الاعراف آية ۱۸۹
هُوَ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّـفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰٮهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَٮِٕنْ اٰتَيْتَـنَا صَالِحًا لَّـنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ
طاہر القادری:
اور وہی (اللہ) ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی میں سے اس کا جوڑ بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے، پھر جب مرد نے اس (عورت) کو ڈھانپ لیا تو وہ خفیف بوجھ کے ساتھ حاملہ ہوگئی، پھر وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ گراں بار ہوئی تو دونوں نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ اگر تو ہمیں اچھا تندرست بچہ عطا فرما دے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے،
English Sahih:
It is He who created you from one soul and created from it its mate that he might dwell in security with her. And when he [i.e., man] covers her, she carries a light burden [i.e., a pregnancy] and continues therein. And when it becomes heavy, they both invoke Allah, their Lord, "If You should give us a good [child], we will surely be among the grateful."
1 Abul A'ala Maududi
وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے
2 Ahmed Raza Khan
وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا کہ اس سے چین پائے پھر جب مرد اس پر چھایا اسے ایک ہلکا سا پیٹ رہ گیا تو اسے لیے پھراکی پھر جب بوجھل پڑی دونوں نے اپنے رب سے دعا کی ضرور اگر تو ہمیں جیسا چاہیے بچہ دے گا تو بیشک ہم شکر گزار ہوں گے،
3 Ahmed Ali
وہ وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑ بنایا تاکہ اس سے آرام پائے پھر جب میاں نے بیوی سے ہم بستری کی تو اس کو ہلکا سا حمل رہ گیا پھر اسے لیے پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تب دونوں میاں بیوی نے الله سے جو ان کا مالک ہے دعا کی اگر آپ نے ہمیں صحیح سالم اولاد دے دی تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے
4 Ahsanul Bayan
اور اللہ تعالٰی ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا (١) اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا (٢) تاکہ وہ اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرے (٣) پھر جب بیوی سے قربت حاصل کی (٤) اس کو حمل رہ گیا ہلکا سا۔ سو وہ اس کو لئے ہوئے چلتی پھرتی رہی (٥) پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں میاں بیوی اللہ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے اگر تم نے ہم کو صحیح سلامت اولاد دے دی تو ہم خوب شکر گذاری کریں گے (٦)۔
١٨٩۔١ ابتدا یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے۔ اسی لئے انسان اول اور ابو البشر کہا جاتا ہے۔
١٨٩۔٢ اس سے مراد حضرت حوا ہیں، جو حضرت آدم علیہ السلام کی زوج بنیں۔ ان کی تخلیق حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی، جس طرح کہ منھا کی ضمیر سے، جو نفس واحدۃ کی طرف راجع ہے اور واضح ہے (مزید دیکھئے سورت نساء کا حاشیہ)
١٨٩۔٣ یعنی اس سے اطمینان و سکون حاصل کرے۔ اس لئے کہ ایک جنس اپنے ہی ہم جنس سے صحیح معنوں میں مانوس اور قریب ہوسکتی ہے جو سکون حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ قربت کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا ;(وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً) 30۔ الروم;21) اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے (یا تمہاری جنس ہی میں سے) جوڑے پیدا کئے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے دل میں اس نے پیار محبت رکھ دی ' یعنی اللہ نے مرد اور عورت دونوں کے اندر ایک دوسرے کے جذبات اور کشش رکھی ہے، فطرت کے یہ تقاضے وہ جوڑا بن کر پورا کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے قرب و انس حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ جو باہمی پیار میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے وہ دنیا میں کسی اور کے ساتھ نہیں ہوتا۔
١٨٩۔٤ یعنی یہ نسل انسانی اس طرح بڑھی اور آگے چل کر جب ان میں سے ایک زوج یعنی میاں بیوی نے ایک دوسرے سے قربت کی۔ تَغشَّاھَا کے معنی بیوی سے ہمبستری۔ یعنی وطی کرنے کے لئے ڈھانپا۔
