الملک آية ۱
تَبٰرَكَ الَّذِىْ بِيَدِهِ الْمُلْكُۖ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرُۙ
طاہر القادری:
وہ ذات نہایت بابرکت ہے جس کے دستِ (قدرت) میں (تمام جہانوں کی) سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے،
English Sahih:
Blessed is He in whose hand is dominion, and He is over all things competent –
1 Abul A'ala Maududi
نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضہ میں سارا ملک اور وہ ہر چیز پر قادر ہے،
3 Ahmed Ali
وہ ذات با برکت ہے جس کے ہاتھ میں سب حکومت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
4 Ahsanul Bayan
بہت بابرکت ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے (١) اور ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
١۔١ اسی کے ہاتھ میں بادشاہی ہے یعنی ہر طرح کی قدرت اور غلبہ اسی کو حاصل ہے، وہ کائنات میں جس طرح کا تصرف کرے، کوئی اسے روک نہیں سکتا، وہ شاہ کو گدا اور گدا کو شاہ بنا دے، امیر کو غریب اور غریب کو امیر کردے۔ کوئی اس کی حکمت و مشیت میں دخل نہیں دے سکتا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
وہ (خدا) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے بڑی برکت والا ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
6 Muhammad Junagarhi
بہت بابرکت ہے وه (اللہ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور جو ہر چیز پر قدرت رکھنے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بابرکت ہے وہ (خدا) جس کے ہاتھ (قبضۂ قدرت) میں (کائنات کی) بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھوں میں سارا ملک ہے اور وہ ہر شے پر قادر و مختار ہے
9 Tafsir Jalalayn
وہ (خدا) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے بڑی برکت والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، وہ بڑا عالی شان ہے محدثین (مخلوق) کی صفات سے پاک ہے، جس کے قبضہ تصرف میں بادشاہی اور قدرت ہے جس نے دنیا میں موت کو پیدا فرمایا اور حیات کو آخرت میں پیدا فرمایا، دونوں کو دنیا میں پیدا فرمایا چناچہ نطفہ میں حیات ڈالی جاتی ہے، اور حیات وہ ہے کہ جس سے احساس ہوتا ہے، اور موت اس کی ضد ہے یا عدم حیات کا نام موت ہے، یہ دونوں قول ہیں، اور ثانی صورت میں خلق بمعنی تقدیر ہوگا، تاکہ حیات میں تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون شخص عمل میں زیادہ اچھا ہے ؟ یعنی زیادہ فرمانبردار ہے، وہ اپنی نافرمانی کرنے والے سے انتقام لینے میں زبردست ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اس کو معاف کرنے والا ہے اس نے سات آسمان تہ بہ تہ پیدا کئے بعض بعض کے اوپر اتصال کے بغیر، تو خدا کی اس صنعت میں یا اس کے علاوہ (کسی اور صنعت) میں کوئی خلل مثلاً تباین اور عدم تناسب نہیں دیکھے گا پھر نظر آسمان کی طرف لوٹا کہیں تجھے کوئی خلل یعنی شگاف اور خستگی نظر آتی ہے ؟ پھر نظر مکرر بار بار ڈال نقص کا ادراک نہ کرنے کی وجہ سے ذلیل و درماندہ ہو کر تیری طرف لوٹے گی حال یہ کہ وہ نقص کے ادراک سے عاجز ہوگی بیشک ہم نے آسمان دنیا کو یعنی زمین سے قریبی آسمانوں کو چراغوں ستاروں سے آراستہ کیا ہے اور ہم نے انہیں شیاطین کو مارنے کا آلہ (ذریعہ) بنایا ہے جب کہ وہ چوری چھپے سننے کے لئے کان لگاتے ہیں اس طریقہ سے کہ ستارہ سے شعلہ جدا ہوتا ہے، جس طرح کہ چنگاری آگ سے جدا ہوتی ہے تو وہ جنی کو قتل کردیتا ہے، یا اس کو پاگل بنا دیتا ہے، نہ یہ کہ ستارہ اپنی جگہ سے ہٹ جاتا