نوح آية ۱
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّأْتِيَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ
طاہر القادری:
بے شک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ آپ اپنی قوم کو ڈرائیں قبل اس کے کہ اُنہیں دردناک عذاب آپہنچے،
English Sahih:
Indeed, We sent Noah to his people, [saying], "Warn your people before there comes to them a painful punishment."
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا (اس ہدایت کے ساتھ) کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کر دے قبل اس کے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آئے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ ان کو ڈرا اس سے پہلے کہ ان پر دردناک عذاب آئے
3 Ahmed Ali
بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا کہ اپنی قوم کو ڈرا اس سے پہلے کہ ان پر دردناک عذاب آ پڑے
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف (١) بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرا دو (اور خبردار کردو) اس سے پہلے کہ ان کے پاس دردناک عذاب آجائے (٢)
١۔١ حضرت نوح علیہ السلام جلیل القدر پیغمبروں میں سے ہیں، صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث شفاعت میں ہے کہ یہ پہلے رسول ہیں، نیز کہا جاتا ہے کہ انہی کی قوم سے شرک کا آغاز ہوا، چنانچہ اللہ تعالٰی نے انہیں اپنی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔
١۔٢ قیامت کے دن عذاب یا دنیا میں عذاب آنے سے قبل، جیسے اس قوم پر طوفان آیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ہم نے نوحؑ کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ پیشتر اس کے کہ ان پر درد دینے والا عذاب واقع ہو اپنی قوم کو ہدایت کردو
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرا دو (اور خبردار کردو) اس سے پہلے کہ ان کے پاس دردناک عذاب آجائے
7 Muhammad Hussain Najafi
بےشک ہم نے نوح(ع) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈراؤ۔ اس سے پہلے کہ ان پر دردناک عذاب آجائے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو دردناک عذاب کے آنے سے پہلے ڈراؤ
9 Tafsir Jalalayn
ہم نے نوح کو ان کی قوم کر طرف بھیجا کہ پیشتر اسکے کہ ان پر درد دینے والا عذاب واقع ہو اپنی قوم کو ہدایت کردو
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، یقینا ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرائو قبل اس کے کہ ان پر دنیا و آخرت میں دردناک عذاب آئے اگر وہ ایمان نہ لائے، نوح (علیہ السلام) نے فرمایا اے میری قوم ! میں تمہیں صاف صاف ڈرانے والا ہوں بایں طور کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اللہ کی بندگی کرو اور اسی سے ڈرو اور میری بات مانو وہ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا من زائدہ ہے بلاشبہ اسلام کے ذریعہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں یا من تبعیضیہ ہے حقوق العباد کو خارج کرنے کے لئے اور تم کو بلا عذاب مہلت دے گا موت کے مقررہ وقت تک یقینا تم پر اللہ کے عذاب کا وعدہ جب آجائے گا اگر تم ایمان نہ لائے تو مؤخر نہ ہوگا اگر تم اس بات کو جان لیتے تو ایمان لے آتے نوح علیہ الصلوٰۃ السلام نے کہا اے میرے پروردگار ! میں نے اپنی قوم کو رات دن ہمیشہ مسلسل تیری طرف بلایا مگر میرے بلانے سے یہ لوگ ایمان سے اور زیادہ بھاگنے لگے، میں نے انہیں جب کبھی تیری بخشش کے لئے بلایا تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں تاکہ میری بات نہ سنیں اور انہوں نے اپنے کپڑے اوڑھ لئے یعنی کپڑوں سے انہوں نے اپنے سروں کو چھپالیا تاکہ مجھے نہ دیکھیں، اور وہ اپنے کفر پر ڈٹے رہے اور ایمان کے مقابلہ میں بڑا تکبر کیا پھر میں نے انہیں بآواز بلند بلایا اور پھر میں نے ان کو اعلانیہ بھی سمجھایا اور چپکے سے بھی سمجھایا اور میں نے ان سے کہا تم اپنے رب سے شرک سے معافی طلب کرو وہ یقینا بڑا بخشنے والا ہے کثرت سے تمہارے لئے زوردار بارش بھیجے گا اور وہ لوگ بارش سے محروم کردیئے گئے تھے اور تمہارے مال و اولاد میں اضافہ کرے گا اور تمہارے لئے باغات لگا دے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کر دے گا تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کی