الحاقہ آية ۱۳
فَاِذَا نُفِخَ فِى الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ ۙ
طاہر القادری:
پھر جب صور میں ایک مرتبہ پھونک ماری جائے گے،
English Sahih:
Then when the Horn is blown with one blast
1 Abul A'ala Maududi
پھر جب ایک دفعہ صور میں پھونک مار دی جائے گی
2 Ahmed Raza Khan
پھرجب صور پھونک دیا جائے ایک دم،
3 Ahmed Ali
پھر جب صور میں پھونکا جائے گا ایک بار پھونکا جانا
4 Ahsanul Bayan
پس جبکہ صور میں ایک پھونک پھونکی جائے گی۔ (۱)
۱۳۔۱مکذبین کا انجام بیان کرنے کے بعد اب بتلایا جارہا ہے کہ یہ الحاقہ کس طرح واقع ہوگی اسرافیل کی ایک ہی پھونک سے یہ برپا ہو جائے گی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو جب صور میں ایک (بار) پھونک مار دی جائے گی
6 Muhammad Junagarhi
پس جب کہ صور میں ایک پھونک پھونکی جائے گی
7 Muhammad Hussain Najafi
سو جب ایک بار صور پھونکا جائے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر جب صور میں پہلی مرتبہ پھونکا جائے گا
9 Tafsir Jalalayn
تو جب صور میں ایک (بار) پھونک مار دی جائے گی
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہےکہ اس نے اپنے رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کے ساتھ کیا کیا، انہیں کیسا بدلہ دیا، دنیا کے اندر ہی ان پر عذاب بھیج دیا اور اپنے رسولوں اور ان کے پیروکاروں کو بچا لیا۔ یہ قیامت کے روز اخروی جزا اور اعمال کے کامل بدلے کا مقدمہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بہت ہولناک واقعات کا ذکر فرمایا ہے جو قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہوں گے ان میں سے اولین واقعہ یہ ہوگا کہ اسرافیل ﴿ فِي الصُّورِ ﴾ صور پھونکیں گے جب اجساد مکمل ہوجائیں گے ﴿ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ ﴾۔ ” ایک دفعہ پھونک ماری جائے گی۔“ پس روحیں نکل آئیں گی اور ہر روح اپنے جسد میں داخل ہوجائے گی، تب تمام لوگ رب کائنات کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
phir jab aik hi dafa soor mein phoonk maar di jaye gi ,
12 Tafsir Ibn Kathir
آواز کا بم صور اسرافیل
قیامت کی ہولناکیوں کا بیان ہو رہا ہے جس میں سب سے پہلے گھبراہٹ پیدا کرنے والی چیز صور کا پھونکا جانا ہوگا جس سے سب کے دل ہل جائیں گے پھر نفخہ پھونکا جائے گا جس سے تمام زمین و آسمان کی مخلوق بیہوش ہوجائے گی مگر جسے اللہ چاہے پھر صور پھونکا جائے گا جس کی آواز سے تمام مخلوق اپنے رب کے سامنے کھڑی ہوجائے گی یہاں اسی پہلے نفخہ کا بیان ہے۔ یہاں بطور تاکید کے یہ بھی فرمایا کہ یہ اٹھ کھڑے ہونے کا نفخہ ایک ہی ہے اس لئے کہ جب اللہ کا حکم ہوگیا پھر نہ تو اس کا خلاف ہوسکتا ہے نہ وہ ٹل سکتا ہے نہ دوبارہ فرمان کی ضرورت ہے اور نہ تاکید کی، امام ربیع فرماتے ہیں اس سے مراد آخری نفخہ ہے لیکن ظاہر قول وہی ہے جو ہم نے کہا، اسی لئے یہاں اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ زمین و آسمان اٹھا لئے جائیں گے اور کھال کی طرح پھیلا دیئے جائیں گے اور زمین بدل دی جائے گی اور قیامت واقع ہوجائے گی۔ حضرت علی فرماتے ہیں آسمان ہر کھلنے کی جگہ سے پھٹ جائے گا، جیسے سورة نبا میں ہے آیت ( وَّفُتِحَتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا 19ۙ ) 78 ۔ النبأ :19) یعنی آسمان کھول دیا جائے گا اور اس میں دروازے کھول دیے جائیں گے، ابن عباس فرماتے ہیں آسمان میں سوراخ اور غاریں پڑجائیں گی اور شق ہوجائے گی عرش اس کے سامنے ہوگا فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے جو کنارے اب تک ٹوٹے نہ ہوں گے اور دوازوں پر ہوں گے آسمان کی لمبائی میں پھیلے ہوئے ہوں گے اور زمین والوں کو دیکھ رہے ہوں گے۔ پھر فرمایا قیامت والے دن آٹھ فرشتے اللہ تعالیٰ کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے، پس یا تو مراد عرش عظیم کا اٹھانا ہے یا اس عرش کا اٹھانا مراد ہے جس پر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کے فیصلوں کے لئے ہوگا واللہ اعلم بالصواب۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) فرماتے ہیں یہ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت میں ہوں گے، حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ ان کی آنکھ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا ایک سو سال کا راستہ ہے، ابن ابی حاتم کی مرفوع حدیث میں ہے کہ مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں تمہیں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک کی نسبت خبر دوں کہ اس کی گردن اور کان کے نیچے کے لَو کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ اڑنے والا پرندہ سات سو سال تک اڑتا چلا جائے، اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں، اسے امام ابو داؤد نے بھی اپنی سنن میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح فرمایا، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس سے مراد فرشتوں کی آٹھ صفیں ہیں اور بھی بہت سے بزرگوں سے یہ مروی ہے، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اعلیٰ فرشتوں کے آٹھ حصے ہیں جن میں سے ہر ایک حصہ کی گنتی تمام انسانوں جنوں اور سب فرشتوں کے برابر ہے۔ پھر فرمایا قیامت کے روز تم اس اللہ کے سامنے کئے جاؤ گے جو پوشیدہ کو اور ظاہر کو بخوبی جانتا ہے جس طرح کھلی سے کھلی چیز کا وہ عالم ہے اس طرح چھپی سے چھپی چیز کو بھی وہ جانتا ہے، اسی لئے فرمایا تمہارا کوئی بھید اس روز چھپ نہ سکے گا، حضرت عمر بن خطاب (رض) کا قول ہے لوگو اپنی جانوں کا حساب کرلو اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندازہ کرلو اس سے پہلے کہ ان اعمال کا وزن کیا جائے تاکہ کل قیامت والے دن تم پر آسانی ہو جس دن کو تمہارا پورا پورا حساب لیا جائے گا اور بڑی پیشی میں خود اللہ تعالیٰ جل شانہ کے سامنے تم پیش کردیئے جاؤ گے، مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں قیامت کے دن لوگ تین مرتبہ اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے پہلی اور دوسری بار تو عذر معذرت اور جھگڑا بحث کرتے رہیں گے لیکن تیسری پیشی جو آخری ہوگی اس وقت نامہ اعمال اڑائے جائیں گے، کسی کے دائیں ہاتھ میں آئے گا اور کسی کے بائیں ہاتھ میں، یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے حضرت عبداللہ کے قول سے بھی یہی روایت ابن جریر میں مروی ہے اور حضرت قتادہ سے بھی اس جیسی روایت مرسل مروی ہے۔