ہے اور ہم نے شیطانوں کے لئے دوزخ کا جلانے والا عذاب یعنی جلانے والی آگ تیار کر رکھا ہے اور اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے اور جب وہ اس میں ڈالے جائیں گے تو وہ اس کی گدھے کی آواز کے مانند ناخوشگوار آواز سنیں گے اور وہ جوش مار رہی ہوگی قریب ہے کہ کافروں پر غصہ کے مارے پھٹ جائے اور اصل کے مطابق تتمیز بھی پڑھا گیا ہے بمعنی تنقطع جب کبھی اس میں ان میں کی کوئی جماعت جہنم میں ڈالی جائے گی تو جہنم کے نگراں بطور توبیخ ان سے سوال کریں گے کیا تمہارے پاس ڈرانے والا رسول کہ جس نے تم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا ہو نہیں آیا تھا ؟ تو وہ جواب دیں گے بیشک آیا تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلادیا اور ہم نے کہہ دیا کہ اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا تم بہت بڑی گمراہی میں ہو احتمال یہ ہے کہ یہ نبیوں کو کفار کا جواب ہو، اور وہ فرشتوں سے (یہ بھی) کہیں گے اگر ہم سمجھنے کے لئے سنتے یا غور کرنے کے لئے سمجھتے تو ہم جہنمیوں میں سے نہ ہوتے غرض وہ اپنے جرم کا اقرار کریں گے جب کہ ان کا اعتراف جرم ان کو کوئی فائدہ نہیں دے گا، اور وہ جرم رسولوں کی تکذیب ہے سو اہل دوزخ پر لعنت ہے یعنی ان کے لئے اللہ کی رحمت سے دوری ہے، (سحقا) حاء کے سکون اور ضمہ کے ساتھ بیشک وہ لوگ جو اپنے پروردگار سے غائبانہ ڈرتے ہیں (یعنی) جب کہ وہ لوگوں کی نظروں سے غائب ہوتے ہیں تو وہ چھپ کر اس کی اطاعت کرتے ہیں تو وہ ظاہر میں بطریق اولیٰ اطاعت کرنے والے ہوں گے، ان کے لئے مغفرت اور بڑا اجر ہے یعنی جنت، اور اے لوگو ! تم خواہ چھپ کر بات کرو یا ظاہر کر کے بیشک اللہ تعالیٰ سینوں کے رازوں کا جاننے والا ہے تو پھر جو تم بولتے ہو اس کا کیا حال ہوگا ؟ اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہوا کہ مشرکین نے آپس میں کہا کہ تم خفیہ طور پر باتیں کیا کرو، ایسا نہ ہو کہ محمد (ﷺ) کا خدا سن لے، کیا وہ نہ جانے گا جس نے اس چیز کو پیدا کیا جس کو تم چھپاتے ہو یعنی کیا اس کا علم اس سے منتفی ہوجائے گا ؟ نہیں، وہ اپنے علم کے اعتبار سے باریک بین اور اس سے باخبر ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : خلق الموت فی الدنیا، والحیاۃ فی الاخرۃ، اوھما فی الدنیا، موت اور حیات کے بارے میں اختلاف ہے ابن عباس (رض) کلبی اور مقاتل سے منقول ہے کہ موت اور حیات دونوں جسم ہیں، اس صورت میں موت اور حیات دونوں، وجودی ہوں گے اور خلق اپنے اصلی معنی میں ہوگا، دونوں کے درمیان تقابل تضاد ہوگا، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ موت عدم حیات کا نام ہے اس صورت میں حیات وجودی اور موت عدمی ہوگی، اس صورت میں تقابل عدم و الملکہ کا ہوگا، جیسا کہ عدم البصر میں، موت کی دوسری تفسیر کی صورت میں خلق بمعنی قدر ہوگا، اس لئے کہ تقدیر کا تعلق عدمی اور وجودی دونوں سے جائز ہے، بخلاف خلق کے کہ اس کا تعلق وجودی شئے سے تو درست ہے مگر عدمی سے درست نہیں ہے۔
حق بات :
حق بات یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک موت وجودی ہے مگر حیات کی ضد ہے جیسا کہ حرارت اور برودت، دونوں آپس میں متضاد ہونے کے باوجود وجودی ہیں پہلا قول اہل ست والجماعت اور دوسرا معتزلہ کا ہے۔
(حاشیہ جلالین ملخصًا)
بہتر ہوتا کہ مفسر علام (بیدہٖ ) کی تفسیر بقدرتہ سے کرتے اس لئے کہ ” ملک “ استیلاء تصرف کو کہتے ہیں، لہٰذا مطلب ہوگا فی تصرفہ التصرف جس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