١٨٩۔٥ یعنی حمل کے ابتدائی ایام میں حتٰی کہ نطفے سے عَلَقَۃِاور عَلَقَۃ،ُ سے مُضَغَۃ،ُ بننے تک، حمل خفیف رہتا ہے محسوس نہیں ہوتا اور عورت کو زیادہ گرانی بھی نہیں ہوتی۔
١٨٩۔٦ بوجھل ہو جانے سے مراد بچہ پیٹ میں بڑا ہوجاتا ہے تو جوں جوں ولادت کا وقت قریب آتا جاتا ہے، والدین کے دل میں خطرات اور توہمات پیدا ہوتے جاتے ہیں (بالخصوص جب عورت کو اٹھرا کی بیماری ہو تو انسانی فطرت ہے کہ خطرات میں وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، چنانچہ وہ دونوں اللہ سے دعائیں کرتے ہیں اور شکر گزاری کا عہد کرتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔ سو جب وہ اس کے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ پھر جب کچھ بوجھ معلوم کرتی یعنی بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا ہے تو دونوں میاں بیوی اپنے پروردگار خدائے عزوجل سے التجا کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں صحیح وسالم (بچہ) دے گا تو ہم تیرے شکر گذار ہوں گے
6 Muhammad Junagarhi
وه اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وه اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرے پھر جب میاں نے بیوی سے قربت کی تو اس کو حمل ره گیا ہلکا سا۔ سو وه اس کو لئے ہوئے چلتی پھرتی رہی، پھر جب وه بوجھل ہوگئی تو دونوں میاں بیوی اللہ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے کہ اگر تو نے ہم کو صحیح سالم اوﻻد دے دی تو ہم خوب شکر گزاری کریں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ وہی ہے جس نے تمہیں ایک متنفس (جاندار) سے پیدا کیا۔ اور پھر اس کی جنس سے اس کا جوڑا (شریک حیات) بنایا۔ تاکہ وہ (اس کی رفاقت میں) سکون حاصل کرے۔ پھر جب مرد عورت کو ڈھانک لیتا ہے۔ تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے جسے لئے وہ چلتی پھرتی رہتی ہے اور جب وہ بوجھل ہو جاتی ہے (وضعِ حمل کا وقت آجاتا ہے) تو دونوں (میاں بیوی) اپنے اللہ سے جو ان کا پروردگار ہے دعا مانگتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں صحیح و سالم اولاد دے دی تو ہم تیرے بڑے شکر گزار ہوں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
وہی خد اہے جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا ہے تاکہ اس سے سکون حاصل ہو اس کے بعد شوہر نے زوجہ سے مقاربت کی تو ہلکا سا حمل پید اہوا جسے وہ لئے پھرتی رہی پھر حمل بھاری ہوا اور وقت ولادت قریب آیا تو دونوں نے پروردگار سے دعا کی کہ اگر ہم کو صالح اولاد دے دے گا تو ہم تیرے شکر گزار بندوں میں ہوں گے
9 Tafsir Jalalayn
وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا۔ اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔ سو جب وہ اسکے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا کا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اسکے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ پھر کچھ بوجھ معلوم کرتی (یعنی بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا) ہے تو دونوں (میاں بیوی) اپنے پروردگار خدائے عزوجل سے التجا کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں صحیح وسالم (بچہ) دیگا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔
آیت نمبر ١٨٩ تا ٢٠٦
ترجمہ : وہ یعنی اللہ ہی ہے جس نے تم کو ایک جان یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا حوّاء کو پیدا کیا تاکہ اس سے سکون حاصل کرے اور اس سے الفت کرے، چناچہ جب اس کو ڈھانپ لیا یعنی اس سے مجامعت کی، اگر اس کو ہلکا سا حمل رہ گیا، اور اس بات سے خوفزدہ ہوئے کہ وہ (حمل) کوئی جانور نہ ہو تو انہوں نے اپنے رب اللہ سے دعاء کی، اگر آپ ہمیں نیک صحیح سالم بچہ عطا فرمائیں تو ہم اس پر آپ کے شکر گذار ہوں گے، چناچہ جب ان کو صحیح سالم اولاد دیدی تو دونوں (بیوی) نے (اللہ کے) عطا کردہ بچے کا نام عبدالحارث رکھ کر خدا کا شریک قراردیدیا، اور ایک قراءت میں شین کے کسرہ اور (کاف) کی تنوین کے ساتھ (شرکٌ) ہے حالانکہ یہ قطعاً درست نہیں کہ خدا کے علاوہ کسی کا بندہ ہو، اور یہ (شرک فی التسمیہ ہے) شرک فی العبادت نہیں ہے حضرت آدم (علیہ السلام) کے معصوم ہونے کی وجہ سے، اور (حضرت) سمرہ (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جب حوّاء نے بچہ جنا تو ابلیس