الانعام آية ۱۳۰
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِىْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۤءَ يَوْمِكُمْ هٰذَا ۗ قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰۤى اَنْفُسِنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ
طاہر القادری:
اے گروہِ جن و انس! کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تم پر میری آیتیں بیان کرتے تھے اور تمہاری اس دن کی پیشی سے تمہیں ڈراتے تھے؟ (تو) وہ کہیں گے: ہم اپنی جانوں کے خلاف گواہی دیتے ہیں، اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا اور وہ اپنی جانوں کے خلاف اس (بات) کی گواہی دیں گے کہ وہ (دنیا میں) کافر (یعنی حق کے انکاری) تھے،
English Sahih:
"O company of jinn and mankind, did there not come to you messengers from among you, relating to you My verses and warning you of the meeting of this Day of yours?" They will say, "We bear witness against ourselves"; and the worldly life had deluded them, and they will bear witness against themselves that they were disbelievers.
1 Abul A'ala Maududi
(اس موقع پر اللہ ان سے پوچھے گا کہ) "اے گروہ جن وانس، کیا تمہارے پاس خود تم ہی میں سے وہ پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو میری آیات سناتے اور اِس دن کے انجام سے ڈراتے تھے؟" وہ کہیں گے "ہاں، ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں" آج دنیا کی زندگی نے اِن لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے، مگر اُس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے
2 Ahmed Raza Khan
اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس تم میں کے رسول نہ آئے تھے تم پر میری آیتیں پڑھتے اور تمہیں یہ دن دیکھنے سے ڈراتے کہیں گے ہم نے اپنی جانوں پر گواہی دی اور انہیں دنیا کی زندگی نے فریب دیا اور خود اپنی جانوں پر گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے
3 Ahmed Ali
اے جنو اور انسانو! کی جماعت کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تمہیں میرے احکام سناتے تھے وہ اس دن کی ملاقات سے تمہیں ڈراتے تھے کہیں گے ہم اپنے گناہ کا راقرار کرتے ہیں اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ دیا ہے او راپنے اوپر ہی گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے
4 Ahsanul Bayan
اے جنات اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے (١) جو تم سے میرے احکام بیان کرتے اور تم کو آج کے دن کی خبر دیتے؟ وہ سب عرض کریں گے کہ ہم اپنے اوپر اقرار کرتے ہیں اور ان کو دنیاوی زندگی نے بھول میں ڈالے رکھا اور یہ لوگ اقرار کرنے والے ہوں گے کہ وہ کافر تھے (٢)
١٣٠۔١ رسالت و نبوت کے معاملے میں جنات انسانوں کے ہی تابع ہیں ورنہ جنات میں الگ نبی نہیں آئے البتہ رسولوں کا پیغام پہنچانے والے اور منذرین جنات میں ہوتے رہے ہیں جو اپنی قوم کے جنوں کو اللہ کی طرف دیتے رہے ہیں اور دیتے ہیں۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ جنات کا وجود انسان کے وجود سے پہلے سے ہے تو ان کی ہدایت کے لئے انہیں میں سے کوئی نبی آیا ہوگا پھر آدم علیہ السلام کے وجود کے بعد ہو سکتا ہے وہ انسانی نبیوں کے تابع رہے ہوں، البتہ نبی کریم کی رسالت بہرحال تمام جن انس کے لئے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں۔
