الاعراف آية ۱۷۵
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِىْۤ اٰتَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّيْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِيْنَ
طاہر القادری:
اور آپ انہیں اس شخص کا قصہ (بھی) سنا دیں جسے ہم نے اپنی نشانیاں دیں پھر وہ ان (کے علم و نصیحت) سے نکل گیا اور شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تو وہ گمراہوں میں سے ہوگیا،
English Sahih:
And recite to them, [O Muhammad], the news of him to whom We gave [knowledge of] Our signs, but he detached himself from them; so Satan pursued him, and he became of the deviators.
1 Abul A'ala Maududi
اور اے محمدؐ، اِن کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا آخرکار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا
2 Ahmed Raza Khan
اور اے محبوب! انہیں اس کا احوال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیتیں دیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگا تو گمراہوں میں ہوگیا،
3 Ahmed Ali
اور انہیں اس شخص کا حال سنا دے جسے ہم نے اپنی آیتیں دی تھیں پھر وہ ان سے نکل گیا پھر اس کے پیچھے شیطان لگا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا
4 Ahsanul Bayan
اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنایئے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وہ ان سے نکل گیا، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیا (١)
١٧٥۔١ مفسرین نے اسے کسی ایک متعین شخص سے متعلق قرار دیا ہے جسے کتاب الٰہی کا علم حاصل تھا لیکن پھر وہ دنیا اور شیطان کے پیچھے لگ کر گمراہ ہوگیا۔ تاہم اس کے تعیین میں کوئی مسند بات مروی بھی نہیں۔ اس لئے اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ عام ہے اور ایسے افراد ہر امت اور ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، جو بھی اس صفت کا حامل ہوگا وہ اس کا مصداق قرار پائے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں (اور ہفت پارچہٴ علم شرائع سے مزین کیا) تو اس نے ان کو اتار دیا پھر شیطان اس کے پیچھے لگا تو وہ گمراہوں میں ہوگیا
6 Muhammad Junagarhi
اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنائیے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وه ان سے بالکل ہی نکل گیا، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وه گمراه لوگوں میں شامل ہوگیا
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) ان لوگوں کے سامنے اس شخص کا واقعہ بیان کرو جس کو ہم نے اپنی بعض نشانیاں عطا کی تھیں مگر وہ ان سے عاری ہوگیا (وہ جامہ اتار دیا) پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا۔ اور آخرکار وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور انھیں اس شخص کی خبر سنائیے جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا کیں پھر وہ ان سے بالکل الگ ہوگیا اور شیطان نے اس کا پیچھا پکڑلیا تو وہ گمراہوں میں ہوگیا
9 Tafsir Jalalayn
اور ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں (اور ہفت پارچہ علم شرائع سے مزین کیا) تو اس نے ان کو اتار دیا پھر شیطان اسکے پیچھے لگا تو وہ گمراہوں میں ہوگیا۔