نے ان کے پاس چکر لگانا شروع کردیا، اور حوّاء کا بچہ زندہ نہیں رہتا تھا ابلیس نے حوّا سے کہا تم اس کا نام عبدالحارث رکھو تو وہ زندہ رہے گا، چناچہ حوّاء نے اس کا نام (عندالحارث) رکھ دیا تو وہ بچہ زندہ رہا، اور یہ سب کچھ شیطان کے اشارہ اور اس کے حکم سے ہوا، اس کو حاکم نے روایت کیا ہے اور صحیح کہا ہے، اور ترمذی نے حسن غریب کہا ہے سو اللہ تعالیٰ اہل مکہ کے اس کے ساتھ بتوں کو شریک کرنے سے پاک ہے اور (فتعٰلیٰ اللہ عما یشرکون) جملہ مسببیہ ہے اور خلقکم پر عطف ہے، اور دونوں کے درمیان جملہ معترضہ ہے، کیا وہ عبادت میں اس کا ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کچھ پیدا نہیں کرسکتے، اور وہ خود مخلوق ہیں اور وہ اپنے عبادت کرنے والوں کی کسی قسم کی مدد نہیں کرسکتے اور نہ خود کو بچا سکتے ہیں اس شخص سے جو ان کو بدنیتی سے توڑنے وغیرہ کا ارادہ کرے، اور استفہام تو بیخ کے لئے ہے، اور تم بتوں کو ہدایت (رہنمائی) کے لئے پکارو تو وہ تمہاری بات نہ مانیں (یتبعوکم) تشدید اور تخفیف کے ساتھ ہے تمہارے لئے برابر ہے کہ تم ان کو رہنمائی کے لئے پکارو یا ان کو نہ پکارو، ان کے نہ سننے کی وجہ سے تمہاری پکار کی طرف کان نہ دھریں گے اللہ کو چھوڑ کر جن کی تم بندگی کرتے ہو وہ بھی تمہارے جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکار کر دیکھ لو، ان کو چاہیے کہ تمہاری پکار کا جواب دیں اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ وہ معبود ہیں پھر بتوں کے انتہائی عجز اور ان کے عابدوں کی ان پر فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا، کیا ان کے پیر ہیں جن سے وہ چل سکیں ؟ یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑ سکیں ؟ ایدِ ، ید کی جمع ہے، یا ان کے آنکھ ہیں جن سے وہ دیکھ سکیں یا ان کے کان ہیں کہ جن سے وہ سن سکیں، ( سب جگہ) استفہام انکاری ہے یعنی مذکورہ چیزوں میں سے ان کے پاس ایک بھی نہیں ہے جو تمہارے پاس ہیں، تو پھر ان کی بندگی کس بناء پر کرتے ہو حالانکہ تم ان سے حالت کے اعتبار سے (بہرحال) بہتر ہو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو میری ہلاکت کے لئے اپنے شرکاء کو بلا لو پھر میرے بارے میں تدبیر کرو مجھے مہلت دو ، میں تمہاری کچھ پرواہ نہیں کرتا ہوں، بیشک میرا مددگار اللہ ہے جس نے کتاب (یعنی) قرآن نازل کیا اور وہ اپنی نگرانی میں نیک لوگوں کی حفاظت کرتا ہے اور جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر بندگی کرتے ہو وہ تمہاری مدد نہیں کرسکتے اور نہ وہ اپنی ہی مدد پر قادر ہیں، تو میں ان کی کیوں پرواہ کروں ؟ اور تم بتوں کو رہنمائی کے لئے پکارو تو وہ نہ سنیں اور اے محمد تم اگر ان بتوں کو دیکھو ایسا معلوم ہوگا کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں یعنی دیکھنے والے کے مانند آپ کے روبرو ہیں، حالانکہ وہ کچھ نہیں دیکھتے آپ درگذر کو اختیار کریں (یعنی) لوگوں کے اخلاق کے بارے میں سہل انگیزی سے کام لیجئے (ان کے عیوب) کی کھود کرید میں نہ پڑیئے، اور نیکی کا حکم کیجئے، اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کیجئے، اور ان کی حماقت کا مقابلہ نہ کیجئے، اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے یعنی اگر آپ کو مامور بہ سے کوئی برگشتہ کرنے والا برگشتہ کرے تو اللہ کی پناہ طلب کیجئے (اِمّا) میں مازائدہ میں نون شرطیہ کا ادغام ہے، (فاستعذ باللہ) جواب شرط ہے، اور جواب امر محذوب ہے اور وہ یَدْفعہ عنک ہے، بلا شبہ وہ بات کا سننے والا عمل کا دیکھنے والا ہے بلا شبہ وہ لوگ جو خدا ترس ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو وہ اللہ کی سزا اور ثواب کو یاد کرنے لگتے ہیں اور ایک قراءت میں (طیف) کے بجائے طائف ہے، یعنی اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیش آتا ہے، تو وہ دفعۃً حق اور ناحق کو دیکھنے لگتے ہیں (یعنی دونوں میں امتیاز کرنے لگتے ہیں) تو وہ اس وسوسہ سے باز آجاتے ہیں، اور کفار میں جو شیطان کے بھائی بند ہوتے ہیں شیاطین ان کو گمراہی میں گھسیٹ لیتے ہیں پھر وہ (شیطان کے بھائی بند) اس گمراہی سے آنکھ کھلنے یعنی آگاہ ہو نیکے باوجود باز نہیں آتے، جیسا کہ متقی دیدہ بنیا سے کام لیتے ہیں، اور جب آپ اہل مکہ کے سامنے ان کا تجویز کردہ (فرمائشی) معجزہ نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزہ اپنی طرف سے کیوں نہ لائے ؟ آپ ان سے کہدیجئے میں تو صرف اس حکم کی اتباع کرتا ہوں جو میرے پاس میرے رب کی طرف سے بھیجا جاتا ہے میرے اختیار میں نہیں کہ میں کچھ بھی اپنی طرف سے لاسکوں، ی قرآن لوگوں کے لئے تمہارے رب کی جانب سے دلائل ہیں، اور ہدایت ہے اور رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لئے اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کو غور سے سنا کرو اور بات چیت بند کرکے خاموش ہوجایا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے یہ آیت خطبہ کے وقت ترک کلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور خطبہ کو قرآن سے اس لئے تعبیر کردیا ہے کہ خطبہ قرآن پر مشتمل ہوتا ہے، اور کہا گیا ہے کہ مطلقاً قرآن کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور (اے مخاطب) اپنے رب کو چپکے چپکے عاجزی اور اللہ سے خوف کے ساتھ یاد کیا کر، یعنی زیر زبان سے اوپر اور جہر فی الکلام سے نیچے، یعنی سر اور جہر کے درمیان کا قصد کرتے ہوئے صبح و شام یعنی اول دن میں اور آخر دن میں، اور اللہ کے ذکر سے غفلت کرنے والوں میں مت ہو، بلا شبہ وہ مخلوق یعنی جو تیرے رب کے پاس ہے اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتی اور جو چیز اس کی شایانِ شان نہیں اس سے اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور اس کے لئے سجدہ کرتی ہے اور عاجزی اور عبادت کے لئے اس کو خالص کرتی ہے سو تم بھی ان کے جیسے ہوجاؤ۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
وَجَعَلَ مِنھا، ضمیر مجرور نفس کی طرف راجع ہے باعتبار لفظ کے اور لیسکنَ کی ضمیر بھی نفس کی طرف راجع ہے باعتبار معنی کے، اور مراد نفس سے آدم (علیہ السلام) ہیں۔
قولہ : وفی قِرَاءَۃً بِکَسْرِ الشِیْنِ والتَنْوِیْنِ ای شَرِیْکاً ، یہ شرکاء میں دوسری قراءت کا بیان ہے، شرکاء شریک کی جمع ہے مگر مراد مفرد ہی ہے اس کا قرینہ دوسری قراءت ہے اور وہ شِرْ کاً ہے کسرہ اور راء کے سکون کے اور کاف کی تنوین کے ساتھ۔
قولہ : ای شریکا، اس اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ شِر کاً مصدر فاعل شریکاً کے معنی میں ہے تاکہ حمل درست ہوسکے۔
قولہ : جَعَلَا لہ ‘، جَعَلا میں ضمیر تثنیہ کی طرف راجع ہے ؟ بعض مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ آدم و حوّاء کی طرف راجع ہے، لیکن محقق قول یہ ہے کہ بنی آدم میں سے ہر نفس اور زوج نفس مراد ہے، بعض تا بعین سے بھی یہی قول منقول ہے قال الحسن وقتادۃ الضمیر فی جعلا عائد الی النفس وزوجہٖ من ولد آدم لا الی آدم و حوّا ؛ (جصاص) جعل الزوج والزوجۃ شرکاء (کبیرعن القفال) امام رازی نے قفال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ قصہ بطور تمثیل کے مشرکین کی عام حالت کو بیان کررہا ہے، اور اس تفسیر کو بہت ہی پسند فرمایا ہے ھذا جوابٌ فی غایۃ الصحۃ والسداد (کبیر) اور محققین نے یہ بھی کہا ہے کہ آیت میں ضمیر کو آدم و خواء کی طرف راجع کرنے کی کوئی تائید نہ قرآن سے ملتی ہے نہ حدیث صحیح سے اور ایسے قصے پیغمبروں کے لائق نہیں۔ (بحر، بیضاوی)
قولہ : بتَسْمِیَتہٖ ای بتسمیۃ الولد، حارث، بتسمیۃ شرکاء بمعنی شریک کے متعلق ہے۔
قولہ : ولَیْسَ بِاِ شْرَاکٍٍ فی العُبُوْدِیَّۃِ لعَصْمَۃِ آدَمَ اس اضافہ کا مقصد انبیاء کی عصمت کا دفاع ہے۔
قولہ : العُبُوْدِیَّۃ، زیادہ بہتر ہوتا کہ العبودیۃ کے بجائے العبادۃ یا معبودیۃ فرماتے۔ (حاشیہ جلالین)
قولہ : اَھْلُ مَکَّۃ اس میں اس بات کی تائید ہے کہ جَعَلاَ کا مرجع آدم و حوّاء نہیں ہے بلکہ ہر نفس اور اس کا زوج ہے، اور اس کا قرینہ اللہ تعالیٰ کا قول فتعالی اللہ عما یشرکون ہے یسرکون، صیغہ جمع کے ساتھ لایا گیا ہے حالانکہ آدم وحوّاء جمع نہیں ہیں۔
قولہ : والجُمْلَۃُ مُسَبَّبَۃٌ، یعنی فتعالی اللہ عما یشرکون، اس کا عطف خَلَقکم من نفسٍ واحدۃ یر ہے، معطوف علیہ معطوف کا سبب ہے، یعنی جن چیزوں کو تم اس کا شریک ٹھہراتے ہو وہ اس سے بڑی ہے اسلئے کہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے اور مخلوق کی شریک نہیں ہوسکتی گویا کہ اس میں فاء تعقیبیہ کے فائدہ کی طرف اشارہ ہے، درمیان میں جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : یُقابِلُوْ نکَ اس میں اشارہ ہے کہ کلام بطور رشبیہ ہے، لہٰذا اب یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ اصنام سے دیکھنا ممکن نہیں ہے،
