الممتحنہ آية ۱
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۤءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۤءَكُمْ مِّنَ الْحَـقِّ ۚ يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ ۗ اِنْ كُنْـتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِىْ سَبِيْلِىْ وَ ابْتِغَاۤءَ مَرْضَاتِىْ تُسِرُّوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَاَنَاۡ اَعْلَمُ بِمَاۤ اَخْفَيْتُمْ وَمَاۤ اَعْلَنْتُمْ ۗ وَمَنْ يَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۤءَ السَّبِيْلِ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم (اپنے) دوستی کے باعث اُن تک خبریں پہنچاتے ہو حالانکہ وہ اس حق کے ہی مُنکر ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے، وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور تم کو اس وجہ سے (تمہارے وطن سے) نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر جو تمہارا پروردگار ہے، ایمان لے آئے ہو۔ اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا تلاش کرنے کے لئے نکلے ہو (تو پھر اُن سے دوستی نہ رکھو) تم اُن کی طرف دوستی کے خفیہ پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم آشکار کرتے ہو، اور جو شخص بھی تم میں سے یہ (حرکت) کرے سو وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا ہے،
English Sahih:
O you who have believed, do not take My enemies and your enemies as allies, extending to them affection while they have disbelieved in what came to you of the truth, having driven out the Prophet and yourselves [only] because you believe in Allah, your Lord. If you have come out for jihad [i.e., fighting or striving] in My cause and seeking means to My approval, [take them not as friends]. You confide to them affection [i.e., instruction], but I am most knowing of what you have concealed and what you have declared. And whoever does it among you has certainly strayed from the soundness of the way.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کے لیے اور میری رضا جوئی کی خاطر (وطن چھوڑ کر گھروں سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم اُن کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں اور اُن کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اِس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب، اللہ پر ایمان لائے ہو تم چھپا کر اُن کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم انہیں خبریں پہنچاتے ہو دوستی سے حالانکہ وہ منکر ہیں اس حق کے جو تمہارے پاس آیا گھر سے جدا کرتے ہیں رسول کو اور تمہیں اس پر کہ تم اپنے رب پر ایمان لائے، اگر تم نکلے ہو میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا چاہنے کو تو ان سے دوستی نہ کرو تم انہیں خفیہ پیامِ محبت بھیجتے ہو، اور میں خوب جانتا ہوں جو تم چھپاؤ اور جو ظاہر کرو، اور تم میں جو ایسا کرے بیشک وہ سیدھی راہ سے بہکا،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ ان کے پاس دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ تمہارے پاس جو سچا دین آیا ہے اس کے یہ منکر ہو چکے ہیں رسول کو اور تمہیں ا س بات پر نکالتے ہیں کہ تم الله اپنے رب پر ایمان لائے ہو اگر تم جہاد کے لیے میری راہ میں اور میری رضا جوئی کے لیے نکلے ہوتو ان کو دوست نہ بناؤ تم ان کے پاس پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم مخفی اور ظاہر کرتے ہو اور جس نے تم میں سے یہ کام کیا تو وہ سیدھے راستہ سے بہک گیا
4 Ahsanul Bayan
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ (۱) تم دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو (۲) اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو (۳) اگر تم میری راہ میں جہاد کے لئے اور میری رضامندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو (٤) ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وہ یقیناً راہ راست سے بہک جائے گا (۵)۔
۱۔۱ کفار مکہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حدیبیہ میں جو معاہدہ ہوا تھا اہل مکہ نے اس کی خلاف ورزی کی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو خفیہ طور پر لڑائی کی تیاری کا حکم دے دیا حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ایک مہاجر بدری صحابی تھے جن کی قریش کے ساتھ کوئی رشتے داری نہیں تھی لیکن ان کے بیوی بچے مکے میں ہی تھے انہوں نے سوچا کہ میں قریش مکہ کو آپ کی تیاری کی اطلاع کردوں تاکہ اس احسان کے بدلے وہ میرے بال بچوں کا خیال رکھیں چنانچہ انہوں نے ایک عورت کے ذریعے سے یہ پیغام تحریری طور پر اہل مکہ کی طرف روانہ کردیا جس کی اطلاع بذریعہ وحی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کر دی گئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی حضرت مقداد اور حضرت زبیر رضی اللہ عنھم کو فرمایا کہ جاؤ روضہ خاخ پر ایک عورت ہوگی جو مکہ جا رہی ہوگی اس کے پاس ایک رقعہ ہے وہ لے آؤ چنانچہ وہ حضرات گئے اور اس سے یہ رقعہ لے آئے جو اس نے سر کے بالوں میں چھپارکھا تھا آپ نے حضرت حاطب رضی اللہ سے پوچھا یہ تم نے کیا کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے یہ کام کفر وارتداد کی بنا پر نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دیگر مہاجرین کے رشتے دار مکے میں موجود ہیں جو ان کے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں میرا وہاں کوئی رشتے دار نہیں ہے تو میں نے یہ سوچا کہ میں اہل مکہ کو کچھ اطلاع کردوں تاکہ وہ میرے احسان مند رہیں اور میرے بچوں کی حفاظت کریں آپ نے ان کی سچائی کی وجہ سے انہیں کچھ نہیں کہا تاہم اللہ نے تنبیہ کے طور پپر یہ آیات نازل فرما دیں تاکہ آئندہ کوئی مومن کسی کافر کے ساتھ اس طرح کا تعلق مودت قائم نہ کرے صحیح بخاری ۔
١۔۲ مطلب ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبریں ان تک پہنچا کر ان سے دوستانہ تعلق قائم کرنا چاہتے ہو؟
١۔۳ جب ان کا تمہارے ساتھ اور حق کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو تمہارے لئے کیا یہ مناسب ہے کہ تم ان سے محبت اور ہمدردی کا رویہ اختیار کرو؟
١۔٤ یہ جواب شرط، جو محذوف ہے، کا ترجمہ ہے۔
١۔۵ یعنی میرے اور اپنے دشمنوں سے محبت کا تعلق جوڑنا اور انہیں خفیہ نام و پیام بھیجنا، یہ گمراہی کا راستہ ہے، جو کسی مسلمان کے شایان شان نہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لئے (مکے سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم تو ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ (دین) حق سے جو تمہارے پاس آیا ہے منکر ہیں۔ اور اس باعث سے کہ تم اپنے پروردگار خدا تعالیٰ پر ایمان لائے ہو پیغمبر کو اور تم کو جلاوطن کرتے ہیں۔ تم ان کی طرف پوشیدہ پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔ اور جو کچھ تم مخفی طور پر اور جو علیٰ الاعلان کرتے ہو وہ مجھے معلوم ہے۔ اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا
