کر رہے ہیں اس کے بعد جو ارشاد جناب باری نے فرمایا ہے، اس میں مفسرین کے کئی ایک اقوال ہیں لیکن کسی کا بھی وہ مطلب نہیں جو جہمیہ لے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے ہر جگہ ہے، نعوذ باللہ اللہ کی برتر وبالا ذات اس سے بالکل پاک ہے، آیت کا بالکل صحیح مطلب یہ ہے کہ آسمانوں میں بھی اسی کی ذات کی عبادت کی جاتی ہے اور زمینوں میں بھی، اسی کی الوہیت وہاں بھی ہے اور یہاں بھی، اوپر والے اور نیچے والے سب اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں، سب کی اسی سے امیدیں وابستہ ہیں اور سب کے دل اسی سے لرز رہے ہیں جن و انس سب اسی کی الوہیت اور بادشاہی مانتے ہیں جیسے اور آیت میں ہے آیت (وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ ) 43 ۔ الزخرف :84) یعنی وہی آسمانوں میں معبود برحق ہے اور وہی زمین میں معبود برحق ہے، یعنی آسمانوں میں جو ہیں، سب کا معبود وہی ہے اور اسی طرح زمین والوں کا بھی سب کا معبود وہی ہے، اب اس آیت کا اور جملہ آیت (يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ ) 6 ۔ الانعام :3) خبر ہوجائے گا یا حال سمجھا جائے گا اور یہ بھی قول ہے کہ اللہ وہ ہے جو آسمانوں کی سب چیزوں کو اس زمین کی سب چیزوں کو چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ، جانتا ہے۔ پس یعلم متعلق ہوگا فی السموات وفی الارض کا اور تقدیر آیت یوں ہوجائے گی آیت (وھو اللہ یعلم سر کم و جھر کم فی السموات وفی الارض و یعلم ما تکسبون) ایک قول یہ بھی ہے کہ آیت (وھو اللہ فی السموات) پر وقف تام ہے اور پھر جملہ مستانفہ کے طور پر خبر ہے کہ آیت (وفی الارض یعلم سر کم و جھر کم) امام ابن جریر اسی تیسرے قول کو پسند کرتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے تمہارے کل اعمال سے خیر و شر سے وہ واقف ہے۔