واتل۔۔۔۔ منھا (الآیۃ) اس آیت میں بنی اسرائیل کے ایک شخص کا عبرت ناک واقعہ مذکور ہے، بنی اسرائیل کا ایک بڑا عالم اور مشہور مقتداء علم و معرفت کے اعلی معیار پر ہونے کے باوجود دفعۃً گمراہ ہوگیا۔
بلعم بن باعوراء کے واقعہ کی تفصیل : مذکورہ آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ تم یہود کو اس شخص کا قصہ سناؤ جس کو اللہ نے اپنی نشانیاں دی تھیں مگر وہ ان نشانیوں سے اس طرح نکل گیا جس طرح سانپ کینچلی سے نکل جاتا ہے ائمہ تفسیر سے اس بارے میں مختلف روایتیں مذکور ہیں جن میں زیادہ مشہور اور جمہور کے نزدیک قابل اعتماد وہ روایت ہے جو ابن مردویہ نے حضرت عباس (رض) سے نقل کی ہے اس روایت میں اس شخص کا نام بلعم بن باعوراء اور بعض نے بلعام بن باعرنام بتایا ہے، یہ ملک شام میں بیت المقدس کے قریب کنعان کا رہنے والا تھا، ایک روایت میں اس کو اسرائیلی بتایا گیا ہے، اسے اللہ تعالیٰ کی بعض کتابوں کا علم حاصل تھا قرآن کریم میں جو اس کی صفت بیان ہوئی ہے وہ ” الذی اتیناہ آیتِنَا “ ہے اس سے اسی علم کی طرف اشارہ ہے، غرق فرعون اور ترک مصر کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو جبارین قوم عمالقہ سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور جبارین نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرئیل کا لشکر لے کر قریب پہنچ چکے ہیں، جبارین کو اس کی فکر ہوئی جمع ہو کر بلعم بن باعوارء کے پاس آئے اور کہا موسیٰ (علیہ السلام) سخت آدمی ہیں اور ان کے ساتھ ایک بہت بڑا لشکر ہے وہ ہمارے ملک پر قبضہ کرنے اور ہم کو ہمارے ملک سے بےدخل کرنے کے لئے آئے ہیں آپ اللہ سے دعا کریں کہ ان کو ہمارے ملک سے واپس کردے، بلعم بن باعوراء کو اسم اعظیم معلوم تھا وہ اس کے ذریعہ جو دعاء کرتا وہ قبول ہوتی تھی۔
بلعم نے اول تو معذرت کی اور کہا وہ اللہ کے نبی ہیں ان کے ساتھ فرشتوں کا لشکر ہے میں ان کے خلاف بددعاء کیسے کرسکتا ہوں ؟ اگر میں ایسا کروں تو میرا دین اور دنیا دونوں برباد ہوجائیں گی، مگر قوم نے بےحد اصرار کیا تو بلعم نے کہا اچھا تو میں اس معاملہ میں استخارہ کرکے اپنے رب کی مرضی معلوم کرلوں اس نے استخارہ کیا استخارہ میں معلوم ہوا کہ ایسا ہرگز نہ کرنا، اس نے قوم سے کہا مجھے بددعاء کرنے سے منع کردیا گیا ہے، اس وقت جبارین نے ایک بہت بڑا تحفہ بلعم کو پیش کیا اس نے قبول کرلیا اس کے بعد جبارین کا اصرار بہت زیادہ بڑھ گیا، بعض روایات میں ہے کہ اس کی بیوی نے مشورہ دیا کہ رشوت قبول کرلیں اور ان کا کام کردیں، بیوی کی رضا جوئی اور مال کی محبت نے اسکو اندھا کردیا، اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے لئے بددعاء کرنی شروع کردی
قدرت الہٰیہ کا عجیب کرشمہ : اس وقت قدرت الہٰیہ کا عجیب کرشمہ ظاہر ہوا وہ کلمات بددعاء جو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے لئے کہنا چاہتا تھا اس کی زبان سے وہ الفاظ بددعاء قوم جبارین کے لئے نکلے، جبارین چلا اٹھے کہ تم تو ہمارے لئے بددعاء کررہے ہو، بلعم نے جواب دیا یہ میرے اختیار میں نہیں ہے میری زبان اس کے خلاف پر قادر نہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ اس قوم پر تباہی آئی اور بلعم کو یہ سزاملی کہ اس کی زبان لٹک کر سینے پر آگئی، اب اس نے جبارین سے کہا میری تو دنیا و آخرت تباہ ہوگئی اب میری دعاء کی قبولیت سلب کرلی گئی، لیکن میں تمہیں ایک تدبیر بتاتا ہوں جس کے ذریعہ تم موسیٰ اور اس کی قوم پر غالب آسکتے