١٣٠۔٢ میدان حشر میں کافر مختلف پینترے بدلیں گے، کبھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کریں گے (الا نعام،١٢٣) اور کبھی اقرار کئے بغیر چارہ نہیں ہوگا، جیسے یہاں ان کا اقرار نقل کیا گیا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے جنّوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر نہیں آتے رہے جو میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر سناتے اور اس دن کے سامنے آموجود ہونے سے ڈراتے تھے وہ کہیں گے کہ (پروردگار) ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے ان لوگوں کو دنیاکی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا اور (اب) خود اپنے اوپر گواہی دی کہ کفر کرتے تھے
6 Muhammad Junagarhi
اے جنات اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی پیغمبر نہیں آئے تھے، جو تم سے میرے احکام بیان کرتے اور تم کو اس آج کے دن کی خبر دیتے؟ وه سب عرض کریں گے کہ ہم اپنے اوپر اقرار کرتے ہیں اور ان کو دنیاوی زندگی نے بھول میں ڈالے رکھا اور یہ لوگ اقرار کرنے والے ہوں گے کہ وه کافر تھے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے گروہِ جن و انس! کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے (میرے) کچھ رسول نہیں آئے تھے جو تمہیں میری آیتیں سناتے تھے۔ اور تمہیں اس دن کی پیشی سے ڈراتے تھے؟ وہ جواب میں کہیں گے کہ ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں ان کو دنیوی زندگی نے دھوکہ میں مبتلا کر دیا تھا اور اب وہ اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ بے شک کافر تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے گروہ جن و انس کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے جو ہماری آیتوں کو بیان کرتے اور تمہیں آج کے دن کی ملاقات سے ڈراتے -وہ کہیں گے کہ ہم خود اپنے خلاف گواہ ہیں اور ان کو زندگانی دنیا نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا انہوں نے خود اپنے خلاف گواہی دی کہ وہ کافر تھے
9 Tafsir Jalalayn
اے جن وانسانوں کی جماعت کیا تمہارے پاس پیغمبر نہیں آتے رہے جو میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر سناتے اور اس دن کے سامنے آموجود ہونے سے ڈراتے تھے ؟ وہ کہیں گے کہ (پروردگار) ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے۔ ان لوگوں کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا اور (اب) خود اپنے اوپر گواہی دی کہ کفر کرتے تھے۔
آیت نمبر ١٣٠ تا ١٤٠
ترجمہ : اے جن و انس کے گروہو ! کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے ؟ یعنی تمہارے مجموعہ میں سے جو کہ انسانوں پر صادق ہے، یا رسل جن سے وہ آگاہ کرنے والے جن مراد ہیں جو (انسانی) رسولوں کا کلام سنتے اور اپنی قوم کو پہنچاتے تھے، جو تم کو میری آیتیں پڑھ کر سناتے اور تم کو اس دن کے پیش آنے سے آگاہ کرتے، وہ کہیں گے (ہاں) ہم خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے پاس پیغام پہنچایا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائیگا ان کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈالے رکھا جس کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لائے، اور وہ اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے یہ رسولوں کو بھیجنا اس وجہ سے ہے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو اس حال میں ہلاک کرنا نہیں چاہتا کہ وہ بیخبر ہوں کہ ان کے پاس کوئی رسول نہ بھیجا گیا ہو وہ ان کو آگاہ کرنے والا ہو، اور ہر نیک و بد عمل