الاعراف آية ۱۵۲
اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَذِلَّـةٌ فِى الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۗ وَكَذٰلِكَ نَجْزِىْ الْمُفْتَرِيْنَ
طاہر القادری:
بیشک جن لوگوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا ہے انہیں ان کے رب کی طرف سے غضب بھی پہنچے گا اور دنیوی زندگی میں ذلت بھی، اور ہم اسی طرح افترا پردازوں کو سزا دیتے ہیں،
English Sahih:
Indeed, those who took the calf [for worship] will obtain anger from their Lord and humiliation in the life of this world, and thus do We recompense the inventors [of falsehood].
1 Abul A'ala Maududi
(جواب میں ارشاد ہوا کہ) "جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا وہ ضرور اپنے رب کے غضب میں گرفتار ہو کر رہیں گے اور دنیا کی زندگی میں ذلیل ہوں گے جھوٹ گھڑنے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
بیشک وہ جو بچھڑا لے بیٹھے عنقریب انہیں ان کے رب کا غضب اور ذلت پہنچناہے دنیا کی زندگی میں، اور ہم ایسی ہی بدلہ دیتے ہیں بہتان ہایوں (باندھنے والوں) کو،
3 Ahmed Ali
بے شک جنہوں نے بچھڑے کو معبود بنایا انہیں ان کے رب کی طرف سے غضب اور دنیا کی زندگی میں ذلت پہنچے گی او رہم بہتان باندھنے والوں کو یہی سزا دیتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
بیشک جن لوگوں نے گو سالہ پرستی کی ہے ان پر بہت جلد ان کے رب کی طرف سے غضب اور ذلت اس دنیاوی زندگی ہی میں پڑے گی (١) اور ہم جھوٹی تہمت لگانے والوں کو ایسی سزا دیا کرتے ہیں (٢)۔
١٥٢۔١ اللہ کا غضب یہ تھا کہ توبہ کے لئے قتل ضروری قرار پایا۔ اور اس سے قبل جب تک جیتے رہے، ذلت اور رسوائی کے مستحق قرار پائے۔
١٥٢۔٢ اور یہ سزا ان ہی کے لئے خاص نہیں ہے، جو بھی اللہ پر افترا (بہتان) کرتا ہے، اس کو ہم یہی سزا دیتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(خدا نے فرمایا کہ) جن لوگوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا تھا ان پر پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور دنیا کی زندگی میں ذلت (نصیب ہوگی) اور ہم افتراء پردازوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
بےشک جن لوگوں نے گوسالہ پرستی کی ہے ان پر بہت جلد ان کے رب کی طرف سے غضب اور ذلت اس دنیوی زندگی ہی میں پڑے گی اور ہم افترا پردازوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک جن لوگوں نے گو سالہ کو (اپنا معبود) بنایا۔ عنقریب ان پر ان کے پروردگار کا غضب نازل ہوگا۔ اور وہ دنیاوی زندگی میں ذلیل و رسوا ہوں گے اور ہم بہتان باندھنے والوں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک جن لوگوں نے گوسالہ کو اختیار کیا ہے عنقریب ان پر غضب پروردُگار نازل ہوگا اور ان کے لئے زندگانی دنیا میں بھی ذلّت ہے اور ہم اسی طرح افترا کرنے والوں کوسزا دیا کرتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
(خدا نے فرمایا کہ) جن لوگوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا تھا ان پر پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور دنیا کی زندگی میں ذلت (نصیب ہوگی) اور ہم افتراء پردازوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔
آیت نمبر ١٥٢ تا ١٥٧
