اور یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن والا (جانور) حرام کر دیا تھا اور گائے اور بکری میں سے ہم نے ان پر دونوں کی چربی حرام کر دی تھی سوائے اس (چربی) کے جو دونوں کی پیٹھ میں ہو یا اوجھڑی میں لگی ہو یا جو ہڈی کے ساتھ ملی ہو۔ یہ ہم نے ان کی سرکشی کے باعث انہیں سزا دی تھی اور یقینا ہم سچے ہیں،
English Sahih:
And to those who are Jews We prohibited every animal of uncloven hoof; and of the cattle and the sheep We prohibited to them their fat, except what adheres to their backs or the entrails or what is joined with bone. [By] that We repaid them for their transgression. And indeed, We are truthful.
1 Abul A'ala Maududi
اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دیے تھے، اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اُس کے جو اُن کی پیٹھ یا اُن کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا اُنہیں دی تھی اور یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور یہودیوں پر ہم نے حرام کیا ہر ناخن والا جانور اور گائے اور بکری کی چربی ان پر حرام کی مگر جو ان کی پیٹھ میں لگی ہو یا آنت یا ہڈی سے ملی ہو، ہم نے یہ ان کی سرکشی کا بدلہ دیا اور بیشک ہم ضرور سچے ہیں،
3 Ahmed Ali
یہود پرہم نے ایک ناخن والا جانور حرام کیا تھا اور گائے اوربکری میں سے ان دونوں کی چربی حرا م کی تھی مگر جو پشت پر یا انتڑیوں پر لگی ہوئی ہو یا جو ہڈی سے ملی ہوئی ہو ہم نے ان کی شرارت کے باعث انہیں یہ سزا دی تھی اور بے شک ہم سچے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور یہود پر ہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کر دئیے تھے (١) اور گائے اور بکری میں سے ان دونوں کی چربیاں ان پر ہم نے حرام کر دی تھیں مگر وہ جو ان کی پشت پر یا انتڑیوں میں لگی ہو یا ہڈی سے ملی ہو (٢) ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کو یہ سزا دی (٣) اور ہم یقیناً سچے ہیں (٤)۔
١٤٦۔١ ناخن والے جانوروں سے مراد وہ ہاتھ والے جانور جن کی انگلیاں پھٹی ہوئی یعنی جدا جدا نہ ہوں۔ جیسے اونٹ شتر مرغ، بطخ، قاز گائے اور بکری وغیرہ۔ ایسے سب چرند پرند حرام تھے۔ گویا صرف وہ جانور اور پرندے ان کے لئے حلال تھے جن کے پنجے کھلے ہوں۔ ١٤٦۔٢ یعنی جو چربی گائے یا بکری کی پشت پر ہو (دنبے کی چکی ہو) یا انتریوں (یا اوجھ) یا ہڈیوں کے ساتھ ملی ہو۔ چربی کی مقدار حلال تھی۔ ١٤٦۔٣ یہ چیزیں ہم نے بطور سزا ان پر حرام کی تھیں یعنی یہود کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ یہ چیزیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام کی ہوئی تھیں اور ہم تو ان کو اتباع میں ان کو حرام سمجھتے ہیں۔ ١٤٦۔٤ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود یقینا اپنے مذکورہ دعوے میں جھوٹے تھے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دئیے تھے اور گایوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کر دی تھی سوا اس کے جو ان کی پیٹھ پر لگی ہو یا اوجھڑی میں ہو یا ہڈی میں ملی ہو یہ سزا ہم نے ان کو ان کی شرارت کے سبب دی تھی اور ہم تو سچ کہنے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور یہود پر ہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کرد یئے تھے اور گائے اور بکری میں سے ان دونوں کی چربیاں ان پر ہم نے حرام کردی تھیں مگر وه جو ان کی پشت پر یا انتڑیوں میں لگی ہو یا جو ہڈی سے ملی ہو۔ ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کو یہ سزا دی اور ہم یقیناً سچے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو لوگ یہودی ہوئے ہم نے ان پر تمام کھر والے جانور حرام کر دیئے تھے۔ اور گائے بیل اور بھیڑ بکری کی چربی بھی حرام کر دی۔ سوا اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتڑیوں سے لگی ہوئی یا ہڈی سے ملی ہوئی ہو ہم نے ان کو بغاوت و سرکشی کی سزا دی تھی اور یقینا ہم بالکل سچے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن والے جانور کو حرام کردیا اور گائے اور بھیڑ کی چربی کو حرام کردیا مگر جو چربی کہ پیٹھ پر ہو یا آنتوں پر ہو یا جو ہڈیوں سے لگی ہوئی ہو .... یہ ہم نے ان کو ان کی بغاوت اور سرکشی کی سزادی ہے اور ہم بالکل سچےّ ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیے تھے اور گایوں اور بکریوں سے ان کے چربی حرام کو دی تھی سوا اس کے جو ان کی پیٹھ پر لگی ہو یا اوجھڑی ہو یا ہڈی میں ملی ہو۔ یہ سزا ہم نے ان کو ان کی شرارت کے سبب دی تھی اور ہم سچ کہنے والے ہیں۔ وعلی الذین۔۔۔۔ ذی ظفر (الآیۃ) سابق میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حرام صرف وہی چیزیں ہیں جن کو اللہ نے حرام کیا ہے کسی انسان کو کسی چیز کے حرام یا حلال ٹھہرانے کا اختیار نہیں اس پر مشرکین مکہ نے یہ کہا کہ یہود جب چیزوں کو نہیں کھاتے اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیا تھا اسلئے ہم بھی وہ چیزیں نہیں کھاتے، پھر یہ بات کیونکر درست ہوسکتی ہے کہ انسان کو کسی چیز کے حرام یا حلام ٹھہرانیکا اختیار نہیں ہے بلکہ اس وقت کے نبی کی معرفت ان کی سرکشی کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے اوپر حرام کردی تھیں یہ بات غلط ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ازخود اپنے اوپر کچھ چیزوں کو حرام کرلیا تھا۔ ذی ظفر سے وہ جانور مراد ہیں جن کی انگلیاں الگ الگ نہ ہوں مثلاً چرند میں اونٹ گائے وغیرہ، اور پرند میں بطخ، مرغ آبی۔ بعض اختلافی مسائل : پالتو گدھے کو امام حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی حرام قرار دیتے ہیں، بعض دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ حرام نہیں ہیں بلکہ کسی خاص موقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی کسی خاص وجہ سے ممانعت فرمادی تھی، درندہ جانوروں اور شکاری پرندروں اور مردار خور حیوانات کو حنفیہ مطلقًا حرام قرار دیتے ہیں، مگر امام مالک اور رازعی کے نزدیک شکاری پرندے حلال ہیں، لیث (رح) تعالیٰ کے نزدیک بلّی حلال ہے، امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک صرف وہ درندے حرام ہیں جو انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں جیسے شیر، چیتا، بھیڑیا وغیرہ، عکرمہ کے نزدیک کوا اور بجّو دونوں حلال ہیں، اسی طرح حنفیہ تمام حشرات الارض کو حرام قرار دیتے ہیں مگر ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک سانپ حلال ہے۔ (ھدایۃ القرآن)
10 Tafsir as-Saadi
اہل علم نے اس آیت کریمہ میں مذکورہ محرمات پر حصر کے بارے میں مختلف رائے کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ بھی محرمات موجود ہیں جن کا یہاں ذکر نہیں کیا گیا مثلاً (کچلیوں والے) درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے تمام پرندے، وغیرہ چنانچہ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان زائد چیزوں کی تحریم سے قبل نازل ہوئی ہے۔ اس لئے یہ حصر مذکور ان اشیاء میں تحریم متاخر کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں اس وقت اس زمرے میں نہیں آتی تھیں جس وقت مذکورہ حرمت کی وحی آپ کی طرف بھیجی گئی تھی۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ آیت مبارکہ تمام محرمات کی تحریم پر مشتمل ہے۔ البتہ بعض کی تحریم کی تصریح کردی گئی ہے اور بعض کی تحریم اس کے معنی اور حرمت کی عمومی علت سے اخذ کی گئی ہے۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت کریمہ کے اواخر میں مردار، خون اور خنزیر کے گوشت کی تحریم کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَإِنَّهُ رِجْسٌ ﴾ ” وہ ناپاک ہے“ اور یہ ایسا وصف ہے جو تمام محرمات کو شامل ہے۔ کیونکہ تمام محرمات (رجس) یعنی گندگی اور ناپاک ہیں اور یہ محرمات سب سے زیادہ ناپاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو گندگی اور ناپاکی سے بچانے کے لئے ان کو حرام قرار دیا ہے۔ ناپاک اور محرمات کی تفاصیل سنت نبوی سے اخذ کی جاتی ہیں کیونکہ سنت قرآن کی تفسیر کر کے اس کے مقاصد کو بیان کرتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے کھانے والے کے لئے صرف اسی چیز کو حرام قرار دیا جس کا اس نے ذکر فرمایا اور تحریم کا مصدر صرف اللہ تعالیٰ کی شریعت ہے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مشرکین اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کے رزق کو حرام قرار دے کر اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی اور اس کی طرف ایسی بات منسوب کرتے ہیں جو اس نے نہیں کہی۔ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں خنزیر کی حرمت کا ذکر نہ کیا ہوتا تو اس کا قوی احتمال تھا کہ آیت کریمہ کا سیاق مشرکین کے مذکورہ بالا ان اقوال کی تردید میں ہے جس میں انہوں نے ان چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا اور اپنے نفس کی فریب دہی کے مطابق اس میں مشغول ہوگئے اور یہ خاص طور پر چوپایوں کے بارے میں ہے اور ان چوپایوں میں کچھ بھی حرام نہیں سوائے ان اشیا کے جن کا ذکر آیت کریمہ میں کردیا گیا ہے مردار اور غیر اللہ کے نام پر پکاری گئی چیز اور ان کے سوا دیگر تمام اشیاء حلال ہیں۔ اس احتمال کی بنا پر، خنزیر کا یہاں ذکر شاید اس مناسبت سے کیا گیا ہو کہ بعض جہال خنزیر کو (بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ) میں داخل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خنزیر بھیڑ بکری کی نوع میں سے ہے۔ اس قسم کا تو ہم نصاریٰ میں سے جہلاء اور ان جیسے بعض دیگر لوگوں کو لاحق ہوا ہے۔ وہ خنزیر کو اسی طرح پالتے ہیں جیسے مویشیوں کو پالا جاتا ہے اور اس کو حلال سمجھتے ہیں اور وہ اس کے اور دیگر مویشیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ پس یہ تمام محرمات جو اس امت پر حرام قرار دی گئی ہیں یہ حفاظت اور تنزیہہ کی خاطر ہے۔ اور وہ چیزیں جو اہل کتاب پر حرام قرار دی گئیں ان میں سے بعض پاک اور طیب تھیں مگر سزا کے طور پر ان چیزوں کو ان پر حرام کردیا گیا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ۖ ﴾” اور یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن والے جانور کو حرام کردیا تھا“ مثلاً اونٹ اور اس قسم کے دیگر جانور ﴿وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ ﴾” اور گائے اور بکری میں سے حرام کئے تھے“ ان کے بعض اجزاء﴿شُحُومَهُمَا ﴾ اور وہ تھی ان کی چربی اور ہر قسم کی چربی ان پر حرام نہ تھی بلکہ صرف دنبے کی چکتی اور اوجھڑی اور آنتوں کی باریک چربی حرام تھی۔ اس لئے اس میں سے حلال چربی کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا ﴾” مگر وہ چربی جو پشت پر اور انتڑیوں کے ساتھ لگی ہوتی ہے“ ﴿أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ﴾ ” یا وہ چربی جو ہڈی کے ساتھ پیوست ہوتی ہے۔ “ ﴿ذَٰلِكَ ﴾” یہ“ یہودیوں پر نافذ کی گئی یہ تحریم ﴿جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ﴾” ایک سزا تھی جو ہم نے ان کو دی تھی ان کی شرارت پر“ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کے بارے میں ان کے ظلم و تعددی کی جزا تھی، پس اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے لئے یہ چیزیں حرام کردی تھیں ﴿وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ﴾ ” اور ہم سچ کہتے ہیں“ یعنی ہم جو کچھ کہتے ہیں جو کرتے ہیں اور جو فیصلہ کرتے ہیں، سب صدق پر مبنی ہوتا ہے اور اہل ایقان کے نزدیک اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا اور سب سے اچھے فیصلے کرنے والا کون ہے؟
