اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے، اور پیمانے اور ترازو (یعنی ناپ اور تول) کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو۔ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اور جب تم (کسی کی نسبت کچھ) کہو تو عدل کرو اگرچہ وہ (تمہارا) قرابت دار ہی ہو، اور اﷲ کے عہد کو پورا کیا کرو، یہی (باتیں) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو،
English Sahih:
And do not approach the orphan's property except in a way that is best [i.e., intending improvement] until he reaches maturity. And give full measure and weight in justice. We do not charge any soul except [with that within] its capacity. And when you speak [i.e., testify], be just, even if [it concerns] a near relative. And the covenant of Allah fulfill. This has He instructed you that you may remember.
1 Abul A'ala Maududi
اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو، یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو، ہم ہر شخص پر ذمہ داری کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے، اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو
2 Ahmed Raza Khan
اور یتیموں کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر بہت اچھے طریقہ سے جب تک وہ اپنی جوانی کو پہنچے اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو، ہم کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتے مگر اس کے مقدور بھر، اور جب بات کہو تو انصاف کی کہو اگرچہ تمہارے رشتہ دار کا معاملہ ہو اور اللہ ہی کا عہد پورا کرو، یہ تمہیں تاکید فرمائی کہ کہیں تم نصیحت مانو،
3 Ahmed Ali
اور سوائے کسی بہتر طریقہ کے یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچے اور ناپ اور تول کو انصاف سے پورا کرو ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جب بات کہو انصاف سے کہو اگرچہ رشتہ داری ہو اور الله کا عہد پورا کرو تمہیں یہ حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو
4 Ahsanul Bayan
اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد تک پہنچ جائے (١) اور ناپ تول پوری پوری کرو، انصاف کے ساتھ (٢) ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے (٣) اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو اور اللہ تعالٰی سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو ان کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
١٥٢۔١ جس یتیم کی کفالت تمہاری ذمہ داری قرار پائے، تو اس کی ہر طرح خیر خواہی کرنا تمہارا فرض ہے اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کے مال سے وارثت میں سے اس کو حصہ ملا ہے، چاہے وہ نقدی کی صورت میں ہو یا زمین اور جائداد کی صورت میں، تاہم ابھی وہ اس کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے مال کی اس وقت تک پورے خلوص سے حفاظت کی جائے جب تک وہ بلوغت اور شعور کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ کفالت کے نام پر، اس کی عمر شعور سے پہلے ہی اس کے مال یا جایئداد کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔ ١٥٢۔٢ ناپ تول میں کمی کرنا لیتے وقت تو پورا ناپ یا تول کر لینا، مگر دیتے وقت ایسا نہ کرنا بلکہ ڈنڈی مار کر دوسرے کو کم دینا، یہ نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ قوم شعیب میں یہی اخلاقی بیماری تھی جو ان کی تباہی کے من جملہ اسباب میں تھی۔ ١٥٢۔٣ یہاں اس بات کے بیان سے یہ مقصد ہے کہ جن باتوں کی تاکید کر رہے ہیں، یہ ایسے نہیں ہیں کہ جن پر عمل کرنا مشکل ہو، اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کا حکم ہی نہ دیتے اس لئے کہ طاقت سے بڑھ کر ہم کسی کو مکلف ہی نہیں ٹھہراتے۔ اس لئے اگر نجات اخروی اور دنیا میں عزت اور سرفرازی چاہتے ہو تو ان احکام الٰہی پر عمل کرو اور ان سے گریز مت کرو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہی ہو اور خدا کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصحیت کرو