عظمت کے معتقد نہیں ہو، یعنی اللہ سے اپنے وقار کی امید نہیں رکھتے کہ ایمان لے آئو، حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے بنایا اطوار، طور کی جمع ہے، اس کے معنی حال کے ہیں چناچہ ایک حالت نطفے کی ہے، اور ایک حالت دم بستہ کی ہے انسان کی تخلیق کے مکمل ہونے تک اور انسان کی تخلیق میں غور کرنا اس کے خالق پر ایمان کو واجب کرتا ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے کس طرح تہ بہ تہ سات آسمان پیدا کئے، یعنی بعض کو بعض کے اوپر رکھا اور چاند کو ان میں یعنی ان کے مجموعہ میں جو سماء دنیا پر بھی صادق ہے نور بنایا اور سورج کو روشن چراغ بنایا اور وہ چاند کے نور سے قوی تر ہے اور تم کو زمین سے ایک خاص طریقہ سے پیدا کیا پھر وہ تم کو اسی میں لے جائے گا حال یہ کہ تم قبر میں مدفون ہو گے اور وہ تم کو بعث کے لئے نکالے گا اور اللہ نے زمین کو تمہارے لئے فرش بنایا تاکہ تم اس کے کشادہ راستوں میں چلو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ثمان او تسع و عشرون آیۃ، ثمان، ثاء کے ضمہ اور کسرہ کے ساتھ آخر سے یا حذف ہوگئی قاض کے قاعدہ سے یا یدو دم کے قاعدہ سے اصل میں ثمانی تھا۔
قولہ : بانذار اس سے اشارہ کردیا کہ ان انذر میں ان مصدریہ ہے اور تفسیر یہ بھی ہوسکتا ہے اس لئے کہ ارسال میں قول کے معنی ہیں۔ (صاوی)
قولہ : بان اقول لکم کہ ان اعبدوا اللہ میں ان تفسیر یہ ہے اور مصدر یہ ہونا بھی صحیح ہے، کما سبق۔
قولہ : یغفرلکم یہ ما قبل میں مذکور تینوں امروں کا جواب ہے اور اسی وجہ سے مجزوم ہے۔
قولہ : بلا عذاب اس کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : اللہ تعالیٰ نے ویوخر کم الی اجل مسمی فرمایا حالانکہ دوسری آیت میں ” ولن یوخر اللہ نفسا اذا جاء اجلھا “ فرمایا گیا ہے دونوں میں تعارض ہے ؟
جواب : یوخر کم سے مراددنیا میں عذاب کی تاخیر ہے موت تک نہ کہ موت کے مقررہ وقت میں تاخیر ہے۔
(جمل، صاوی)
قولہ : بعذابکم ان لم تومنوا اس عبارت کے اضافہ کا مقصد بھی سابقہ تعارض کو دفع کرنا ہے۔ (حاشیہ، جلالین)
قولہ : لامنتم اس میں اشارہ ہے کہ لو شرطیہ ہے اور لامنتم اس کی جزاء ہے۔
تفسیر و تشریح
نام :
اس سورت کا نام سورة نوح ہے، اس میں اول سے آخر تک حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے جس طرح کہ سورة یوسف میں حضرت یوسف کا قصہ بالتفصیل بیان ہوا ہے مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ سورة یوسف قصہ یوسف (علیہ السلام) کے لئے خاص ہے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قصہ قرآن میں اور کہیں نہیں آیا دیگر مقامات پر صرف نام آیا ہے برخلاف حضرت نوح (علیہ السلام) کے کہ یہ سورت مخصوص قصہ نوح کے لئے ہے مگر قصہ نوح (علیہ السلام) اس سورت کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ قرآن کریم میں دیگر ٤٣ مقامات پر بھی مفصلاً و مجملاً حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر ہے۔
(قصص القرآن، خلاصہ التفاسیر)
حضرت نوح (علیہ السلام) پہلے رسول ہیں :
حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے نبی ہیں کہ جن کو رسالت سے نوازا گیا صحیح مسلم میں باب شفاعت میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک طویل روایت ہے اس میں اول رسول ہونے کی صراحت ہے۔
یا نوح انت اول الرسل الی الارض اے نوح ! تم کو زمین پر پہلا رسول بنایا گیا ہے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ اجمالاً :
تو رات کے بیان کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) کا نسب حضرت آدم (علیہ السلام) سے آٹھ واسطوں سے ملتا ہے : نو بن لامک بن متو شالخ بن اخنوخ بن یارد بن مہلئیل بن فینان بن انوش بن شیث بن آدم (قصص القرآن) مگر یہ ظن وتخمین پر مبنی ہے یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ میں تورات کے مختلف نسخوں میں بھی کافی اختلاف ہے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے پوری قوم خدا کی توحید اور صحیح مذہبی روشنی سے یکسر ناآشنا ہوچکی تھی اور حقیقی خدا کی جگہ خود ساختہ معبودوں نے لے لی تھی، اس قوم کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہادی اور اپنے سچے رسول حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ السلام کو مبعوث