الاعراف آية ۸
وَالْوَزْنُ يَوْمَٮِٕذِ ِلْحَـقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
طاہر القادری:
اور اس دن (اعمال کا) تولا جانا حق ہے، سو جن کے (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے،
English Sahih:
And the weighing [of deeds] that Day will be the truth. So those whose scales are heavy – it is they who will be the successful.
1 Abul A'ala Maududi
اور وزن اس روز عین حق ہوگا جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے
2 Ahmed Raza Khan
اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے،
3 Ahmed Ali
اورواقعی اس دن وزن بھی ہوگا جس شخص کا پلہ بھاری ہو گا سو ایسے لوگ کامیاب ہوں گے
4 Ahsanul Bayan
اور اس روز وزن بھی برحق پھر جس شخص کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہونگے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اس روز (اعمال کا) تلنا برحق ہے تو جن لوگوں کے (عملوں کے) وزن بھاری ہوں گے وہ تو نجات پانے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور اس روز وزن بھی برحق ہے پھر جس شخص کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہوں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اس دن وزن (اعمال کا تولا جانا) بالکل حق ہے پس جس کے پلے بھاری ہوں گے وہی کامیاب ہوں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آج کے دن اعمال کا وزن ایک برحق شے ہے پھر جس کے نیک اعمال کا پّلہ بھاری ہوگا وہی لوگ نجات پانے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور اس روز (اعمال کا) تلنا برحق ہے تو جن لوگوں کے (عملوں کے) وزن بھاری ہونگے وہ تو نجات پانے والے ہیں۔
وَالوزن یومَئِذِن الحق، (الآیۃ) یعنی روز قیامت وزن اعمال برحق ہے اس میں کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہوئی چاہیے، یہ شبہ نہ ہونا چاہیے کہ وزن تو اجسام کا ہوتا ہے اور اعمال خواہ اچھے ہوں یا برے ازقبیلہ اعراض ہیں جن کا کوئی جرم و جسم نہیں ہوتا، پھر اعمال کے وزن کی کیا صورت ہوگی ؟ اس بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ رب العلمین قادر مطلق ہے اور ہر شئ پر قادر ہے اس کی قدرت سے کوئی شئ خارج نہیں ہے یہ کیا ضروری ہے کہ جس چیز کو ہم نے تول سکیں حق تعالیٰ بھی نہ تول سکیں، اس کے علاوہ جدید دور کی جدید ایجادات نے تو اس مسئلہ کو بالکل واضح اور صاف کردیا ہے اب کوئی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہی، اب نئے آلات کے ذریعہ وہ چیزیں بھی تولی جاتی ہیں جو پہلے نہیں تولی جاتی تھیں، اب ایسے آلات ایجاد ہوچکے ہیں کہ جن میں ہ ترازو کی ضرورت نہ اس کے پلوں کی اور نہ ڈنڈی اور کانٹے کی، آج تو ان آلات کے ذریعہ ہوا تولی جاتی ہے برقی رو تولی جاتی ہے گری سردی تولی جاتی ہے ان کا میٹر ہی ان کی ترازو ہے، اگر حق تعالیٰ اپنی قدرت کا ملہ سے انسانی اعمال کا وزن کرلیں تو اس میں کیا استبعاد ہے ؟
اعراض کے متعلق ” بارکلے “ کا نظریہ : برطانیہ کے مشہور فلسفی نے ثابت کیا ہے کہ مادہ کے جتنے بھی اعراض تسلیم کئے گئے ہیں ان کی آسل تو محسوسیت ہی ہے اگر سرے سے محسوس ہی نہ ہوں تو ان کے وجود ہی کے کوئی معنی نہیں (ماجدی) اعمال کی صفت وزن آج ہمارے موجودہ قویٰ کے لئے غیر محسوس ہے، روز قیامت ہمارے ترقی یافتہ قویٰ کے لئے محسوس و مدرک ہوجائیگی۔
عرض کو جوہر میں تبدیل کردینا اللہ کی قدرت میں ہے : خالق کائنات کو اس پر بھی قدرت حاصل ہے کہ ہمارے اعمال کو کسی وقت جوہر میں تبدیل کرکے کوئی شکل و صورت عطا فرما دیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول بہت سی روایات اس پر شاہد ہیں کہ برزخ اور محشر میں انسانی اعمال خاص خاص شکلوں و صورتوں میں آئیں گے، قبر میں انسان کے اعمال صالحہ حسین صورت میں اس کے مونس بنیں گے اور برے اعمال سانپ بچھو بن کر اس کو لپٹیں گے حدیث میں ہے کہ جس شخص نے مال کی زکوٰۃ نہ دی ہوگی وہ مال ایک زہریلے سانپ کی شکل میں اس کی قبر میں پہنچ کر اس کو ڈ سے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