ترجمہ : بیشک جن لوگوں نے گوسالہ کو معبود بنایا ان پر ان کے رب کی طرف سے غضب عذاب اور ذلت دنیوی زندگی ہی میں پڑے گی، چناچہ خود کو قتل کرنے کا حکم دیکر عذاب میں مبتلا کئے گئے، اور قیامت تک کیلئے ان پر ذلت مسلط کردی گئی، اور جیسی ہم نے ان کو سزا دی ویسی ہی شرک وغیرہ کے ذریعہ اللہ پر افتراء کرنے والوں کو سزا دیتے ہیں اور جن لوگوں نے بداعمالیاں کیں پھر وہ بداعمالیوں کے بعد بد اعمالیوں سے باز آگئے اور اللہ پر ایمان لے آئے بیشک تمہارا رب اس توبہ کے بعد ان کو معاف کرنے والا ان پر رحم کرنا والا ہے اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا تو ان تختیوں کو اٹھا لیا جن کو ڈال دیا تھا جن کی تحریر میں یعنی جو ان میں لکھا ہوا تھا گمراہی سے ہدایت تھی، ان لوگوں کیلئے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور مفعول (لربھم) پر لام داخل کردیا اس کے مقدم ہونے کی وجہ سے، اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم میں سے اللہ تعالیٰ سے حکم کے ان لوگوں میں سے جنہوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی تھی، ستر آدمیوں کو منتخب کیا، تاکہ وہ ہمارے مقرر کردہ اس وقت پر حاضر ہوں جس پر ان کو آنے کیلئے کہا گیا ہے تاکہ اپنے رفقاء کی گوسالہ پرستی کی معذرت کریں، چناچہ وہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ روانہ ہوئے، جب ان لوگوں کو ایک سخت زلزلہ نے آپکڑا، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ان کی قوم نے گؤسالہ پرستی کی تھی تو ان لوگوں نے ان سے قطع تعلق نہیں کیا (ان میں گھلے ملے رہے) اور (حضرت ابن عباس) نے فرمایا یہ ان لوگوں کے علاوہ ہیں جنہوں نے خدا کو دیکھنے کا مطالبہ کیا تھا، اور ان کو بجلی کی کڑک نے پکڑ لیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے پروردگار اگر آپ چاہتے تو انھیں اور مجھے پہلے ہی یعنی ان کو میرے ساتھ لے کر نکلنے سے پہلے ہلاک کرسکتے تھے، تاکہ بنی اسرائیل ان کی ہلاکت کو خود مشاہدہ کرلیتے اور مجھ پر تہمت نہ رکھتے، کیا آپ اس قصور میں جو ہمارے چند نادانوں نے کئے ہم سب کو ہلاک کردیں گے ؟ استفہام طلب رحمت کیلئے ہے یعنی دوسروں کے قصور کی وجہ سے میں ہلاک نہ کر، یہ تو آپ کی جانب سے آزمائش تھی جس میں آپ نے نادانوں کو مبتلا کردیا، اس کے ذریعہ آپ جس کو گمراہ کرنا چاہیں گمراہ کریں اور جس کی ہدایت چاہیں ہدایت دیں ہمارے سرپرست تو آپ ہی ہیں، پس ہمیں معاف کر دیجئے اور ہم پر رحم فرمائیے آپ سب سے بڑھ کر معاف کرنے والے ہیں اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھلائی مقدر کر دیجئے، اور آخرت میں بھی بھلائی مقدر کر دیجئے ہم نے آپ کی طرف رجوع کرلیا، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا میرا عذاب ہر اس شخص کو پہنچے گا جس کو میں عذاب دینا چاہوں گا اور میری رحمت دنیا میں ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اور اسے میں آخرت میں ان لوگوں کے حق میں مقدر کر دوں گا جو پرہیز گاری اختیار کریں گے زکوٰۃ دیں گے اور ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے (یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو رسول نبی امی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں گے جن کا ذکر ان کے پاس تورات اور انجیل میں ان کے نام اور صفت کے ساتھ لکھا ہوا ہے اور جو ان کو امر بالمعروف کریں گے اور ان کو برائیوں سے روکیں گے ان کیلئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتا ہے جن کو ان کی شریعت میں حرام کردیا گیا ہے اور ان پر خبیث چیزوں کو حرام کرتا ہے (مثلاً ) مردار وغیرہ، اور ان کے اوپر سے ان کے بوجھ کو اتارتا ہے (جو ان پر لدے ہوئے تھے) اور بندشوں کو کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے جیسا کہ توبہ کیلئے قتل نفس کرنا اور نجاست کے اثر (یعنی مقام نجاست) کو کاٹنا، لہٰذا جو لوگ ان میں سے اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی حمایت و نصرت کریں گے اور نور قرآن کی پیروی کریں گے جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے وہی فلاح پانے والے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ما نُسِخَ فیھا، اس میں اشارہ ہے کہ مصدر بمعنی مفعول ہے جیسے خطبۃ بمعنی مخطوب، لہٰذا معنی درست ہیں۔
قولہ : کُتِبَ ، اس لفظ کا اضافہ تعیین معنی کیلئے ہے اسلئے کہ نسخ کے متعدد معنی آتے ہیں، مثلاً اٹھانا، مٹانا، تبدیل کرنا، نقل کرنا، یہاں لکھنے کے معنی میں ہے۔
قولہ : وَاُدْخِلَ اللَّامُ عَلَی المَفْعُولِ ، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے سوال یہ ہے کہ رَھَبَ متعدی بنفسہ ہوتا ہے لہٰذا اس کے مفعول پر لام داخل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی حالانکہ یہاں اس کے مفعول پر جو کہ لرَبّھم ہے لام داخل ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ فعل کا مفعول جب فعل پر مقدم ہوجاتا ہے تو فعل عمل میں ضعیف ہوجاتا ہے اسی وجہ سے اس کے مفعول پر لام داخل کردیا جاتا۔ (ترویح الارواح) ۔ قولہ : مِن قَوْمِہ، یہ ایک اعتراض کا جواب ہے۔
اعتراض : یہ ہے کہ اختارَ لازم ہے، نہ کہ متعدی بنفسہٖ ، اور اختارَ قومَہٗ میں متعدی بنفسہٖ استعمال ہوا ہے من قومہ کہہ کر اس کا جواب دیا کہ یہ حذف و ایصال کے قبیل سے ہے حرف جر کو حذف کرکے فعل کو قوم سے متصل کردیا، اور یہ طریقہ جو صرف چند افعال میں سنا گیا ہے ان ہی میں سے اختارَ ، اَمَرَ ، روّجَ ، استغفر، صَدَقَ ، عَادَ ، انبأ، ہیں۔
قولہ : وایّایَ ، اس کا عطف اَھْلَکْتَھُمْ ، کی ھم ضمیر پر ہے۔
قولہ : تُبنا، مفسر علام نے ھُدْنا، کی تفسیر تبنا سے کرکے بتادیا کہ ھُدْنا، ھادَ یَھُوْدُ سے مشتق ہے جس کے معنی رجوع کرنے توبہ کرنے کے ہیں نہ ھدیٰ یھدی ھدایۃ، بمعنی دلالت کرنا، رہنمائی کرنا سے۔
قولہ : الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ اس میں تین ترکیبیں ہیں، اول الذین یتبعون مبتداء، یامُرُھم اس کی خبر، دوسری ترکیب الذین یتبعون مبتداء مقدر کی خبر تقدیر عبارت یہ ہوگی ھم الذین یتبعون، تیسری ترکیب، الَذِین یتبعون، الذین یتقون سے بدل کل ہو۔
تفسیر و تشریح
ان الذین۔۔۔۔ من ربھم، دنیا میں ذلت کے علاوہ ایک غضب تو یہ ضروری قرار پایا کہ توبہ کیلئے قتل نفس ضروری قرار دیا گیا، جن لوگوں نے اخلاق کے ساتھ توبہ کرلی ان کیلئے اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے، اس کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں آخرت میں ان کو کوئی سزا نہ ملے گی اور جنہوں نے توبہ نہ کی اس کو آخرت میں تو سزا ملے ہی گی دنیا میں بھی ان سے مؤاخذہ ہوگا، جیسا کہ سامری چونکہ اس نے توبہ نہیں کی تھی جس کی وجہ سے دنیا میں بھی غضب کا مستحق ہوا کہ لامساس کہتا ہوا جانوروں کے ساتھ زندگی بھر پھرتا رہا اگر کوئی اس کو یا وہ کسی کو چھودیتا تھا تو دونوں بخار میں مبتلا ہوجاتے تھے۔
