الممتحنہ آية ۷
عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ عَادَيْتُمْ مِّنْهُمْ مَّوَدَّةً ۗ وَاللّٰهُ قَدِيْرٌۗ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
طاہر القادری:
عجب نہیں کہ اللہ تمہارے اور اُن میں سے بعض لوگوں کے درمیان جن سے تمہاری دشمنی ہے (کسی وقت بعد میں) دوستی پیدا کر دے، اور اللہ بڑی قدرت والا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
English Sahih:
Perhaps Allah will put, between you and those to whom you have been enemies among them, affection. And Allah is competent, and Allah is Forgiving and Merciful.
1 Abul A'ala Maududi
بعید نہیں کہ اللہ کبھی تمہارے اور اُن لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور وہ غفور و رحیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
قریب ہے کہ اللہ تم میں اور ان میں جو ان میں سے تمہارے دشمن ہیں دوستی کردے اور اللہ قادر ہے اور بخشنے والا مہربان ہے،
3 Ahmed Ali
شاید کہ الله تم میں اور ان میں کہ جن سے تمہیں دشمنی ہے دوستی قائم کر دے اور الله قادر ہے اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
4 Ahsanul Bayan
کیا عجب کہ عنقریب ہی اللہ تعالٰی تم میں اور تمہارے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے (١) اللہ کو سب قدرتیں ہیں اور اللہ (بڑا) غفور رحیم ہے۔
٧۔١ یعنی ان کو مسلمان کرکے تمہارا بھائی اور ساتھی بنا دے، جس سے تمہارے مابین عداوت، دوستی اور محبت میں تبدیل ہو جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، فتح مکہ کے بعد لوگ فوج در فوج مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور ان کے مسلمان ہوتے ہی نفرتیں، محبت میں تبدیل ہوگئیں، جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے، وہ دست و بازو بن گئے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
عجب نہیں کہ خدا تم میں اور ان لوگوں میں جن سے تم دشمنی رکھتے ہو دوستی پیدا کردے۔ اور خدا قادر ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
6 Muhammad Junagarhi
کیا عجب کہ عنقریب ہی اللہ تعالیٰ تم میں اور تمہارے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے۔ اللہ کو سب قدرتیں ہیں اور اللہ (بڑا) غفور رحیم ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بہت ممکن ہے کہ اللہ تمہارے درمیان اور ان لوگون کے درمیان جن سے (آج) تمہاری دشمنی ہے کبھی محبت پیدا کر دے اور اللہ بڑی قدرت والا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
قریب ہے کہ خدا تمہارے اور جن سے تم نے دشمنی کی ہے ان کے درمیان دوستی قرار دے دے کہ وہ صاحب هقدرت ہے اور بہت بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
عجب نہیں کہ خدا تم میں اور ان لوگوں میں جن سے تم دشمنی رکھتیں ہو دوستی پیدا کر دے اور خدا قادر ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
ترجمہ : کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ عنقریب ہی تم میں اور تمہارے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے جن کفار مکہ سے تم نے خدا کی طاعت میں دشمنی کی ہے، اس طریقہ سے کہ وہ ان کو ایمان کی ہدایت دیدے، تو وہ تمہارے دوست ہوجائیں، اللہ ت عالیٰ اس بات پر قادر ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے بعد ایسا کر بھی دیا اور اللہ تعالیٰ ان کے سابقہ (گناہوں) کو معاف کرنے والا ان پر رحم کرنے والا ہے اللہ ت عالیٰ تم کو ان کفار کے ساتھ جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں کی اور نہ انہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے حسن سلوک کرنے سے الذین