6 Muhammad Junagarhi
اے وه لوگو جو ایمان ﻻئے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وه اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو، اگر تم میری راه میں جہاد کے لیے اور میری رضا مندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو)، تم ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیده پوشیده بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا اور وه بھی جو تم نے ﻇاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وه یقیناً راه راست سے بہک جائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمن کو اپنا ایسا (جگری) دوست نہ بناؤ کہ ان سے محبت کا اظہار کرنے لگو حالانکہ وہ اس (دینِ) حق کے منکر ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے اور وہ رسولِ خدا(ص) کو اور خود تم کو محض اس بنا پر جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لائے ہو (یہ سب کچھ کرو) اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی حاصل کرنے کیلئے (اپنے گھروں سے) نکلے ہو؟ تم چھپ کر ان کو دوستی کا پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہواور جو تم میں سے ایسا کرے وہ راہِ راست سے بھٹک گیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو خبردار میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو جب کہ انہوں نے اس حق کا انکار کردیا ہے جو تمہارے پاس آچکا ہے اور وہ رسول کو اور تم کو صرف اس بات پر نکال رہے ہیں کہ تم اپنے پروردگار (اللرُ) پر ایمان رکھتے ہو .... اگر تم واقعا ہماری راہ میں جہاد اور ہماری مرضی کی تلاش میں گھر سے نکلے ہو تو ان سے خفیہ دوستی کس طرح کررہے ہو جب کہ میں تمہارے ظاہر و باطن سب کو جانتا ہوں اور جو بھی تم میں سے ایسا اقدام کرے گا وہ یقینا سیدھے راستہ سے بہک گیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! ! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لئے (مکے سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناو تم تو انکو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ (دین) حق سے جو تمہارے پاس آیا ہے منکر ہیں۔ اور اس باعث سے کہ تم اپنے پروردگار خدائے تعالیٰ پر ایمان لائے ہو پیغمبر کو اور تم کو جلا وطن کرتے ہیں تم ان کی طرف پوشیدہ پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو جو کچھ تم مخفی طور پر اور جو علی الاعلان کرتے ہو وہ مجھے معلوم ہے۔ اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو میرے اور اپنے دشمنوں کفار مکہ کو دوست نہ بنائو تم تو ان کے پاس آپسی دوستی کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان جہاد کرنے کے ارادہ کا پیغام بھیجتے ہو، جس کو انہوں نے راز دارانہ طور پر تم کو بتادیا ہے اور ارادہ حنین کا ظاہر فرمایا۔
نوٹ :۔ بعض نسخوں میں وری بخیبر ہے جو کہ سبقت قلم ہے صحیح وری بحنین ہے۔
حاطب بن ابی بلتعہ نے اہل مکہ کے پاس اس معاملہ میں ایک خط بھیج دیا تھا، اس لئے کہ ان (اہل مکہ) کے پاس ان (حاطب بن ابی بلتعہ) کی مشرک اولاد اور اہل خانہ تھے، چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ خط اس شخص سے، اللہ تعالیٰ کے (بذریعہ) وحی اطلاع دینے کی وجہ سے واپس منگا لیا تھا، جس کے ذریعہ وہ بھیجا تھا اور حاطب (رض) کا اس معاملہ میں عذر قبول فرما لیا تھا اور اس حق یعنی دین اسلام اور قرآن کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں وہ پیغمبر کو اور (خود) تمہیں بھی مکہ سے ان کو تنگ کر کے محض اس وجہ سے نکالتے ہیں کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان رکھتے ہو اگر تم میری راہ میں جہا کے لئے اور میری رضا جوی کے لئے نکلے ہو جواب شرط جس پر اس کا ماقبل دلالت کرتا ہے ” فلا تتخذوھم اولیاء “ ہے یعنی ان کو اپنا دوست نہ بنائو، تو تم ان کے پاس دوستی کی وجہ سے خفیہ طور پر پیغام بھیجتے ہو مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا اور جو تم نے ظاہر کیا ہے، تم میں سے جو بھی آپ کے پیغام کو خفیہ طور پر پہنچانے کا کام کرے گا وہ یقینا راہ راست سے بہک جائے گا یعنی راہ ہدایت سے گھٹک گیا، سواء کے اصل معنی وسط کے ہیں، اگر وہ تم پر قابو پالیں یعنی کامیاب ہوجائیں تو تمہارے (کھلے) دشمن ہوجائیں گے اور قتل اور مارپیٹ کے لئے تم پر دست درازی اور گالی گلوچ کے لئے زبان درازی کرنے لگیں اور دل سے چاہنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگو، تمہاری قرابت داری اور تمہاری مشرک اولاد جن کے لئے تم نے خفیہ پیغام رسائی کی ہے آخرت میں عذاب سے (بچانے) میں کچھ کام نہ آئیں گی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہارے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔ (یفصل) مجہول اور معروف دونوں ہیں تو تم جنت میں ہوئو گے اور وہ منجملہ کفار کے دوزخ میں ہوں گے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اسے اللہ خوب دیکھ رہا ہے (مسلمانو ! ) تمہارے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) (کے طرز عمل) میں (اسوہ) ہمزہ کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ہے اور ان کے مومن ساتھیوں میں قولاً و فلعاً بہترین نمونہ ہے جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور جن کی تم اللہ کے سوا بندگی کرتے ہو ان سب سے بیزار ہیں (براء اء) بریء کی جمع ہے، جیسا کہ ظریف کی جمع ظرفاء آتی ہے، ہم تمہارے (عقائد) کے بالکل منکر ہیں کفرنا بکم بمعنی انکرنا ہے اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہوگئی البغضاء ابداً میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور ثانی کو وائو سے بدل کر جب تک کہ اللہ وحدہ پر ایمان نہ لائو مگر اپنے باپ سے ابراہیم (علیہ السلام) کے قول کہ میں آپ کے لئے ضرور استغفار کروں گا یہ اسوۃ سے مستثنیٰ کرنے لگو، اور مجھے خدا کے سامنے اس کے عذاب اور ثواب میں سے کسی چیز کا اختیار نہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے اس قول (ما املک) سے اس بات کی طرف کنایہ کیا ہے کہ وہ اس کے لئے سوائے استغفار کے کسی چیز کا مالک نہیں، (ما املک) لا ستغفرن پر معطوف ہے اور با عتبار مراد کے مستثنیٰ ہے اور اگرچہ ما املک، اپنے ظاہر یعنی معنی و ضعی کے اعتبار سے ان میں سے ہے، جس کی اقتداء کی جائے (جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا) قل فمن یملک لکم من اللہ شیائً اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے والد کے لئے استغفار حضرت رباہیم (علیہ السلام) پر اس کے اللہ کا دشمن ظاہر ہونے سے پہلے تھا، جیسا کہ سورة برأت میں ذکر کیا گیا، اے ہمارے پروردگار ہم تجھ پر توکل کرتے ہیں اور تیری طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے، یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا مقولہ ہے، یعنی انہوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ! تو ہم کو کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال یعنی تو ان کو ہم پر غالب نہ فرما کہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ وہ حق پر ہیں اور فتنہ پردازی کرنے لگیں، یعنی ہمارے بارے میں ان کے دماغ خراب ہوجائیں اور اے ہمارے پروردگار تو ہماری خطائوں کو معاف کر دے، بیشک تو ہی اپنے ملک میں اور اپنی صنعت میں غالب حکمت والا ہے اے امت محمد یہ ! یقینا تمہارے لئے ان میں اچھا نمونہ ہے یہ قسم مقدر کا جواب ہے، اس شخص کے لئے (لمن) کم، سے اعادہ جار کے ساتھ بدل الاشتمال ہے کہ کفار سے (دلی) دوستی رکھے، تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بالکل بےنیاز ہے اور اپنے اطاعت گزار بندوں کی حمد و (ثنا) کا سزا وار ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : قصد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں سا بات کی طرف اشارہ ہے کہ تلقون کا مفعول محذوف ہے۔
قولہ : وری یہ توریۃ کا فعل ماضی ہے، توریہ کہتے ہیں، مقصد کو پوشیدہ رکھنا اور خلاف مقصد کو ظاہر کرنا، یا ایسا لفظ بولنا جو ذومعنیین ہو، ایک معنی قریب ہوں اور دوسرے بعید، متکلم معنی بعید کا ارادہ کرے اور مخاطب معنی قریب مراد لے، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے تعاقب کرنے والے دشمن کے سوال کے جواب میں فرمایا تھا، رجل یھدینی السبیل ہدایت کے معنی رہبری کرن کے ہیں، رہبری دنیا کے راستہ کی بھی ہوتی ہے یہ معنی قریب ہیں اس لئے اولاً ذہن اسی معنی کی طرف سبقت کرتا ہے اور دوسرے معنی آخرت کی رہنمائی و رہبری کرنے کے ہیں یہ اس کے معنی بعید ہیں، حضرت ابوبکر صدیق (رض) ت عالیٰ عنہ نییہی معنی مراد لئے تھے۔
قولہ : بخیبر، یہ ناقلین کی تصحیف ہے صحیح بحنین ہے، اس لئے کہ غززوہ خیبر ماہ محرم ٧ ھ میں فتح مکہ سے ایک سال پہلے واقع ہوا ہے اور فتح مکہ ماہ رمضان ٨ ھ میں پیش آیا ہے، یہ آیات فتح مکہ کے وقت نازل ہوئی ہیں اور خیبر اس سے پہلے ہی فتح ہوچکا تھا لہٰذا خیبر کی طرف توریہ کی کوئی صورت نہیں بن سکتی۔
قولہ : بالمودۃ میں باء سبیبہ ہے۔
قولہ : باعلام اللہ تعالیٰ ، یہ فاستردہ، کے متعلق ہے۔
قولہ : لاجل ان امنتم یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ان تومنوا، بتاویل مصدر ہو کر یخرجون کا مفعول لہ ہے۔
قولہ : للجھاد اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جھاد امفعول لہ، ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور ان کنتم کا جواب شرط محذوف ہے، جس پر ” لاتتخذوا “ دلالت کرتا ہے اور وہ فلاتتخذوھم اولیاء ہے۔
قولہ : تسرون، یہ تلقون سے بدل ہے۔
قولہ : سوا السبیل یہ اضافت صفت الی الموصوف ہے، ای السبیل السواء
قولہ : لوتکفرون، لو بمعنی ان مصدریہ ای تمنوا کفر کم
قولہ : من العذاب، لن ینفعکم منفی کے متعلق ہے۔
قولہ : یوم القیمۃ اگر یہ لن تنفعکم سے متعلق ہو تو اس وقت یوم القیامۃ پر وقف ہوگا اور یفصل سے جملہ مستانفہ ہوگا اور یہ بھی درست ہے کہ اپنے مابد یفصل سے متعلق ہو، اس صورت میں اولادکم پر وقف ہوگا اور یوم القیمۃ سے جملہ مستانفہ ہوگا۔
قولہ : انا براء اوا جمع بری کظریف یعنی جس طرح ظریف کی جمع ظرفاء آتی ہے اسی طرح بری کی جمع برء اوا آتی ہے۔
قولہ : وابدال الثانیہ واوا یعنی ابداً کو وبداً بھی پڑھ سکتے ہیں۔
قولہ : مستثنیٰ من اسوۃ یعنی الاقول ابراہیم الخ قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم سے مستثنیٰ ہے، مطلب یہ ہے کہ تمہارے لئے ابراہیم (علیہ السلام) کے ہر قول میں اچھا نمونہ ہے مگر کفار کے لئے استغفار کرنے میں نہیں ہے۔
قولہ : الا قول ابراہیم لابیہ لاستغفرک لک، الا قول ابراہیم الخ مستثنیٰ ہے اور سابق میں قدر کانت لکم اسوۃ حسنۃ مستثنیٰ منہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلام والسلام کا ہر وقل و فعل قابل تاسی (یعنی قابل اقتداء) ہے مگر ان کا قول لاستغفرن لک الخ قابل تاسی نہیں ہے، خلاصہ ی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلام والسلام نے جو اپنے کافر والد کے لئے استغفار کیا یہ ہمارے لئے قابل تاسی نہیں کہ ہم بھی کافر کے لئے استغفار کرسکیں گے گویا کہ کافر باپ کی لئے استغفار کرنا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) والسلام کے لئے خاص ہے دوسروں کے لئی اس بارے میں حضرت ابراہیم علیہ الصلام و والسلام کی اقتداء جائز نہیں۔
قولہ : وما ملکلک من اللہ من شیء کا عطف لاستغفرن لک پر ہے اور معطوف و معطوف علیہ کا حکم ایک ہی ہوتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے فرمایا کہ : میں آپ کے لئے استغافر کروں گا، اور یہ بھی فرمایا کہ میں آپ کے لئے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، گویا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلا مو السلام نے اپنے والد سے دو باتیں کہیں اول یہ کہ میں آپ کے لئے استغفار کروں گا دوسری یہ کہ میں آپ کے لئے اللہ کی طرف سے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، ان دونوں باتوں کو الا قول ابراہیم کہہ کر قابل اقتداء ہونے سے درج کردیا، حالانکہ دوسری بات یعنی ما املک لک الخ قابل اقتداء ہے، دلیل اس کی اللہ تعالیٰ کا قول : قل فمن یملک لکم من اللہ شیاً ہے ( سورة فتح) بظاہر ان دونوں آیتوں میں تعارض معلوم ہوتا ہے یعنی ما املک لک من اللہ من شیء اور سورة فتح کی آیت : قل فمن یملک لکم الخ میں تعارض ہے۔
اعتراض :۔ اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہر قول و فعل کو قابل تاسی یعنی قابل اقتداء قرار دیا ہے مگر ان میں سے کافر کے لئے استغفار کو قابل اقتداء ہونے سے مستثنیٰ کردیا ہے اور اس مستثنیٰ پر وما املک لک من اللہ من شیء کا عطف کیا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ معطوف علیہ اور معطوف کا حکم ایک ہی ہوتا ہے، لہٰذا ما املک لک الخ بھی قابل اقتداء ہونے سے خارج ہوگیا حالانکہ سورة فتح کی آیت ” قا فمن یملک لکم من اللہ شئاً “ سے اس کا قابل اقتداء ہونا معلوم ہوتا ہے، اس لئے کہ کوئی بھی شخص اللہ کی طرف سے کسی خیر و شرکا کا مالک نہیں ہے، لہٰذا یہ معلوم ہوا کہ ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) کا قول ” ما املک لک من اللہ من شیء ‘ قابل اقتداء ہے نہ کہ ناقابل اقتداء۔