کیا، حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی بدبخت قوم کو سمجھانے میں انتہائی کوشش کی اور بہت چاہا کہ رحمت الٰہی کی آغوش میں آجائے مگر قوم نے ایک نہ سنی اور جس قدر اس جانب سے تبلیغی جدوجہد ہوئی اسی قدر قوم کی جانب سے بغض وعناد میں سرگرمی کا اظہار ہوا اور ایذاء رسانی اور تکلیف دہی کے تمام ذرائع استعمال کئے گئے اور قوم کے بڑوں نے عوام الناس سے صاف صاف کہہ دیا کہ ود، سواع، یغوث، یعوق، اور نسر جیسے بتوں کی پرستش کو نہ چھوڑنا، حضرت نوح علیہ الصلوٰ ۃ والسلام ساڑھے نو سو سال کی انتھک کوشش کے نتیجے میں ایک روایت کے اعتبار سے اسی افراد سے زیادہ ایمان نہ لائے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ میں، حضرت نوح علیہ السلام کے اپنی قوم کے اندر، ایک طویل زمانے تک رہنے، ان کو بار بار دعوت توحید دینے اور شرک سے روکنے کی بنا پر ان کا الگ قصہ بیان کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے حضرت نوح علیہ السلام کو قوم پر رحم کرتے ہوئے ، ان کو دردناک عذاب سے متنبہ کرتے ہوئے اور ان کو اپنے کفر پر جمے رہنے سے ڈراتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی طرف مبعوث فرمایا، مبادا اللہ تعالیٰ ان کو ابدی ہلاکت اور سرمدی عذاب میں مبتلا کردے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے سرتسلیم خم کردیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کے لیے آگے بڑھے اور فرمایا: ﴿ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴾ یعنی میں انذار اور تنبیہ کو واضح کرکے کھول کھول کر بیان کرتا ہوں۔ یہ اس لیے کہ آپ نے جس چیز کے ذریعے سے تنبیہ کی اس کو واضح کیا اور جس کے بارے میں تنبیہ کی گئی اس کو واضح کیا اور جس چیز کے ذریعے سے نجات حاصل ہوتی ہے ان سب باتوں کو شافی طور پر بیان کیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
hum ney nooh ko unn ki qoam kay paas bheja kay apni qoam ko khabrdar kero , qabal iss kay kay unn per koi dardnak azab aa-khara ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
عذاب سے پہلے نوح (علیہ السلام) کا قوم سے خطاب
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف اپنا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ عذاب کے آنے سے پہلے اپنی قوم کو ہوشیار کردو اگر وہ توبہ کرلیں گے اور اللہ کی طرف جھکنے لگیں گے تو اللہ کا عذاب ان سے اٹھ جائے گا، حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ کا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا اور صاف کہہ دیا کہ دیکھو میں کھلے لفظوں میں تمہیں آگاہ کئے دیتا ہوں، میں صاف صاف کہہ رہا ہوں کہ اللہ کی عبادت اس کا ڈر اور میری اطاعت لازمی چیزیں ہیں جو کام رب نے تم پر حرام کئے ہیں ان سے بچو گناہ کے کاموں سے الگ تھلگ رہو جو میں کہوں بجا لاؤ جس سے روکوں رک جاؤ میری رسالت کی تصدیق کرو تو اللہ تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا، آیت ( يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاۗءَ لَا يُؤَخَّرُ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) 71 ۔ نوح :4) میں لفظ (من) یہاں زائد ہے، اثبات کے موقعہ پر بھی کبھی لفظ (من) زائد آجاتا ہے جیسے عرب کے مقولے (قد کان من مطر) میں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ معنی میں عن کے ہو بلکہ ابن جریر تو اسی کو پسند فرماتے ہیں اور یہ قول بھی ہے کہ من تبعیض کے لئے ہے یعنی تمہارے کچھ گناہ معاف فرما دے گا یعنی وہ گناہ جن پر سزا کا وعدہ ہے اور وہ بڑے بڑے گناہ ہیں، اگر تم نے یہ تینوں کام کئے تو وہ معاف ہوجائیں گے اور جس عذاب کے ذریعے وہ تمہیں اب تمہاری ان خطاؤں اور غلط کاریوں کی وجہ سے برباد کرنے والا ہے اس عذاب کو ہٹا دے گا اور تمہاری عمریں بڑھا دے گا، اس آیت سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ اطاعت اللہ اور نیک سلوک اور صلہ رحمی سے حقیقتاً عمر بڑھ جاتی ہے، حدیث میں یہ بھی ہے کہ صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ نیک اعمال اس سے پہلے کرلو کہ اللہ کا عذاب آجائے اس لئے جب وہ آجاتا ہے پھر نہ اسے کوئی ہٹا سکتا ہے نہ روک سکتا ہے، اس بڑے کی بڑائی نے ہر چیز کو پست کر رکھا ہے اس کی عزت و عظمت کے سامنے تمام مخلوق پست ہے۔