سے بدل الاشتمال ہے اور انصاف کا برتائو کرنے سے منع نہیں کرتا اور یہ حکم، جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑیں اور تمہیں جلا وطن کیا، اور تم کو جلا وطن کرنے میں مدد کی الذین سے بدل الاشتمال ہے، یعنی یہ کہ تم ان کو دسوت نہ بنائو، جو لوگ ایسے کافروں سے محبت کریں وہ (قطعا) ظالم ہیں، اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس اقرار کرنے والی مومن عورتیں کفار سے ہجرت کر کے آئیں ان کے ساتھ حدیبیہ میں اس بات پر صلح کرنے کے بعد کہ جو ان میں سے مومنین کے پاس آئے گا اس کو لوٹا دیا جائے گا، تو ان کو حلف کے ذریعہ جانچ کرلیا کریں کہ وہ صرف اسلام میں رغبت کی وجہ سے ہجرت کر کے آئی ہیں، نہ کہ اپنے کفار شوہروں سے بعض کی وجہ سے، اور نہ کسی مسلمان سے عشق کی وجہ سے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے ایسی ہی قسم لیا کرتے تھے، ان کے حقیقی ایمان کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے لیکن اگر وہ تمہیں قسم کی وجہ سے مومنہ معلوم ہوں تو تم ان کو کافروں کی طرف مت لوٹائو یہ ان کے لئے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لئے حلال ہیں اور ان کے کافر شوہروں کو جو مہران پر خرچ ہوا ہو وہ ان کو دیدو اور جب تم ان عورتوں کا مہر ادا کردو تو تم پر ان سے نکاح کرنے میں نکاح کی شرط کے ساتھ کوئی گناہ نہیں ہے اور اپنی بیویوں میں سے کافر عورتوں کی ناموس اپنے قبضے میں نہ رکھو تمہارے اسلام کے ان کو (تم سے) منقطع کرنے کی وجہ سے اس کی شرط کے ساتھ یا ان بیویوں کے مرتد ہو کر مشرکین سے جا ملنے کے سبب ان کے ارتداد کے سبب، تمہارے نکاح منقطع کرنے کی وجہ سے اس کی شرط کے ساتھ، اور جو کچھ تم نے ان پر مہر خرچ کیا ہو ان کے ارتداد کی صورت میں ان کے کافر شوہروں سے طلب کرلو، اور وہ بھی مہاجرات پر خرچ کیا ہوا مال طلب کرلیں جیسا کہ سابق میں گذر چکا کہ ان کو دیا جائے گا یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو تمہارے درمیان کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ بڑا علم و حکمت والا ہے اور اگر تمہاری کوئی بیوی تمہارے ہاتھ سے نکل جائے ایک یا اس سے زیادہ یا ان کا کچھ مہر فوت ہوجائے اور مرتد ہو کر ان کفار سے جا ملنے کی وجہ سے، پھر جب تم ان سے جہاد کرو اور تم کو مال غنیمت حاصل ہو تو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں تو انہیں ان کے اخراجات کے برابر ان کو مال غنیمت سے دیدو کفار کی طرف سے ان کے نفقہ کے فوت ہوجانے کی وجہ سے اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو اور بلاشبہ مومنین نے اس پر عمل کیا جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا، یعنی کافروں اور مومنین کو دیکر، پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا، اے پیغمبر ! جب مسلمان عورتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور زنا، نہ کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی جیسا کہ وہ زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ دفن کیا کرتی تھیں یعنی شرم یا فقر کے خوف سے ان کو زندہ دفن کیا کرتی تھیں اور نہ کوئی بہتان کی اولاد دلائیں گی جس کو اپنے ہاتھوں اور پیروں کے درمیان بنا لیویں یعنی اٹھائے ہوئے بچہ کو اپنے شوہر کی طرف منسوب نہ کریں گی (بین ایدیھن) سے ولد حقیقی کا وصف بیان کیا ہے، اس لئے کہ ماں جب اس کو جنتی ہے تو وہ اس کے ہاتھوں اور پیروں کے درمیان گرتا ہے اور کسی نیک کام میں تیری حکم عدولی نہ کریں گی اور نیک کام وہ ہے جو اللہ کی طاعت کے مطابق ہو، جیسا کہ نوحہ کرنے کو اور کپڑے پھاڑ نے کو اور بال نوچنے کو اور گریبان پھاڑنے کو اور چہرہ نوچنے کو ترک کرنا