اللہ (ہی) ہے جس نے سات آسمان پیدا فرمائے اور زمین (کی تشکیل) میں بھی انہی کی مِثل (تہ بہ تہ سات طبقات بنائے)، ان کے درمیان (نظامِ قدرت کی تدبیر کا) امر اترتا رہتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے، اور یہ کہ اللہ نے ہر چیز کا اپنے علم سے احاطہ فرما رکھا ہے (یعنی آنے والے زمانوں میں جب سائنسی اکتشافات کامل ہوں گے تو تمہیں اللہ کی قدرت اور علمِ محیط کی عظمت کا اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح اُس نے صدیوں قبل ان حقائق کو تمہارے لئے بیان فرما رکھا ہے)،
English Sahih:
It is Allah who has created seven heavens and of the earth, the like of them. [His] command descends among them so you may know that Allah is over all things competent and that Allah has encompassed all things in knowledge.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھی اُنہی کے مانند ان کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے (یہ بات تمہیں اس لیے بتائی جا رہی ہے) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی برابر زمینیں حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے، اللہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے،
3 Ahmed Ali
الله ہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمینیں بھی اتنی ہی ان میں حکم نازل ہوا کرتا ہے تاکہ تم جان لو کہ الله ہر چیز پر قادر ہے اور الله نے ہر چیز کو علم سے احاطہ کر رکھا ہے
4 Ahsanul Bayan
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور اسی کے مثل زمینیں بھی۔ (۱) اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے (۲) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔ اور اللہ تعالٰی نے ہرچیز کو بہ اعتبار علم گھیر رکھا ہے (۳)۔
١٢۔١ ای خلق من الارض مثلھن۔ یعنی سات آسمانوں کی طرح، اللہ نے سات زمینیں بھی پیدا کی ہیں۔ بعض نے اس سے سات اقالیم مراد لیے ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں۔ بلکہ جس طرح اوپر نیچے سات آسمان ہیں۔ اسی طرح سات زمینیں ہیں، جن کے درمیان بعد و مسافت ہے اور ہر زمین میں اللہ کی مخلوق آباد ہے۔ (القرطبی) احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من اخذ شبرا من الارض ظلاما فانہ یطوقہ یوم القیامۃ من سبع ارضین (صحیح مسلم) جس نے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ہتھیالی تو قیامت والے دن اس زمین کا اتنا حصہ ساتوں زمینوں سے طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔(صحیح بخاری) اور صحیح بخاری کے الفاظ ہیں خسف بہ الی سبع ارضین یعنی اس کو ساتوں زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر زمین میں اسی طرح کا پیغمبر ہے جس طرح کا پیغمبر تمہاری زمین پر آیا مثلاً آدم آدم کی طرح، نوح نوح کی طرح، ابراہیم ابراہیم کی طرح، عیسیٰ عیسیٰ کی طرح۔ لیکن یہ بات کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں۔ ١٢۔۲ یعنی جس طرح ہر آسمان پر اللہ کا حکم نافذ اور غالب ہے، اسی طرح ہر زمین پر اس کا حکم چلتا ہے، آسمانوں کی طرح ساتوں زمینوں کی بھی وہ تدبیر فرماتا ہے۔ ١٢۔۳ پس اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں، چاہے وہ کیسی ہی ہو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ایسی ہی زمینیں۔ ان میں (خدا کے) حکم اُترتے رہتے ہیں تاکہ تم لوگ جان لو کہ خدا چیز پر قادر ہے۔ اور یہ کہ خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے
6 Muhammad Junagarhi
اللہ وه ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی کے مثل زمینیں بھی۔ اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو بہ اعتبار علم گھیر رکھا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور انہی کی طرح زمین بھی ان کے درمیان حکم (خدا) نازل ہوتا رہتا ہے تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ اللہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھتا ہے اور یہ کہ اللہ نے ہر چیز کا (علمی) احاطہ کر رکھا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللرُہی وہ ہے جس نے ساتوں آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور زمینوں میں بھی ویسی ہی زمینیں بنائی ہیں اس کے احکام ان کے درمیان نازل ہوتے رہتے ہیں تاکہ تمہیں یہ معلوم رہے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے اور اس کا علم تمام اشیائ کو محیط ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمینیں۔ ان میں (خدا کے) حکم اترتے رہتے ہیں تاکہ تم لوگ جان لو کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ اور یہ کہ خدا اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اللہ الذین خلق سبع سموات ومن الارض مثلھن، مثلھن میں تشبیہ اجمالی ہے کہ کس چیز میں زمین مثل سماوات ہے اس آیت سے اتنی بات تو واضح طور پر ثابت ہے کہ جس طرح آسمان سات ہیں اسی طرح زمینیں بھی سات ہیں، پھر یہ سات زمینیں کہاں کہاں ہیں اور کس وضع و صورت میں ہیں ؟ تہ برتہ طبقات کی شکل میں ہیں یا ہر زمین کا مقام الگ الگ ہے ؟ اگر اوپر نیچے طبقات ہیں تو کیا جس طرح سات آسمانوں میں ہر دو آسمانوں کے درمیان فاصلہ ہے اور ہر آسمان میں فرشتے آباد ہیں اسی طرح ایک زمین اور دوسری زمین کے درمیان بھی فاصلہ ہے اور اس میں کوئی مخلوق آباد ہے یا یہ طبقات زمین ایک دوسرے سے متصل اور پیوستہ ہیں ؟ قرآن مجید اس سے ساکت ہے اور روایات حدیث جو اس سلسلہ میں آئی ہیں ان میں اکثر ائمہ حدیث کا اختلاف ہے بعض نے ان کو صحیح اور ثابت قرار دیا ہے اور بعض نے موضوع اور من گھڑت تک کہہ دیا ہے، مگر عقلاً یہ سب صورتیں ممکن ہیں (معارف) مثلھن کی تفسیر احادیث کی روشنی میں : اس کی تفسیر صحاح میں یوں آئی ہے، بخاری اور مسلم میں ہے، جس نے کسی کی زمین ظلماً غصب کرلی تو قیامت میں وہ زمین اپنے ساتوں طبقوں سمیت اس کے گلے میں ڈال دی جائے گی ” طوقہ من ارض سبعین “ اور بخاری میں ہے ” خسف بہ الی سبع ارضین “ ان احادیث سے سات زمینوں کا ثبوت اطمینان بخش طریقہ پر ثابت ہوگیا ہے۔ اور ابن عباس (رض) کے اثر میں ہر زمین پر مخلوق اور نبی کا ہونا بھی منقول ہے۔ (خلاصۃ التفاسیر) قدیم مفسرین میں صرف ابن عباس (رض) ایسے مفسر ہیں جنہوں نے اس دور میں اس حقیقت کو بیان کیا تھا جب آدمی اس کا تصور بھی کرنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ کائنات میں اس زمین کے علاوہ کہیں اور بھی ذی عقل مخلوق بستی ہے ؟ موجودہ زمانہ کے سائنس دانوں تک کو اس کے امر واقعہ ہونے میں شک ہے، کجا کہ سوا چودہ سو سال پہلے کے لوگ اسے بآسانی باور کرسکتے، اسی لئے ابن عباس (رض) عام لوگوں کے سامنے یہ بات کہتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں اس سے لوگوں کے ایمان متزلزل نہ ہوجائیں، چناچہ مجاہد (رح) تعالیٰ کہتے ہیں کہ ان سے جب اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اگر میں اس کی تفسیر تم لوگوں سے بیان کردوں تو تم کافر ہوجائو گے اور تمہارا کفر یہ ہوگا کہ اسے جھٹلائو گے، قریب قریب یہی بات سعید بن جبیر (رض) سے بھی منقول ہے، ابن عباس (رض) نے فرمایا، کیا بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر میں تمہیں اس کا مطلب بتادوں تو تم کافر نہ ہوجائو گے ؟ (ابن جریر، عبد بن حمید) تاہم ابن جریر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے اور بیہقی نے ابوالضحیٰ کے واسطے سے باختلاف الفاظ ابن عباس (رض) کی یہ تفصیل نقل کی ہے ” فی کل ارض نبی کنبیکم و آدم کآدمکم، ونوح کنوحکم و ابراھیم اھیمکم و عیسیٰ کعیسکم “ ان میں سے ہر زمین میں نبی ہے تمہارے نبی جیسا اور آدم ہے تمہارے آدم جیسا، اور نوح ہے تمہارے نوح جیسا، اور ابراہیم ہے تمہارے ابراہیم جیسا اور عیسیٰ ہے تمہارے عیسیٰ جیسا، اس روایت کو ابن حجر نے فتح الباری میں اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بھی نقل یا ہے اور امام ذہبی نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے، البتہ میرے علم میں ابوالضحیٰ کے علاوہ کسی نے اسے روایت نہیں کیا ہے، اس لئے یہ بالکل شاذ روایت ہے، بعض دوسرے علماء نے اس کو کذب اور موضوع قرار دیا ہے، اور ملا علی قاری (رح) تعالیٰ نے اس کو موضوعات کبیر میں (ص ١٩) میں موضوع کہتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر یہ ابن عباس (رض) ہی کی روایت ہے تب بھی اسرائیلیات میں سے ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے رد کرنے کی اصل وجہ لوگوں کا اسے بعید از عقل و فہم سمجھنا ہے، ورنہ بجائے خود اس میں کوئی بات بھی خلاف عقل نہیں ہے چناچہ علامہ آلوسی اپنی تفسیر میں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں، اس کو صحیح ماننے میں نہ عقلاً کوئی چیز مانع ہے اور نہ شرعاً ، مراد یہ ہے کہ ہر زمین میں ایک مخلوق ہے جو ایک اصل کی طرف اسی طرح راجع ہوتی ہے جس طرح آدمی ہماری زمین میں آدم (علیہ السلام) کی طرف راجع ہوتے ہیں اور ہر زمین میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو اپنے یہاں دوسروں کی بہ نسبت اسی طرح ممتاز ہیں جس طرح ہمارے نوح اور ابراہیم (علیہما السلام) ممتاز ہیں، آگے چل کر علامہ موصوف فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ زمین سات سے زیادہ ہوں اور اسی طرح آسمان بھی صرف سات ہی نہ ہوں سات کے عدد پر جو عدد تام ہے اکتفا کرنا اس بات کو مستلزم نہیں کہ اس سے زائد کی نفی ہو پھر بعض احادیث میں ایک ایک آسمان کی درمیانی دوری جو پانچ پانچ سو برس بیان کی گئی ہے اس کے متعلق علامہ موصوف فرماتے ہیں ” ھو من باب التقریب للافھام “ یعنی اس سے ٹھیک ٹھیک مسافت کی پیمائش بیان کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود بات کو اس طرح بیان کرنا ہے کہ وہ لوگوں کی سمجھ سے قریب تر ہوجائے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں امریکہ کے رانڈکار پر یشن نے فلکی مشاہدات سے اندازہ لگایا ہے کہ زمین جس کہکشاں (Galaxy) میں واقع ہے صرف اس کے اندر تقریباً ٦٠ کروڑ ایسے سیارے پائے جاتے ہیں جن کے طبعی حالات زمین سے بہت کچھ مشابہ اور ملتے جلتے ہیں اور امکان ہے کہ ان کے اندر بھی جاندار مخلوق آباد ہوں۔ (اکانومسٹ، لدن، مورخہ ٢٦ جولائی ١٩٦٩ ء) حضرت ابن عباس (رض) کے اثر میں ہر زمین پر مخلوق اور نبی کا ہونا منقول ہے، اس کی تفصیل اور تقریر میں جناب مولانا ابو الحسنات، مولانا محمد عبد الحی (رح) تعالیٰ نے رسائل تصنیف کئے ہیں، اور بعض لوگوں کو جو یہ شبہ ہوا ہے کہ ہر زمین میں مثل ان انبیاء کا ہونا مستوجب ہے مماثلث نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سردار انبیاء کو اور مستلزم ہیں اس بات کو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء نہ ہوں، اس نے غور نہیں کیا، معانی اور مفاد تشبیہ میں، بلکہ وہ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی علو شان کو نہ سمجھا ورنہ ایسی جرأت نہ ہوتی نہ مماثلث موجب مساوات ہے اور نہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضل خاتمیت کا معارض۔ (حاشیہ خلاصۃ التفاسیر للتائب لکھنوی ملخصًا)
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے تمام آسمانوں اور ان کے رہنے والوں، ساتوں زمینوں اور ان پر بسنے والوں اور ان تمام چیزوں کو پیدا کیا جو ان کے درمیان ہیں اور اس نے اپنا امر نازل فرمایا اور وہ ہیں شرائع اور دینی احکام، جن کو اللہ تعالیٰ نے بندوں کو وعظ ونصیحت کے لیے اپنے رسولوں پر وحی کیا۔ اسی طرح اس نے تکوینی اور قدری احکام نازل فرمائے، جن کے ذریعے سے وہ تمام مخلوق کی تدبیر کرتا ہے ۔یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ بندے کو اس کو پہچانیں اور جان لیں کہ اس کی قدرت تمام اشیا کا احاطہ کیے ہوئے اور اس کا علم تمام اشیا پر محیط ہے۔ جب وہ اس کو اس کے اسمائے حسنیٰ اور اوصاف مقدسہ کے ذریعے سے پہچان لیں گے تو وہ اس کی عبادت کریں گے، اس سے محبت کریں گے اور اس کے حقوق کو ادا کریں گے۔ خلق وامر کا یہی مقصد ہے ،یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول اور اس کی عبادت، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں سے، جن کو توفیق سے بہرہ مند کیا گیا ہے، وہ اس مقصد کو پورا کررہے ہیں جبکہ ظالم اور روگردانی کرنے والے لوگ اس سے روگرداں ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah woh hai jiss ney saat aasman peda kiye , aur zameen bhi unhi ki tarah . Allah ka hukum unn kay darmiyan utarta rehta hai , takay tumhen maloom hojaye kay Allah her cheez per poori qudrat rakhta hai , aur yeh kay Allah kay ilm ney her cheez ka ehata kiya huwa hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