قولہ : کنی بہ عن انہ لا یملک لہ غیر الاستغفار سے مذکورہ اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ما املک لک من اللہ من شیء کے دو معنی ہیں ایک معنی مراد جو کہ یہاں مقصود ہیں، جس کو کنی بہ سے تعبیر کیا ہے اور دوسرے معنی وضعی جو کہ مقصود نہیں ہیں اور وہ یہ ہے کہ ما املک لک من اللہ الخ کو معطوف علیہ یعنی لاستغفرن لک الخ سیخارج کردیا جائے یعنی نہ تو کافر کے لئے استغفار کرنا قابل اقتداء اور نہ یہ کہنا قابل اقتداء ہے کہ میں آپ کے لئے اللہ کی جانب سے کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں، حالانکہ دوسری بات آیت فتح کی روشنی میں قابل اقتداء ہے۔
خلاصہ کلام :
خلاصہ کلام یہ کہ ابراہیم الصلوۃ والسلام کا قول ما املک لک الخ معنی مرادی کے اعتبار سے قابل اقتداء ہے، مگر معنی وضعی کے اعتبار سے قابل اقتداء نہیں ہے، مفسر علام کے قول مستثنیٰ من حیث المراد منہ و ان کان من حیث ظاھرہ مما یتاسی فیہ کا یہی مطلب ہے۔
مذکورہ اعتراض کا دوسرا جواب :
قولہ : وما املک لک من اللہ من شیء یہ مستثنیٰ کا تتمہ ہے، اصل مستثنیٰ لاستغفرن الخ ہے، وما املک لک جملہ حالیہ ہونے کی وج ہ سے محلا منصوب ہے اور مجموعہ کے استثناء سے تمام احوال سے استثناء لازم نہیں آتا، لہٰذا مستثنیٰ کا آخری جزء یعنی وما املک لک الخ جو دراصل مستثنیٰ کے لئے قید ہے، قابل تاسی ہونے سے خارج نہ ہوگا، اس کی تائید روح البیان کی عبارت سے بھی ہوتی ہے، فمورد الاستثناء نفس الاستغفار لاقیدہ یعنی اصل مستثنیٰ نفس استغفار ہے نہ کہ اس کی قید : ما املک لک الخ
قولہ : لمن کان یہ اعادہ جار کے ساتھ لکم کی کم ضمیر سے بدل الاشتمال ہے، صحیح تو یہ ہے کہ بدل البعض ہے، اس لئے کہ لمن کان یرجو اللہ، کم کا بعض ہے، البتہ بعض اوقات بدل الاشتمال کا اطلاق بدل البعض پر ہوجاتا ہے (کما صرح الرضی) اور جن حضرات نے ضمیر سے بدل واقع ہونے کو منع کیا ہے تو انہوں نے بدل الکل کو منع کیا ہے اور سیبویہ کے نزدیک بدل مطلقا جائز ہے۔
قولہ : من یتولی شرط ہے اور جواب شرط محذوف ہے اس کی تفسیر فوبالہ علی نفسہ اللہ تعالیٰ کا قول فان اللہ الخ جواب کی علت ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول :
یا یھا الذین امنوا لاتتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء اس سورت کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت کے نزول کا زمانہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان کا ہے جمہور مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے اور ابن عباس، مجاہد، قتادہ اور عروہ بن زبیر (رض) وغیرہ کی بھی متفقہ رائے یہی ہے کہ ان آیات کا نزول اس وقت ہوا جس وقت کہ مشرکین مکہ کے نام حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کا خط پکڑا گیا تھا۔
واقعہ کی تفصیل :
مشرکین مکہ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان حدیبیہ میں جو معاہدہ ہوا تھا، اہل مکہ نے اس کی خلاف ورزی کی اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ پر حملہ کرنے کی خفیہ طور پر تیاری شروع فرما دی، اس پروگرام کو صیغہ راز میں رکھا گیا اور چند مخصوص صحابہ کے علاوہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو نہ بتایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس مہم کے لئے تیار فرما رہے ہیں ؟ ایسا جنگی حال کے طور پر کیا گیا تاکہ دشمن کو قبل از وقت مسلمانوں کی سرگرمیوں اور ان کے منصوبوں کا پتہ نہ چل سکے، حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) ایک صحابی ہیں، جو کہ بدریین میں سے تھے، یمن کے رہنے والے تھے مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں بود و باش اختیار کرلی تھی مکہ والوں سے ان کی کوئی رشتہ داری نہیں تھی، لیکن ان کے بیوی بچے اور دیگر اہل خانہ مکہ ہی میں تھے۔
انہوں نے سوچا کہ میں قریش مکہ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکہ پر حملہ کی تیاری کی اطلاع دے کر ایک احسان کر دوں، تاکہ وہ اس کے احسان کے بدلے ان کے بیوی بچوں کا خیال رکھیں، اتفاق سے اسی زمانہ میں مکہ معظمہ سے ایک عوتر آئی جو پہلے نبی عبدالمطلب کی لونڈی تھی، اس نے آزاد ہو کر گانے بجانے کا کام شروع کردیا تھا، اس کا نام سارہ تھا اس نے مدینہ آ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی تنگ دستی کی شکایت کی اور کچھ مالی مدد کی طالب ہوئی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا ہجرت کر کے آئی ہو ؟ تو اس نے کہا نہیں، اس کے بعد دریافت فرمایا کیا تم مسلمان ہو کر آئی ہو ؟ اس کا جواب بھی نفی میں دیا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ پھر تم یہاں کس غرض سے آئی ہو ؟ تو اس نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کے اعلیٰ خادان کے لوگ تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں ہی سے میرا گذارا تھا، مکہ کے بڑے بڑے سردار تو غزوہ بدر میں مارے گئے اور آپ لوگ یہاں چلے آئے، اب میرا گذارہ مشکل ہوگیا ہے، میں سخت حاجت اور ضرورت میں مبتلا ہو کر آپ سے مدد لینے کے لئے یہاں آئی ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم تو مکہ مکرمہ کی پیشہ ور مغنیہ ہو وہ مکہ کے نوجوان کیا ہوئے (جو تجھ پر روپے پیسے کی بارش کرتے تھے) اس نے کہا واقعہ بدر کے بعد ان کی تقریبات جشن طرب ختم ہوچکی ہیں اس وقت سے مجھے کسی نے نہیں بلایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی عبدالمطلب کو اس کی مدد کی ترغیب دی، انہوں نے اس کو نقد اور کپڑے وغیرہ دے کر رخصت کیا۔ (معارف ملخصاً )
جب وہ مکہ جانے لگی تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) اس سے ملے اور چپکے سے اس کو بعض سردار ان مکہ کے نام ایک خط دے دیا اور دس دینار دیئے تاکہ وہ راز فاش نہ کرے اور یہ خط مکہ کے سرداروں کو پہنچا دے بعض روایتوں میں دس دیناروں کے ساتھ ایک چادر دینے کا بھی ذکر ہے (اعراب القرآن بحوالہ قشیری والثعلبی) ابھی وہ مدینہ سے روانہ ہی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس واقعہ کی اطلاع آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فوراً ہی حضرت علی (رض) ، حضرت زبیر (رض) اور حضرت مقداد بن اسود (رض) کو اس کے پیچھے روانہ کیا (بعض روایات میں دوسرے ناموں کا ذکر ہے) اور حکم دیا کہ تیزی سے جائو، روضہ خاخ کے مقام پر ایک عورت ملے گی جس کے پاس مشرکین کے نام حاطب (رض) کا ایک خط ہے جس طرح بھی ہو اس سے وہ خط حاصل کرو اگر وہ دیددے تو اسے چھوڑ دینا اگر نہ دے تو اس کو قتل کردینا۔
خط کا متن :
اما بعد ! فان رسول اللہ قد توجہ الیکم بجیش کاللیل یسیر کالسیل، واقسم باللہ لولم یسر الیکم الا وحدہ لاظفرہ اللہ بکم، ولانجزلہ موعدہ فیکم، فان اللہ ولیہ و ناصرہ
ترجمہ :۔ حمد و صلوۃ کے بعد، بیشک اللہ کے رسول تمہارے تمہاری طرف متوجہ ہوئے ہیں ایسا لشکر لے کر جو (کثرت میں) رات کی مانند ہے اور چلنے میں سیلاب کی مانند ہے اور میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں اگر وہ تمہاری طرف صرف اکیلے ہی متوجہ ہوتے تو بھی اللہ تعالیٰ یقیناً ان کو تم پر فتح عطا فرماتا اور ان سے تمہارے بارے میں اپنے وعدے کی ضرور تکمیل فرماتا، بلاشبہ اللہ اس کا والی اور ناصر ہے۔