ہو، وہ یہ کہ تم اپنی حسین لڑکیوں کو آراستہ کرکے بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دو اور ان کو تاکید کردو کہ بنی اسرائیل میں کوئی بھی ان کے ساتھ جو کچھ بھی کرنا چاہیے منع نہ کریں، بلعم بن باعوراء کی یہ شیطانی چال ان کی سمجھ میں آگئی، اور اس پر عمل کیا گیا، بنی اسرائیل کا ایک بڑا شخص جس کا نام شمعون بن یعقوب بتایا گیا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لشکر کا سپہ سالار بھی تھا اسے ایک عورت بہت پسند آئی وہ اسے لیکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میرا خیال یہ ہے کہ آپ اس عورت کو حرام سمجھیں گے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ مجھ پر بھی حرام ہے اور تجھ پر بھی، اس نے یہ بات سنتے ہی قسم کھا کر کہا کہ میں آپ کی اطاعت نہیں کروں گا، اور اپنے خیمہ میں لے جا کر فعل بد کا مرتکب ہوگیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں طاعون بھیج دیا جس کے نتیجہ میں ستر ہزار آدمی ہلاک ہوگئے۔
بعض مفسرین نے اس آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں امیہ بن صلت کا نام لیا ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں موجود تھا، اس کے علاوہ بعض مفسرین نے شان نزول کے سلسلہ میں اور نام بھی لئے ہیں مگر یہ بات طے ہے کہ علی بن طلحہ کی روایت حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے تفسیر کے باب میں بڑی معبتر روایت ہے، ابن جریر نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کا یہی شان نزول بیان کیا ہے لہٰذا یہی شان نزول صحیح ہے۔ (معارف، احسن التفاسیر، فتح القدیر شوکانی)
فمثلہ۔۔۔۔ یلھث، (الآیۃ) لَھِثَ (س) لَھَثًا، پیاسا ہونا، کتے کا ہانپتے وقت زبان نکالنا کتے کی یہ عادت ہوتی ہے کہ تم اسے ڈانٹو ڈپٹو ٖڈراؤ یا اس کو اس کی حالت پر چھوڑ در زبان لٹکائے ہی رہتا ہے۔
کتے کے ساتھ جس شخص کو تشبیہ دی گئی ہے وہی شخص ہے جس کا ذکر سطور بالا میں ہوا ہے اللہ نے اس کو جو علم، معرفت عطا کیا تھا اس کا تقاضہ یہ تھا کہ اس رویہّ سے بچتا جس کو وہ غلط سمجھتا تھا اور وہ طرز عمل اختیار کرتا جو اسے معلوم تھا کہ صحیح ہے، لیکن وہ دنیا کے فائدوں، لذتوں اور آرائشوں کی طرف جھک پڑا، خواہشات نفس کے تقاضوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس نے ان کے آگے سپر ڈالدی دنیا کی حرص و طمع سے بالا ترہونے کے بجائے وہ اس حرص و طمع سے مغلوب ہوا کہ ان تمام حدود کو توڑ کر نکل بھاگا جن کی نگہداشت اس کو خود کرنی چاہیے تھی جب وہ اپنی اخلاقی کمزوری کی وجہ سے حق سے منہ موڑ کر بھاگا تو شیطان جو قریب ہی اس کی گھات میں لگا ہوا تھا اس کے پیچھے لگ گیا اور برابر اسے ایک پستی سے دوسری پستی کی طرف دھکیلتا رہا یہاں تک کہ ظالم نے اسے ان لوگوں کے زمرے میں پہنچا کر ہی دم لیا کو اس کے دام فریب میں پھنس کر پوری طرح اپنی متاع عقل و ہوش گم کرچکے ہیں۔