قولہ : والحیاۃ فی الآخرۃ یعنی موت دنیا میں پیدا کی اور حیات آخرت میں، مگر اس قول کی مساعدت اللہ تالیٰ کا قول لیبلوکم نہیں کرتا، اس لئے کہ امتحان اور آزمائش کا تعلق دنیوی حیات سے ہے نہ کہ اخروی حیات سے، معلوم ہوا موت وحیات کا تعلق دنیا سے ہے۔ (صاوی)
قولہ : القربی یہ قریب کا اسم تفضیل ہے یعنی وہ آسمان جو زمین سے قریب تر ہے، دنیا کو دنیا اسی وجہ سے کہتے ہیں یہ آخرت کی بنسبت قریب ہے۔
قولہ : ینقلب جمہور کے نزدیک باء کے سکون کے ساتھ ہے جو اب امر ہونے کی وجہ سے اور بعض حضرات نے باء کے رفع کے ساتھ بھی پڑھا ہے یا تو جملہ مستانفہ ہونے کی وجہ سے یہ حال مقدرہ ہونے کی وجہ سے اور فاء کو حذف کردیا گیا ہے اصل میں فینقلب تھا۔
قولہ : رجوما، رجوم، رجم کی جمع ہے رجم مصدر ہے اس کا اطلاق مرجوم بہ پر کیا گیا ہے اسی لئے مفسر علام نے رجوم کی تفسیر مراجم سے کی ہے ای یرجم بہ۔
قولہ : بان ینفصل شھاب الخ اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نجوم کے ذریعہ آسمان دنیا کو زینت بخشی ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ نجوم اپنی جگہ پر قائم رہیں اور وجعلنھا رجوما للشیطین کا مقتضی ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں دونوں باتوں میں تضاد و تعارض ہے ؟
جواب : کا خلاصہ یہ ہے کہ پورا نجم شیاطین کو مارنے کے لئے اپنی جگہ نہیں چھوڑتا بلکہ اس کا ٹکڑا شیاطین کو مارتا ہے، جیسا کہ آگ میں سے ایک چنگاری۔
قولہ : یخبلہ یہ خبل بہ سکون باء سے مشتق ہے جس کے معنی فساد فی العقل کے ہیں۔
قولہ : وللذین کفروا الخ، وللذین کفروا خبر مقدم ہے اور عذاب جھنم مبتداء مؤخر ہے۔
قولہ : وھو اللطیف الخبیر جملہ حالیہ ہے۔
قولہ : فیہ لا اس میں اشارہ ہے کہ استفہام انکاری ہے، لہٰذا نفی النفی ہو کر اثبات ہوگیا، مقصد اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا اثبات ہے۔
تفسیر و تشریح
سورة ملک کے فضائل :
اس سورت کی فضیلت میں متعدد روایات آئی ہیں، جن میں چند روایات صحیح یا حسن ہیں، ایک میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اللہ کی کتاب میں ایک سورت ہے جس میں صرف ٣٠ آیات ہیں یہ آدمی کی سفارش کرے گی یہاں تک کہ اس کو بخش دیا جائے گا “۔
(ترمذی، ابودائود، ابن ماجہ، مسند احمد)
دوسری روایت میں ہے ” قرآن مجید میں ایک سورت ہے جو اپنے پڑھنے والے کی طرف سے لڑے گی حتیٰ کہ اسے جنت میں داخل کروائے گی “۔ (مجمع الزوائد)
ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو سونے سے پہلے سورة الم السجدہ اور سورة ملک ضرور پڑھتے تھے۔
سورة ملک کے دیگر نام :
اس سورت میں واقیہ اور منجیہ بھی فرمایا گیا ہے، ” واقیہ “ کے معنی ہیں بچانے والی اور ” منجیہ “ کے معنی ہیں نجات دینے والی۔
تبارک الذی بیدہ الملک و ھو علی کل شیء قدیر، تبارک، برکۃ سے مشتق ہے جس کے معنی بڑھنے اور زیادتی کے ہیں، جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی شان میں بولا جاتا ہے تو اس کے معنی ” سب سے بالاو برتر “ ہونے کے ہوتے ہیں، بیدہ الملک ملک اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہاتھ سے مراد یہ معروف ہاتھ نہیں ہے بلکہ ہاتھ سے مراد قدرت اور اختیار ہے یعنی ہر شئے اس کے شاہانہ اختیار میں ہے ید وغیرہ جسے الفاظ کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے لئے متشابہات میں سے ہیں، جس کے حق ہونے پر ایمان لانا واجب ہے مگر اس کی کیفیت و حقیقت کسی کو معلوم نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جسم وجوارح سے بالاتر اور پاک ہے، تفسیر مظہری میں ہے کہ موت اگرچہ عدمی چیز ہے مگر عدم محض نہیں، بلکہ ایسی چیز کا عدم ہے جس کو وجود میں کسی وقت آنا ہے، اور ایسی تمام معدومات کی شکلیں عالم مثال میں ناسوتی وجود سے قبل موجود ہوتی ہیں جن کو اعیان ثابتہ کہا جاتا ہے ان اشکال کی وجہ سے ان کو قبل الوجود بھی ایک قسم کا وجود حاصل ہے اور عالم مثال کے موجود ہونے پر بہت سی روایات حدیث سے استدلال فرمایا ہے۔