6 Muhammad Junagarhi
اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وه اپنے سن رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول پوری پوری کرو، انصاف کے ساتھ، ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتے۔ اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو، گو وه شخص قرابت دار ہی ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو، ان کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو
7 Muhammad Hussain Najafi
(۶) اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنے سنِ رشد و کمال تک پہنچ جائے۔ (۷) اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری کرو۔ ہم کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ (۸) اور جب کوئی بات کہو تو عدل و انصاف کے ساتھ۔ اگرچہ وہ (شخص) تمہارا قرابتدار ہی کیوں نہ ہو۔ (۹) اور اللہ کے عہد و پیمان کو پورا کرو۔ یہ وہ ہے جس کی اس (اللہ) نے تمہیں وصیت کی ہے شاید کہ تم عبرت حاصل کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور خبردار مال هیتیم کے قریب بھی نہ جانا مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو یہاں تک کہ وہ توانائی کی عمر تک پہنچ جائیں اور ناپ تول میں انصاف سے پورا پورا دینا -ہم کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ہیں اور جب بات کرو تو انصاف کے ساتھ چاہے اپنی اقرباہی کے خلاف کیوں نہ ہو اور عہد خدا کو پورا کرو کہ اس کی پروردگار نے تمہیں وصیت کی ہے کہ شاید تم عبرت حاصل کرسکو
9 Tafsir Jalalayn
اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو۔ یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔ اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو۔ ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق۔ اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہو اور خدا کے عہد کو پورا کرو۔ ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ وَلا تقربوا مال الیتیم، جس یتیم کی کفالت تمہاری ذمہ داری ہے، ہر طرح اس کی خیرخواہی کرنا تمہارا فرض ہے اسی خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ یتیم کے مال سے خواہ وہ نقدی کی شکل میں ہو یا زمین جائداد اور اثاثہ کی صورت میں اور یتیم ابھی اس کی حفاظت کی اہلیت نہ رکھتا ہو اس کے مال کی اس وقت تک حفاظت کرنا ولی پر فرض ہے کہ وہ سن بلوغ و شعور کو پہنچ جائے۔ وَاوفوا الکیل والمیزان، ناپ تول میں کمی کرنا نہایت ذلیل اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے قوم شعیب میں یہی اخلاقی بیماری تھی جو ان کی تباہی کے منجملہ اسباب میں سے ایک تھی، سورة مطففین میں اس کو اسباب ہلاکت و بربادی میں شمار کرایا گیا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو جو ناپ تول میں بےانصافی کرتے ہیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ کام ہے کہ جس کی وجہ سے تم سے پہلے امتیں عذاب الہٰی کے ذریعہ ہلاک ہوچکی ہیں تم اس میں ہورے احتیاط سے کام لو۔ (ابن کثیر ملحضا)
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ ﴾” اور نہ قریب جاؤ تم یتیم کے مال کے“ یعنی مال کھانے کے لئے، یا اپنے لئے معاوضہ بنانے یا بغیر کسی سبب کے مال لینے کے لئے۔ ﴿ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ﴾” مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو۔“ یعنی البتہ ایسے طریقے سے ان کے مال کے قریب جاؤ جس سے ان کے مال کی اصلاح ہو اور وہ اس مال سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اس طریقے سے ان کے مال کی اصلاح ہو اوہ اس مال سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اس طریقے سے یتیموں کے مال کے قریب جانا اور اس میں تصرف کرنا جائز نہیں جس سے یتیموں کو نقصان پہنچتا ہو اور اس طریقے سے بھی ان کے مال کے قریب جانا جائز نہیں جس میں کوئی نقصان تو نہ ہو البتہ اس میں کوئی مصلحت بھی نہ ہو۔ ﴿حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ﴾ ” حتی کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔“ یعنی یہاں تک کہ یتیم بالغ اور سمجھ دار ہوجائے اور اسے مال میں تصرف کرنے کی معرفت حاصل ہوجائے اور جب وہ سمجھ دار اور بالغ ہوجائے تو اس وقت مال اس کے حوالے کیا جائے اور وہ خود اپنی صوابدید کے مطابق اس مال میں تصرف کرے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ یتیم بالغ ہونے سے قبل اپنے مال میں تصرف نہیں کرسکتا۔ اس کے سرپرست کو مال میں احسن طریقے سے تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ مال کے تصرف پر یہ پابندی یتیم کے بالغ ہونے پر ختم ہوجائے گی۔ ﴿وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ﴾ ” نہایت عدل و انصاف سے ناپ تول کر پورا کرو“ یعنی جب تم انصاف کے ساتھ ناپ تول کو پورا کرنے کی ذمہ داری کو ادا کرنے میں جدوجہد کرو گے تو ﴿ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ ﴾ ” ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق۔“ یعنی ہم اس کی مقدرت کے مطابق اسے مکلف بناتے ہیں اور ایسی چیز کا مکلف نہیں بناتے جو اس کے بس سے باہر ہو، پس جو کوئی ناپ تول کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور اس میں ہرگز کوتاہی نہیں برتتا اور لاعلمی میں کوئی تقصیر باقی رہ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔ اس آیت کریمہ سے علمائے اصول یہ اصول اخذ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ پس اسے جو حکم دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے ممکن حد تک اس کی تعمیل کرتا ہے، تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ﴿وَإِذَا قُلْتُمْ ﴾ ” جب کوئی بات کہو۔“ یعنی جب تم کوئی بات کہو جو لوگوں کے درمیان کسی فیصلے، کسی خطاب کی تفصیل پر مبنی ہو یا تم احوال و مقالات پر کلام کر رہے ہو ﴿فَاعْدِلُوا ﴾” تو انصاف سے کہو۔‘‘ یعنی صدق، انصاف اور عدم کتمان کو مدنظر رکھتے ہوئے ان لوگوں کے درمیان جن کو تم پسند کرتے ہو یا ناپسند کرتے ہو، عدل سے بات کرو کیونکہ جسے آپ ناپسند کرتے ہیں اس کے بارے میں یا اس کے مقالات کے بارے میں اس کے خلاف حد سے بڑھ کر بات کرنا ظلم ہے جو کہ حرام ہے، بلکہ اگر صاحب علم اہل بدعت کے مقالات و نظریات پر کلام کرتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ ہر حق دار کو اس کا حق عطا کرے اور ان مقالات میں جو کچھ حق اور باطل موجود ہے اس کو پوری طرح بیان کرے کہ ان مقالات میں کون سی چیز حق کے قریب اور کون سی چیز حق سے دور ہے۔ فقہاء نے یہاں تک ذکر کیا ہے کہ قاضی پر فرض ہے کہ وہ فریقین کے درمیان اپنے لہجے اور اپنی نظر میں بھی انصاف کرے۔ ﴿وَبِعَهْدِ اللَّـهِ أَوْفُو ۚ ﴾ ” اور اللہ کا عہد پورا کرو“ یہ آیت کریمہ اس عہد کو بھی شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اپنے حقوق پورے کروانے کے بارے میں لیا ہے اور اس عہد کو بھی شامل ہے جو مخلوق کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ پس ان تمام معاہدوں کو پورا کرنا فرض اور ان کو توڑنا یا ان میں خلل اندازی کرنا حرام ہے ﴿ذَٰلِكُمْ﴾ مذکورہ تمام احکام میں ﴿وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴾” تم کو حکم کردیا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو“ یعنی وہ تمام احکام جو اس نے تمہارے لئے بیان کئے ہیں اور تم اللہ تعالیٰ کی اس وصیت کو پوری طرح قائم کرو جو اس نے تمہیں کی ہے اور تم ان تمام حکمتوں اور احکام کی معرفت حاصل کرلو جو ان کے اندر ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur yateem jab tak pukhtagi ki umar ko naa phonch jaye , uss waqt tak uss kay maal kay qareeb bhi naa jao , magar aesay tareeqay say jo ( uss kay haq mein ) behtareen ho , aur naap tol insaf kay sath poora poora kiya kero , ( albatta ) Allah kissi bhi shaks ko uss ki taqat say ziyada ki takleef nahi deta . aur jab koi baat kaho to insaf say kaam lo , chahye moamla apney qareebi rishta daar hi ka ho , aur Allah kay ehad ko poora kero . logo ! yeh baaten hain jinn ki Allah ney takeed ki hai , takay tum naseehat qubool kero .
