اور بے شک ہم نے سب سے قریبی آسمانی کائنات کو (ستاروں، سیاروں، دیگر خلائی کرّوں اور ذرّوں کی شکل میں) چراغوں سے مزیّن فرما دیا ہے، اور ہم نے ان (ہی میں سے بعض) کو شیطانوں (یعنی سرکش قوتوں) کو مار بھگانے (یعنی ان کے منفی اَثرات ختم کرنے) کا ذریعہ (بھی) بنایا ہے، اور ہم نے ان (شیطانوں) کے لئے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے،
English Sahih:
And We have certainly beautified the nearest heaven with lamps [i.e., stars] and have made [from] them what is thrown at the devils and have prepared for them the punishment of the Blaze.
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور اُنہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے اِن شیطانوں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیا کر رکھی ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے نیچے کے آسمان کو چراغوں سے آراستہ کیا اور انہیں شیطانوں کے لیے مار کیا اور ان کے لیے بھڑکتی آگ کا عذاب تیار فرمایا
3 Ahmed Ali
اور ہم نے دنیا کے آسمان کو چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور ہم نے انہیں شیطانوں کو مارنے کے لیے آلہ بنا دیا ہے اور ہم نے ان کے لیے بھڑکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے
4 Ahsanul Bayan
بیشک ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (ستاروں) سے آراستہ کیا اور انہیں شیطان کے مارنے کا ذریعہ (١) بنا دیا اور شیطانوں کے لئے ہم نے (دوزخ جلانے والا) عذاب تیار کر دیا۔
٥۔١ یہاں ستاروں کے دو مقصد بیان کئے گئے ہیں ایک آسمانوں کی زینت کیونکہ وہ چراغوں سے جلتے ہیں دوسرا کہ شیطان آسمانوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ شرارہ بن کر ان پر گرتے ہیں۔ تیسرا مقصد ان کا یہ ہے جسے دوسرے مقامات پر بیان فرمایا گیا ہے کہ ان سے برو بحر میں راستوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے قریب کے آسمان کو (تاروں کے) چراغوں سے زینت دی۔ اور ان کو شیطان کے مارنے کا آلہ بنایا اور ان کے لئے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے
6 Muhammad Junagarhi
بیشک ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (ستاروں) سے آراستہ کیا اور انہیں شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بنا دیا اور شیطانوں کے لیے ہم نے (دوزخ کا جلانے واﻻ) عذاب تیار کر دیا
7 Muhammad Hussain Najafi
بےشک ہم نے قریبی آسمان کو (تاروں) کے چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور انہیں شیطانوں کو سنگسار کرنے (مار بھگانے) کا ذریعہ بنایا ہے اور ہم نے ان (شیطانوں) کیلئے دہکتی ہوئی آگ کا عذاب بھی تیار کر رکھا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا ہے اور انہیں شیاطین کو سنگسار کرنے کا ذریعہ بنادیا ہے اور ان کے لئے جہنمّ کا عذاب الگ مہیّا کر رکھا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے قریب کے آسمان کو (تاروں کے) چراغوں سے زینت دی اور ان کو شیطان کے مارنے کا آلہ بنایا اور ان کے لئے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے
10 Tafsir as-Saadi
یعنی ہم نے جمال بخشا ﴿ السَّمَاءَ الدُّنْيَا﴾ ” دنیا کے آسمان کو“ جسے تم دیکھ رہے ہو اور جو تمہارے قریب اور متصل ہے ۔﴿ بِمَصَابِيحَ﴾، ”چراغوں کے ساتھ“ اس سے مراد مختلف اقسام کی روشنیاں رکھنے والے ستارے ہیں کیونکہ اگر آسمان میں ستارے نہ ہوتے تو یہ ایک تاریک چھت ہوتی جس میں کوئی حسن وجمال نہ ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو آسمان کی زینت، حسن وجمال اور راہ نما بنایا جن کے ذریعے سے بحروبر میں راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر کہ اس نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا، اس امر کے منافی نہیں کہ بہت سے ستارے ساتوں آسمانوں کے اوپر ہوں کیونکہ آسمان شفاف ہوتے ہیں اور اگر آسمان دنیا پر ستارے نہ بھی ہوں تو ساتوں آسمانوں کے ستاروں کے ذریعے سے آسمان دنیا کو زینت حاصل ہوسکتی ہے۔ ﴿ وَجَعَلْنَاهَا﴾ اور بنایا ہم نے چراغوں کو ﴿ رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ﴾ ”شیطانوں کو مارنے کا آلہ“ جو آسمانوں سے خبر چوری کرنا چاہتے ہیں، پس یہ شہاب ،جنہیں ستاروں سے شیاطین پر پھینکا جاتا ہے، انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا کے اندر شیاطین کے لیے تیار کررکھا ہے ۔