حیرت، افزا شان ذوالجلال اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور اپنی عظیم الشان سلطنت کا ذکر فرماتا ہے تاکہ مخلوق اس کی عظمت و عزت کا خیال کر کے اس کے فرمان کو قدر کی نگاہ سے دیکھے اور اس پر عامل بن کر اسے خوش کرے، تو فرمایا کہ ساتوں آسمانوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا تھا (ترجمہ) کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ پاک نے ساتوں آسمانوں کس طرح اوپر تلے پیدا کیا ہے ؟ اور جگہ ارشاد ہے (ترجمہ) یعنی ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو کچھ ہے سب اس اللہ کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں، پھر فرماتا ہے اسی کے مثال زمینیں ہیں، جیسے کہ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث میں ہے جو شخص ظلم کر کے کسی کی ایک بالشت بھر زمین لے لے گا اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا، صحیح بخاری میں ہے اسے ساتویں زمین تک دھنسایا جائے گا، میں نے اس کی تمام سندیں اور کل الفاظ ابتداء اور انتہا میں زمین کی پیدائش کے ذکر میں بیان کردیئے ہیں، فالحمد اللہ، جن بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد ہفت اقلیم ہے انہوں نے بےفائدہ دوڑ بھاگ کی ہے اور اختلاف بےجا میں پھنس گئے ہیں اور بلا دلیل قرآن حدیث کا صریح خلاف کیا ہے سورة حدید میں آیت ( هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ) 57 ۔ الحدید :3) ، کی تفسیر میں ساتوں زمینوں کا اور ان کے درمیان کی دوری کا اور ان کی موٹائی کا جو پانچ سو سال کی ہے پورا بیان ہوچکا ہے، حضرت ابن مسعود (رض) وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں، ایک اور حدیث میں بھی ہے ساتوں آسمان اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان ہے اور ساتوں زمینیں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان ہے کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہیں جیسے کسی لمبے چوڑے بہت بڑے چٹیل میدان میں ایک چھلا پڑا ہو، ابن جریر میں حضرت ابن عباس (رض) ما سے مروی ہے کہ اگر میں اس کی تفسیر تمہارے سامنے بیان کروں تو اسے نہ مانو گے اور نہ ماننا جھوٹا جاننا ہے، اور روایت میں ہے کہ کسی شخص نے اس آیت کا مطلب پوچھا تھا اس پر آپ نے فرمایا تھا کہ میں کیسے باور کرلوں کہ جو میں تجھے بتاؤں گا تو اس کا انکار کرے گا ؟ اور روایت میں مروی ہے کہ ہر زمین میں مثل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اور اس زمین کی مخلوق کے ہے اور ابن مثنی والی اس روایت میں آیا ہے ہر آسمان میں مثل ابراہیم کے ہے، بہیقی کی کتاب الاسماء والصفات میں حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ ساتوں زمینوں میں سے ہر ایک میں نبی ہے مثل تمہارے نبی کے اور آدم ہیں مثل آدم کے اور نوح ہیں مثل نوح کے اور ابراہیم ہیں مثل ابراہمی کے اور عیسیٰ ہیں مثل عیسیٰ کے پھر امام بیہقی نے ایک اور روایت بھی ابن عباس کی وارد کی ہے اور فرمایا ہے اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ بالکل شاذ ہے ابو الضحیٰ جو اس کے ایک راوی ہیں میرے علم میں تو ان کی متابعت کوئی نہیں کرتا، واللہ اعلم، ایک مرسل اور بہت ہی منکر روایت ابن ابی الدنیا لائے ہیں جس میں مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ صحابہ کے مجمع میں تشریف لائے دیکھا کہ سب کسی غور و فکر میں چپ چاپ ہیں، پوچھا کیا بات ہے ؟ جواب ملا اللہ کی مخلوق کے بارے میں سوچ رہے ہیں فرمایا ٹھیک ہے مخلوقات پر نظریں دوڑاؤ لیکن کہیں اللہ کیب ابت غور و خوض میں نہ پڑجانا، سنو اس مغرب کی طرف ایک سفید زمین ہے اس کی سفیدی اس کا نور ہے یا فرمایا اس کا نور اس کی سفیدی ہے سورج کا راستہ چالیس دن کا ہے وہاں اللہ کی ایک مخلوق ہے جس نے ایک آنکھ جھکپنے کے برابر بھی کبھی اس کی نافرمانی نہیں کی، صحابہ نے کہا پھر شیطان ان سے کہاں ہے ؟ فرمایا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ شیطان پیدا بھی کیا گیا ہے یا نہیں ؟ پوچھا کیا وہ بھی انسان ہیں ؟ فرمایا انہیں حضرت آدم کی پیدائش کا بھی علم نہیں، الحمد اللہ سورة طلاق کی تفسیر بھی پوری ہوئی۔