کرنے والے کو (اس کے عمل کی) جزاء ملے گی، اور آپ کا رب ان کے عمل سے بیخبر نہیں ہے (یعملون) یاء اور تاء کے ساتھ ہے اور آپ کا رب اپنی مخلوق اور اس کی عبادت سے مستغنی ہے، رحمت والا ہے اے اہل مکہ اگر وہ چاہے تو تم کو ہلاک کرکے نیست کر دے اور تمہارے بعد جس مخلوق کو چاہے تمہارا خلیفہ بنا دے جیسا کہ تم کو دوسری قوموں کی نسل سے پیدا کیا ہے جن کو اس نے ہلاک کردیا، لیکن محض اپنے فضل سے تم کو باقی رکھا، یقیناً تم سے جس قیامت اور عذاب کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ یقیناً آنیوالی ہے اور تم (ہم کو) عاجز کرنے والے نہیں ہو یعنی تم ہمارے عذاب سے بچ کر نہیں نکل سکتے، (اے محمد) آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اے میری قوم تم اپنے طریقہ پر عمل کرتے رہو میں اپنی طریقہ پر عمل کر رہا ہوں تم کو عنقریب معلوم ہوجائیگا کہ کس کا دار آخرت میں انجام بہتر ہے ؟ مَن موصولہ تعلمون کا مفعول ہے یعنی آخرت میں کون انجام کے اعتبار سے بہتر ہے ؟ ہم یا تم، یہ یقینی بات ہے کہ ظالم کافر کامیاب نہ ہوں گے اور کفار مکہ نے اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور مویشیوں سے ایک حصہ اس کیلئے مقرر کیا ہے جس کو وہ مہمانوں اور مسکینوں کیلئے خرچ کرتے ہیں اور ایک حصہ اپنے معبودوں کیلئے مقرر کیا ہے جس کو وہ کعبہ کے خدام کیلئے خرچ کرتے ہیں، اور بزعم خویش کہتے ہیں یہ اللہ کیلئے ہے (زعم) زاء کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ ہے اور یہ ہمارے معبودوں کیلئے ہے اگر اللہ کے حصہ میں بتوں کے حصے سے کچھ گر جاتا تو اٹھا لیتے اور اگر بتوں کے حصہ میں اللہ کے حصے میں سے کچھ گر جاتا تو چھوڑ دیتے اور کہتے کہ اللہ اس سے بےنیاز ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، پھر جو ان کے بتوں کا حصہ ہوتا ہے تو وہ اللہ کو نہیں پہنچتا اور جو اللہ کا حصہ ہوتا ہے وہ ان کے بتوں تک پہنچ جاتا ہے جو فیصلہ یہ لوگ کرتے ہیں کس قدر ناپسندیدہ ہے اور جس طرح مذکورہ چیزوں ان کے لئے خوشنما بنادی گئی ہیں اسی طرح بہت سے مشرکوں کیلئے زندہ درگور کے ذریعہ ان کی اولاد کا قتل کرنا ان کے جنی معبودوں نے خوشنما بنادیا ہے (شرکاء) کے رفع کے ساتھ زَیْنَ کا فاعل ہونے کی وجہ سے اور ایک قراءت میں (زُینَ ) مجہول کے صیغہ کے ساتھ اور قتل کے رفع اور (زین کی وجہ سے) الاولادَ کے نصب کے ساتھ اور شرکاء کے جر کے ساتھ، اس کی اضافت کی وجہ سے اور اس میں مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان مفعول کا فصل ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور قتل کی اضافت شرکاء کی جانب ان کے حکم کرنے کی وجہ سے ہے تاکہ وہ انھیں برباد کریں، اور تاکہ وہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ بنادیں، اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو وہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا انھیں اور ان کی افتراء پردازیوں کو چھوڑ دو اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کچھ جانور اور کھیت ہیں جن کا استعمال ممنوع ہے ان بتوں کے خدام میں سے صرف وہی کھا سکتا ہے جس کو ہم اجازت دیں (یہ پابندی) انکے اپنے گمان کے اعتبار سے ہے یعنی اس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور کچھ جانور ہیں کہ جن پر سواری ممنوع قرار دے لی گئی ہے کہ ان پر سواری نہیں کی جاتی جیسا کہ سوائب اور حوامی، اور کچھ جانور ہیں کہ بوقت ذبح ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے بلکہ ان پر