موت وحیات کے درجات مختلفہ :
اللہ جل شانہ نے اپنی قدرت اور حکمت بالغہ سے مخلوقات و ممکنات کی مختلف اقسام میں تقسیم فرما کر ہر ایک کو حیات کی ایک قسم عطا فرمائی ہے سب سے زیادہ کامل اور مکمل حیات انسان کو عطا فرمائی ہے، جس میں یہ صلاحیت بھی رکھ دی کہ وہ حق تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت ایک خاص حد تک حاصل کرسکے، اور یہ معرفت ہی احکام شرعیہ کی تکلیف کا مدار ہے اور وہ بار امانت ہے کہ جس کے اٹھانے سے آسمان اور زمین اور پہاڑ ڈر گئے تھے، اور انسان نے اسے اپنی اس خداداد صلاحیت کے سبب اٹھا لیا اس حیات کے مقابل وہ موت ہے جس کا ذکر قرآن کریم کی آیت افمن کان میتا فاحییناہ میں ذکر فرمایا ہے کہ کافر کو مردہ اور مومن کو زندہ قرار دیا گیا ہے، کیونکہ کافر نے اپنی اس معرفت کو ضائع کردیا جو انسان کی مخصوص حیات تھی اور مخلوقات کی بعض اصناف و اقسام حیات کا یہ درجہ تو نہیں رکھتیں مگر ان میں حس و حرکت موجود ہے اس کے مقابل وہ موت ہے جس کا ذکر قرآن کریم کی آیت کنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم میں آیا ہے کہ اس جگہ حیات سے مراد حس و حرکت اور موت سے مراد اس کا ختم ہوجانا ہے اور ممکنات کی بعض اقسام میں یہ حس و حرکت بھی نہیں صرف نمو (بڑھنے کی صلاحیت) ہے جیسا کہ درخت اور عام نباتات میں اس کے بالمقابل وہ موت ہے جس کا ذکر قرآن کی آیت یحی الارض بعد موتھا میں آیا ہے، حیات کی یہ تین قسمیں انسان، حیوان، نبات، میں منحصر ہیں، ان کے علاوہ اور کسی میں یہ اقسام حیات نہیں ہیں اس لئے حق تعالیٰ نے پتھروں سے بنے بتوں کے لئے فرمایا ” اموات غیر احیاء “ لیکن اس کے باوجود بھی جمادات میں ایک قسم کی حیات موجود ہے جو وجود کے ساتھ لازم ہے، اسی حیات کا اثر ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں وان من شئی الا یسبح بحمدہ یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی حمد کی تسبیح نہ پڑھتی ہو، اور آیت میں موت کا ذکر مقدم کرنے کی وجہ بھی اس بیان سے واضح ہوگئی کہ اصل کے اعتبار سے موت ہی مقدم ہے ہر چیز وجود میں آنے سے پہلے موت کے عالم میں تھی، بعد میں اس کو حیات عطا ہوئی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ ﴾ یعنی وہ ہستی بہت عظمت والی اور بہت بلند ہے ، اس کی بھلائی بہت زیادہ اور اس کا احسان عام ہے۔ یہ اس کی عظمت ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی کا اقتدار اسی کے ہاتھ میں ہے ، وہی ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے، وہ جیسے چاہتا ہے احکام دینی اور احکام قدری میں تصرف کرتا ہے جو اس کی حکمت کے تابع ہوتے ہیں ۔اس کی عظمت اور اس کی قدرت کا کمال ہے جس کی بنا پر وہ ہر چیز پر قادر ہے ،اسی قدرت کے ذریعے سے اس نے بڑی بڑی مخلوقات، مثلا : آسمان اور زمین کو وجود بخشا اور آیت ﴿ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ﴾ ” اس نے موت وحیات کو پیدا کیا“ یعنی اس نے اپنے بندوں کے مقدر کیا کہ وہ ان کو زندگی عطا کرے پھر موت سے ہم کنار کرے ﴿ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں سے کون سب سے زیادہ صاحب اخلاص اور کون سب سے زیادہ راہ صواب پر ہے ۔