Skip to main content

قُلْ اِنْ اَدْرِىْۤ اَقَرِيْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ يَجْعَلُ لَهٗ رَبِّىْۤ اَمَدًا

Say
قُلْ
کہہ دیجئے
"Not
إِنْ
نہیں
I know
أَدْرِىٓ
میں جانتا
whether is near
أَقَرِيبٌ
آیا قریب ہے
what
مَّا
وہ جو
you are promised
تُوعَدُونَ
تم وعدہ کیے جاتے ہو
or (whether)
أَمْ
یا
will appoint
يَجْعَلُ
مقرر کردے گا
for it
لَهُۥ
اس کے لیے
my Lord
رَبِّىٓ
میرا رب،
a (distant) term
أَمَدًا
کوئی مدت

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

کہو، "میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لیے کوئی لمبی مدت مقرر فرماتا ہے

English Sahih:

Say, "I do not know if what you are promised is near or if my Lord will grant for it a [long] period."

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

کہو، "میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لیے کوئی لمبی مدت مقرر فرماتا ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

تم فرماؤ میں نہیں جانتا آیا نزدیک ہے وہ جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے یا میرا رب اسے کچھ وقفہ دے گا

احمد علی Ahmed Ali

کہہ دو مجھے خبر نہیں جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا اس کے لیے میرا رب کوئی مدت ٹھیراتا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

کہہ دیجئے مجھے معلوم نہیں کہ جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لئے دوری کی مدت مقرر کرے گا (١)۔

٢٥۔١ مطلب یہ ہے کہ عذاب یا قیامت کا علم، یہ غیب سے تعلق رکھتا ہے جس کو صرف اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے کہ وہ قریب ہے یا دور۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

کہہ دو کہ جس (دن) کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے میں نہیں جانتا کہ وہ (عن) قریب (آنے والا ہے) یا میرے پروردگار نے اس کی مدت دراز کر دی ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

کہہ دیجئے کہ مجھے معلوم نہیں کہ جس کا وعده تم سے کیا جاتا ہے وه قریب ہے یا میرا رب اس کے لیے دور کی مدت مقرر کرے گا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

آپ(ص) کہہ دیجیے! کہ میں نہیں جانتا کہ جس چیز (عذاب) کا تم لوگوں سے وعدہ وعید کیا جارہا ہے کہ آیا وہ قریب ہے یا میرا پروردگار اس کیلئے کوئی طویل مدت مقرر کرتا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

کہہ دیجئے کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ وعدہ قریب ہی ہے یا ابھی خدا کوئی اور مدّت بھی قرار دے گا

طاہر القادری Tahir ul Qadri

آپ فرما دیں: میں نہیں جانتا کہ جس (روزِ قیامت) کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا اس کے لئے میرے رب نے طویل مدت مقرر فرما دی ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