اپنے بتوں کا نام لیتے ہیں اور اسکی نسبت وہ اللہ کی طرف کرتے ہیں محض اللہ پر افتراء کے طور پر عنقریب اللہ تعالیٰ ان کو اس پر افتراء پردازیوں کی سزا دے گا، اور وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ان حرام کردہ جانوروں کے پیٹ میں ہے اور وہ سوائب اور بحائر ہیں وہ ہمارے مردوں کیلئے خاص طور پر حلال ہے اور ہماری عورتوں کیلئے حرام ہے اور اگر وہ مردہ ہو (میتہ) رفع اور نصب کے ساتھ ہے فعل (یکن) کی تذکیر اور تانیث کے ساتھ تو اس میں سب برابر کے شریک ہیں عنقریب اللہ تعالیٰ انکی اس تحلیل و تحریم کی گھڑی ہوئی باتوں کی سزا دے گا، یقیناً وہ اپنی صنعت میں حکیم (اور) اپنی مخلوق کے بارے میں باخبر ہے یقیناً وہ لوگ خسارے میں پڑگئے جنہوں نے اپنی اولاد کو زندہ دفن کرکے جہالت اور بیوقوفی کی وجہ سے قتل کیا (قتلوا) تاء کی تشدید و تخفیف کے ساتھ ہے، اور اللہ کے دئیے ہوئے مذکورہ رزق کو اللہ پر افتراء پردازی کرکے حرام ٹھہرا لیا، یقیناً وہ گمراہ ہوگئے راہ راست پانے والے نہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : یقال لَھُمْ ، اس اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یا معشر الجن کا عامل محذوف ہے اور وہ یقال ہے نہ کہ ماقبل میں مذکور نحشرھم، المعشر بمعنی جماعت اس کی جمع مَعَاشِرَ ہے جنّ سے مراد شیاطین ہیں۔
قولہ : اِسْتَکْثَرْتُمْ ، سین، تاء، کثرت کی تاکید کے لئے ہیں۔ قولہ : باِغْوَائِکم اس میں حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے، ای باغواء الانس
قولہ : من مَجْمُوْعِکُم الصَّادِقِ بالانْسِ ، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : رسول انسان ہوتا ہے نہ کہ جن حالانکہ رسُلٌ منکم، سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول جنوں میں سے بھی ہوتے ہیں اس لئے خطاب انس و جن دونوں کو ہے۔
جواب : خطاب میں جب ثقلین جمع ہوں جیسا کہ یہاں جمع ہیں تو منکم کہنا درست ہوتا ہے اگرچہ ماد ایک ہی ہوتا ہے جیسا کہ یخرج منھما اللُّوْلُوْ والمرجان میں دریائے شور مراد ہے اسلئے کہ دریائے شور سے موتی نکلتے ہیں نہ کہ شیریں سے مگر پھر بھی منھما کہنا درست ہے، منکم ای من مجموعکم الصادق بالانس، مطلب یہ ہے کہ منکم سے مراد مجموعہ مخاطبین ہے اور مجموعہ میں انس بھی داخل ہیں لہٰذا منکم اس وقت بھی صادق آئیگا جب صرف ایک ہی فریق مراد ہو اور وہ یہاں انس ہے، رسلٌ سے دوسرے جواب کی طرف اشارہ ہے رسُلٌ سے رسول اصطلاحی مراد نہیں ہے بلکہ لغوی بمعنی قاصد مراد ہے اور یہ وہ جنات تھے جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرآن سنا تھا گویا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان کی قوم کی طرف قاصد اور نذیر تھے۔
قولہ : ذلک، یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے تقدیر عبارت یہ ہے الأمر ذلک، مبتداء محذوف کی وجہ ایک سوال کا جواب ہے سوال یہ ہے، ان لم یکن سے علت بیان ہو رہی اَنْ اصل میں لِاَنْ ہے اور علت حکم کی ہوا کرتی ہے، اور ذلک حکم نہیں ہے جواب کا حاصل یہ ہے ذلک مبتداء محذوف کی خبر ہے ای الأمر ذلک، اور اس میں حکم ہے، لہٰذا علت بیان کرنا صحیح ہوگیا لام مقدر ماننے سے عدم ربط کا اعتراض بھی ختم ہوگیا۔ قولہ : قوم آخرین، سے مراد سفینہ نوح (علیہ السلام) ہیں۔
قولہ : وَلایَضُرُّ ، اس کلمہ کے اضافہ کا مقصد صاحب کشاف اور ان حضرات پر رد کرنا ہے جو مصدر مضاف الی فاعل کے درمیان فصل مفعول بلا ضرورت شعری ناجائز کہتے ہیں۔