قولہ : طَیْف، اس سے یہ بھی احتمال ہے کہ طَیْفُ ، طیفاً سے اسم فاعل، ای طاف بہ الخیال، طائف وسوسہ، خطرہ۔
قولہ : اَلَمَّ بھم ای مسَّ بھم۔
تفسیر وتشریح
ھو۔۔۔ واحدۃ (الآیۃ) سابق میں ابو البشر اور ام البشر کی تخلیق کا بیان تھا، اب یہاں عام مرد و زن کی پیدائش کا بیان ہے، اس کو اصطلاح میں التفات عن الخاص الی العام کہتے ہیں اور قرآن کریم کا یہ عام اور پسندیدہ اسلوب بیان ہے ان آیات میں حسن بصری وغیرہ کی رائے کے مطابق خاص آدم و حواء کا نہیں بلکہ عام انسانوں کی حالت کا بقشہ کھینچا گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتداء میں ھُوَ الَّذی خَلقکم من خلقکم من نفس واحدۃ و جعل منھا زوجھا میں بطور تمہید آدم و حواء کا ذکر تھا اس کے بعد مطلق مرد و عورت کے ذکر کی طرف منتقل ہوگئے، اور ایسا ہوتا ہے کہ شخص کے ذکر سے جنس کے ذکر کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں مثلاً ، وَلقد زیَّناَ السماء الدنیا بمصابیح وَجَعَلْنَا ھَارُ جو ماً للشیاطین، میں جن ستاروں کو مصابیح فرمایا گیا وہ ٹوٹنے والے ستارے نہیں جن سے رجم شیاطین ہوتا ہے مگر شخص مصابیح سے جنس مصابیح کی جانب کلام کو منتقل کردیا گیا، اس کے مطابق ” جَعَلَالَہ ‘ شرکاء “ میں کوئی اشکال نہیں، مگر اکثر سلف سے منقول ہے کہ ان آیتوں میں آدم و حواء کا واقعہ مذکور ہے۔
احادیث کی روشنی میں آیات کی تفسیر : جب آدم و حواء (علیہ السلام) کو زمین پر اتاردیا گیا اور زمین پر بودوباش شروع کردی تو ایک روز حضرت آدم حواء سے ہم بستر ہوئے، حواء کو حمل رہ گیا جب تک حمل ابتدائی مرحلے میں رہا تو حضرت حواء کو کوئی گرانی نہیں ہوئی اور باآسانی چلتی پھرتی رہیں، مگر جب زمانہ گذرتا گیا تو حمل میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا جس کی وجہ سے حواء کو ثقل محسوس ہونے لگا، اس سے یہ بات سمجھ آگئی کہ حواء کو علوق ہوگیا، اور ایک روز ہماری جنس کا بچہ پیدا ہونے والا ہے پھر دونوں حضرات دعائیں کرنے لگیں اے اللہ اگر تو ہمیں صالح صحیح سالم تندرست بچہ دے گا تو ہم بہت شکر گزار ہوں گے، حمل کے دوران ابلیس نے حضرت حواء کے پاس آنا جانا شروع کردیا، ایک روز ابلیس نے حضرت حواء سے کہا کہ جب تمہارا بچہ پیدا ہو تو اس کا نام میرے نام پر رکھنا، حواء نے معلوم کیا تیرا کیا نام ہے ؟ ابلیس نے اپنا غیر معروف نام بتایا یعنی حارث، جب بچہ پیدا ہو تو اس کا نام عبد الحارث رکھا، اگر مفسرین نے جَعَلاَ لہ شرکاء فیما آتاھما، کی یہی تفسیر کی ہے، ترمذی، امام احمد، ابی حاتم وغیرہ محدثین نے اس موقع پر سمرہ بن جندب کی حدیث بیان فرمائی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا، حواء کا کوئی بچہ زندہ نہ رہتا تھا، اس مرتبہ جو حمل رہا تو ابلیس نے آکر کہا، اگر اس بچہ کا نام عبد الحارث رکھو گے تو یہ بچہ زندہ رہے گا، غرضیکہ ابلیس کے بہکانے سے حواء نے ایسا کیا، اس میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا کوئی قصور نہیں تھا، اور بعض مفسرین نے آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ یہ آیت مشرکین مکہ کی شان میں نازل ہوئی ہے اسلئے کہ مشرکین مکہ اپنے بچوں کا نام غیر اللہ کے نام پر مثلاً عبد العزیٰ ، عبد الشمس وغیرہ رکھا کرتے تھے اس قسم کے نام رکھنا بھی شرک میں داخل ہے، سمرہ بن جندب کی روایت جو ابھی اوپر گزری ہے، اس کی سند میں ایک راوی عمر بن ابراہیم مصری ہے جس کو بعض علماء نے ضعیف کہا ہے لیکن ابن معین نے اس کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے، اسی واسطے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، ترمذی وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ کی صحیح حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنی عمر میں سے چالیس سال حضرت داؤد (علیہ السلام) کو دئیے مگر پھر اس اقرار پر قائم نہ رہے اس کا ذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں فرمایا اور پھر فرمایا کہ حضرت آدم کا اقرار پر قائم نہ رہنا اس بات کا ایک نمونہ تھا کہ ا ان کی اولاد میں بھی یہ بات پائی جائے گی، اس حدیث سے ان مفسرین کے قول کی تائید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عبادت میں تو نہیں مگر نام رکھنے میں شرک شیطان کے بہکانے سے حواء سے ظہور میں آیا، حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے شاگردوں میں سے سعید بن جبیر اور عکرمہ کے قول کا حاصل یہ ہے کہ شیطان نے یہ نام حواء کو