پس وہ فریب کے ذریعے دونوں کو (درخت کا پھل کھانے تک) اتار لایا، سو جب دونوں نے درخت (کے پھل) کو چکھ لیا تو دونوں کی شرم گاہیں ان کے لئے ظاہر ہوگئیں اور دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے، تو ان کے رب نے انہیں ندا فرمائی کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت (کے قریب جانے) سے روکا نہ تھا اور تم سے یہ (نہ) فرمایا تھا کہ بیشک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے،
English Sahih:
So he made them fall, through deception. And when they tasted of the tree, their private parts became apparent to them, and they began to fasten together over themselves from the leaves of Paradise. And their Lord called to them, "Did I not forbid you from that tree and tell you that Satan is to you a clear enemy?"
1 Abul A'ala Maududi
اس طرح دھو کا دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پرلے آیا آخرکار جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے تب ان کے رب نے انہیں پکارا، " کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟"
2 Ahmed Raza Khan
تو اُتار لایا انہیں فریب سے پھر جب انہوں نے وہ پیڑ چکھا ان پر اُن کی شرم کی چیزیں کھل گئیں اور اپنے بدن پر جنت کے پتے چپٹانے لگے، اور انہیں ان کے رب نے فرمایا کیا میں نے تمہیں اس پیڑ سے منع نہ کیا اور نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے،
3 Ahmed Ali
پھر انہیں دھوکہ سے مائل کر لیا پھرجب ان دونوں نے درخت کو چکھا تو ان پر ان کی شرم گاہیں کھل گئیں اور اپنے اوپر بہشت کے پتے جوڑنے لگے اورانہیں ان کے رب نے پکارا کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تمہیں کہ نہ دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے
4 Ahsanul Bayan
سو ان دونوں کو فریب کے نیچے لے (۱) آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بےپردہ ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے (۲) اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کر چکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے (۳)،
٢٢۔١ تدلیۃ اور ادلاء کے معنی ہیں کسی چیز کو اوپر سے نیچے چھوڑ دینا گویا شیطان ان کو مرتبہ علیا سے اتار کر ممنوعہ درخت کا پھل کھانے تک لے آیا ٢٢۔۲یہ اس مصیت کا اثر ظاہر ہوا جو آدم علیہ السلام و حوا سے غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر ہوئی اور پھر دونوں مارے شرم کے جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر اپنی شرم گاہ چھپانے لگے۔ اس سے قبل انہیں اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک ایسا نورانی لباس ملا ہوا تھا، جو اگرچہ غیر مرئی تھا لیکن ایک دوسرے کی شرم گاہ کے لئے ساتر (پردہ پوش) تھا۔ ابن کثیر ٢٢۔۳ یعنی اس تنبہ کے باوجود تم شیطان کے وسوسوں کا شکار ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کے جال بڑے حسین اور دلفریب ہوتے ہیں اور جن سے بچنے کے لئے بڑی کاوش و محنت اور ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
غرض (مردود نے) دھوکہ دے کر ان کو (معصیت کی طرف) کھینچ ہی لیا جب انہوں نے اس درخت (کے پھل) کو کھا لیا تو ان کی ستر کی چیزیں کھل گئیں اور وہ بہشت کے (درختوں کے) پتے توڑ توڑ کر اپنے اوپر چپکانے لگے اور (ستر چھپانے لگے) تب ان کے پروردگار نے ان کو پکارا کہ کیا میں نے تم کو اس درخت (کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا اور جتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے
6 Muhammad Junagarhi
سو ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پرده ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے؟
7 Muhammad Hussain Najafi
اس طرح اس نے ان دونوں کو فریب سے مائل کر دیا (اور اس طرح جنت) کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں تک پہنچا دیا۔ پس جب انہوں نے اس درخت کا مزہ چکھا۔ تو ان کے جسم کے چھپے ہوئے حصے نمودار ہوگئے اور وہ جنت کے پتوں کو جوڑ کر اپنے یہ مقام (ستر) چھپانے لگے تب ان کے پروردگار نے ان کو ندا دی۔ کیا میں نے تمہیں اس درخت کے پاس جانے سے منع نہیں کیا تھا؟ اور نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر انہیں دھوکہ کے ذریعہ درخت کی طرف جھکا دیا اور جیسے ہی ان دونوں نے چکّھا شرمگاہیں کھلنے لگیں اور انہوں نے درختوں کے پتے جوڑ کر شرمگاہوں کو چھپانا شروع کردیا تو ان کے رب نے آواز دی کہ کیا ہم نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور کیا ہم نے تمہیں نہیں بتایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے
9 Tafsir Jalalayn
غرض (مردُود نے) دھوکا دیکر ان کو (معصیت کی طرف) کھینچ ہی لیا۔ ) (جب انہوں نے اس درخت (کے پھل) کو کھالیا تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں اور وہ بہشت کے (درختوں کے) پتّیتوڑ توڑ کر اپنے اوپر چپکانے لگے تب انکے پروردگار نے انکو پکارا کہ کیا میں نے تم کو اس درخت (کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا ؟ اور جتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے ؟
10 Tafsir as-Saadi
﴿فَدَلَّاهُمَا ﴾” پس نیچے لے آیا ان دونوں کو“ یعنی شیطان نے آدم و حوا علیہما السلام کو ان کے بلند مرتبے سے، جو کہ گناہوں سے دوری پر مبنی تھا، اتار کر نافرمانی کی گندگی میں لتھیڑ دیا اور انہوں نے آگے بڑھ کر اس شجر ممنوعہ کے پھل کو کھالیا ﴿فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا﴾ ” پس جب چکھا ان دونوں نے درخت کو، تو ان پر ان کی شرم گاہیں کھل گئیں“ یعنی دونوں کا ستر ظاہر ہوگیا اس سے پہلے ان کا ستر چھپا ہوا تھا۔ پس اس حالت میں تقویٰ سے باطنی عریانی نے ظاہری لباس میں اپنا اثر دکھایا۔ حتیٰ کہ وہ لباس اتر گیا اور ان کا ستر ظاہر ہوگیا اور جب ان پر ان کا ستر ظاہر ہوا تو وہ بہت شرمسار ہوئے اور جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے۔ ﴿ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا ﴾ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے آواز دی ﴿أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴾ ” کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تمہیں کہا نہیں تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے“ پھر تم نے اپنے دشمن کی اطاعت کر کے ممنوعہ کام کا ارتکاب کیوں کیا؟ پس اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر کے ان پر احسان کیا اور انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کر کے اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت طلب کرتے ہوئے عرض کیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
iss tarah uss ney dono ko dhoka dey ker neechay utaar hi liya . chunacheh jab dono ney uss darkht ka maza chakha to unn dono ki sharam ki jaghen aik doosray per khul gaeen , aur woh jannat kay kuch pattay jorr jorr ker apney badan per chipkaney lagay . aur unn kay perwerdigar ney unhen aawaz di kay : kiya mein ney tum dono ko uss darkht say roka nahi tha , aur tum say yeh nahi kaha tha kay shetan tum dono ka khula dushman hai ?
