نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اور وہ بڑا باریک بین بڑا باخبر ہے،
English Sahih:
Vision perceives Him not, but He perceives [all] vision; and He is the Subtle, the Aware.
1 Abul A'ala Maududi
نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے، وہ نہایت باریک بیں اور باخبر ہے
2 Ahmed Raza Khan
آنکھیں اسے احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں اور وہی ہے پورا باطن پورا خبردار،
3 Ahmed Ali
اسے آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کو دیکھ سکتا ہے اوثر وہ نہایت باریک بین خبردار ہے
4 Ahsanul Bayan
اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہوسکتی (١) اور وہ سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے۔
١٠٣۔١ابصار بصر نگاہ کی جمع ہے۔ یعنی انسان کی آنکھیں اللہ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اور اگر اس سے مراد روئیت بصری ہو تو اس کا تعلق دنیا سے ہوگا۔ یعنی دنیا کی آنکھ سے کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ تاہم یہ صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ تعالٰی کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار سے مشرف ہونگے۔ اس لئے مسلمانوں کا ایک فرقہ کا اس آیت سے ثبوت و دلیل کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اللہ کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا، دنیا میں نہ آخرت میں، صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس نفی کا تعلق صرف دنیا سے ہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ بھی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتی ہیں، جس شخص نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (شب معراج میں) اللہ تعالٰی کی زیارت کی ہے، اس نے قطعًا جھوت بولا (صحیح بخاری)، کیونکہ اس آیت کی روح سے پیغمبر سمیت کوئی بھی اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ البتہ آخرت کی زندگی میں دیدار ممکن ہوگا، جیسے دوسرے مقام پر قرآن نے اس کا اثبات فرمایا ;۔(وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ 22ۙ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ 23ۚ ) 75۔ القیامۃ;23-22) کئی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے
6 Muhammad Junagarhi
اس کو تو کسی کی نگاه محیط نہیں ہوسکتی اور وه سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے اور وہ لطیف (جسم و جسمانیات سے مبرا ہے) اور خبیر (بڑا باخبر) ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
(وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے۔ اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے۔ رؤیت باری کا مسئلہ : لاتدر کہ الابصار، اَبْصار، بصر کی جمع ہے، (نگاہ) انسان کی نظر کی رسائی خدا کی حقیقت اور کنہ تک نہیں ہوسکتی، اس رویت کی نفی سے مراد دنیا میں رویت بصری کی نفی ہے، صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے کہ روز قیامت ایمان والے اللہ کے دیدار سے مشرف ہوں گے اور جنت میں بھی دیدار باری تعالیٰ نصیب ہوا کرے گا، معتزلہ کا عقیدہ اس کے خلاف ہے وہ دیدار باری کے مطلقا منکر ہیں اور اسی آیت سے استدلال کرتے ہیں، حالانکہ اس کا تعلق دنیا سے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار دنیا میں بہ چشم سر ممکن نہیں ہے، اسی لئے حضرت عائشہ بھی اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جس شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی اس نے قطعاً دروغ گوئی کی (صحیح بخاری، سورة انعام) البتہ آخرت کی زندگی میں یہ دیدار ممکن ہوگا، جس کا دوسرے مقام پر قرآن نے اثبات فرمایا ہے ” وُجُوہٌ یومئذ ناضرۃ الی ربِّھا ناظرۃ، کئی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ بصائر، بصیرۃ کی جمع ہے، روشنی قلب کا کہتے ہیں یہاں مراد دلائل وبراہین ہیں جو قرآن میں بار بار اور جگہ جگہ بیان کئے گئے ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احادیث میں بھی بیان فرمایا ہے۔ قد جاء کم بَصَائر من ربکم، مطلب یہ ہے کہ تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آچکی ہیں اب جو بینائی سے کام لے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنا رہے گا وہ نقصان اٹھائیگا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ﴾ ” اسے آنکھیں نہیں پا سکتیں“ اس کی عظمت اور اس کے جلال و کمال کی بنا پر نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں۔ یعنی نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ اگرچہ آخرت میں اس کو دیکھ سکیں گی اور اس کے چہرہ مکرم کے نظارے سے خوش ہوں گی۔ پس ادراک کی نفی سے روئیت کی نفی لازم نہیں آتی بلکہ مفہوم مخالف کی بنا پر رؤیت کا اثبات ہوتا ہے کیونکہ ادراک، جو کہ رؤیت کا ایک خاص وصف ہے، کی نفی رؤیت کے اثبات پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ اگر اس آیت کریمہ سے رؤیت باری تعالیٰ کی نفی مراد ہوتی تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہوتا (لا تراہ الابصار) یا اس قسم کا کوئی اور فقرہ۔ پس معلوم ہوا کہ آیت کریمہ میں معطلہ کے مذہب پر کوئی دلیل نہیں جو آخرت میں رب تعالیٰ کے دیدار کا انکار کرتے ہیں، بلکہ اس سے ان کے مذہب کے نقیض (برعکس) کا اثبات ہوتا ہے۔ ﴿وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ﴾ ” اور وہ آنکھوں کو پاسکتا ہے“ یعنی وہی ہے جس کے علم نے ظاہر و باطن کا احاطہ کر رکھا ہے، اس کی سماعت تمام جہری اور خفیہ آوازوں کو سنتی ہے اور بصارت تمام چھوٹی بڑی مرئیات کو دیکھتی ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ ” اور وہ نہایت باریک بین، خبر دار ہے۔“ یعنی جس کا علم اور خبر بہت باریک اور دقیق ہے حتیٰ کہ اسرار نہاں، چھپی ہوئی چیزوں اور باطن کا بھی ادراک کرلیتا ہے۔ یہ اس کا لطف و کرم ہے کہ وہ اپنے بندے کی اس کے دینی مصالح کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور ان مصالح کو اس کے پاس اس طریقے سے پہنچاتا ہے کہ بندے کو اس کا شعور تک نہیں ہوتا اور اسے ان مصالح کے حصول کے لئے تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔ وہ اپنے بندے کو ابدی سعادت اور دائمی فلاح کی منزل پر اس طرح پہنچاتا ہے جس کا وہ اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ وہ بندے کے لئے ایسے امور مقدر کردیتا ہے جنہیں بندہ ناپسند کرتا ہے اور ان کی وجہ سے دکھ اٹھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ان کو دور کرنے کی دعا کرتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کا دین اس کے لئے زیادہ درست ہے اور اس کا کمال انہی امور پر موقوف ہے۔ پاک ہے وہ لطف و کرم والی باریک بین ذات جو مومنوں کے ساتھ بہت رحیم ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
nigahen uss ko nahi paaskten , aur woh tamam nigahon ko paaleta hai . uss ki zaat itni hi lateef hai , aur woh itna hi ba-khabar hai .