ہے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انس سے بیعت فرما لیا کریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیعت کا یہ عمل قولات فرمایا اور کسی عورت سے مصافحہ نہیں فرمایا اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں، بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا معاف کرنے والا ہے اے مسلمانو ! تم اس قوم سے دوستی نہ رکھو جن پر اللہ کا غضب نازل ہوچکا ہے وہ یہود ہیں جو آخرت سے اس طرح مایوس ہوچکے ہیں یعنی اس کے ثواب سے آخرت پر ایمان رکھنے کے باوجود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عنا دیک وجہ سے ان کے برحق ہونے کا علم رکھنے کے باوجود جیسا کہ کفار جو قبروں میں آخرت کی خیر سے ناامید ہوچکے ہیں جب کہ ان کے روبرو ان کا جنت کا ٹھکانہ پیش کیا جائے گا اگر ایمان لائے ہوتے اور جہنم کا وہ ٹھکانہ جس کی طرف وہ جا رہے ہوں گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : طاعۃ للہ تعالیٰ ای عادیتم لاجل طاعۃ اللہ طاعۃ للہ یہ عادیتم کا مفعول لہ ہے۔
قولہ : تقضوا تقسطوا کی تفسیر تقضوا سے کر کے یہ بتادیا کہ تقسطوا، تقضوا کے معنی کو متضمن ہے، تاکہ اس کا صلہ الی لانا صحیح ہوجائے، تقسطوا کا عطف تبروھم پر عطف خاص علی العام کے قبیل سے ہے، بہتر ہوتا کہ تقسطوا کی تفسیر تعطوھم قسطامن اموالکم سے کرتے یعنی ان کے ساتھ حسن سلوک کروا اور ان کو اپنے اموال میں سے کچھ دیدیا کرو، اس لئے کہ صرف نہ لڑنے والے کافروں کے ساتھ انصاف کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں، عدل و انصاف تو ہر ایک کے ساتھ ضروری ہے خواہ وہ محارب ہو یا نہ ہو، لہذا عدل کی تخصیص صرف غیر مہاجرین کے ساتھ مناسب نہیں ہے۔
قولہ : بشرطہ یعنی نکاح کے شرائط کو پورا کر کے تم ان سے نکاح کرسکتے ہو مثلاً یہ کہ حالت اسلام میں اس کی عدت گذر جائے اگر وہ مدخول بہا ہو اور یہ کہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو۔
قولہ : عصم، عصمۃ کی جمع ہے بمعنی نکاح، ناموس، کو افر، جمع کافرۃ جیسا کہ ضوارب، جمع ضاربۃ
قولہ : لقطع اسلامکھم لھا بشرطہ، ای بشرط القطع
تفسیر و تشریح
سابقہ آیات میں مسلمانوں کو اپنے کافر رشتہ داروں سے قطع تعلق کی جو تلقین کی گئی تھی، اس پر سچے اہل ایمان اگرچہ بڑے ضبر و ضبط کے ساتھ عمل کر رہے تھے، مگر اللہ کو معلوم تھا کہ اپنے ماں، باپ، بہنوں اور قریب ترین عزیزوں سے تعلق توڑ لینا کیسا سخت اور مشکل کام ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب تمہارے یہی کافر رشتہ دار مسلمان ہوجائیں گے اور آج کی دشمنی کل پھر محبت میں تبدیل ہوجائے گی، جن حالات میں یہ بات کہی گئی تھی کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ نتیجہ کیسے رونما ہوگا اس لئے کہ بظاہر دور دور تک بھی اس کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی، ان آیات کے نزول کے چند ہی ہفتہ بعد مکہ فتح ہوگیا اور مکہ کے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے اور مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ جس چیز کی انہیں امید دلائی گئی تھی وہ کیسے پوری ہوئی۔
10 Tafsir as-Saadi
پس اے مومنو! تم ان کے ایمان کی طرف لوٹنے سے مایوس نہ ہوجاؤ﴿عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْہُمْ مَّوَدَّۃً ﴾ ”عجب نہیں کہ اللہ تم میں اور ان لوگوں میں جن سے تم عداوت کرتے ہو، دوستی پیدا کردے۔ “اور اس کا سبب ان کا ایمان کی طرف لوٹنا ہے ۔﴿وَاللّٰہُ قَدِیْرٌ ﴾ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ دلوں کو ہدایت سے بہرہ ور کرنا اور ان کو ایک حال سے دوسرے حال میں بدلنا اس کی قدرت کے تحت ہے۔ ﴿وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ اس کے سامنے کوئی گناہ بڑا نہیں کہ وہ اسے بخش نہ سکے اور کوئی عیب بڑا نہیں کہ وہ اسے ڈھانپ نہ سکے۔ ﴿ قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللّٰـهِ إِنَّ اللّٰـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ )الزمر:39؍53)”( اے نبی!)“ ان لوگوں سے کہہ دیجئے جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے ،وہ بخشنے والا،نہایت مہربان ہے۔ “اس آیت کریمہ میں بعض کفار کے اسلام لانے کی طرف اشارہ اور اس کی بشارت ہے جو اس وقت کافر اور اہل ایمان کے دشمن تھے ۔اور یہ بشارت پوری ہوئی۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ۔
11 Mufti Taqi Usmani
kuch baeed nahi hai kay Allah tumharay aur jinn logon say tumhari dushmani hai , unn kay darmiyan dosti peda kerday , aur Allah bari qudrat wala hai , aur Allah boht bakhshney wala , boht meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
کفار سے محبت کی ممانعت کی دوبارہ تاکید
کافروں سے محبت رکھنے کی ممانعت اور ان کی بغض و و عداوت کے بیان کے بعد اب ارشاد ہوتا ہے کہ بسا اوقات ممکن ہے کہ ابھی ابھی اللہ تم میں اور ان میں میل ملاپ کرا دے، بغض نفرت اور فرقت کے بعد محبت مودت اور الفت پیدا کر دے، کونسی چیز ہے جس پر اللہ قادر نہ ہو ؟ وہ متبائن اور مختلف چیزوں کو جمع کرسکتا ہے، عداوت و قساوت کے بعد دلوں میں الفت و محبت پیدا کردینا اس کے ہاتھ ہے، جیسے اور جگہ انصار پر اپنی نعمت بیان فرماتے ہوئے ارشاد ہوا ہے (ترجمہ) الخ تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اسے یاد کرو کہ تمہاری دلی عداوت کو اس نے الفت قلبی سے بدل دیا اور تم ایسے ہوگئے جیسے ماں جائے بھائی ہوں تم آگ کے کنارے پہنچ چکے تھے لیکن اس نے تمہیں وہاں سے بچا لیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصاریوں سے فرمایا کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں ہدایت دی اور تم متفرق تھے میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں جمع کردیا، قرآن کریم میں ہے (ترجمہ) الخ اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد سے مومنوں کو ساتھ کر کے اے نبی تیری مدد کی اور ایمان داروں میں آپس میں وہ محبت اور یکجہتی پیدا کردی کہ اگر روئے زمین کی دولت خرچ کرتے اور یگانگت پیدا کرنا چاہتے تو وہ نہ کرسکتے یہ الفت منجانب اللہ تھی جو عزیز و حکیم ہے، ایک حدیث میں ہے دوستوں کی دوستی کے وقت بھی اس بات کو پیش نظر رکھو کہ کیا عجب اس سے کسی وقت دشمنی ہوجائے اور دشمنوں کی دشمنی میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو کیا خبر کب دوستی ہوجائے، عرب شاعر کہتا ہے۔
یعنی ایس دو دشمنوں میں بھی جو ایک سے ایک جدا ہوں اور اس طرح کہ دل میں گرہ دے لی ہو کہ ابد الا آباد تک اب کبھی نہ ملیں گے اللہ تعالیٰ اتفاق و اتحاد پیدا کردیتا ہے اور اس طرح ایک ہوجاتے ہیں کہ گویا کبھی دو نہ تھے، اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے کافر جب توبہ کریں تو اللہ قبول فرما لے گا جب وہ اس کی طرف جھکیں وہ انہیں اپنے سائے میں لے لے گا، کوئی سا گناہ ہو اور کوئی سا گنہگار ہو ادھر وہ مالک کی طرف جھکا ادھر اس کی رحمت کی آغوش کھلی، حضرت مقاتل بن حیان (رح) فرماتے ہیں یہ آیت ابو سفیان صخر بن حرب کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان کی صاحبزادی صاحبہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح کرلیا تھا اور یہی مناکحت حجت کا سبب بن گئی، لیکن یہ قول کچھ جی کو نہیں لگتا اس لئے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ نکاح فتح مکہ سے بہت پہلے ہوا تھا اور حضرت ابو سفیان کا اسلام بالاتفاق فتح مکہ کی رات