تفصیل : وکذلک زَیَّنَ لکثیر۔۔۔۔۔۔ الخ، اس آیت میں متعدد قراءتیں ہیں، مکتوبہ قراءت جمہور کی قراءت ہے، زَیَّنَ معروف اور شرکاؤھم اس کا فاعل ہے قَتْلَ ، زیَّنَ کا مفعول ہے اس قواءت پر کوئی اعتراض نہیں ہے ایک دوسری قراءت ابن عامر کی ہے یہ قراءت بھی قراءت سبعہ میں سے ہے، ابن عامر کی قراءت اس طرح ہے، ” وَکذلک زُیَّنَ لکثیر من المشرکین قتل اولادَھم شرکائھم “ زُیِّنَ فعل مجہول فَتْلُ ، زُیِّنَ فعل مجہول کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع اور اَوْلادَھم مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب اور شرکائِھم قَتْلُ کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے مجرور ہے اس صورت میں قتل مضاف اور شرکاء مضاف الیہ کے درمیان اولادَھم مفعول کا فصل لازم آتا ہے جو کہ بلا ضرورت شعری کلام منثور میں جائز نہیں ہے اور وہ بھی قرآن میں جو کہ اپنے لفظ و معنی کے اعتبار سے فصاحت و بلاغت میں حد اعجاز کو پہنچا ہوا ہے اس کے نادرست ہونے کی وجہ حویین کے نزدیک یہ ہے کہ مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان بلا ضرورت شعری جائز نہیں ہے، اسلئے کہ مضاف الیہ مضاف کیلئے بمنزلہ جزء کے ہوتا ہے اسلئے کہ مضاف الیہ مضاف کی تنوین کی جگہ واقع ہوتا ہے لہٰذا جس طرح اجزاء اسم کے درمیان فصل جائز نہیں ہے اسی طرح مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان فصل درست نہیں ہے اور یہ بصریین کا قول ہے، البتہ کو فیین کے نزدیک اگر مضاف مصدر اور مضاف الیہ اس کا فاعل ہو اور فصل مفعول کا ہو جیسا کہ ابن عامر کی مذکورہ قراءت میں ہے جائز ہے، لا یضرہ کہہ کر مفسر علام نے اسی جواب کی طرف اشارہ کیا ہے، (اعراب القرآن) ابن مالک نے بھی کافیہ کی شرح میں اس فصل کو بلا ضرورت شعری جائز کہا ہے، قال، اضافۃ المصدر الی الفاعل مفعولاً بینھما بمفعول المصدر جائزۃ۔
قولہ : واَضَافَۃُ القَتْلِ اِلی شُرْھائِھِم لَامْرِھِمْ بہ، اضافۃُ القتل مبتداء ہے اور لأمرھم بہ اس کی خبر ہے، مطلب یہ ہے کہ قتل کی اضافت شرکاء کی جانب مجازی ہے، اصل قاتل تو مشرکین ہیں، مگر چونکہ قتل کا حکم دینے والے شرکاء ہیں اس لئے قتل کی اضافت شرکاء کی جانب ان کے آمر ہونے کی وجہ سے کردی گئی ہے اسی کو اسناد مجازی کہتے ہیں، جیسے بنی الامیرُ المدینۃ میں بناء کی اضافت امیر کی جانب مجازی ہے، اس کے بناء کا حکم دینے کی وجہ سے۔
قولہ : بالرَفْعِ والنَصْبِ ، اگر کان تامہ ہو تو میتۃ مرفوع ہوگا اور اگر ناقصہ ہو تو نصب ہوگا۔
تفسیر و تشریح
جنات میں نبی ہوئے ہیں یا نہیں ؟ رُسُل مِنکم سے ایک بڑی بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا جنات میں بھی سلسلہ نبوت قائم رہا ہے یا نہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کے بارے میں اسلاف کی رائے بھی معلوم کرلی جائے کہ کیا جنوں کی ہدایت کیلئے ان ہی میں سے اسی طرح رسول آئے ہیں جس طرح انسانوں کی ہدایت و تبلیغ کیلئے خود انسانوں میں سے رسول آئے اس سلسلہ میں چار قول ملتے ہیں۔
دربارہ نبوت جن، اسلاف کی آراء : (١) جس طرح انسانوں کی ہدایت کیلئے انسان رسول آئے ہیں اسی طرح جنوں کی ہدایت کیلئے بھی جن رسول آئے، یہ رائے حضرت حضاک بن مزاحم سے منقول ہے ان سے کسی نے سوال کیا کہ کیا ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جنوں میں بھی رسول گذرے ہیں موصوف نے اثبات میں جواب دیا اور دلیل میں یہی آیت پڑھی اسی کی تائید میں ایک قول اور نقل ہوا ہے کہ جن و انس میں پیغمبر ان ہی کے ہم جنس آئے ہیں۔ (بیضاوی، وعلیہ ظاھر النص، مدارک)