تفسیر روح البیان میں ہے کہ یہ خاصیت آج تک اس کی نسل میں پائی جاتی ہے، (معارف) سفیان بن عینیہ نے فرمایا جو لوگ دین میں بدعت اختیار کرتے ہیں وہ بھی اسی افتراء علی اللہ کے مجرم ہو کر اس سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ﴾ ” وہ لوگ جنہوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا“ ﴿ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾” ان کو پہنچے گا غضب ان کے رب کی طرف سے اور ذلت دنیا کی زندگی میں“ جیسا کہ انہوں نے اپنے رب کو ناراض کیا اور اس کے حکم کی تحقیر کی۔ ﴿وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ ﴾ ” اور اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ہم بہتان باندھنے والوں کو‘‘ پس ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کرتا ہے، اس کی شریعت پر جھوٹ گھڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف وہ باتیں منسوب کرتا ہے جو اس نے نہیں کہیں تو اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سامنا کرنا ہوگا اور دنیا کی زندگی میں اسے ذلت اٹھانا پڑے گی، چنانچہ انہیں اللہ تعالیٰ کے غضب کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں اور اللہ تعالیٰ ان سے اس وقت تک خوش نہیں ہوگا جب تک کہ وہ یہ فعل سر انجام نہ دیں۔ پس انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا اور مقتولین کی کثرت سے میدان بھر گیا۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( Allah ney farmaya : ) jinn logon ney bachrray ko mabood banaya hai ,unn per jald hi unn kay rab ka ghazab aur dunyawi zindagi hi mein zillat aa-parey gi . jo log iftra perdazi kertay hain , unn ko hum issi tarah saza detay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
باہم قتل کی سزا
ان گو سالہ پر ستوں پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔ جب تک ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرلیا ان کی توبہ قبول نہ ہوئی جیسے کہ سورة بقرہ کی تفسیر میں تفصیل وار بیان ہوچکا ہے کہ انہیں حکم ہوا تھا کہ اپنے خالق سے توبہ کرو اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو یہی تمہارے حق میں ٹھیک ہے پھر وہ تمہاری توبہ قبول فرمائے گا وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم والا ہے۔ اسی طرح دنیا میں بھی ان یہودیوں پر ذلت نازل ہوئی۔ ہر بدعتی کی جو اللہ کے دین میں جھوٹا طوفان اٹھائے یہی سزا ہے۔ رسول کی مخالفت اور بدعت کا بوجھ اس کے دل سے نکل کر اس کے کندھوں پر آپڑتا ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں گو وہ دنیوی ٹھاٹھ رکھتا ہو لیکن ذلت اس کے چہرے پر برستی ہے۔ قیامت تک یہی سزا ہر جھوٹے افترا باز کی اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔ حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ ہر بدعتی ذلیل ہے۔ پھر فرماتے ہے کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے خواہ کیسا ہی گناہ ہو لیکن توبہ کے بعد وہ معاف فرما دیتا ہے گو کفر و شرک اور نفاق و شفاق ہی کیوں نہ ہو۔ فرمان ہے کہ جو لوگ برائیوں کے بعد توبہ کرلیں اور ایمان لائیں تو اے رسول رحمت اور اے نبی نور (یعنی قرآن) تیرا رب اس فعل کے بعد بھی غفور و رحیم ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) سے سوال ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زناکاری کرے پھر اس سے نکاح کرلے تو ؟ آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی کوئی دس دس مرتبہ اسے تلاوت کیا اور کوئی حکم یا منع نہیں کیا۔