خواب میں سکھایا تھا اور حضرت حواء نے اپنا یہ خواب حضرت آدم (علیہ السلام) سے بیان کیا حضرت آدم (علیہ السلام) نے یہ نام رکھنے سے منع فرمایا، لیکن اس لڑکے سے پہلے دو لڑکے فوت ہوچکے تھے، اس لئے شیطان نے حواء کو یہ پٹی پڑھائی کہ اب کہ دفعہ جو لڑکا پیدا ہو اس کا نام عبد الحارث رکھنا تو وہ لڑکا زندہ رہیگا اور عمر دراز ہوگا، اولاد کی محبت کے جوش میں حواء نے اس بچہ کا نام عبد الحارث رکھ دیا، حضرت آدم چونکہ پہلے ہی منع کرچکے تھے اس لئے بچہ کے پیدا ہونے اور اس نام کے رکھے جانے کے بعد اس نام کی انہوں نے کچھ کریدنہ کی یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند آئی اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور حواء دونوں کا نام اس قصہ میں ذکر فرمایا، اس آیت کی تفسیر کو علماء نے بہت مشکل قرار دیا ہے، لیکن سلف میں سے قتادہ اور سفیان ثوری کا یہ قول جب مدنظر رکھا جائے کہ تفسیر کے باب میں سعید بن جبیر اور عکرمہ کے قول کا بڑا اعتبار ہے اور سعید بن جبیر اور عکرمہ کے قول کے مطابق آیت کی تفسیر کی جائے تو آیت کی تفسیر میں کوئی دشواری باقی نہیں رہتی۔ (خلاصہ احسن التفاسیر)
تم بحمد اللہ
10 Tafsir as-Saadi
﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم﴾’’وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔“ اے مرد و اور عورتو ! جو روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہو، تمہاری کثرت تعداد اور تمہارے متفرق ہونے کے باوصف ﴿ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ﴾ ” ایک جان سے۔“ اور وہ ہیں ابوالبشر آدم﴿ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا﴾” اور اسی سے بنایا اس کا جوڑا“ یعنی آدم علیہ السلام سے ان کی بیوی حوا علیہاالسلام کو تخلیق کیا۔ ﴿لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا﴾’’تاکہ اس کے پاس آرام پکڑے“ چونکہ حوا علیہ السلام کوآدم علیہ السلام سےپیداکیاگیاہے اس لئے ان دونوں کے مابین ایسی مناسبت اور موافقت موجود ہے جو تقاضا کرتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے سکون حاصل کریں اور شہوت کے تعلق سے ایک دوسرے کی اطاعت کریں۔ ﴿فَلَمَّا تَغَشَّاهَا﴾” سو جب وہ اس کے پاس جاتا ہے۔“ یعنی جب آدمی نے اپنی بیوی سے مجامعت کی تو باری تعالیٰ نے یہ بات مقدر کردی کہ اس شہوت اور جماع سے ان کی نسل وجود میں آئے اور اس وقت ﴿حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا﴾ ” حمل رہا ہلکا سا حمل“ یہ کیفیت حمل کے ابتدائی ایام میں ہوتی ہے عورت اس کو محسوس نہیں کر پاتی اور نہ اس وقت یہ حمل بوجھل ہوتا ہے۔ ﴿فَلَمَّا﴾” پس جب“ یہ حمل اسی طرح موجود رہا ﴿أَثْقَلَت﴾ ” بوجھل ہوگئی“ یعنی اس حمل کی وجہ سے، جب کہ وہ حمل بڑا ہوجاتا ہے تو اس وقت والدین کے دل میں بچے کے لئے شفقت، اس کے زندہ صحیح و سالم اور ہر آفت سے محفوظ پیدا ہونے کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔ بنا بریں ﴿دَّعَوَا اللَّـهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا﴾ ” دونوں نے دعا کی اللہ اپنے رب سے، اگر بخشا تو نے ہم کو“ یعنی بچہ ﴿صَالِحًا﴾ ” صحیح و سالم“ یعنی صحیح الخلقت“ پورا اور ہر نقص سے محفوظ ﴿لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴾ ” تو ہم شکر گزار بندوں میں سے ہوں گے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
Allah woh hai jiss ney tumhen aik jaan say peda kiya , aur ussi say uss ki biwi banai , takay woh uss kay paas aa-ker taskeen hasil keray . phir jab mard ney aurat ko dhaank liya to aurat ney hamal ka aik halka saa bojh utha liya , jissay ley ker woh chalti phirti rahi . phir jab woh bojhal hogaee to dono ( miyan biwi ) ney apney perwerdigar Allah say dua ki kay : agar tu ney hamen tandurust aulad di to hum zaroor bil-zaroor tera shukar ada keren gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
ایک ہی باپ ایک ہی ماں اور تمام نسل آدم
تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہی پیدا کیا۔ انہی سے ان کی بیوی حضرت حوا کو پیدا کیا پھر ان دونوں سے نسل انسان جاری کی۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 13) 49 ۔ الحجرات :13) لوگو ہم نے تمہیں ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے پھر تمہارے کنبے اور قبیلے بنا دیئے تاکہ آپس میں ایک وسرے کو پہچانتے رہو۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ذی عزت وہ ہے جو پرہیزگاری میں سب سے آگے ہے۔ سورة نساء کے شروع میں ہے اے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی شخص یعنی حضرت آدم سے پیدا کیا ہے انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا پھر ان دونوں میاں بیوی سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیئے۔ یہاں فرماتا ہے کہ انہی سے ان کی بیوی کو بنایا تاکہ یہ آرام اٹھائیں چناچہ ایک اور آیت میں ہے (لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمتہ) لوگو یہ بھی اللہ کی ایک مہربانی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں بنادیں تاکہ تم ان سے سکون و آرام حاصل کرو اور اس نے تم میں باہم محبت و الفت پیدا کردی۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چاہت ہے جو میاں بیوی میں وہ پیدا کردیتا ہے۔ اسی لئے جادوگروں کی برائی بیان کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا کہ وہ اپنی مکاریوں سے میاں بیوی میں جدائی ڈلوا دیتے ہیں۔ عورت مرد کے ملنے سے بحکم الٰہی عورت کو حمل ٹھہر جاتا ہے جب تک وہ نطفے، خون اور لوتھڑے کی شکل میں ہوتا ہے ہلکا سا رہتا ہے وہ برابر اپنے کام کاج میں آمد و رفت میں لگی رہتی ہے کوئی ایسی زیادہ تکلیف اور بار نہیں معلوم ہوتا اور اندر ہی اندر وہ برابر بڑھتا رہتا ہے اسے تو یونہی سا کچھ وہم کبھی ہوتا ہے کہ شاید کچھ ہو۔ کچھ وقت یونہی گذر جانے کے بعد بوجھ معلوم ہونے لگتا ہے حمل ظاہر ہوجاتا ہے بچہ پیٹ میں بڑا ہوجاتا ہے طبیعت تھکنے لگتی ہے اب ماں باپ دونوں اللہ سے دعائیں کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہ ہمیں صحیح سالم بیٹا عطا فرمائے تو ہم شکر گذاری کریں گے۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں کچھ اور بات نہ ہوجائے۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی اور صحیح سالم انسانی شکل و صورت کا بچہ عطا فرمایا تو اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں۔ مفسرین نے اس جگہ بہت سے آثار و احادیث بیان کئے ہیں جنہیں میں یہاں نقل کرتا ہوں اور ان میں جو بات ہے وہ بھی بیان کروں گا پھر جو بات صحیح ہے اسے بتاؤں گا ان شاء اللہ۔ مسند احمد میں ہے کہ جب حضرت حوا کو اولاد ہوئی تو ابلیس گھومنے لگا ان کے بچے زندہ نہیں رہتے تھے شیطان نے سیکھایا کہ اب اس کا نام عبدالحارث رکھ دے تو یہ زندہ رہے گا چناچہ انہوں نے یہی کیا اور یہی ہوا اور اصل میں یہ شیطانی حرکت تھی اور اسی کا حکم تھا۔ امام ترمذی نے بھی اسے وارد کیا ہے پھر فرمایا ہے حسن غریب ہے، میں کہتا ہوں اس حدیث میں تین علتیں ہیں ایک تو یہ کہ اس کے ایک راوی عمر بن ابراہیم مصری کی بابت امام ابو حاتم رازی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ راوی ایسا نہیں کہ اس سے حجت پکڑی جائے گو امام ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن ابن مردویہ نے اسے معمر سے اس نے اپنے باپ سے اس نے سمرہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے واللہ اعلم دوسرے یہ کہ یہی روایت موقوفاً حضرت سمرہ کے اپنے قول سے مروی ہوئی ہے جو کہ مرفوع نہیں ابن جرید میں خود حضرت عمرہ بن جندب کا اپنا فرمان ہے کہ حضرت آدم نے اپنے لڑکے کا نام عبدالحارث رکھا۔ تیسرے اس آیت کی تفسیر اس کے راوی حضرت حسن سے بھی اس کے علاوہ بھی مروی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ مرفوع حدیث ان کی روایت کردہ ہوتی تو یہ خود اس کے خلاف تفسیر نہ کرتے۔ چناچہ ابن جرید میں ہے حضرت حسن فرماتے ہیں یہ حضرت آدم کا واقعہ نہیں بلکہ بعض مذاہب والوں کا واقعہ ہے اور روایت میں آپ کا یہ فرمان منقول ہے کہ اس سے مراد بعض مشرک انسان ہیں جو ایسا کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ کا فعل بیان ہوا ہے کہ اپنی اولادوں کو اپنی روش پر ڈال لیتے ہیں۔ یہ سب اسنادیں حضرت حسن تک بالکل صحیح ہیں اور اس آیت کو جو کچھ تفسیر کی گئی ہے اس میں سب سے بہتر تفسیر یہی ہے۔ خیر مقصد یہ تھا کہ اتنا بڑا متقی اور پرہیزگار آدمی ایک آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث قول پیغمبر روایت کرے پھر اس کے خلاف خود تفسیر کرے یہ بالکل ان ہونی بات ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ وہ حضرت سمرہ کا اپنا قول ہے۔ اس کے بعد یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ حضرت سمرہ نے اسے ہل کتاب سے ماخوذ کیا ہو جیسے کعب و ہب وغیرہ جو مسلمان ہوگئے تھے انشاء اللہ اس کا بیان بھی عنقریب ہوگا بہر صورت اس روایت کا مرفوع ہونا ہم تسلیم نہیں کرتے واللہ اعلم۔ اب اور آثار جو اس بارے میں ہیں انہیں سنئے۔ ابن عباس کہتے ہیں حضرت حوا کے جو بچے پیدا ہوتے تھے ان کا نام عبداللہ عبید اللہ وغیرہ رکھتی تھیں وہ بچے فوت ہوجاتے تھے پھر ان کے پاس ابلیس آیا اور کہا اگر تم کوئی اور نام رکھو تو تمہارے بچے زندہ رہیں گے چناچہ ان دونوں نے یہی کیا جو بچہ پیدا ہوا اس کا نام عبدالحارث رکھا اس کا بیان ان آیتوں میں ہے اور روایت میں ہے کہ ان کے دو بجے اس سے پہلے مرچکے تھے اب حالت حمل میں شیطان ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تمہیں معلوم بھی ہے کہ تمہارے پیٹ میں کیا ہے ؟ ممکن ہے کوئی جانور ہی ہو ممکن ہے صحیح سالم نہ پیدا ہو ممکن ہے اگلوں کی طرح یہ بھی مرجائے تم میری مان لو اور اب جو بچہ پیدا ہو اس کا نام میرے نام پر رکھو تو انسان ہوگا صحیح سالم ہوگا زندہ رہے گا یہ بھی اس کے بہکاوے میں آگئے اور عبدالحارث نام رکھا۔ اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے اور روایت میں ہے کہ پہلی دفعہ حمل کے وقت یہ آیا اور انہیں ڈرایا کہ میں وہی ہوں جس نے تمہیں جنت سے نکلویا اب یا تم میری اطاعت کرو۔ ورنہ میں اسے یہ کر ڈالوں گا وہ کر ڈالوں گا وغیرہ ہرچند ڈرایا مگر انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی۔ اللہ کی شان وہ بچہ مردہ پیدا ہوا دوبارہ حمل ٹھہرا پھر یہ ملعون پہنچا اور اسی طرح خوف زدہ کرنے لگا اب بھی انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی چناچہ یہ دوسرا بچہ بھی مردہ ہوا۔ تیسرے حمل کے وقت یہ خبیث پھر آیا اب کی مرتبہ اولاد کی محبت میں آ کر انہوں نے اس کی مان لی اور اس کا نام عبدالحارث رکھا اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے۔ ابن عباس سے اس اثر کو لے کر ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے بھی یہی کہا ہے جیسے حضرت مجاہد حضرت سعید بن جبیر حضرت عکرمہ اور دوسرے طبقے میں سے قتادہ سدی وغیرہ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہی کہا ہے۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ اثر اہل کتاب سے لیا گیا ہے۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اسے ابی ابن کعب سے روایت کرتے ہیں جیسے کہ ابن ابی ہاتم میں ہے پس ظاہر ہے کہ یہ اہل کتاب کے آثار سے ہے۔ جن کی بابت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ ان کی باتوں کو نہ سچی کہو نہ جھوٹی۔ ان کی روایتیں تین طرح کی ہیں۔ ایک تو وہ جن کی صحت ہمارے ہاں کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہے۔ ایک وہ جن کی تکذیب کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہو۔ ایک وہ جس کی بابت کوئی ایسا فیصلہ ہمارے دین میں نہ ملے تو بقول حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس روایت کے بیان میں تو کوئی حرج نہیں لیکن تصدیق تکذیب جائز نہیں۔ میرے نزدیک تو یہ اثر دوسری قسم کا ہے یعنی ماننے کے قابل نہیں اور جن صحابہ اور تابعین سے یہ مروی ہے انہوں نے اسے تیسری قسم کا اپنی اولاد کے معاملے میں اللہ کے ساتھ کرنے کا بیان ان آیتوں میں ہے نہ کہ حضرت امام حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ مشرکوں کا اپنی اولاد کے معاملے میں اللہ کے ساتھ کرنے کا بیان ان آیتوں میں ہے نہ کہ حضرت آدم و حوا کا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ اس شرک سے اور ان کے شریک ٹھہرانے سے بلند وبالا ہے ان آیتوں میں یہ ذکر اور ان سے پہلے آدم و حوا کا ذکر مثل تمہید کے ہے کہ ان اصلی ماں باپ کا ذکر کر کے پھر اور ماں باپوں کا ذکر ہوا اور ان ہی کا شرک بیان ہوا۔ ذکر شخص سے ذکر جنس کی طرف استطراد کے طور پر جیسے آیت (ولقد زینا السماء الدنیا بمصابیع) میں ہے یعنی ہم نے دنیا کے آسمان کو ستاروں سے زینت دی اور انہیں شیطانوں پر انگارے برسانے والا بنایا اور یہ ظاہر ہے کہ جو ستارے زینت کے ہیں وہ جھڑتے نہیں ان سے شیطانوں کو مار نہیں پڑتی۔ یہاں بھی استطراد تاروں کی شخصیت سے تاروں کی جنس کی طرف ہے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں، واللہ اعلم۔