الحاقہ آية ۳۸
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَۙ
طاہر القادری:
سو میں قَسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو،
English Sahih:
So I swear by what you see
1 Abul A'ala Maududi
پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اُن چیزوں کی بھی جو تم دیکھتے ہو
2 Ahmed Raza Khan
تو مجھے قسم ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو،
3 Ahmed Ali
سو میں ان چیزوں کی قسم کھاتا ہوں جو تم دیکھتے ہو
4 Ahsanul Bayan
پس مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو ہم کو ان چیزوں کی قسم جو تم کو نظر آتی ہیں
6 Muhammad Junagarhi
پس مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
پس نہیں! میں قَسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
میں اس کی بھی قسم کھاتا ہوں جسے تم دیکھ رہے ہو
9 Tafsir Jalalayn
تو ہم کو ان چیزوں کی قسم جو تم کو نظر آتی ہیں
ترجمہ : مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جنہیں تم مخلوقات میں دیکھتے ہو، فلا میں لا زائدہ ہے اور مخلوقات میں سے جن کو تم نہیں دیکھتے ہو یعنی تمام مخلوقات کی کہ بیشک یہ (قرآن) بزرگ رسول کا قول ہے یعنی اس نے اللہ کی جانب سے ایک پیغام رساں کی حیثیت سے نقل کیا اور یہ کسی کا قول نہیں (افسوس) تمہیں بہت کم یقین ہے اور نہ کسی کاہن کا قول ہے (افسوس) تم بہت کم نصیحت لے رہے ہو دونوں فعلوں میں تا اور یا کے ساتھ ہے، اور، ما زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہ باتوں پر بہت کم یقین رکھتے ہیں، اور ان کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی چیزوں میں سے بعض پر ایمان لانا مثلاً صدقہ و خیرات پر اور صلہ رحمی پر زنا وغیرہ سے باز رہنے پر، تو اس سے ان کو کوئی فائدہ نہ ہوگا (بلکہ یہ تو) رب العالمین کا اتارا ہوا کلام ہے اور اگر نبی ہم پر کوئی بھی بات گھڑ لیتا بایں طور کہ جو بات ہم نے نہیں کہی، ہماری طرف منسوب کر کے کہہ دیتا تو البتہ ہم یقینا قوت اور قدرت کے ساتھ سزا میں پکڑ لیتے پھر ہم اس کی شہہ رگ کاٹ دیتے یعنی قلب کی رگیں کاٹ دیتے، اور وہ تین رگیں ہیں جو قلب سے متصل ہیں، جب وہ رگیں کٹ جاتی ہیں تو وہ شخص مرجاتا ہے، پھر تم میں سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوگا احد، ما کا اسم ہے اور من تاکید نفی کے لئے زائدہ ہے، اور منکم، احد سے حال ہے اور حاجزین بمعنی مانعین، ما کی خبر ہے اور مانعین کو جمع لایا گیا ہے، اس لئے کہ احد نفی کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے جمع کے معنی میں ہے اور عنہ کی ضمیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہے یعنی ہم کو اسے عذاب دینے سے کوئی چیز نہیں رو سکتی، یقینا یہ قرآن پرہیزگاروں کیلئے نصیحت ہے ہم کو پوری طرح معلوم ہے کہ تم میں سے اے لوگو ! بعض لوگ قرآن کی تکذیب کرنے والے ہیں اور بعض تصدیق کرنے والے اور بیشک یہ قرآن (یعنی اس کی تکذیب) کافروں کے لئے حسرت ہے جب کہ یہ لوگ تصدیق کرنے والوں کے اجر کو اور تکذیب کرنے والوں کے عذاب کو دیکھیں گے اور بیشک یہ قرآن یقینی حق ہے، پس آپ اپنے رب عظیم کی پاکی بیان کریں، لفظ اسم زائد ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : انہ لقول رسول کریم یہ اور وما ھو بقول شاعر اور ولا بقول کا ھن یہ تینوں جواب قسم ہیں مقاتل (رح) تعالیٰ نے کہا ہے کہ اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ جب ولید بن مغیرہ نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساحر ہیں اور ابوجہل نے کہا کہ شاعر ہیں اور عقبہ نے کہا کہ کاہن ہیں تو اللہ نے اپنے مذکورہ کلام سے مذکورہ تینوں کا رد فرمایا۔