(٢) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے انسان بھی رسول ہوتے تھے اور جن بھی یہ شرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہوا کہ آپ جن و انس دونوں کیلئے مبعوث کئے گئے، (یہ کلبی کا قول ہے) ۔
(٣) تیرا قول یہ ہے کہ رسول صرف انسان ہی ہوتے رہے ہیں، البتہ جنوں کی ہدایت کے خصوصی نمایندے جنوں میں سے مقرر ہوتے تھے ان کا یہ کام ہوتا تھا کہ انبیاء کرام کے ارشادات سنیں اور پوری احتیاط سے جنوں کی برادری تک پہنچائیں ان کو منذر یا نذر کہا جاتا تھا۔ (یہ مجاہد کا قول ہے)
(٤) آیت الم یاتکم رسُلٌ مِنکم سے یہ بات تو صاف معلوم ہوتی ہے کہ جن و انس دونوں کی ہدایت کیلئے رسول آئے، یہ بھی ہوسکتا ہے انسان ہی رسول بنائے گئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بیکوقت جن اور انس دونوں رسول بنائے گئے ہوں، اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے جنوں کو بھی شرف نبوت سے نوازا گیا ہو مگر یہ سلسلہ آنحضرت کی بعثت کے بعد موقوف کردیا گیا ہو اس قول کی بناد دو باتوں پر ہے، اول یہ کہ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” لوکان فی الارض ملٰئکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا علیہم من السماء ملکا رسولا “ ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اور مرسل الیہم میں یکجہتی ہونا ضروری ہے، اگر رسول اور مرسل الیہم میں مناسبت نہ ہو تو افادہ اور استفادہ دونوں دشوار ہوں گے اس اصول کے پیش نظر جنی رسولوں کو غالباً شرف نبوت و رسالت حاصل ہوا ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ بات یقینی ہے کہ جنوں کی پیدائش انسانوں سے کہیں پہلے ہے اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ جنات بھی اپنے اعمال کے جواب دی ہیں اگر جن اپنے اعمال کے جواب دہ نہ ہوتے تو ارشاد ربانی لاملئن جھنم من الجنۃ والناس، نہ ہوتا۔
جمہور کا فیصلہ : جمہور کا فیصلہ یہ ہے کہ مستقل انبیاء صرف انسانوں میں ہوئے ہیں جنات میں صرف ان کے نائب اور نذیر ہوتے رہے ہیں (ابن جریر) البتہ اجماع اس قول پر بھی نہیں ہے اور جن لوگوں نے اجماع کا دعویٰ کیا ہے وہ محض دعویٰ بلا دلیل ہے کیف ینعقد الاجماع مع حصول الاختلاف۔ (کبیر)
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ ان تمام جن و انس کو زجر و توبیخ کرتا ہے جو حق سے روگردانی کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دیتے ہیں، وہ ان کی خطا واضح کرتا ہے اور وہ اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ﴾ ” اے جنوں اور انسانوں کی جماعت ! کیا نہیں پہنچے تھے تمہارے پاس رسول تمہی میں سے کہ سناتے تھے تمہیں میرے حکم“ یعنی واضح آیات جن کے اندر امرو نہی، خیر و شر اور وعدو وعید کی تفصیلات ہیں﴿وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَا ۚ ﴾ ” اور اس دن کی ملاقات سے تمہیں ڈراتے تھے“ یعنی تمہیں آگاہ کرتے تھے کہ تمہاری نجات اسی میں ہے۔ فوز و فلاح صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب میں ہے اور ان کو ضائع کرنے میں انسان کی بدبختی اور خسارہ ہے وہ اس کا اقرار اور اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے ﴿شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا ۖ وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ﴾ ” ہم نے اقرار کیا اپنے گناہ کا اور ان کو دھوکہ دیا دنیا کی زندگی نے“ یعنی دنیا کی زندگی نے اپنی زینت، آرائش اور نعمتوں کے ذریعے سے ان کو دھوکے میں مبتلا کردیا، وہ دنیا پر مطمئن اور راضی ہو کر بیٹھ گئے اور دنیا نے انہیں آخرت کے بارے میں غافل کردیا۔ ﴿وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ ﴾” اور گواہی دی انہوں نے اپنے آپ پر کہ وہ کافر تھے“ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی۔ تب اس وقت ہر ایک نے اور خود انہوں نے بھی جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ عدل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں درد ناک عذاب کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمائے گا﴿ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ﴾ (الاعراف:7؍38) ” یعنی جنوں اور انسانوں کے تم سے پہلے جو گر وہ گزر چکے ہیں ان میں داخل ہوجاؤ۔“ ان کے کرتوت بھی تمہارے کرتوتوں کی مانند تھے۔ انہوں نے بھی اپنے حصے سے خوب فائدہ اٹھایا جیسے تم نے فائدہ اٹھایا۔ وہ بھی باطل میں گھس گئے جیسے تم گھس گئے ہو۔ یہ سب خسارے میں رہنے والے لوگ تھے۔ یعنی پہلے لوگ بھی اور یہ لوگ بھی اور کون سا خسارہ جنت سے محرومی کے خسارے سے بڑا خسارہ ہوسکتا ہے؟ کون سا خسارہ سب سے مکرم ہستی کی ہمسائیگی سے محرومی کے خسارے سے بڑا خسارہ ہوسکتا ہے؟ البتہ یہ لوگ اگرچہ خسارے میں مشترک ہوں گے۔ مگر خسارے کی مقدار میں وہ ایک دوسرے سے بہت متفاوت ہوں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey jinnaat aur insanon kay giroh ! kiya tumharay paas khud tum mein say woh payghumber nahi aaye thay jo tumhen meri aayaten parh ker sunatay thay , aur tum ko issi din ka samna kernay say khabrdar kertay thay jo aaj tumharay samney hai ? woh kahen gay : ( aaj ) hum ney khud apney khilaf gawahi dey di hai ( kay waqaee humaray paas payghumber aaye thay , aur hum ney unhen jhutlaya tha ) aur ( dar-haqeeqat ) unn ko dunyawi zindagi ney dhokay mein daal diya tha , aur ( abb ) unhon ney khud apney khilaf gawahi dey di kay woh kafir thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
جن اور انسان اور پاداش عمل
یہ اور سرزنش اور ڈانت ڈپٹ ہے جو قیامت کے دن اللہ کی طرف سے انسانوں اور جنوں کو ہوگی ان سے سوال ہوگا کہ کیا تم میں سے ہی تمہارے پاس میرے بھیجے ہوئے رسول نہیں آئے تھے۔ یہ یاد رہے کہ رسول کل کے کل انسان ہی تھے کوئی جن رسول نہیں ہوا۔ ائمہ سلف خلف کا مذہب یہی ہے جنات میں نیک لوگ اور جنوں کو نیکی کی تعلیم کرتے تھے۔ بدی سے روکتے تھے لیکن رسول صرف انسانوں میں سے ہی آتے رہے۔ ضحاک بن مزاحم سے ایک روایت مروی ہے کہ جنات میں بھی رسول ہوتے ہیں اور ان کی دلیل ایک تو یہ آیت ہے سو یہ کوئی دلیل نہیں اس لئے کہ اس میں صراحت نہیں اور یہ آیت تو بالکل ویسی ہی ہے جیسے آیت (مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ ) 55 ۔ الرحمن :19) سے (يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ ) 55 ۔ الرحمن :22) تک کی آیتیں صاف ظاہر ہے کہ موتی مرجان صرف کھاری پانی کے سمندروں میں نکلتے ہیں۔ میٹھے پانی سے نہیں نکلتے لیکن ان آیتوں میں دونوں قسم کے سمندروں میں سے موتیوں کا نکلنا پایا جاتا ہے کہ ان کی جنس میں سے مراد یہی ہے اس طرح اس آیت میں مراد جنوں انسانوں کی جنس میں سے ہے نہ کہ ان دونوں میں سے ہر ایک میں سے اور رسولوں کے صرف انسان ہی ہونے کی دلیل آیت ( اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ ۚ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا\016\03ۚ وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۭ وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا\016\04ۚ رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ للنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ) 4 ۔ النسآء :163) اور (وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّـتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ) 57 ۔ الحدید :26) پس ثابت ہوتا ہے کہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نبوت کا انحصار آپ ہی کی اولاد میں ہو رہا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس انوکھی بات کا قائل ایک بھی نہیں کہ آپ سے پہلے نبی ہوتے تھے اور پھر ان میں سے نبوت جھین لی گئی اور آیت اس سے بھی صاف ہے فرمان ہے آیت (وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً ۭ اَتَصْبِرُوْنَ ۚ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيْرًا) 25 ۔ الفرقان :20) یعنی تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں آتے جاتے تھے اور آیت میں ہے اور اس نے یہ مسئلہ بالکل صاف کردیا ہے فرماتا ہے آیت (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى) 12 ۔ یوسف :109) یعنی تجھ سے پہلے ہم نے مردوں کو ہی بھیجا ہے جو شہروں کے ہی تھے جن کی طرف ہم نے اپنی وحی نازل فرمائی تھی۔ چناچہ جنات کا یہی قول قرآن میں موجود ہے آیت (وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ ) 46 ۔ الاحقاف :29) جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف پھیرا جو قرآن سنتے رہے جب سن چکے تو واپس اپنی قوم کے پاس گئے اور انہیں آگاہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم نے موسیٰ کے بعد کی نازل شدہ کتاب سنی جو اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور راہ حق دکھاتی ہے اور صراط مستقیم کی رہبری کرتی ہے، پس تم سب اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی مانو اور اس پر ایمان لاؤ تاکہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخشے اور تمہیں المناک عذابوں سے بچائے اللہ کی طرف سے جو پکارنے والا ہے اس کی نہ ماننے والے اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے نہ اس کے سوا اپنا کوئی اور کار ساز اور والی پاسکتے ہیں بلکہ ایسے لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔ ترمذی وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ اس موقعہ پر جنات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة الرحمن پڑھ کر سنائی تھی جس میں ایک آیت (سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ ) 55 ۔ الرحمن :31) ہے یعنی اے جنو انسانوں ہم صرف تمہاری ہی طرف تمام تر توجہ کرنے کیلئے عنقریب فارغ ہوں گے۔ پھر تم اپنے رب کی کس نعمت کو جھٹلا رہے ہو ؟ الغرض انسانوں اور جنوں کو اس آیت میں نبیوں کے ان میں سے بھیجنے میں بطور خطاب کے شامل کرلیا ہے ورنہ رسول سب انسان ہی ہوتے ہیں۔ نبیوں کا کام یہی رہا کہ وہ اللہ کی آیتیں سنائیں اور قیامت کے دن سے ڈرائیں۔ اس سوال کے جواب میں سب کہیں گے کہ ہاں ہمیں اقرار ہے تیرے رسول ہمارے پاس آئے اور تیرا کلام بھی پہنچایا اور اس دن سے بھی متنبہ کردیا تھا۔ پھر جناب باری فرماتا ہے انہوں نے دنیا کی زندگی دھوکے میں گذاری رسولوں کو جھٹلاتے رہے۔ معجزوں کی مخالفت کرتے رہے دنیا کی آرائش پر جان دیتے رہے گئے۔ شہوت پرستی میں پڑے رہے قیامت کے دن اپنی زبانوں سے اپنے کفر کا اقرار کریں گے کہ ہاں بیشک ہم نے نبیوں کی نہیں مانی۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم