پھر جب انہیں آسائش پہنچتی تو کہتے: یہ ہماری اپنی وجہ سے ہے۔ اور اگر انہیں سختی پہنچتی، وہ موسٰی (علیہ السلام) اور ان کے (ایمان والے) ساتھیوں کی نسبت بدشگونی کرتے، خبردار! ان کا شگون (یعنی شامتِ اَعمال) تو اللہ ہی کے پاس ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ علم نہیں رکھتے،
English Sahih:
But when good [i.e., provision] came to them, they said, "This is ours [by right]." And if a bad [condition] struck them, they saw an evil omen in Moses and those with him. Unquestionably, their fortune is with Allah, but most of them do not know.
1 Abul A'ala Maududi
مگر اُن کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اِسی کے مستحق ہیں، اور جب برا زمانہ آتا تو موسیٰؑ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لیے فال بد ٹھیراتے، حالانکہ در حقیقت ان کی فال بد تو اللہ کے پاس تھی، مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے
2 Ahmed Raza Khan
تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لیے ہے اور جب برائی پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں سے بدشگونی لیتے سن لو ان کے نصیبہ کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں،
3 Ahmed Ali
جب ان پر خوشحالی آتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارے لیے ہونا ہی چاہیئے اور اگر انہیں کوئی بدحالی پیش آتی تو موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے یاد رکھو ان کی نحوست الله کے علم میں ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
4 Ahsanul Bayan
سو جب خوشحالی آجاتی تو کہتے یہ تو ہمارے لئے ہونا ہی تھا اور اگر ان کو کوئی بدحالی پیش آتی تو (موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے (١) یاد رکھو ان کی نحوست اللہ تعالٰی کے پاس ہے (٢) لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔
١٣١۔١ حَسَنَةُ (بھلائی) سے مراد غلے اور پھلوں کی فروانی سَيِّئَةٌ (برائی) سے اس کے برعکس اور قحط سالی اور پیداوار میں کمی۔ بھلائی کا سارا کریڈٹ خود لے لیتے کہ یہ ہماری محنت کا ثمر ہے اور بدحالی کا سبب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اس پر ایمان لانے والوں کو قرار دیتے کہ یہ تم لوگوں کی نحوست کے اثرات ہمارے ملک پر پڑ رہے ہیں۔ ١٣١۔٢ طَائِرُ کی معنی اڑنے والا یعنی پرندہ ۔ چونکہ پرندے کے بائیں یا دائیں اڑنے سے وہ لوگ نیک فالی یا بدفالی لیا کرتے تھے۔ اس لیے یہ لفظ مطلق فال کے لیے بھی استعمال ہونے لگ گیا اور اسی معنی میں ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا خیر یا شر، جو خوش حالی یا قحط سالی کی وجہ سے انہیں پہنچتا ہے اس کے اسباب اللہ تعالٰی کی طرف سے ہیں موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں اس کا سبب نہیں۔ ( ۭاَلَآ اِنَّمَا طٰۗىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ ) 7۔ الاعراف;131) کا مطلب ہوگا کہ ان کی بد شگونی کا سبب اللہ کے علم میں ہے اور وہ ان کا کفر و انکار ہے نہ کہ کچھ اور۔ یا اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی وجہ ان کا کفر ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو جب ان کو آسائش حاصل ہوتی تو کہتے کہ ہم اس کے مستحق ہیں۔ اور اگر سختی پہنچتی تو موسیٰ اور ان کے رفیقوں کی بدشگونی بتاتے۔ دیکھو ان کی بدشگونی خدا کے ہاں مقرر ہے لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے
6 Muhammad Junagarhi
سو جب ان پر خوشحالی آجاتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارے لیے ہونا ہی چاہئے اور اگر ان کو کوئی بدحالی پیش آتی تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے۔ یاد رکھو کہ ان کی نحوست اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے
7 Muhammad Hussain Najafi
(مگر ان کی حالت یہ تھی کہ) جب خوش حالی آتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارا حق ہے اور جب بدحالی آتی تو اسے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست اور فالِ بد قرار دیتے۔ حالانکہ ان کی نحوست اور بدشگونی خدا کے ہاں ہے لیکن اکثر لوگ (یہ حقیقت) جانتے نہیں ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس کے بعد جب ان کے پاس کوئی نیکی آئی تو انہوں نے کہا کہ یہ تو ہمارا حق ہے اور جب برائی آئی تو کہنے لگے کہ یہ موسٰی علیھ السّلاماور ان کے ساتھیوں کا اثر ہے -آگاہ ہوجاؤ کہ ان کی بدشگونی کے اسباب خدا کے یہاں معلوم ہیں لیکن ان کی اکثریت اس رازسے بے خبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
تو جب ان کو آسائش حاصل ہوتی تو کہتے کہ ہم اس کے مستحق ہیں اور اگر سختی پہنچتی تو موسیٰ اور ان کے رفیقوں کی بدشگونی بتاتے دیکھو ان کی بدشگونی خدا کے ہاں (مقدر) ہے لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ ﴾” پس جب پہنچتی ان کو بھلائی“ یعنی جب انہیں شادابی اور رزق میں کشادگی حاصل ہوتی۔ ﴿قَالُوا لَنَا هَـٰذِهِ ۖ﴾ تو کہتے ” ہم اس کے مستحق تھے“ اور اللہ تعالیٰ کے شکر گزار نہ ہوتے۔ ﴿وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ ﴾ ” اور اگر پہنچتی ان کو کوئی برائی“ یعنی جب ان پر قحط اور خشک سالی وارد ہوتی ﴿يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ﴾ ” تو نحوست بتلاتے موسیٰ علیہ السلام کی اور اس کے ساتھیوں کی“ یعنی وہ کہتے کہ اس تمام مصیبت کا سبب موسیٰ علیہ السلام کی آمد اور بنی اسرائیل کا ان کی اتباع کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّـهِ ﴾ ” ان کی بدشگونی تو (اللہ کی قضا و قدر سے اس کے ہاں مقدر ہے“ اور یہ معاملہ ایسے نہیں جیسے وہ کہتے ہیں بلکہ ان کا کفر اور ان کے گناہ ہی بدشگونی کا اصل سبب ہیں ﴿ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے“ بنا بریں وہ یہ سب کچھ کہتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( magar ) nateeja yeh huwa kay agar unn per khush haali aati to woh kehtay : yeh to humara haq tha aur agar unn per koi museebat parr-jati to uss ko musa aur unn kay sathiyon ki nahoosat qarar detay . aray ( yeh to ) khud unn ki nahoosat ( thi jo ) Allah kay ilm mein thi , lekin unn mein say aksar log jantay nahi thay .