یہ آزمائش اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا کرکے ان کو اس دنیا میں بھیجا، انہیں یہ بھی بتادیا کہ انہیں عنقریب یہاں سے منتقل کیا جائے گا ، ان کو اوامر ونواہی دیے اور اپنے ان اوامر کی معارض شہوات کے ذریعے سے ان کو آزمایا ۔پس جس کسی نے اللہ تعالیٰ کے اوامر کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تو اللہ اسے دنیا وآخرت میں بہترین جزادے گا اور جو کوئی شہوات نفس کی طرف مائل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے اوامر کو دور پھینک دیا تو اس کے لیے بدترین سزا ہے۔ ﴿ وَهُوَ الْعَزِيزُ﴾ تمام غلبہ اسی کا ہے جس کے ذریعے سے وہ تمام چیزوں پر غالب ہے اور مخلوقات اس کی مطیع ہے ۔ ﴿ لْغَفُورُ﴾ وہ بدکاروں، کوتاہی کرنے والوں اور گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے ، خاص طور پر جب وہ توبہ کرکے اس کی طرف رجوع کریں ، وہ ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے ، خواہ وہ آسمان کے کناروں تک پہنچے ہوئے ہوں ،وہ ان کے عیوب کو چھپاتا ہے، خواہ وہ زمین بھر ہوں۔
﴿ لَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا﴾ یعنی اس نے آسمانوں کو ایک ہی طبق نہیں بنایا بلکہ ان کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، ان کو انتہائی خوبصورتی اور مضبوطی کے ساتھ پیدا کیا ﴿ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ﴾ ” تم رحمٰن کی تخلیق میں کوئی بے ربطی نہیں دیکھو گے“ یعنی خلل اور نقص۔ جب نقص کی ہر لحاط سے نفی ہوگئی تو وہ ہر لحاظ سے خوبصورت، کامل اور متناسب بن گئے، یعنی اپنے رنگ میں، اپنی ہیئت میں، اپنی بلندی میں، اپنے سورج، کواکب، ثوابت اور سیارات میں خوبصورت اور متناسب ہیں ۔ چونکہ ان کا کمال معلوم ہے ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو بار بار دیکھنے اور ان کو کناروں میں غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔﴿ فَارْجِعِ الْبَصَرَ﴾ عبرت کی نظر سے دیکھنے کے لیے اس پر دوبارہ نگاہ ڈال ﴿ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ﴾ کیا تجھے کوئی نقص اور خلل نظر آتا ہے؟
﴿ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ ﴾۔ ”پھر لوٹا تو نگاہ کو دوبارہ باربار۔“ اس سے مراد کثرت تکرار ہے ﴿ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ﴾” نظر (ہربار) تیرے پاس ناکام اور تھک کرلوٹ آئے گی“ یعنی کوئی خلل اور کوئی نقص دیکھنے سے عاجز آکر واپس لوٹے گی اور خواہ وہ خلل دیکھنے کی بے انتہا خواہش رکھتی ہو، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے نہایت صراحت کے ساتھ آسمانوں کی خوبصورتی کا ذکر کیا، چنانچہ فرمایا:
11 Mufti Taqi Usmani
bari shaan hai uss zaat ki jiss kay haath mein sari badshahi hai , aur woh her cheez per poori tarah qadir hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
بہتر عمل کی آزمائش کا نام زندگی ہے
اللہ تعالیٰ اپنی تعریف بیان فرما رہا ہے اور خبر دے رہا ہے کہ تمام مخلوق پر اسی کا قبضہ ہے جو چاہے کرے۔ کوئی اس کے احکام کو ٹال نہیں سکتا اس کے غلبہ اور حکمت اور عدل کی وجہ سے اس سے کوئی باز پرس بھی نہیں کرسکتا وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا ہے۔ پھر خود موت وحیات کا پیدا کرنا بیان کر رہا ہے، اس آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ موت ایک وجودی امر ہے کیونکہ وہ بھی پیدا کردہ شدہ ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوق کو عدم سے وجود میں لایا تاکہ اچھے اعمال والوں کا امتحان ہوجائے جیسے اور جگہ ہے آیت ( كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ 28) 2 ۔ البقرة :28) ترجمہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو ؟ تم تو مردہ تھے پھر اس نے تمہیں زندہ کردیا، پس پہلے حال یعنی عدم کو یہاں بھی موت کہا گیا اور اس پیدائش کو حیات کہا گیا اسی لئے اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے آیت (ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28) 2 ۔ البقرة :28) ترجمہ وہ پھر تمہیں مار ڈالے گا اور پھر زندہ کر دے گا، ابن ابی حاتم میں ہے رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ بنی آدم موت کی ذلت میں تھے۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے حیات کا گھر بنادیا پھر موت کا اور آخرت کو جزا کا پھر بقاء کا۔ لیکن یہی روایت اور جگہ حضرت قتادہ کا اپنا قول ہونا بیان کی گئی ہے، آزمائش اس امر کی ہے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے ؟ اکثر عمل والا نہیں بلکہ بہتر عمل والا، وہ باوجود غالب اور بلند جناب ہونے کے پھر عاصیوں اور سرتاب لوگوں کے لئے، جب وہ رجوع کریں اور توبہ کریں معاف کرنے اور بخشنے والا بھی ہے۔ جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے ایک پر ایک گو بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک پر ایک ملا ہوا ہے لیکن دوسرا قول یہ ہے کہ درمیان میں جگہ ہے اور ایک دوسرے کے اوپر فاصلہ ہے، زیادہ صحیح یہی قول ہے، اور حدیث معراج وغیرہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے، پروردگار کی مخلوق میں تو کوئی نقصان نہ پائے گا بلکہ تو دیکھے گا کہ وہ برابر ہے، نہ ہیر پھیر ہے نہ مخالفت اور بےربطی ہے، نہ نقصان اور عیب اور خلل ہے۔ اپنی نظر آسمان کی طرف ڈال اور غور سے دیکھ کر کہیں کوئی عیب ٹوٹ پھوٹ جوڑ توڑ شگاف و سوراخ دکھائی دیتا ہے ؟ پھر بھی اگر شک رہے تو دو دفعہ دیکھ لے کوئی نقصان نظر نہ آئے گا تو نے خوب نظریں جما کر ٹٹول کر دیکھا ہو پھر بھی ناممکن ہے کہ تجھے کوئی شکست و ریخت نظر آئے تیری نگاہیں تھک کر اور ناکام ہو کر نیچی ہوجائیں گی۔ نقصان کی نفی کر کے اب کمال کا اثبات ہو رہا ہے تو فرمایا آسمان دنیا کو ہم نے ان قدرتی چراغوں یعنی ستاروں سے بارونق بنا رکھا ہے جن میں بعض چلنے پھرنے والے ہیں اور بعض ایک جا ٹھہرے رہنے والے ہیں، پھر ان کا ایک اور فائدہ بیان ہو رہا ہے کہ ان سے شیطانوں کو مارا جاتا ہے ان میں سے شعلے نکل کر ان پر گرتے ہیں یہ نہیں کہ خود ستارہ ان پر ٹوٹے واللہ اعلم۔ شیطین کی دنیا میں یہ رسوائی تو دیکھتے ہی ہو آخرت میں بھی ان کے لئے جلانے والا عذاب ہے۔ جیسے سورة صافات کے شروع میں ہے کہ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت دی ہے اور سرکش شیطانوں کی حفاظت میں انہیں رکھا ہے، وہ بلند وبالا فرشتوں کی باتیں سن نہیں سکتے اور چاروں طرف سے حملہ کر کے بھگا دیئے جاتے ہیں اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے اگر کوئی ان میں سے ایک آدھ بات اچک کرلے بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے چمکدار تیز شعلہ لپکتا ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ستارے تین فائدوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، آسمان کی زینت، شیطانوں کی مار اور راہ پانے کے نشانات۔ جس شخص نے اس کے سوا کوئی اور بات تلاش کی اس نے رائے کی پیروی کی اور اپنا صحیح حصہ کھو دیا اور باوجود علم نہ ہونے کی تکلف کیا (ابن جریر اور ابن ابی حاتم)