اللہ کے سوا قیامت کب ہوگی کسی کو نہیں معلوم
اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں سے کہہ دیں کہ قیامت کب ہوگی، اس کا علم مجھے نہیں، بلکہ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کا وقت قریب ہے یا دور ہے اور لمبی مدت کے بعد آنے والی ہے، اس آیت کریمہ میں دلیل ہے اس امر کی کہ اکثر جاہلوں میں جو مشہور ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زمین کی اندر کی چیزوں کا بھی علم رکھتے ہیں وہ بالکل غلط ہے اس روایت کی کوئی اصل نہیں محض جھوٹ ہے اور بالکل بےاصل روایت ہے ہم نے تو اسے کسی کتاب میں نہیں پایا، ہاں اس کے خلاف صاف ثابت ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کے قائم ہونے کا وقت پوچھا جاتا تھا اور آپ اس کی معین وقت سے اپنی لاعلمی ظاہر کرتے تھے، اعرابی کی صورت میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بھی آ کر جب قیامت کے بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے صاف فرمایا تھا کہ اس کا علم نہ پوچھنے والے کو ہے نہ اسے جس سے پوچھا جا رہا ہے، ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک دیہات کے رہنے والے نے با آواز بلند آپ سے دریافت کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کب آئے گی ؟ آپ نے فرمایا وہ آئے گی ضرور مگر یہ بتا کہ تو نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے ؟ اس نے کہا میرے پاس روزے نماز کی اکثرت تو نہیں البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت ہے آپ نے فرمایا پھر تو اس کے ساتھ ہوگا جس کی تجھے محبت ہے، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں مسلمان کسی حدیث سے اس قدر خوش نہیں ہوئے جتنے اس حدیث سے، اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ قیامت کا ٹھیک وقت آپ کو معلوم نہ تھا، ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ نے فرمایا اے لوگو اگر تم میں علم ہے تو اپنے تئیں مردوں میں شمار کیا کرو اللہ کی قسم جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ یقیناً ایک وقت آنے والی ہے، یہاں بھی آپ کوئی مقررہ وقت نہیں بتاتے، ابو داؤد میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو کیا عجب کہ آدھے دن تک کی مہلت دے دے اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ حضرت سعد سے پوچھا گیا کہ آدھے دن سے کیا مراد ہے فرمایا پانچ سو سال۔ پھر فرماتا ہے اللہ عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا مگر مرسلین میں سے جسے چن لے جیسے اور جگہ ہے آیت (وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ\025\05 ) 2 ۔ البقرة ;255) یعنی اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جو اللہ چاہے۔ یعنی رسول خواہ انسانوں میں سے ہوں خواہ فرشتوں میں سے ہوں جسے اللہ جتنا چاہتا ہے بتادیتا ہے بس وہ اتنا ہی جانتے ہیں۔ پھر اس کی مزید تخصیص یہ ہوتی ہے کہ اس کی حفاظت اور ساتھ ہی اس علم کی اشاعت کے لئے جو اللہ نے اسے دیا ہے اس کے آس پاس ہر وقت نگہبان فرشتے مقرر رہتے ہیں۔ لیعلم کی ضمیر بعض نے تو کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے یعنی حضرت جبرائیل کے آگے پیچھے چار چار فرشتے ہوتے تھے تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین آجائے کہ انہوں نے اپنے رب کا پیغام صحیح طور پر مجھے پہنچایا ہے اور بعض کہتے ہیں مرجع ضمیر کا اہل شرک ہے یعنی باری باری آنے والے فرشتے نبی اللہ کی حفاظت کرتے ہیں شیطان سے اور اس کی ذریات سے تاکہ اہل شرک جان لیں کہ رسولوں نے رسالت اللہ ادا کردی، یعنی رسولوں کو جھٹلانے والے بھی رسولوں کی رسالت کو جان لیں مگر اس میں کچھ اختلاف ہے۔ یعقوب کی قرأت پیش کے ساتھ ہے یعنی لوگ جان لیں کہ رسولوں نے تبلیغ کردی اور ممکن ہے کہ یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالیٰ جان لے یعنی وہ اپنے رسولوں کی اپنے فرشتے بھیج کر حفاظت کرتا ہے تاکہ وہ رسالت ادا کرسکیں اور وحی الٰہی محفوظ رکھ سکیں اور اللہ جان لے کہ انہوں نے رسالت ادا کردی جیسے فرمایا آیت (وما جعلنا القبلتہ التی کنت علیھا) یعنی جس قبیلے پر تو تھا اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچے تابعداروں اور مرتدوں کو جان لیں اور جگہ ہے آیت ( وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ 11۝) 29 ۔ العنکبوت ;11) یعنی اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اور منافقوں کو برابر جان لے گا اور بھی اس قسم کی آیتیں ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ پہلے ہی سے جانتا ہے لیکن اسے ظاہر کر کے بھی جان لیتا ہے، اسی لئے یہاں اس کے بعد ہی فرمایا کہ ہر چیز اور سب کی گنتی اللہ کے علم کے احاطہ میں ہے۔ الحمد اللہ سورة جن کی تفسیر ختم ہوئی۔