قولہ : ای قالہ رسالۃ اس اضافہ کا مقصد اس اعتراض کا جواب دینا ہے کہ اللہ کے کلام کو رسول کا کلام کیوں کہا گیا ؟
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ رسول کی جانب وہ رسول خواہ جبرئیل ہوں یا نبی، ادنیٰ مناسبت کی وجہ سے نسبت کردی گئی ہے حضرت جبرئیل امین چونکہ پیغام رساں کی حیثیت سے کلام کو لاتے ہیں اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کو تبلیغ کرتے ہیں اسی لئے اس کلام کی نسبت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور جبرئیل کی طرف کرنا درست ہے۔
قولہ : قلیلا، قلیلا دونوں جگہ موصوف محذوف کی صفت ہے ای ایمانا قلیلا و ذکراقلیلا۔
قولہ : نیاط القلب وہ رگ جو قلب سے متصل ہوتی ہے، اس کو شہ رگ اور رگ جان بھی کہتے ہیں اس کے کٹنے سے یقینا موت واقع ہوجاتی ہے۔
قولہ : وجمع الخ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : من احد، ما کا اسم ہے اور حاجزین اس کی خبر ہے اسم و خبر میں مطابقت نہیں ہے اس لئے کہ اسم واحد جبکہ خبر جمع ہے۔
جواب : احد نکرہ تحت النفی ہونے کی وجہ سے معنی کے ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں رہا۔
قولہ : و مصدقین اس کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ معطوف مع حرف عطف محذوف ہے، اس کا عطف مکذبین پر ہے۔
قولہ : حق الیقین اس کی تفسیر للیقین سے کر کے اشارہ کردیا کہ یہ اضافت صفت الی الموصوف ہے۔
تفسیر و تشریح
فلا اقسم بما تبصرون وما لا تبصرون یعنی قسم ہے ان تمام چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو یا دیکھ سکتے ہو اور جن کو تم نہ دیکھتے ہو اور نہ دیکھ سکتے ہو یعنی تمام چیزوں کی قسم خواہ وہ مرئی ہوں یا غیر مرئی۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان تمام چیزوں کی قسم کھائی ہے جنہیں مخلوق دیکھ سکتی ہے اور جنہیں نہیں دیکھ سکتی، ان میں تمام مخلوق داخل ہے بلکہ اس کا نفس مقدس بھی شامل ہے ۔ یہ قسم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور اس قرآن کی صداقت پر کھائی ہے جسے آپ لے کر آئے ہیں، نیز اس بات پر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کفار کی تمام بہتان طرازیوں سے ۔۔۔۔ مثلا یہ کہ آپ شاعر ہیں یا آپ جادوگر ہیں ۔۔۔۔منزہ قرار دیا ہے ۔ان بہتان طرازیوں پر جس چیز نے ان کو آمادہ کیا ،وہ ہے ان کا عدم ایمان اور عدم تفکر، چنانچہ اگر وہ ایمان لائے ہوتے اور انہوں نے غوروفکر کیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ کیا چیز انہیں فائدہ دیتی ہے اور کیا چیز نقصان دیتی ہے ، اس میں سے ایک چیز یہ بھی ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال میں غور کریں، آپ کے اوصاف اور اخلاق کو گہری نظر سے دیکھیں تاکہ ان کو ایسا معاملہ نظر آئے جو سورج کی مانند روشن ہے جو اس حقیقت کی طرف ان کی راہ نمائی کرتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے برحق رسول ہیں اور آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ رب کائنات کی طرف سے نازل کردہ ہے اور وہ بشر کا قول نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ایسا کلام ہے جو کلام کرنے والے کی عظمت ،اس کے اوصاف کی جلالت ، بندوں کے لیے اس کے کمال تربیت اور بندوں پر اس کے بلند ہونے پر دلالت کرتا ہے ،نیز یہ ان کی طرف سے ایسا گمان ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی حکمت کے لائق نہیں۔ اگر اس رسول نے اللہ پر کوئی جھوٹ بولا ہوتا ﴿بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ﴾ اور بعض جھوتی باتیں بنائی ہوتیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
abb mein qasam khata hun uss ki bhi jissay tum dekhtay ho ,
12 Tafsir Ibn Kathir
ظاہر و باطن آیات الٰہی
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے اپنی ان نشانیوں کی قسم کھا رہا ہے جنہیں لوگ دیکھ رہے ہیں اور ان کی بھی جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں، اس بات پر کہ قرآن کریم اس کا کلام اور اس کی وحی ہے جو اس نے اپنے بندے اور اپنے برگزیدہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری ہے، جسے اس نے ادائے امانت اور تبلیغ رسالت کے لئے پسند فرما لیا ہے۔ رسول کریم سے مراد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، اس کی اضافت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس لئے کئی گئی کہ اس کے مبلغ اور پہنچانے والے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں۔ اسی لئے لفظ رسول لائے کیونکہ رسول تو پیغام اپنے بھیجنے والے کا پہنچاتا ہے گو زبان اس کی ہوتی ہے لیکن کہا ہوا بھیجنے والے کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورة تکویر میں اس کی نسبت اس رسول کی طرف کی گئی ہے جو فرشتوں میں سے ہیں فرمان ہے آیت ( اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ 40ڌ) 69 ۔ الحاقة :40) ، یعنی یہ قول اس بزرگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے جو قوت والا اور مالک عرش کے پاس رہنے والا ہے وہاں اس کا کہنا مانا جاتا ہے اور ہے بھی وہ امانت دار، اس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، اسی لئے اس کے بعد فرمایا تمہارے ساتھی یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجنون نہیں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل کو ان کی اصلی صورت میں صاف کناروں پر دیکھا بھی ہے اور وہ پوشیدہ علم پر بخیل بھی نہیں، نہ یہ شیطان رجیم کا قول ہے، اسی طرح یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ نہ تو یہ شاعر کا کلام ہے نہ کاہن کا قول ہے البتہ تمہارے ایمان میں اور نصیحت حاصل کرنے میں کمی ہے، پس کبھی تو اپنے کلام کی نسبت رسول انسی کی طرف کی اور کبھی رسول ملکی کی طرف، اس لئے کہ یہ اس کے پہنچانے والے لانے والے اور اس پر اٰمین ہیں، ہاں دراصل کلام کس کا ہے ؟ اسے بھی ساتھ ہی ساتھ بیان فرما دیا کہ یہ اتارا ہوا رب العالمین کا ہے، حضرت عمر بن خطاب (رض) اپنے اسلام لانے سے پہلے کا اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد حرم میں پہنچ گئے ہیں، میں بھی گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے کھڑا ہوگیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة الحاقہ شروع کی جسے سن کر مجھے اس کی پیاری نشست الفاظ اور بندش مضامین اور فصاحت و بلاغت پر تعجب آنے لگا آخر میں میرے دل میں خیال آیا کہ قریش ٹھیک کہتے ہیں یہ شخص شاعر ابھی میں اسی خیال میں تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیتیں تلاوت کیں کہ یہ قول رسول کریم کا ہے شاعر کا نہیں تم میں ایمان ہی کم ہے تو میں نے کہا اچھا شاعر نہ سہی کاہن تو ضرور ہے، ادھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت میں یہ آیت آئی کہ یہ کاہن کا قول بھی نہیں تم نے نصیحت ہی کم لی ہے، اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ پوری سورت ختم کی۔ فرماتے ہیں یہ پہلا موقعہ تھا کہ میرے دل میں اسلام پوری طرح گھر کر گیا اور روئیں روئیں میں اسلام کی سچائی گھس گئی، پس یہ بھی منجملہ ان اسباب کے جو حضرت عمر (رض) کے اسلام کا باعث ہوئے ایک خاص سبب ہے، ہم نے آپ (رض) کے اسلام لانے کی پوری کیفیت سیرت عمر میں لکھ دی ہے۔ وللہ الحمد والمنہ