12 Tafsir Ibn Kathir
یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ جب آیت (ولا تقربوا) اور آیت (ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما) نازل ہوئیں تو اصحاب رسول نے یتیموں کا کھانا پینا اپنے کھانے پینے سے بالکل الگ تھلگ کردیا اس میں علاوہ ان لوگوں کے نقصان اور محنت کے یتیموں کا نقصان بھی ہونے لگا اگر بچ رہا تو یا تو وہ باسی کھائیں یا سڑ کر خراب ہوجائے جب حضور سے اس کا ذکر ہوا تو آیت (فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي ۭ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ۭوَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ) 2 ۔ البقرة :220) نازل ہوئی کہ ان کے لئے خیر خواہی کرو ان کا کھانا پینا ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں وہ تمہارے بھائی ہیں اسے پڑھ کر سن کر صحابہ نے ان کا کھانا اپنے ساتھ ملا لیا۔ یہ حکم ان کے سن بلوغ تک پہنچنے تک ہے گو بعض نے تیس سال بعض نے چالیس سال اور بعض نے ساٹھ سال کہے ہیں لیکن یہ سب قول یہاں مناسب نہیں اللہ اعلم، پھر حکم فرمایا کہ لین دین میں ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرو، ان کے لئے ہلاکت ہے جو لیتے وقت پورا لیں اور دیتے وقت کم دیں، ان امتوں کو اللہ نے غارت کردیا جن میں یہ بد خصلت تھی، جامع ابو عیسیٰ ترمذی میں ہے کہ حضور نے ناپنے اور تولنے والوں سے فرمایا تم ایک ایسی چیز کے والی بنائے گئے ہو، جس کی صحیح نگرانی نہ رکھنے والے تباہ ہوگئے، پھر فرماتا ہے، کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ہم نہیں لادتے یعنی اگر کسی شخص نے اپنی طاقت بھر کوشش کرلی دوسرے کا حق دے دیا، اپنے حق سے زیادہ نہ لیا، پھر بھی نادانستگی میں غلطی سے کوئی بات رہ گئی ہو تو اللہ کے ہاں اس کی پکڑ نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے آیت کے یہ دونوں جملے تلاوت کر کے فرمایا کہ جس نے صحیح نیت سے وزن کیا، تولا، پھر بھی واقع میں کوئی کمی زیادتی بھول چوک سے ہوگئی تو اس کا مؤاخذہ نہ ہوگا۔ یہ حدیث مرسل اور غریب ہے، پھر فرماتا ہے بات انصاف کی کہا کرو کہ قرابت داری کے معاملے میں ہی کچھ کہنا پڑے۔ جیسے فرمان ہے آیت (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بالْقِسْطِ شُهَدَاۗءَ لِلّٰهِ ) 4 ۔ النسآء :135) اور سورة نساء میں بھی یہی حکم دیا کہ ہر شخص کو ہر حال میں سچائی اور انصاف نہ چھوڑنا چاہئے۔ جھوٹی گواہی اور غلط فیصلے سے بچنا چاہئے، اللہ کے عہد کو پورا کرو، اس کے احکام بجا لاؤ، اس کی منع کردہ چیزوں سے الگ رہو، اس کی کتاب اس کے رسول کی سنت پر چلتے رہو، یہی اس کے عہد کو پورا کرنا ہے، انہی چیزوں کے بارے اللہ کا تاکیدی حکم ہے، یہی فرمان تمہارے وعظ و نصیحت کا ذریعہ ہیں تاکہ تم جو اس سے پہلے نکمے بلکہ برے کاموں میں تھے، اب ان سے الگ ہوجاؤ۔ بعض کی قرأت میں (تذکرون) بھی ہے۔