12 Tafsir Ibn Kathir
لغزش کے بعد کیا ہوا ؟ ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں " حضرت آدم (علیہ السلام) کا قد مثل درخت کھجور کے بہت لمبا تھا اور سر پر بہت لمبے لمبے بال تھے، درخت کھانے سے پہلے انہیں اپنی شرمگاہ کا علم بھی نہ تھا نظر ہی نہ پڑی تھی۔ لیکن اس خطا کے ہوتے ہی وہ ظاہر ہوگئی، بھاگنے لگے تو بال ایک درخت میں الجھ گئے، کہنے لگے اے درخت مجھے چھوڑ دے درخت سے جواب ملا کہ ناممکن ہے، اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ اے آدم مجھ سے بھاگ رہا ہے ؟ کہنے لگے یا اللہ شرمندگی ہے، شرمسار ہوں، گو یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح موقوف ہونا ہی ہے، ابن عباس فرماتے ہیں، درخت کا پھل کھالیا اور چھپانے کی چیز ظاہر ہوگئی، جنت کے پتوں سے چھپانے لگے، ایک کو ایک پر چپکا نے لگے، حضرت آدم مارے غیرت کے ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن ایک درخت کے ساتھ الجھ کر رہ گئے اللہ تعالیٰ نے ندا دی کہ آدم مجھ سے بھاگتا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں یا اللہ مگر شرماتا ہوں۔ جناب باری نے فرمایا آدم جو کچھ میں نے تجھے دے رکھا تھا کیا وہ تجھے کافی نہ تھا ؟ آپ نے جواب دیا بیشک کافی تھا لیکن یا اللہ مجھے یہ علم نہ تھا کہ کوئی تیرا نام لے کر تیری قسم کھا کر جھوٹ کہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب تو میری نافرمانی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور تکلیفیں اٹھانا ہوں گی۔ چناچہ جنت سے دونوں کو اتار دیا گیا، اب اس کشادگی کے بعد کی یہ تنگی ان پر بہت گراں گذری کھانے پینے کو ترس گئے، پھر انہیں لوہے کی صنعت سکھائی گئی، کھیتی کا کام بتایا گیا، آپ نے زمین صاف کی دانے بوئے، وہ آگے بڑھے، بالیں نکلیں، دانے پکے، پھر توڑے گئے، پھر پیسے آگئے، آٹا گندھا، پھر روٹی تیار ہوئی، پھر کھائی جب جا کر بھوک کی تکلیف سے نجات پائی۔ تین کے پتوں سے اپنا آگا پیچھا چھپاتے پھرتے تھے جو مثل کپڑے کے تھے، وہ نورانی پردے جن سے ایک دوسرے سے یہ اعضا چھپے ہوئے تھے، نافرمانی ہوتے ہی ہٹ گئے اور وہ نظر آنے لگے، حضرت آدم اسی وقت اللہ کی طرف رغبت کرنے لگے توبہ استغفار کی طرف جھک پڑے، بخلاف ابلیس کے کہ اس نے سزا کا نام سنتے ہی اپنے ابلیسی ہتھیار یعنی ہمیشہ کی زندگی وغیرہ طلب کی۔ اللہ نے دونوں کی دعا سنی اور دونوں کی طلب کردہ چیزیں عنایت فرمائی۔ مروی ہے کہ حضرت آدم نے جب درخت کھالیا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی سزا یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی تکلیف میں رہیں گی بچہ ہونے کے وقت بھی تکلیف اٹھائیں گی، یہ سنتے ہی حضرت جواء نے نوحہ شروع کیا، حکم ہوا کہ یہی تجھ پر اور تیری اولاد پر لکھ دیا گیا۔ حضرت آدم نے جناب باری میں عرض کی اور اللہ نے انہیں دعا سکھائی، انہوں نے دعا کی جو قبول ہوئی۔ قصور معاف فرما دیا گیا فالحمد اللہ !