کا ہے، بلکہ اس سے بہت اچھی توجیہ تو وہ ہے جو ابن ابی حاتم میں مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو سفیان صخر بن حرب کو کسی باغ کے پھلوں کا عامل بنا رکھا تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال کے بعد یہ آ رہے تھے کہ راستے میں ذوالحمار مرتد مل گیا آپ نے اس سے جنگ کی اور باقعادہ لڑے پس مرتدین سے پہلے پہل لڑائی لڑنے والے مجاہد فی الدین آپ ہیں، حضرت ابن شہاب کا قول ہے کہ انہی کے بارے میں یہ آیت عسی اللہ الخ، اتری ہے، صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابو سفیان نے اسلام قبول کرنے کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری تین درخواستیں ہیں اگر اجازت ہو تو عرض کروں آپ نے فرمایا کہو اس نے کہا اول تو یہ کہ مجھے اجازت دیجئے کہ جس طرح میں کفر کے زمانے میں مسلمانوں سے مسلسل جنگ کرتا رہا اب اسلام کے زمانہ میں کافروں سے برابر لڑائی جاری رکھوں آپ نے اسے منظور فرمایا، پھر کہا میرے لڑکے معاویہ کو اپنا منشی بنا لیجئے آپ نے اسے بھی منظور فرمایا (اس پر جو کلام ہے وہ پہلے گذر چکا ہے) اور میری بہترین عرب بچی ام حبیبہ کو آپ اپنی زوجیت میں قبول فرمائیں، آپ نے یہ بھی منظور فرما لیا، (اس پر بھی کلام پہلے گذر چکا ہے) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جن کفار نے تم سے مذہبی لڑائی نہیں کی نہ تمہیں جلا وطن کیا جیسے عورتیں اور کمزور لوگ وغیرہ ان کے ساتھ سلوک و احسان اور عدل و انصاف کرنے سے اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا بلکہ وہ تو ایسے با انصاف لوگوں سے محبت رکھتا ہے، بخاری مسلم میں ہے کہ حضرت اسماء بنت ابوبکر (رض) کے پاس ان کی مشرک ماں آئیں یہ اس زمانہ کا ذکر ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح نامہ ہوچکا تھا حضرت اسماء خدمت نبوی میں حاضر ہو کر مسئلہ پوچھتی ہیں کہ میری ماں آئی ہوئی ہیں اور اب تک وہ اس دین سے الگ ہیں کیا مجھے جائز ہے کہ میں ان کے ساتھ سلوک کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں جاؤ ان سے صلہ رحمی کرو، مسند کی اس روایت میں ہے کہ ان کا نام قتیلہ تھا، یہ مکہ سے گوہ اور پنیر اور گھی بطور تحفہ لے کر آئی تھیں لیکن حضرت اسماء نے اپنی مشرکہ ماں کو نہ تو اپنے گھر میں آنے دیا نہ یہ تحفہ ہدیہ قبول کیا پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا اور آپ کی اجازت پر ہدیہ بھی لیا اور اپنے ہاں ٹھہرایا بھی، بزار کی حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا نام بھی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں اس لئے کہ حضرت عائشہ کی والدہ کا نام ام رومان تھا اور وہ اسلام لا چکی تھیں اور ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائی تھیں، ہاں حضرت اسماء کی والدہ ام رومان نہ تھیں، چناچہ ان کا نام قتیلہ اوپر کی حدیث میں مذکور ہے۔ واللہ اعلم مقسطین کی تفسیر سورة حجرات میں گذر چکی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے، حدیث میں ہے مقسطین وہ لوگ ہیں جو عدل کے ساتھ حکم کرتے ہیں گواہل و عیال کا معاملہ ہو یا زیردستوں کا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عرش کے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی ممانعت تو ان لوگوں کی دوستی سے ہے جو تمہاری عداوت سے تمہارے مقابل نکل کھڑے ہوئے تم سے صرف تمہارے مذہب کی وجہ سے لڑے جھگڑے تمہیں تمہارے شہروں سے نکال دیا تمہارے دشمنوں کی مدد کی۔ پھر مشرکین سے اتحاد و اتفاق دوستی دیکھتی رکھنے والے کو دھمکاتا ہے اور اس کا گناہ بتاتا ہے کہ ایسا کرنے والے ظالم گناہ گار ہیں اور جگہ فرمایا یہودیوں نصرانیوں سے دوستی کرنے والا ہمارے نزدیک انہی جیسا ہے۔