کتے کے ساتھ تشبیہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ کتے کی جو خصلتیں ہوتی ہیں وہ سب اس میں جمع ہوجاتی ہیں، کتے کی ہر وقت لٹکی ہوئی زبان اور ٹپکتی ہوئی رال، نہ بجھنے والی آتش حرص، کبھی سیر نہ ہونے والی نیت کا پتہ دیتی ہے ہم اپنے محاورہ میں بھی ایسے شخص کو جو دنیا کی حرص میں اندھا ہورہا ہو، دنیا کا کتا، کہتے ہیں، کتے کی جبلت کیا ہے ؟ حرص و آز۔ چلتے پھرتے اس کی ناک سو نگنے ہی میں لگی رہتی ہے کہ شاہد کہیں سے بوئے طعام آجائے، کتا پوری دنیا کو صرف پیٹ ہی کے نظریہ سے دیکھتا ہے، کہیں کوئی بڑی لاش پڑی ہو جو کئی کتوں کے لئے کافی ہو تو ایک کتا اس سے صرف اپنا حصہ لینے پر ہی اکتفاء نہیں کرتا بلکہ اسے صرف اپنے ہی لئے مخصوص رکھنا چاہتا ہے اور کسی دوسرے کتے کو اس کے پاس پھٹکنے نہیں دیتا، اس شہوت شکم کے بعد کوئی چیز اس پر غالب ہے تو وہ شہوت فرج ہے، اپنے سارے جسم میں سے صرف شرمگاہ ہی وہ چیز ہے جس سے وہ دل چسپی رکھتا ہے اور اسی کو سونگھنے اور چاٹنے میں مشغول رہتا ہے، اس تشبیہ کا مدعایہ ہے کہ دنیا پرست آدمی جب علم و ایمان کی رسی تڑا کر بھاگتا ہے اور نفس کی اندھی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں تھما دیتا ہے تو کتے کی حالت کو پہنچے بغیر نہیں رہتا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا﴾ ” اور سنا دوان کو حال اس شخص کا جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں“ یعنی ہم نے اسے کتاب اللہ کی تعلیم دی اور وہ ایک علامہ اور ماہر عالم بن گیا ﴿فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ ﴾” پھر وہ ان کو چھوڑ نکلا اور شیطان اس کے پیچھے گیا“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے علم سے حقیقی طور پر متصف نہ ہوا کیونکہ آیات الٰہی کا علم، صاحب علم کو مکارم اخلاق اور محاسن اخلاق سے متصف کردیتا ہے اور اسے اعلیٰ ترین درجات اور بلند ترین مقامات پر فائز کردیتا ہے۔ پس اس نے کتاب کو چھوڑ دیا اور ان اخلاق کو دور پھینک دیا جن کا حکم کتاب اللہ دیتی تھی اور ان اخلاق کو اس طرح (اپنی ذات سے) اتار دیا جس طرح لباس اتارا جاتا ہے۔ جب وہ آیات الٰہی سے نکل گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور جب وہ مضبوط پناہ گاہ سے نکل بھاگا تو شیطان اس پر مسلط ہوگیا اور یوں وہ ادنیٰ ترین لوگوں میں شامل ہوگیا شیطان نے اسے گناہوں پر آمادہ کیا (اور وہ گناہوں میں گھر گیا) ﴿فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ﴾ ” پس وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔“ جب کہ وہ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے حال پر چھوڑ کر اس کے نفس کے حوالے کردیا تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey Rasool ! ) inn ko uss shaks ka waqiaa parh ker sunao jiss ko hum ney apni aayaten ata farmayen magar woh unn ko bilkul hi chorr nikla , phir shetan uss kay peechay laga , jiss ka nateeja yeh huwa kay woh gumrah logon mein shamil hogaya .
12 Tafsir Ibn Kathir
بلعم بن باعورا
مروی ہے کہ جس کا واقعہ ان آیتوں میں بیان ہو رہا ہے اس کا نام بلعم بن باعورا ہے۔ یہ بھی کہ کہا گیا ہے کہ اس کا نام ضفی بن راہب تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بلقاء کا ایک شخص تھا جو اسم اعظم جانتا تھا اور جبارین کے سات ہی بیت المقدس میں رہا کرتا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ یمنی شخص تھا جس نے کلام اللہ کو ترک کردیا تھا، یہ شخص بنی اسرائیل کے علماء میں سے تھا، اس کی دعا مقبول ہوجایا کرتی تھی۔ بنی اسرائیل سختیوں کے وقت اسے آگے کردیا کرتے تھے۔ اللہ اس کی دعا مقبول فرما لیا کرتا تھا۔ اسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین کے بادشاہ کی طرف اللہ کے دین کی دعوت دینے کیلئے بھیجا تھا اس عقلمند بادشاہ نے اسے مکرو فریب سے اپنا کرلیا۔ اس کے نام کئی گاؤں کردیئے اور بہت کجھ انعام و اکرام دیا۔ یہ بدنصیب دین موسوی کو چھوڑ کر اس کے مذہب میں جا ملا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام بلعام تھا۔ یہ بھی ہے کہ یہ امیہ بن ابو صلت ہے۔ ممکن ہے یہ کہنے والے کی یہ مراد ہو کہ یہ امیہ بھی اسی کے مشابہ تھا۔ اسے بھی اگلی شریعتوں کا علم تھا لیکن یہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کو بھی اس نے پایا آپ کی آیات بینات دیکھیں، معجزے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے، ہزارہا کو دین حق میں داخل ہوتے دیکھا، لیکن مشرکین کے میل جول، ان میں امتیاز، ان میں دوستی اور وہاں کی سرداری کی ہوس نے اسے اسلام اور قبول حق سے روک دیا۔ اسی نے بدری کافروں کے ماتم میں مرثئے کہے، لعنتہ اللہ۔ بعض احادیث میں وارد ہے کہ اس کی زبان تو ایمان لا چکی تھی لیکن دل مومن نہیں ہوا تھا کہتے ہیں کہ اس شخص سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ اس کی دعائیں جو بھی یہ کرے گا مقبول ہوں گی اس کی بیوی نے ایک مرتبہ اس سے کہا کہ ان تین دعاؤں میں سے ایک دعا میرے لئے کر۔ اس نے منظور کرلیا اور پوچھا کیا دعا کرانا چاہتی ہو ؟ اس نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس قدر حسن و خوبصورتی عطا فرمائے کہ مجھ سے زیادہ حسین عورت بنی اسرائیل میں کوئی نہ ہو۔ اس نے دعا کی اور وہ ایسی ہی حسین ہوگئی۔ اب تو اس نے پر نکالے اور اپنے میاں کو محض بےحقیقت سمجھنے لگی بڑے بڑے لوگ اس کی طرف جھکنے لگے اور یہ بھی ان کی طرف مائل ہوگئی اس سے یہ بہت کڑھا اور اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ اسے کتیا بنا دے۔ یہ بھی منظور ہوئی وہ کتیا بن گئی۔ اب اس کے بچے آئے انہوں نے گھیر لیا کہ آپ نے غضب کیا لوگ ہمیں طعنہ دیتے ہیں اور ہم کتیا کے بچے مشہور ہو رہے ہیں۔ آپ دعا کیجئے کہ اللہ اسے اس کی اصلی حالت میں پھر سے لا دے۔ اس نے وہ تیسری دعا بھی کرلی تینوں دعائیں یوں ہی ضائع ہوگئیں اور یہ خالی ہاتھ بےخیر رہ گیا۔ مشہور بات تو یہی ہے کہ بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے یہ ایک شخص تھا۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یہ نبی تھا۔ یہ محض غلط ہے، بالکل جھوٹ ہے اور کھلا افترا ہے۔ مروی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب قوم جبارین سے لڑائی کے لئے بنی اسرائیل کی ہمراہی میں گئے انہی جبارین میں بلغام نامی یہ شخص تھا اس کی قوم اور اس کے قرابت دار چچا وغیرہ سب اس کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ اور اس کی قوم کے لئے آپ بد دعا کیجئے۔ اس نے کہا یہ نہیں ہوسکتا اگر میں ایسا کروں گا تو میری دنیا آخرت دونوں خراب ہوجائیں گی لیکن قوم سر ہوگئی۔ یہ بھی لحاظ مروت میں آگیا۔ بد دعا کی، اللہ تعالیٰ نے اس سے کرامت چھین لی اور اسے اس کے مرتبے سے گرا دیا۔ سدی کہتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل کو وادی تیہ میں چالیس سال گذر گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا انہوں نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں لے کر جاؤں اور ان جبارین سے جہاد کروں۔ یہ آمادہ ہوگئے، بیعت کرلی۔ انہی میں بلعام نامی ایک شخص تھا جو بڑا عالم تھا اسم اعظم جانتا تھا۔ یہ بدنصیب کافر ہوگیا، قوم جبارین میں جا ملا اور ان سے کہا تم نہ گھبراؤ جب بنی اسرائیل کا لشکر آجائے گا میں ان پر بد دعا کروں گا تو وہ دفعتاً ہلاک ہوجائے گا۔ اس کے پاس تمام دنیوی ٹھاٹھ تھے لیکن عورتوں کی عظمت کی وجہ سے یہ ان سے نہیں ملتا تھا بلکہ ایک گدھی پال رکھی تھی۔ اسی بدقسمت کا ذکر اس آیت میں ہے۔ شیطان اس پر غالب آگیا اسے اپنے پھندے میں پھانس لیا جو وہ کہتا تھا یہ کرتا تھا آخر ہلاک ہوگیا۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں جو قرآن پڑھ لے گا جو اسلام کی چادر اوڑھے ہوئے ہوگا اور دینی ترقی پر ہوگا کہ ایک دم اس سے ہٹ جائے گا، اسے پس پشت ڈال دے گا، اپنے پڑوسی پر تلوار لے دوڑے گا اور اسے شرک کی تہمت لگائے گا۔ حضرت حذیفہ بن یمان (رض) نے یہ سن کر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ مشرک ہونے کے زیادہ قابل کون ہوگا ؟ یہ تہمت لگانے والا ؟ وہ جسے تہمت لگا رہا ہے فرمایا نہیں بلکہ تہمت دھرنے والا۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو قادر تھے کہ اسے بلند مرتبے پر پہنچائیں، دنیا کی آلائشوں سے پاک رکھیں، اپنی دی ہوئی آیتوں کی تابعداری پر قائم رکھیں لیکن وہ دنیوی لذتوں کی طرف جھک پڑا یہاں تک کہ شیطان کا پورا مرید ہوگیا۔ اسے سجدہ کرلیا۔ کہتے ہیں کہ اس بلعام سے لوگوں نے درخواست کی کہ آپ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے حق میں بد دعا کیجئے۔ اس نے کہا اچھا میں اللہ سے حکم لے لوں۔ جب اس نے اللہ تعالیٰ سے مناجات کی تو اسے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل مسلمان ہیں اور ان میں اللہ کے نبی موجود ہیں اس نے سب سے کہا کہ مجھے بد دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے انہوں نے بہت سارے تحفے تحائف جمع کر کے اسے دیئے اس نے سب رکھ لئے۔ پھر دوبارہ درخواست کی کہ ہمیں ان سے بہت خوف ہے آپ ضرور ان پر بد دعا کیجئے اس نے جواب دیا کہ جب تک میں اللہ تعالیٰ سے اجازت نہ لے لوں میں ہرگز یہ نہ کروں گا اس نے پھر اللہ سے مناجات کی لیکن اسے کچھ معلوم نہ ہوسکا اس نے یہی جواب انہیں دیا تو انہوں نے کہا دیکھو اگر منع ہی مقصود ہوتا تو آپ کو روک دیا جاتا جیسا کہ اس سے پہلے روک دیا گیا۔ اس کی بھی سمجھ میں آگیا اٹھ کر بد دعا شروع کی۔ اللہ کی شان ہے بد دعا ان پر کرنے کے بجائے اس کی زبان سے اپنی ہی قوم کے لئے بد دعا نکلی اور جب اپنی قوم کی فتح کی دعا مانگنا چاہتا تو بنی اسرائیل کی فتح و نصرت کی دعا نکلتی۔ قوم نے کہا آپ کیا غضب کر رہے ہیں ؟ اس نے کہا کیا کروں ؟ میری زبان میرے قابو میں نہیں۔ سنو اگر سچ مچ میری زبان سے ان کے لئے بد دعا نکلی بھی تو قبول نہ ہوگی۔ سنو اب میں تمہیں ایک ترکیب بتاتا ہوں اگر تم اس میں کامیاب ہوگئے تو سمجھ لو کہ بنی اسرائیل برباد ہوجائیں گے تم اپنی نوجوان لڑکیوں کو بناؤ سنگھار کرا کے ان کے لشکروں میں بھیجو اور انہیں ہدایت کردو کہ کوئی ان کی طرف جھکے تو یہ انکار نہ کریں ممکن ہے بوجہ مسافرت یہ لوگ زناکاری میں مبتلا ہوجائیں اگر یہ ہوا تو چونکہ یہ حرام کاری اللہ کو سخت ناپسند ہے اسی وقت ان پر عذاب آجائے گا اور یہ تباہ ہوجائیں گے۔ ان بےغیرتوں نے اس بات کو مان لیا اور یہی کیا۔ خود بادشاہ کی بڑی حسین و جمیل لڑکی بھی بن ٹھن کر نکلی اسے ہدایت کردی گئی تھی کہ سوائے حضرت موسیٰ کے اور کسی کو اپنا نفس نہ سونپے۔ یہ عورتیں جب بنی اسرائیل کے لشکر میں پہنچیں تو عام لوگ بےقابو ہوگئے حرام کاری سے بچ نہ سکے۔ شہزادی بنی اسرائیل کے ایک سردار کے پاس پہنچی۔ اس سردار نے اس لڑکی پر ڈورے ڈالے لیکن اس لڑکی نے انکار کیا۔ اس نے بتایا کہ میں فلاں فلاں ہوں، اس نے اپنے باپ سے یا بلعام سے پچھوایا اس نے اجازت دی۔ یہ خبیث اپنا منہ کالا کر رہا تھا جسے حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولاد میں سے کسی صاحب نے دیکھ لیا اپنے نیزے سے ان دونوں کو پرودیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دست و بازی قوی کردیئے اس نے یونہی ان دونوں کو چھدے ہوئے اٹھا لیا لوگوں نے بھی انہیں دیکھا۔ اب اس لشکر پر عذاب رب بشکل طاعون آیا اور ستر ہزار آدمی فوراً ہلاک ہوگئے۔ بلعام اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلا وہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر رک گئی اب بلعام اسے مارتا پیٹتا ہے لیکن وہ قدم نہیں اٹھاتی۔ آخر گدھی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا مجھے کیوں مار رہا ہے سامنے دیکھ کون ہے ؟ اس نے دیکھ تو شیطان لعین کھڑا ہوا تھا یہ اتر پڑا اور سجدے میں گرگیا ۔ الغرض ایمان سے خالی ہوگیا اس کا نام یا تو بلعام تھا۔ یا بلعم بن با عورا یا ابن ابر بار بن باعور بن شہوم بن قوشتم بن مآب بن لوط بن ہارون یا ابن مران بن آزر۔ یہ بلقا کا رئیس تھا، اسم اعظم جانتا تھا لیکن اخیر میں دین حق سے ہٹ گیا۔ واللہ اعلم۔ ایک روایت میں ہے کہ قوم کے زیادہ کہنے سننے سے جب یہ اپنی گدھی پر سوار ہو کر بد دعا کے لئے چلا تو اس کی گدھی بیٹھ گئی۔ اس نے اسے مار پیٹ کر اٹھایا کچھ دور چل کر پھر بیٹھ گئی۔ اس نے اسے پھر مار پیٹ کر اٹھایا، اسے اللہ نے زبان دی۔ اس نے کہا تیرا ناس جائے تو کہاں اور کیوں جا رہا ہے اللہ کے مقابلے اس کے رسول سے لڑنے اور مومنوں کو نقصان دلانے جا رہا ہے ؟ دیکھ تو سہی فرشتے میری راہ روکے کھڑے ہیں۔ اس نے پھر بھی کچھ خیال نہ کیا آگے بڑھ گیا۔ حبان نامی پہاڑی پر چڑھ گیا جہاں سے بنو اسرائیل کا لشکر سامنے ہی نظر آتا تھا۔ اب ان کیلئے بددعا اور اپنی قوم کے لئے دعائیں کرنے لگا لیکن زبان الٹ گئی دعا کی جگہ بد دعا اور بد دعا کی جگہ دعا نکلنے لگی۔ قوم نے کہا کیا کر رہے ہو ؟ کہا بےبس ہوں۔ اسی وقت اس کی زبان نکل پڑی سینے پر لٹکنے لگی اس نے کہا لو میری دنیا بھی خراب ہوئی اور دین تو بالکل برباد ہوگیا پھر اس نے خوبصورت لڑکیاں بھیجنے کی ترکیب بتائی جیسے کہ اوپر بیان ہوا اور کہا کہ اگر ان میں سے ایک نے بھی بدکاری کرلی تو ان پر عذاب رب آجائے گا ان عورتوں میں سے ایک بہت ہی حسین عورت جو کنانیہ تھی اور جس کا نام کستی تھا جو صور نامی ایک رئیس کی بیٹی تھی وہ جب بنی اسرائیل کے ایک بہت بڑے سردار زمری بن شلوم کے پاس سے گذری جو شمعون بن یعقوب کی نسل میں سے تھا وہ اس پر فریفتہ ہوگیا۔ دلیری کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گیا اور کہنے لگا آپ تو شاید کہہ دیں گے کہ یہ مجھ پر حرام ہے ؟ آپ نے کہا بیشک۔ اس نے کہا اچھا میں آپ کی یہ بات تو نہیں مان سکتا، اسے اپنے خیمے میں لے گیا اور اس سے منہ کالا کرنے لگا۔ وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون بھیج دیا۔ حضرت فحاص بن غیرار بن ہارون اس وقت لشکر گاہ سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے جب آئے اور تمام حقیقت سنی تو بیتاب ہو کر غصے کے ساتھ اس بد کردار کے خیمے میں پہنچے اور اپنے نیزے میں ان دونوں کو پرو لیا اور اپنے ہاتھ میں نیزہ لئے ہوئے انہیں اوپر اٹھائے ہوئے باہر نکلے کہنی کو کھ پر لگائے ہوئے تھے کہنے لگے یا اللہ ہمیں معاف فرما ہم پر سے یہ وبا دور فرما دیکھ لے ہم تیرے نافرمانوں کے ساتھ یہ کرتے ہیں۔ ان کی دعا اور اس فعل سے طاعون اٹھ گیا لیکن اتنی دیر میں جب حساب لگایا گیا تو ستر ہزار آدمی اور ایک روایت کی رو سے بیس ہزار مرچکے تھے۔ دن کا وقت تھا اور کنانیوں کی یہ چھوکریاں سودا بیچنے کے بہانے صرف اس لئے آئی تھیں کہ بنو اسرائیل بدکاری میں پھنس جائیں اور ان پر عذاب آجائیں۔ بنو اسرائیل میں اب تک یہ دستور چلا آتا ہے کہ وہ اپنے ذبیحہ میں سے گردن اور دست اور سری اور ہر قسم کا سب سے پہلا پھل فحاص کی اولاد کو دیا کرتے ہیں۔ اسی بلعام بن باعورا کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ فرمان ہے کہ اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ کالی ہے تو ہانپتا ہے اور دھتکارا جائے تو ہانپتا رہتا ہے۔ یا تو اس مثال سے یہ مطلب ہے کہ بلعام کی زبان نیچے کو لٹک پڑی تھی جو پھر اندر کو نہ ہوئی کتے کی طرح ہانپتا رہتا تھا اور زبان باہر لٹکائے رہتا تھا۔ یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی ضلالت اور اس پر جمے رہنے کی مثال دی کہ اسے ایمان کی دعوت، علم کی دولت غرض کسی چیز نے برائی سے نہ ہٹایا جیسے کتے کی اس کی زبان لٹکنے کی حالت برابر قائم رہتی ہے خواہ اسے پاؤں تل روندو خواہ جھوڑ دو ۔ جیسے بعض کفار مکہ کی نسبت فرمان ہے کہ انہیں وعظ و پند کہنا نہ کہنا سب برابر ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا اور جیسے بعض منافقوں کی نسبت فرمان ہے کہ ان کے لئے تو استغفار کر یا نہ کر اللہ انہیں نہیں بخشے گا۔ یہ بھی مطلب اس مثال کا بیان کیا گیا ہے کہ ان کافروں منافقوں اور گمراہ لوگوں کے دل بودے اور ہدایت سے خالی ہیں یہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔ پھر اللہ عزوجل اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ تو انہیں پند و نصیحت کرتا رہ تاکہ ان میں سے جو عالم ہیں، وہ غور و فکر کر کے اللہ کی راہ پر آجائیں یہ سوچیں کہ بلعام ملعون کا کیا حال ہوا دینی علم جیسی زبردست دولت کو جس نے دنیا کی سفلی راحت پر کھو دیا۔ آخر نہ یہ ملا نہ وہ۔ دونوں ہاتھ خالی رہ گئے۔ اسی طرح یہ علماء یہود جو اپنی کتابوں میں اللہ کی ہدایتیں پڑھ رہے ہیں، آپ کے اوصاف لکھے پاتے ہیں، انہیں چاہئے کہ دنیا کی طمع میں پھنس کر اپنے مریدوں کو پھانس کر پھول نہ جائیں ورنہ یہ بھی اس کی طرح دنیا میں کھو دیئے جائیں گے انہیں چاہئے کہ اپنی علمیت سے فائدہ اٹھائیں۔ سب سے پہلے تیری اطاعت کی طرف جھکیں اور اوروں پر حق کو ظاہر کریں۔ دیکھ لو کہ کفار کی کیسی بری مثالیں ہیں کہ کتوں کی طرح صرف نگلنے اگلنے اور شہوت رانی میں پڑے ہوئے ہیں۔ پس جو بھی علم و ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کے پورا کرنے میں لگ جائے وہ بھی کتے جیسا ہی ہے۔ حضور فرماتے ہیں ہمارے لئے بری مثالیں نہیں اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو پھر لے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ گنہگار لوگ اللہ کا کچھ بگاڑتے نہیں یہ تو اپنا ہی خسارہ کرتے ہیں۔ طاعت مولیٰ ، اتباع ہدی سے ہٹا کر خواہش کی غلامی دنیا کی چاہت میں پڑ کر اپنے دونوں جہان خراب کرتے ہیں۔