11 Mufti Taqi Usmani
aur yahudiyon per hum ney her nakhun walay janwer ko haram kerdiya tha , aur gaye aur bakri kay ajza mein say unn ki charbiyan hum ney haram ki then , albatta jo charbi unn ki pusht per ya aanton per lagi ho , ya jo kissi haddi say mili hoi ho woh mustasna thi . yeh hum ney unn ko unn ki sarkashi ki saza di thi . aur poora yaqeen rakho kay hum sachay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
مزید تفصیل متعلقہ حلال و حرام ناخن دار جانور چوپایوں اور پرندوں میں سے وہ ہیں، جن کی انگلیاں کھلی ہوئی نہ ہوں جیسے اونٹ، شتر مرغ، بطخ وغیرہ۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ " جو کھلی انگلیوں والا نہ ہو "۔ ایک روایت میں ان سے مروی ہے کہ ہر ایک جدا انگلیوں والا اور انہی میں سے مرغ ہے۔ قتادہ کا قول ہے " جیسے اونٹ، شتر مرغ اور بہت سے پرند، مچھلیاں، بطخ اور اس جیسے جانور جن کی انگلیاں الگ الگ ہیں۔ ان کا کھانا یہودیوں پر حرام تھا۔ اسی طرح گائے بکری کی چربی بھی ان پر حرام تھی۔ یہود کا مقولہ تھا کہ اسرائیل نے اسے حرام کرلیا تھا، اس لئے ہم بھی اسے حرام کہتے ہیں۔ ہاں جو چربی پیٹھ کے ساتھ لگی ہوئی ہو، انتڑیوں کے ساتھ، اوجھڑی کے ساتھ، ہڈی کے ساتھ ہو وہ ان پر حلال تھی، یہ بھی ان کے ظلم، تکبر اور سرکشی کا بدلہ تھا اور ہماری نافرمانی کا انجام، جیسے فرمان ہے آیت (فبظلم من الذین ھادوا) یہودیوں کے ظلم وستم اور راہ حق سے روک کی وجہ سے ہم نے ان پر بعض پاکیزہ چیزیں بھی حرام کردی تھیں اور اس جزا میں ہم عادل ہی تھے اور جیسی خبر ہم نے تجھے اسے نبی دی ہے، وہی سچ اور حق ہے۔ یہودیوں کا یہ کہنا کہ حضرت اسرائیل نے اسے حرام کیا تھا، اس لئے ہم اسے اپنے آپ پر بھی حرام کرتے ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو جب معلوم ہوا کہ سمرہ نے شراب فروشی کی ہے تو آپ نے فرمایا اللہ اسے غارت کرے، کیا یہ نہیں جانتا کہ حضور نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت کی کہ جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کردیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ نے فتح مکہ والے سال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خریدو فروخت حرام فرمائی ہے آپ سے دریافت کیا گیا کہ مردار کی چربیوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اس سے چمڑے رنگے جاتے ہیں اور کشتیوں پر چڑھایا جاتا ہے اور چراغ میں جلایا جاتا ہے آپ نے فرمایا وہ بھی حرام ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت کرے، جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچ کر اس کی قیمت کھانا شروع کردی (بخاری مسلم) ایک مرتبہ آپ خانہ کعبہ میں مقام ابراہیم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور تین مرتبہ یہودیوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا ! اللہ نے ان پر چربی حرام کی تو انہوں نے اسے بیچ کر اس کی قیمت کھائی۔ اللہ تعالیٰ جن پر جو چیز حرام کرتا ہے ان پر اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے ایک مرتبہ آپ مسجد حرام میں حطیم کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسے اور یہی فرمایا (ابوداؤد ابن مردویہ مسند احمد) حضرت اسامہ بن زید وغیرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کے زمانے میں آپ کی عیادت کے لئے گئے اس وقت آپ عدن کی چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے، آپ نے چہرہ سے چادر ہٹا کر فرمایا، اللہ یہودیوں پر لعنت کرے کہ بکریوں کی چربی کو حرام مانتے ہوئے اس کی قیمت کھاتے ہیں۔ ابو داؤد میں ابن عباس (رض) سے مرفوعاً مروی ہے کہ اللہ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے۔