پھر اعمال کی جزا بیان فرمائی۔ یعنی قیامت کے روز اعمال کا زن عدل و انصاف کیساتھ کیا جائے گا۔ کسی بھی لحاظ سے کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا ﴿فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ ﴾ ” تو جن لوگوں کے وزن بھاری ہوں گے۔“ یعنی جن کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے سے بھاری ہوگا﴿فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ” تو وہی نجات پانے والے ہوں گے۔“ یہی لوگ ہیں جو ناپسندیدہ امور سے نجات حاصل کریں گے اور اپنے محبوب امور کو پالیں گے جن کو بہت بڑا نفع اور دائمی سعادت حاصل ہوگی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur uss din ( aemal ka ) wazan hona atal haqeeqat hai . chunacheh jinn ki tarazoo kay pallay bhari hon gay , wohi falah paaney walay hon gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
میزان اور اعمال کا دین
قیامت کے دن نیکی بدی انصاف و عدل کے ساتھ تولی جانے کی، اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہ کرے گا۔ جیسے فرمان ہے آیت (ونضع الموازین القسط لیوم القیامتہ) الخ، قیامت کے دن ہم عدل کی ترازو رکھیں گے، کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا، رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں اور آیت میں ہے " اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا، وہ نیکی کو بڑھاتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔ سورة قارعہ میں فرمایا جس کا نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگیا اسے عیش و نشاط کی زندگی ملی اور جس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگیا اس کا ٹھکانا (ہاویہ) ہے جو بھڑکتی ہوئی آگ کے خزانے کا نام ہے اور آیت میں ہے (فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ 101) 23 ۔ المؤمنون) یعنی نفحہ پھونک دیا جائے گا سارے رشتے ناتے اور نسب حسب ٹوٹ جائیں گے، کوئی کسی کا پر سان حال نہ ہوگا۔ اگر تول میں نیک اعمال بڑھ گئے تو فلاح پالی ورنہ خسارے کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔ فصل کوئی تو کہتا ہے کہ خود اعمال تو لے جائیں گے کوئی کہتا ہے نامہ اعمال تو لے جائیں گے۔ کوئی کہتا ہے خود عمل کرنے والے تو لے جائیں گے۔ ان تینوں قولوں کو اس طرح جمع کرنا بھی ممکن ہے کہ ہم کہیں یہ سب صحیح ہیں کبھی عمال تو لے جائیں گے کبھی نامہ اعمال کبھی خود اعمال کرنے والے واللہ اعلم۔ ان تینوں باتوں کی دلیلیں بھی موجود ہیں۔ پہلے قول کا مطلب یہ ہے کہ اعمال گو ایک بےجسم چیز ہیں لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں جسم عطا فرمائے گا جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے سورة بقرہ اور سورة آل عمران قیامت کے دن دو سائبانوں کی یا دو ابر کی یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو جھنڈ کی صورت میں آئیں گی اور حدیث میں ہے کہ قرآن اپنے قاری اور عامل کے پاس ایک نوجوان خوش شکل نورانی چہرے والے کی صورت میں آئے گا یہ اسے دیکھ کر پوچھے گا کہ تو کون ہے ؟ یہ کہے گا میں قرآن ہوں جو تجھے راتوں کی نیند نہیں سونے دیتا تھا اور دنوں میں پانی پینے سے روکتا تھا۔ حضرت براء والی حدیث میں جس میں قبر کے سوال جواب کا ذکر ہے اس میں یہ بھی فرمان ہے کہ مومن کے پاس ایک نوجوان خوبصورت خوشبودار آئے گا یہ اس سے پوچھے گا کہ تو کون ہے ؟ وہ جواب دے گا کہ میں تیرا نیک عمل ہوں اور کافر و منافق کے پاس اس کے برخلاف شخص کے آنے کا بیان ہے یہ تو تھیں پہلے قول کی دلیلیں۔ دوسرے قول کی دلیلیں یہ ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص کے سامنے اس کے گناہوں کے ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے جس میں سے ہر ایک اتنا بڑا ہوگا جتنا دور تک نظر پہنچے۔ پھر ایک پرچہ نیکی کا لایا جائے گا جس پر (لا الہ الا اللہ) ہوگا۔ یہ کہے گا یا اللہ یہ اتنا سا پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اس سے بےخطر رہ کہ تجھ پر ظلم کیا جائے، اب وہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلہ میں نیکی کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ سب دفتر اونچے ہوجائیں گے اور یہ سب سے زیادہ وزن دار اور بھاری ہوجائیں گے (ترمذی) تیسرا قول بھی دلیل رکھتا ہے حدیث میں ہے ایک بہت موٹا تازہ گنہگار انسان اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن اللہ کے پاس اس کا نہ ہوگا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا 105) 18 ۔ الكهف) ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی تعریف میں جو حدیثیں ہیں ان میں ہے کہ حضور نے فرمایا ان کی پتلی پنڈلیوں پہ نہ جانا اللہ کی قسم اللہ کے نزدیک یہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزن دار ہے۔