﴿ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ﴾ اور آخرت میں ان کے لیے تیار کیا ہے ﴿ عَذَابَ السَّعِيرِ﴾ ” بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب“ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور اس کے بندوں کو گمراہ کیا، اس لیے ان کی پیروی کرنے والے کفار انہی کی مانند ہیں، ان کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے جہنم کا عذاب تیار کررکھا ہے، اس لیے فرمایا :﴿ وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾” اور جن لوگوں نے اپنے رب کا انکار کیا، ان کے لیے جہنم کا عذاب ہےاور برا ٹھکانا ہے۔“ وہ ایسا ٹھکانہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کو بے رسوا کیا جائے گا۔ ﴿ إِذَا أُلْقُوا فِيهَا ﴾ جب ذلت اور رسوائی کے ساتھ ان کو جہنم کے اندر پھینک دیا جائے گا ﴿ سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا ﴾ تو وہ جہنم کی بہت بلند اور انتہائی کریہہ آواز سنیں گے ﴿ وَهِيَ تَفُورُ ﴾ اور حالت یہ ہوگی کہ جہنم جوش ماررہی ہوگی۔ ﴿ تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ﴾ ” گویا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی۔“ یعنی مجتمع ہونے کے باوجود، یوں لگتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائے گی اور کفار پر مارے غیظ وغضب کے پھٹ کر ٹکڑے ہوجائے گی۔“ تم سمجھ سکتے ہو کہ ان کو جہنم میں ڈالاجائے گا تو جہنم ان کے ساتھ کیا کرے گی؟ جہنم کا داروغہ اہل جہنم کو جو زجر وتوبیخ کرے گا، اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ﴾ ”جب اس میں ان کی کوئی جماعت ڈالی جائے گی تو دوزخ کے داروغے ان سے پوچھیں گے، کیا تمہارے پاس کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا تھا؟“ یعنی تمہارے اس حال اور تمہارے جہنم کے مستحق ہونے سے یوں لگتا ہے گویا کہ تمہیں اس کے بارے میں آگاہ ہی نہیں کیا گیا اور متنبہ کرنے والوں نے تمہیں کبھی اس سے متنبہ ہی نہیں کیا ۔﴿ قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰـهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ ﴾” وہ کہیں گے، کیوں نہیں! ضرور ہمارے پاس ڈرانے والا آیا تھا لیکن ہم نے اس کو جھٹلادیا اور کہا کہ اللہ نے توکوئی چیز نازل ہی نہیں کی، تم تو بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔“ پس انہوں نے نبی کی تکذیب خاص اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہر چیز کی تکذیب عام کو جمع کردیا اور انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے متنبہ کرنے والے رسولوں کو علی الاعلان گمراہ کہا ، حالانکہ وہی تو راہ دکھانے والے اور سیدھی راہ پر ہیں پھر انہوں نے مجرو گمراہی کے فتوے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی ”گمراہی “ کو ”بہت بڑی گمراہی “قرار دیا ،تب کون ساعناد، تکبر اور ظلم اس کے مشابہ ہوسکتا ہے؟ ﴿ وَقَالُوا﴾ رشد وہدایت کے اہل نہ ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾، ” اگر ہم سنتے یا سمجھتے ہوتے، تو دوزخیوں میں نہ ہوتے۔“ پس وہ اپنی ذات سے ہدایت کے تمام راستوں کی نفی کریں گے اور وہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ اور رسول کی لائی ہوئی کتاب کو سننا اور عقل جو صاحب عقل کو فائدہ دیتی ہے ،جو اسے حقائق اشیا، بھلائی کو ترجیح دینے اور ہراس چیز سے اجتناب کرنے پر ٹھہراتی ہے جس کا انجام قابل مذمت ہو۔ مگر ان کے پاس تو سماعت ہے نہ عقل۔ ان کا یہ رویہ اہل یقین وعرفان اور ارباب صدق و ایمان کے رویے کے برعکس ہے کیونکہ انہوں نے سمعی دلائل سے اپنے ایمان کی تائید کی اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کرآئے انہوں نے اسے حصول علم، معرفت اور عمل کے لیے سنا ،نیز انہوں نے عقلی دلائل کے ذریعے سے گمراہی میں سے ہدایت، قبیح میں سے حسین اور شر میں سے خیر کی معرفت حاصل کی، وہ اپنے ایمان میں منقول ومعقول کی اقتدا کے مطابق تھے، جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا تھا ۔ پاک ہے وہ ذات جو بندوں میں سے جسے چاہتی ہے اپنے فضل کے لیے مختص کرتی ہے اور جسے چاہتی ہے اپنے احسان سے بہر ہ مند کرتی ہے اور جو بھلائی کے قابل نہیں ہوتا اسے تنہا چھوڑ دیتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney qareeb walay aasman ko roshan chiraghon say saja rakha hai , aur unn ko shetanon per pathar barsaney ka zariya bhi banaya hai , aur unn kay liye dehakti aag ka azab tayyar ker rakha hai .