حضرت علیرضی اللہ تعالیٰ عنہم فرماتے ہیں کہ ہم نے حکم کے مطابق تیزی سے اس کا تعاقب کیا، اور ٹھیک اسی جگہ جہاں کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی تھی اس عورت کو اونٹ پر سوار جاتے ہوئے پکڑ لیا، ہم نے اس سے کہا وہ خط نکالو جو تمہارے پاس ہے، اس نے کہا میرے پاس کسی کا کوئی خط نہیں ہے، ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھا دیا، اس کی تلاشی لی مگر خط ہمارے ہاتھ نہ لگا، لیکن ہم نے دل میں کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر غلط نہیں ہوسکتی ضرور خط اس نے کہیں چھپایا ہے، پھر ہم نے اس سے کہا، تو خط نکال کر دیدے ورنہ ہم ننگا کر کے تیری جامہ تلاشی لیں گے، جب اس نے دیکھا کہ ہم سے نجات مشکل ہے، تو اس نے اپنی چوٹی سے خط نکال کردیا، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ہم یہ خط لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے، حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے واقعہ سنتے ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اس شخص نے اللہ اور اس کے رسول اور سب مسلمانوں سے خیانت کی ہے، ہمرا راز کفار کو لکھ دیا، مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن مار دوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عمر ! حاطب بدر میں حاضر تھا اور تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اہل بدر کے قلوب پر مطلع ہوگیا (یعنی ان کے اخلاص و ایمان کو جان لیا ہے) اور فرمایا ہے : اعملوا ماشئتم فقد غفرت لکم جو چاہو سو کرو میں نے تمہارے گناہ خش دیئے ہیں۔ (خلاصتہ التفاسیر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے معافی کا اعلان سنا تو عمر (رض) کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ (ابن کثیر)
حاطب بن ابی بلتعہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں :
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاطب (رض) سے پوچھا تم نے یہ کیا کیا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے یہ کام کفر و ارتداد کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دیگر مہاجرین کے رشتہ دار مکہ میں موجود ہیں جو ان کے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں، میرا وہاں کوئی رشتہ دار نہیں ہے تو میں نے یہ سوچا کہ میں اہل مکہ کو کچھ اطلاع کر دوں تاکہ وہ میرے احسان مند رہیں اور میرے بچوں کی حفاظت کریں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی سچائی کی وجہ سے انہیں کچھ نہیں کہا تاہم اللہ نے تنبیہ کے طور پر یہ آیات نازل فرما دیں، تاکہ آئندہ کوئی مومن کے ساتھ اس طرح کا تعلق مودت قائم نہ کرے، سورة ممتحنہ کی ابتدائی آیتیں اسی واقعہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں۔ (صحیح بخاری تفسیر سورة الممتحنہ، صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ)
تلقون الیھم بالمودۃ (الآیۃ) مطلب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خفیہ باتیں ان تک پہنچا کر ان سے دوستانہ تعلق قائم رکھنا چاہتے ہو، حالانکہ تم کو میرے اور اپنے دشمنوں کے ساتھ دوستی کے تعلقات قائم نہیں کرنے چاہئیں کفار کو اس قسم کے خط لکھنا یہ ان کو دوستی کا پیغام دینا ہے، اپنے اور خدا کے دشمنوں سے دوستی کی توقع رکھنا سخت دھوکا ہے اس سے بچنا چاہیے اور یہ بات یاد رکھو، کہ کافر جب تک کافر ہے وہ کسی مسلمان کا اور مسلمان جب تک کہ وہ مسلمان ہے کبھی کافر کا دوست نہیں ہوسکتا، شرک اور کفر کی وجہ سے تمہارا اور ان کا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا، اللہ کے پرستاروں کا بھلا غیر اللہ کے پجاریوں سے کیا تعلق ؟
یخرجون الرسول وایاکم (الآیۃ) یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تم کو کیسی کیسی ایذائیں دیکر ترک وطن پر مجبور کیا محض اس قصور پر کہ تم ایک اللہ کو جو کہ تمہارا اور سب کا رب ہے کیوں مانتے ہو ؟ ان کنتم خرجتم جھاداً فی سبیلی (الآیۃ) یعنی تمہارا گھر بار کو چھوڑ کر نکلنا اگر میری خوشنودی اور میری راہ میں جہاد کرنے کیلئے ہے اور خلاص میری رضا کے واسطے تم نے سب کو اپنا دشمن بنایا ہے، تو پھر انہیں دشمنوں سے دوستی گانٹھنے کا کیا مطلب ہے ؟ کیا جنہیں ناراض کر کے اللہ کو راضی کیا تھا اب انہیں راضی کر کے اللہ کو نارضا کرنا چاہتے ہو ؟ وانا اعلم بما اخفیتم (الآیۃ) یعنی اگر کوئی انسان کوئی کام دنیا سے چھپا کر کرتا ہے تو کیا اس کو اللہ سے بھی چھپا پائے گا، دیکھو حاطب (رض) نے کس قدر کوشش کی کہ خط کی اطلاع کسی کو نہ ہو، مگر اللہ نے اپنے رسول کو مطلع فرما دیا۔
10 Tafsir as-Saadi
بہت سے مفسرین رحمہم اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ان آیات کریمہ کا سبب نزول حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ فتح مکہ کیا تو حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے مکہ کے مشرکین کو خط لکھا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی اطلاع دے دی۔ یہ اطلاع شک اور نفاق کی بنا پر نہ تھی بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ مشرکین پر ایک احسان کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ خط ایک عورت کے ذریعے سے روانہ کردیا ۔اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام معاملے سے آگاہ کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے مکہ پہنچنے سے پہلے پہلے اس کی طرف آدمیوں کو بھیجا اور اس سے وہ خط برآمد کرالیا ۔آپ نے حاطب رضی اللہ عنہ پر ناراضی کا اظہار فرمایا تو حاطب رضی اللہ عنہ نے ایسا عذر پیش کیا جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالیا۔ ان آیات کریمہ میں کفارو مشرکین وغیرہ سے موالات اور مودت رکھنے کی سخت ممانعت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ موالات ومودت ایمان اور ملت ابراہیم علیہ السلام کے منافی اور عقل کے خلاف ہے جو ایسے دشمن سے پوری طرح سے بچنے کو واجب قرار دیتی ہے جو اپنی دشمنی میں جہد وکوشش میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا اور اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ”اے ایمان والو!“ اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرو ،جو ایمان لائے اس کے ساتھ موالات ومودت رکھو، جو ایمان کے ساتھ عداوت رکھے تم اس کے ساتھ عداوت رکھو ،کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن اور اہل ایمان کا دشمن ہے، لہٰذا ﴿لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ ﴾ نہ بناؤ تم اللہ تعالیٰ کے دشمن کو﴿ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ ﴾ ”اور اپنے دشمن کو دوست ،تم اپنی دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔ “یعنی تم ان کی محبت ومودت اور اس کے اسباب کے حصول کی کوشش میں جلدی مچاتے ہو۔ جب مودت حاصل ہوجاتی ہے تو نصرت وموالات اس کے پیچھے آتی ہیں ،تب بندہ ایمان کے دائرے سے نکل کر اہل کفران کے زمرے میں شامل ہوجاتا ہے۔ کافر کو دوست بنانے والا یہ شخص مروت سے بھی محروم ہے، وہ اپنے سب سے بڑے دشمن سے کیوں کر موالات رکھتا ہے جو اس کے بارے میں صرف برائی کا ارادہ رکھتا ہے اور اپنے رب کی کیوں کر مخالفت کرتا ہے جو اس کے بارے میں صرف بھلائی چاہتا ہے، اسے بھلائی کا حکم دیتا ہے اور بھلائی کی ترغیب دیتا ہے؟
مومن کو کفار کے ساتھ عداوت رکھنے کی طرف یہ چیز بھی دعوت دیتی ہے کہ انہوں نے اس حق کو ماننے سے انکار کردیا جو مومنوں کے پاس آیا تھا ۔اس مخالفت اور دشمنی سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں ،انہوں نے تمہارے اصل دین کا انکار کیا ہے، ان کا گمان ہے کہ تم گمراہ ہو، ہدایت پر نہیں ہو۔ اور ان کا حال یہ ہے کہ انہوں نے حق کا انکار کیا جس میں کوئی شک وشبہ نہیں اور جو کوئی حق کو ٹھکراتا ہے تو یہ امر محال ہے کہ اس کے پاس کوئی دلیل یا حجت پائی جائے جو اس کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہو ،بلکہ حق کا مجرد علم ہی اس شخص کے قول کے بطلان اور فساد پر دلالت کرتا ہے جو حق کو ٹھکراتا ہے۔ یہ ان کی انتہا کو پہنچتی ہوئی عداوت ہے کہ ﴿یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ﴾ اے مومنو! وہ رسول کو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالتے ہیں اور تمہیں جلاوطن کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اس بارے میں تمہارا اس کے سوا کوئی گناہ نہیں کہ ﴿اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ ﴾ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے ہو جس کی عبودیت کو قائم کرنا تمام مخلوق پر فرض ہے کیونکہ اسی نے ان کی پرورش کی اور ان کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا۔ جب انہوں نے اس کام سے منہ موڑ لیا، جو سب سے بڑا فرض تھا۔ اور تم نے اس کو قائم کیا ،تو وہ تمہارے ساتھ دشمن پر اتر آئے اور اس بنا پر انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا۔ تب کون سا دین، کون سی مروت اور کون سی عقل بندے کے پاس رہ جاتی ہے اگر پھر بھی وہ کفار کے ساتھ موالات رکھے جن کا ہر زمان ومکان میں یہی وصف رہا ہے؟ ان کو خوف یا کسی طاقت ور مانع کے سوا کسی چیز نے ایسا کرنے سے نہیں روکا۔ ﴿اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِیْ ﴾ یعنی اگر تمہارا گھروں سے نکلنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے اور اس کی رضامندی کی طلب کے لیے جہاد فی سبیل اللہ ہے ،تو اس کے تقاضے کے مطابق اولیاء اللہ سے موالات اور اس کے دشمنوں سے عداوت رکھو، یہ اس کے راستے میں سب سے بڑا جہاد اور سب سے بڑا وسیلہ ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے والے اس کا تقرب حاصل کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے اس کی رضا کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ﴿ تُسِرُّوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْتُمْ وَمَآ اَعْلَنْتُمْ ﴾ یعنی تم کفار کے ساتھ مودت کو کیسے چھپاتے ہو ،حالانکہ تمہیں علم ہے کہ تم جو کچھ چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ تمہارا کفار کے ساتھ مودت وموالات رکھنا اگرچہ اہل ایمان پر چھپا ہوا ہے مگر اللہ تعالیٰ سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ وہ عنقریب اپنے بندوں کو ان کے بارے میں اپنے علم کے مطابق نیکی اور بدی کی جزا وسزا دے گا۔ ﴿وَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ﴾ اور جو کوئی کفار سے موالات رکھے اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے منع کیا ہے۔ ﴿ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیْلِ﴾ ”تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا ۔“کیونکہ وہ ایسے راستے پر چل پڑا جو شریعت، عقل اور مروت انسانی کے خلاف ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! agar tum meray raastay mein jihad kernay ki khatir aur meri khushnoodi hasil kernay kay liye ( gharon say ) niklay ho to meray dushmanon aur apney dushmanon ko aisa dost matt banao kay unn ko mohabbat kay paygham bhejney lago , halankay tumharay paas jo haq aaya hai , unhon ney uss ko itna jhutlaya hai kay woh Rasool ko bhi aur tumhen bhi sirf iss wajeh say ( makkay say ) bahir nikaltay rahey hain kay tum apney perwerdigar Allah per emaan laye ho . tum unn say khufiya tor per dosti ki baat kertay ho , halankay jo kuch tum khufiya tor per kertay ho , aur jo kuch aelania kertay ho , mein uss sabb ko poori tarah janta hun . aur tum mein say koi bhi aisa keray , woh raah-e-raast say bhatak gaya .
12 Tafsir Ibn Kathir
حضرت حاطب بن ابوبلتہ (رض) کے بارے میں اس سورت کی شروع کی آیتیں نازل ہوئی ہیں، واقعہ یہ ہوا کہ حضرت حاطب مہاجرین میں سے تھے بدر کی لڑائی میں بھی آپ نے مسلمانوں کے لشکر میں شرکت کی تھی ان کے بال بچے اور مال و دولت مکہ میں ہی تھا اور یہ خود قریش سے نہ تھے صرف حضرت عثمان (رض) کے حلیف تھے اس وجہ سے مکہ میں انہیں امن حاصل تھا، اب یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ شریف میں تھے یہاں تک کہ جب اہل مکہ نے عہد توڑ دیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر چڑھائی کرنا چاہی تو آپ کی خواہش یہ تھی کہ انہیں اچانک دبوچ لیں تاکہ خونریزی نہ ہونے پائے اور مکہ شریف پر قبضہ ہوجائے اسی لئے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کی کہ باری تعالیٰ ہماری تیاری کی خبریں ہمارے پہنچنے تک اہل مکہ کو پہنچیں ادھر آپ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا حضرت حاطب (رض) نے اس موقعہ پر ایک خط اہل مکہ کے نام لکھا اور ایک قریشیہ عورت کے ہاتھ اسے چلتا کیا جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارادے اور مسلمانوں کی لشکر کشی کی خبر درج تھی، آپ کا ارادہ اس سے صرف یہ تھا کہ میرا کوئی احسان قریش پر رہ جائے جس کے باعث میرے بال بچے اور مال دولت محفوظ رہیں، چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا قبول ہوچکی تھی ناممکن تھا کہ قریشیوں کو کسی ذریعہ سے بھی اس ارادے کا علم ہوجائے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس پوشیدہ راز سے مطلع فرما دیا اور آپ نے اس عورت کے پیچھے اپنے سوار بھیجے راستہ میں اسے روکا گیا اور خط اس سے حاصل کرلیا گیا، یہ مفصل واقعہ صحیح احادیث میں پوری طرح آچکا ہے، مسند احمد میں ہے حضرت علی (رض) فرماتے ہیں مجھے، حضرت زبیر (رض) اور حضرت مقداد (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلوا کر فرمایا تم یہاں سے فوراً کوچ کرو روضہ خاخ میں جب تم پہنچو گے تو تمہیں ایک سانڈنی سوار عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہے تم اسے قبضہ میں کر کے یاں لے آؤ، ہم تینوں گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت تیز رفتاری سے روانہ ہوگئے روضہ خاخ میں جب پہنچے تو فی الواقع ہمیں ایک سانڈنی سوار عورت دکھائی دی ہم نے اس سے کہا کہ جو خط تیرے پاس ہے وہ ہمارے حوالے کر، اس نے صاف انکار کردیا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہم نے کہا غلط کہتی ہے تیرے پاس یقین ط ہے اگر تو راضی خوشی نہ دے گی تو ہم جامہ تلاشی کر کے جبراً وہ خط تجھ سے چھینیں گے، اب تو وہ عورت سٹ پٹائی اور آخر اس نے اپنی چٹیا کھول کر اس میں سے وہ پرچہ نکال کر ہمارے حوالے کیا ہم اسی وقت وہاں سے واپس روانہ ہوئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اسے پیش کردیا، پڑھنے پر معلوم ہوا کہ حضرت حاطب (رض) نے اسے لکھا ہے اور یہاں کی خبر رسانی کی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارادوں سے کفار مکہ کو آگاہ کیا ہے، آپ نے کہا حاطب یہ کیا حرکت ہے ؟ حضرت حاطب (رض) نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلدی نہ کیجئے میری بھی سن لیجئے، میں قریشویں میں ملا ہوا تھا خود قریشیوں میں سے نہ تھا پر آپ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھ ہجرت کی جتنے اور مہاجرین ہیں ان سب کے قرابت دار مکہ میں موجود ہیں جو ان کے بال بچے وغیرہ مکہ میں رہ گئے ہیں وہ ان کی حمایت کرتے ہیں لیکن میرا کوئی رشتہ دار نہیں جو میرے بچوں کی حفاظت کرے اس لئے میں نے چاہا کہ قریشیوں کے ساتھ کوئی سلوک و احسان کروں جس سے میرے بچوں کی حفاظت وہ کریں اور جس طرح اوروں کے نسب کی وجہ سے ان کا تعلق ہے میرے احسان کی وجہ سے میرا تعلق ہوجائے۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے کوئی کفر نہیں کیا نہ اپنے دین سے مرتد ہوا ہوں نہ اسلام کے بعد کفر سے راضی ہوا ہوں بس اس خط کی وجہ سے صرف اپنے بچوں کی حفاظت کا حیلہ تھا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو تم سے جو واقعہ حاطب بیان کرتے ہیں وہ بالکل حرف بہ حرف سچا ہے کہ اپنے نفع کی خاطر ایک غلطی کر بیٹھے ہیں نہ کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا یا کفار کی مدد کرنا ان کے پیش نظر ہو، حضرت فاروق اعظم (رض) اس موقعہ پر موجود تھے اور یہ واقعات آپ کے سامنے ہوئے آپ کو بہت غصہ آیا اور فرمانے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں آپ نے فرمایا تمہیں کیا معلوم نہیں ؟ کہ یہ بدری صحابی ہیں اور بدر والوں پر اللہ تعالیٰ نے جھانکا اور فرمایا جو چاہو عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا، یہ روایت اور بھی بہت سی حدیث کی کتابوں میں ہے، صحیح بخاری شریفک تاب المغازی میں اتنا اور بھی ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری اور کتاب التفسیر میں ہے کہ حضرت عمرو (رض) نے فرمایا اسی بارے میں آیت (ترجمہ) الخ، اتری لیکن راوی کو شک ہے کہ آیت کے اترنے کا بیان حضرت عمرو (رض) کا ہے یا حدیث میں ہے، امام علی بن مدینی (رح) فرماتے ہیں حضرت سفیان (رح) سے پوچھا گیا کہ یہ آیت اسی میں اتری ہے ؟ تو سفیان نے فرمایا یہ لوگوں کی بات میں ہے میں نے اسے عمرو (رض) سے حفظ کیا ہے اور ایک حرف بھی نہیں چھوڑا اور میرا خیال ہے کہ میرے سوا کسی اور نے اسے حفظ بھی نہیں رکھا، بخاری مسلم کی ایک روایت میں حضرت مقداد (رض) کے نام کے بدلے حضرت ابومرتد (رض) کا نام ہے اس میں یہ بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی بتادیا تھا کہ اس عورت کے پاس حضرت حاطب (رض) کا خطہ ہے، اس عورت کی سواری کو بٹھا کر اس کے انکار پر ہرچند ٹٹولا گیا لیکن کوئی پرچہ ہاتھ نہ لگا آخر جب ہم عاجز آگئے اور کہیں سے پرچہ نہ ملا تو ہم نے اس عرت سے کہا کہ اس میں تو مطلق شک نہیں کہ تیرے پاس پرچہ ہے گو ہمیں نہیں ملتا لیکن تیرے پاس ہے ضرور، یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات غلط ہو اب اگر تو نہیں دیتی تو ہم تیرے کپڑے اتار کر ٹٹولیں گے، جب اس نے دیکھ لیا کہ انہیں پتہ یقین ہے اور یہ لئے بغیر نہ ٹلیں گے تو اس نے اپنا سر کھول کر اپنے بالوں میں سے پرچہ نکال کر ہمیں دے دیا ہم اسے لے کر واپس خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اضر ہوئے، حضرت عمر (رض) نے یہ واقعہ سن کر فرمایا اس نے اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور مسلمانوں کی خیانت کی مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دیجئے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حاطب (رض) سے دریافت کیا اور انہوں نے وہ جواب دیا جو اوپر گذر چکا آپ نے سب سے فرما دیا کہ انہیں کچھ نہ کہو اور حضرت عمر (رض) سے بھی وہ فرمایا جو پہلے بیان ہوا کہ بدری صحابہ میں سے ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنت واجب کردی ہے جسے سن کر حضرت عمر (رض) رو دیئے اور فرمانے لگے اللہ کو اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہی کامل علم ہے، یہ حدیث ان الفاظ سے صحیح بخاری کتاب المغازی میں غزوہ بدر کے ذکر میں ہے اور روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مکہ جانے کا ارادہ اپنے چند ہم راز صحابہ کبار (رض) کے سامنے تو ظاہر کیا تھا جن میں حضرت حاطب (رض) بھی تھے باقی عام طور پر مشہور تھا کہ خیبر جا رہے ہیں، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ہم خط کو سارے سامان میں ٹٹول چکے اور نہ ملا تو حضرت ابو مرتد (رض) نے کہا شاید اس کے پاس کوئی پرچہ ہی نہیں اس پر حضرت علی (رض) نے فرمایا ناممکن ہے نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جھوٹ بول سکتے ہیں نہ ہم نے جھوٹ کہا، جب ہم نے اسے دھمکایا تو اس نے ہم سے کہا تمہیں اللہ ا خوف نہیں ؟ کیا تم مسلمان نہیں ؟ ایک روایت میں ہے کہ اس نے پرچہ اپنے جسم میں سے نکالا۔ حضرت عمر (رض) کے فرمان میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا یہ بدر میں موجود تو ضرور تھے لیکن عہد شکنی کی اور دشمنوں میں ہماری خبر رسانی کی اور روایت میں ہے کہ یہ عورت قبیلہ مزینہ کی عورت تھی، بعض کہتے ہیں اس کا نام سارہ تھا اور دشمنوں میں ہماری خبر رسانی کی اور روایت میں ہے کہ یہ عورت قبیلہ مزینہ کی عورت تھی، بعض کہتے ہیں اس کا نام سارہ تھا اولاد عبدالمطلب کی آزاد کردہ لونڈی تھی حضرت حاطب (رض) نے اسے کچھ دینا کیا تھا اور اس نے اپنے بالوں تلے کاغذ رکھ کر اوپر سے سرگوندھ لیا تھا آپ نے اپنے گھوڑ سواروں سے فرما دیا تھا کہ اس کے پاس حاطب (رض) کا دیا ہوا اس مضمون کا خط ہے، آسمان سے اس کی خبر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی تھی بنو ابو احمد کے حلیفہ میں یہ عورت پکڑی گئی تھی، اس عورت نے ان سے کہا تھا کہ تم منہ پھیر لو میں نکال دیتی ہوں انہوں نے منہ پھیرلیا پھر اس نے نکال کر حوالہ کیا، اس روایت میں حضرت حاطب (رض) کے جواب میں یہ بھی ہے کہ اللہ کی قسم میں اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھتا ہوں کوئی تغیر تبدل میرے ایمان میں نہیں ہوا، اور اسی بارے میں اس سورت کی آیتیں حضرت ابراہیم کے قصہ کے ختم تک اتریں، ایک اور روایت میں ہے کہ اس عورت کو اس کی اجرت کے دس درہم حضرت حاطب (رض) نے دیئے تھے، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خط کے حاصل کرنے کے لئے حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) کو بھیجا تھا اور حجفہ میں یہ ملی تھی۔ مطلب آیتوں کا یہ ہے کہ اے مسلمانو ! مشرکین اور کفار کو جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومن بندوں سے لڑنے والے ہیں، جن کے دل تمہاری عداوت سے پر ہیں تمہیں ہرگز لائق نہیں کہ ان سے دوستی اور محبت میل ملاپ اور اپنایت رکھو تمہیں اس کے خلاف حکم دیا گیا ہے ارشاد ہے (ترجمہ) الخ، اے ایماندار و یہود و نصاریٰ سے دوستی مت گانٹھو وہ آپس میں ہی ایک دوسروں کے دوست ہیں تم میں سے جو بھی ان سے سوالات و محبت کرے وہ انہی میں سے شمار ہوگا۔ اس میں کس قدر ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے اور جگہ ہے (ترجمہ) الخ، مسلمانو ! ان اہل کتاب اور کفار سے دوستیاں نہ کرو جو تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھیل کود سمجھ رہے ہیں اگر تم میں ایمان ہے تو ذات باری سے ڈرو، ایک اور جگہ ارشاد ہے مسلمانو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں نہ کرو کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا کھلا الزام ثابت کرلو، ایک اور جگہ فرمایا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنوں کے علاوہ کافروں سے دوستانہ نہ کریں جو ایسا کیر گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں ہاں بطور دفع الوقتی اور بچاؤ کے ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آپ سے ڈرا رہا ہے، اسی بنا پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حاطب (رض) کا عذر قبول فرما لیا کہ اپنے مال و اولاد کے بچاؤ کی خاطر یہ کام ان سے ہوگیا تھا، مستند احمد میں ہے کہ ہمارے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کئی مثالیں بیان فرمائیں ایک اور تین اور پانچ اور سات اور نو اور گیارہ پھر ان میں سے یہ تفصیل صرف ایک ہی بیان کی باقی سب چھوڑ دیں، فرمایا ایک ضعیف مسکین قوم تھی جس پر زور آور ظالم قوم چڑھائی کر کے آگئی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کمزوروں کی مدد کی اور انہیں اپنے دشمن پر غالب کردیا غالب آ کر ان میں رعونت سما گئی اور انہوں نے ان پر مظالم شروع کردیئے جس پر اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ کے لئے ناراض ہوگیا۔ پھر مسلمانوں کو ہوشیار کرتا ہے کہ تم ان دشمنان دین سے کیوں مودت و محبت رکھتے ہو ؟ حالانکہ یہ تم سے بدسلوکی کرنے میں کسی موقعہ پر کمی نہیں کرتے کیا یہ تازہ واقعہ بھی تمہارے ذہن سے ہٹ گیا کہ انہوں نے تمہیں بلکہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی جبراً وطن سے نکال باہر کیا اور اس کی کوئی اور وجہ نہ تھی سوائے اس کے کہ تمہاری توحید اور فرمانبرداری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر گراں گذرتی تھی۔ جیسے اور جگہ ہے (ترجمہ) یعنی مومنوں سے صرف اس بنا پر مخاصمت اور دشمنی ہے کہ وہ اللہ برتر بزرگ پر ایمان رکھتے ہیں اور جگہ ہے یہ لوگ محض اس وجہ سے ناحق جلا وطن کئے گئے کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔ پھر فرماتا ہے اگر سچ مچ تم میری راہ کے جہاد کو نکلے ہو اور میری رضامندی کے طالب ہو تو ہرگز ان کفار سے جو تمہارے اور میرے دشمن ہیں میرے دین کو اور تمہارے جان و مال کو نقصان پہنچا رہے ہیں دوستیاں نہ پیدا کرو، بھلا کس قدر غلطی ہے کہ تم ان سے پوشیدہ طور پر دوستانہ رکھو ؟ کیا یہ پوشیدگی اللہ سے بھی پوشیدہ رہ سکتی ہے ؟ جو ظاہر وباطن کا جاننے والا ہے، دلوں کے بھید اور نفس کے وسوسے بھی جس کے سامنے کھلے ہوئے ہیں۔ بس سن لو جو بھی ان کفار سے موالات و محبت رکھے وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا۔ تم نہیں دیکھ رہے ؟ کہ ان کافروں کا اگر بس چلے اگر انہیں کوئی موقعہ مل جائے تو نہ اپنے ہاتھ پاؤں سے تمہیں نقصان پہنچانے میں دریغ کریں نہ برا کہنے سے اپنی زبانیں روکیں جو ان کے امکان میں ہوگا وہ کر گذریں گے بلکہ تمام تر کوشش اس امر پر صرف کردیں گے کہ تمہیں بھی اپنی طرح کافر بنالیں، پس جب کہ ان کی اندرونی اور بیرنی دشمنی کا حال تمہیں بخوبی معلوم ہے پھر کیا اندھیر ہے ؟ کہ تم اپنے دشمنوں کو دوست سمجھ رہے ہو اور اپنی راہ میں آپ کانٹے بو رہے ہو، غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو کافروں پر اعتماد کرنے اور ان سے ایسے گہرے تعلقات رکھنے اور دلی میل رکھنے سے روکا جا رہا ہے اور وہ باتیں یاد دلائی جا رہی ہیں جو ان سے علیحدگی پر آمادہ کردیں۔ تمہاری قرابتیں اور رشتہ داریاں تمہیں اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی، اگر تم اللہ کو ناراض کر کے انہیں خوش کرو اور چاہو کہ تمہیں نفع ہو یا نقصان ہٹ جائے یہ بالکل خام خیالی ہ، نہ اللہ کی طرف کے نقصان کو کوئی ٹال سکے نہ اس کے دیئے ہوئے نفع کو کوئی روک سکے، اپنے والوں سے ان کے کفر پر جس نے موافقت کی وہ برباد ہوا، گو رشتہ دار کیسا ہی ہو کچھ نفع نہیں، مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا باپ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا جہنم میں۔ جب وہ جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا سن میرا باپ اور تیرا باپ دونوں ہی جہنمی ہیں۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں اور سنن ابو داؤد میں بھی ہے۔
مسلمانو ! تمہارے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ اور اچھی پیروی موجود ہے۔ جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے عقائد کے منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے عداوت و بغض ظاہر ہوگیا لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں، اے ہمارے پروردگار تجھ ہی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ اے اللہ تو ہمیں کافروں کا زبردست اور تختہ مشق نہ بنا اور اے ہمارے پالنے والے ہماری خطاؤں کو بخش دے، بیشک تو ہی غالب حکمتوں والا ہے۔ یقیناً تمہارے لئے ان میں نیک نمونہ اور عمدہ پیروی ہے خاص کر ہر اس شخص کے لئے جو اللہ کی اور قیامت کے دن کی ملاقات کا اعتقاد رکھتا ہو اور اگر کوئی روگردانی کرے تو اللہ تعالیٰ بالکل بےپرواہ ہے اور وہ سزا وار حمد وثناء ہے۔